999

سوال_نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے فرمایا “من کنت مولاہ فعلی مولاہ” کیا یہ روائیت صحیح سند سے ثابت ہے؟ اور اسکا صحیح معنی و مفہوم کیا ہے؟ نیز عید غدیر سے کیا مراد ہے؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-278”
سوال_نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے فرمایا “من کنت مولاہ فعلی مولاہ” کیا یہ روائیت صحیح سند سے ثابت ہے؟ اور اسکا صحیح معنی و مفہوم کیا ہے؟ نیز عید غدیر سے کیا مراد ہے؟

Published Date: 8-9-2019

جواب:
الحمدللہ:

*اس معنی و مفہوم کی بہت سی روایات ذخیرہ احادیث میں موجود ہیں،جن میں سے کچھ ضعیف اور کچھ صحیح سند سے ثابت ہیں،ذیل میں ہم کچھ صحیح روایات انکے صحیح معنی و مفہوم کے ساتھ پیش کریں گے ان شاءاللہ*

سوال میں ذکر گئی مطلوبہ مکمل روائیت یہ ہے،

📚حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَاحَنَشُ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ لَقِيطٍ النَّخَعِيُّ الْأَشْجَعِيُّ ، عَنْ رِيَاحِ بْنِ الْحَارِثِ ، قَالَ : جَاءَ رَهْطٌ إِلَى عَلِيٍّ بِالرَّحْبَةِ، فَقَالُوا : السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا مَوْلَانَا. قَالَ : كَيْفَ أَكُونُ مَوْلَاكُمْ وَأَنْتُمْ قَوْمٌ عَرَبٌ ؟ قَالُوا : سَمِعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ يَقُولُ : ” مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَإِنَّ هَذَا مَوْلَاهُ “. قَالَ رِيَاحٌ : فَلَمَّا مَضَوْا تَبِعْتُهُمْ فَسَأَلْتُ : مَنْ هَؤُلَاءِ ؟ قَالُوا : نَفَرٌ مِنَ الْأَنْصَارِ فِيهِمْ أَبُو أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيُّ
ترجمہ:
ریاح بن حارث سے مروی ہے کہ لوگوں کی ایک جماعت رحبہ کے مقام پر سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس آئی اور انھوں نے کہا: اے ہمارے مولی ! تم پر سلامتی ہو، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا:
میں تمہارا مولیٰ کیسے ہوسکتا ہوں، تم تو عرب قوم ہو؟ ان لوگوں نے کہا: ہم نے غدیر خم کے موقع پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یوں فرماتے سنا تھا کہ میں جس کا مولیٰ ہوں، یہ علی بھی اس کا مولیٰ ہے۔
ریاح کہتے ہیں:
جب وہ لوگ چلے گئے تو میں ان کے پیچھے ہولیا اور میں نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ لوگوں نے بتلایا کہ یہ انصاری لوگ ہیں، ان میں سیدنا ابو ایوب انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی تھے۔ ۔
(مسند أحمد | مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ | حَدِيثُ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ. ،حدیث نمبر-23563)
حکم الحدیث: أسنادہ صحیح

یہاں لفظ “مولا” سے مراد دوست ہے،جس پر علی رضی اللہ عنہ نے حیرانی کا اظہار بھی فرمایا کہ تم تو عرب ہو میرے دوست کیسے ہو سکتے؟
جسکی مزید وضاحت اس سے آگے والی اس روایت سے بھی ہوتی ہے

📚:حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ ، حَدَّثَنَا حَنَشٌ،
عَنْ رِيَاحِ بْنِ الْحَارِثِ ،
قَالَ : رَأَيْتُ قَوْمًا مِنَ الْأَنْصَارِ قَدِمُوا عَلَى عَلِيٍّ فِي الرَّحْبَةِ، فَقَالَ : مَنِ الْقَوْمُ ؟ قَالُوا : مَوَالِيكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ. فَذَكَرَ مَعْنَاهُ.
ریاح کہتے ہیں:
میں نے انصاریوں کی ایک جماعت دیکھی، وہ رحبہ میں سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس آئے، سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے پوچھا: تم کون لوگ ہو؟
انہوں نے کہا، اے امیر المومنین!
ہم آپ کے دوست ہیں، پھر مذکورہ حدیث کے ہم معنی حدیث ذکر کی۔۔۔۔۔!
(مسند أحمد | مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ | حَدِيثُ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ. حدیث نمبر_23564)
حكم الحديث: إسناده صحيح

اوپر والی پہلی حدیث میں انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے “مولا” کا لفظ استعمال کیا کہ آپ ہمارے مولی ہیں،
اور یہاں ان لوگوں نے اپنے لیے مولی لفظ کی جمع “موالیک” کا لفظ استعمال کیا کہ ہم آپکے موالیک ہیں،

اگر اوپر والی روایت میں لفظ مولا کا معنی سردار لیا جائے تو دوسری روایت میں لفظ “موالیک” کہہ کر کیا ان لوگوں نے یہ کہا تھا کہ ہم آپکے سردار ہیں؟
یقیناً نہیں۔۔۔۔!
بلکہ اوپر والی روایت میں انہوں نے حضرت علی (رض) کو مخاطب کر کے اپنا دوست کہا کہ آپ ہمارے مولی یعنی دوست ہیں اور نیچے والی روایت میں انہوں نے خود کے بارے کہا کہ ہم آپکے “موالیک” یعنی دوست ہیں،

اسی طرح ایک اور حدیث میں آتا ہے،

📚 حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ وَأَبُو نُعَيْمٍ ، الْمَعْنَى قَالَا : حَدَّثَنَا فِطْرٌ ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ ، قَالَ : جَمَعَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ النَّاسَ فِي الرَّحْبَةِ، ثُمَّ قَالَ لَهُمْ : أَنْشُدُ اللَّهَ كُلَّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ يَوْمَ غَدِيرِ خُمٍّ مَا سَمِعَ، لَمَّا قَامَ. فَقَامَ ثَلَاثُونَ مِنَ النَّاسِ – وَقَالَ أَبُو نُعَيْمٍ : فَقَامَ نَاسٌ كَثِيرٌ – فَشَهِدُوا حِينَ أَخَذَهُ بِيَدِهِ،
فَقَالَ لِلنَّاسِ : ” أَتَعْلَمُونَ أَنِّي أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ ؟ “. قَالُوا : نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ : ” مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَهَذَا مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ “.
قَالَ : فَخَرَجْتُ وَكَأَنَّ فِي نَفْسِي شَيْئًا، فَلَقِيتُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ ، فَقُلْتُ لَهُ : إِنِّي سَمِعْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ كَذَا وَكَذَا. قَالَ : فَمَا تُنْكِرُ ؟ قَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ ذَلِكَ لَهُ.
ترجمہ:
ابو طفیل کہتے ہیں کہ رحبہ کے دن سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے لوگوں کو جمع کیا اور ان سے کہنے لگے:
میں ہر اس آدمی کو اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں، جس نے غدیر خم والے دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: (میں جس کا دوست ہوں، علی بھی اس کا دوست ہے)۔ وہ اٹھ کر گواہی دے، پھر جب وہ کھڑے ہوئے تو تیس لوگ ان کے ساتھ کھڑے ہو گئے اور ابو نعیم کہتے ہیں زیادہ لوگ کھڑے ہوئے،
پس انہوں نے گواہی دی کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے آپکا ہاتھ پکڑا اور لوگوں سے فرمایا،
کیا میں مومنین پر ان کی جانوں سے زیادہ حق نہیں رکھتا؟
لوگوں نے کہا ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،
آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں جس کا دوست ہوں، علی بھی اس کا دوست ہے، اے اللہ! تو اس آدمی کو دوست رکھ، جو علی کو دوست رکھتا ہے اور جو اس سے عداوت رکھے، تو بھی اس سے عداوت رکھ۔
روای حدیث ابوطفیل کہتے ہیں کہ میں وہاں سے نکلا اور میرے دل میں کچھ کھٹکا تھا، میں زید بن ارقم سے ملا اور اسے کہا میں نے علی رضی اللہ عنہ کو اس اس طرح کہتے ہوئے سنا ہے،
تو وہ کہنے لگے تجھے انکی کس بات پر اعتراض ہے؟
بے شک میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو انکے بارے یہ کہتے ہوئے سنا ہے،
(مسند احمد، أَوَّلُ مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ. | حَدِيثُ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ. حدیث نمبر-19302)
حکم الحدیث: اسنادہ صحیح

اسی طرح ایک روایت میں آتا ہے

📚عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سریہ (لشکر) روانہ کیا اور اس لشکر کا امیر علی رضی الله عنہ کو مقرر کیا، چنانچہ وہ اس سریہ (لشکر) میں گئے، پھر ایک لونڈی سے انہوں نے جماع کر لیا،
لوگوں نے ان پر نکیر کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے چار آدمیوں نے طے کیا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب ہم ملیں گے تو علی نے جو کچھ کیا ہے اسے ہم آپ کو بتائیں گے، اور مسلمان جب سفر سے لوٹتے تو پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے اور آپ کو سلام کرتے تھے، پھر اپنے گھروں کو جاتے، چنانچہ جب یہ سریہ واپس لوٹ کر آیا اور لوگوں نے آپ کو سلام کیا تو ان چاروں میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا آپ کو معلوم نہیں کہ علی نے ایسا ایسا کیا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منہ پھیر لیا، پھر دوسرا کھڑا ہوا تو دوسرے نے بھی وہی بات کہی جو پہلے نے کہی تھی تو آپ نے اس سے بھی منہ پھیر لیا، پھر تیسرا شخص کھڑا ہوا اس نے بھی وہی بات کہی، تو اس سے بھی آپ نے منہ پھیر لیا، پھر چوتھا شخص کھڑا ہوا تو اس نے بھی وہی بات کہی جو ان لوگوں نے کہی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف متوجہ ہوئے اور آپ کے چہرے سے ناراضگی ظاہر تھی۔ آپ نے فرمایا: ”تم لوگ علی کے سلسلہ میں کیا چاہتے ہو؟ تم لوگ علی کے سلسلہ میں کیا چاہتے ہو؟ علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں، اور وہ دوست ہیں ہر اس مومن کا جو میرے بعد آئے گا“۔
(سنن ترمذی حدیث نمبر-3712)
حدیث صحیح

*یہ اور اس طرح کی دیگر روایات اور بھی کئی جگہ مخلتف الفاظ اور مخلتف طرق سے ذکر ہوئی ہیں ،کسی جگہ ضعیف سند کے ساتھ اور کسی جگہ صحیح سند کے ساتھ، لہذا ہمارے علم کے مطابق یہ روایت اوپر ذکر کردہ الفاظ اور سند کےساتھ صحیح ثابت ہے اور انکا صحیح معنی مفہوم یہ یے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مولا سے مراد یہاں دوست لیا ہے جیسا کہ اوپر والی تمام روایات سے یہ بات واضح ہوتی ہے*
_________&___________

*بہرحال یہ بات بھی بجا ہے کہ اس روایت کے صحیح ہونے میں علماء کا اختلاف ہے ، کئی علماء نے اسکو صحیح کہا ہے اور کئی نے ضعیف کہا ہے،*

جیسا کہ

📚زیلعی رحمہ اللہ تعالی نے ھدایہ کی تخریج ( 1 / 189 ) میں کہا ہے کہ :
کتنی ہی ایسی روایات ہیں جن کے راویوں کی کثرت اورمتعدد طرق سے بیان کی جاتیں ہیں ، حالانکہ وہ حدیث ضعیف ہوتی ہے ۔ جیسا کہ حدیث ( جس کا میں ولی ہوں علی ( رضی اللہ تعالی عنہ ) بھی اس کے ولی ہیں ) بھی ہے،

📚شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :
یہ قول ( جس کا میں ولی ہوں علی ( رضي اللہ تعالی عنہ ) بھی اس کے ولی ہیں ) یہ صحیح کتابوں میں تونہیں لیکن علماء نے اسے بیان کیا اوراس کی تصحیح میں اختلاف کیا ہے ۔
امام بخاری اور ابراھیم حربی محدثین کے ایک گروہ سے یہ منقول ہے کہ انہوں نے اس قول میں طعن کیا ہے ۔۔۔ لیکن اس کے بعد والا قول ( اللھم وال من والاہ وعاد من عاداہ ) آخرتک ، تویہ بلاشبہ کذب افتراء ہے ۔
(دیکھیں منھاج السنۃ ( 7 / 319 )

📚امام ذھبی رحمہ اللہ تعالی اس حدیث کے بارہ میں کہتے ہیں :
حديث ( من کنت مولاہ ) کے کئ طریق جید ہیں ، اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے السلسلۃ الصحیحۃ حدیث نمبر ( 1750 ) میں اس کی تصحیح کرنے کے بعد اس حدیث کو ضعیف کہنے والوں کا مناقشہ کیا ہے ۔
اوراگر یہ جملہ ( من کنت مولاہ فعلی مولاہ ) صحیح بھی مان لیا جاۓ اور اس کے صحیح ہونے سے کسی بھی حال میں یہ حدیث میں ان کلمات کی زیادتی کی دلیل نہیں بن سکتی جس کا غالیوں نے حدیث میں اضافہ کیا ہے تاکہ وہ علی رضی اللہ تعالی عنہ کوباقی سب صحابہ سے افضل قرار دے سکیں ، یاپھرباقی صحابہ پرطعن کرسکیں کہ انہوں نے ان کا حق سلب کیا تھا ۔

شیخ الاسلام نے ان زيادات اوران کے ضعیف ہونےکا ذکر منھاج السنۃ میں دس مقامات پر کیا ہے ۔
اس حديث کے معنی میں بھی اختلاف کیا گیا ہے ، توجوبھی معنی ہو وہ احاديث صحیحہ میں جویہ ثابت اورمعروف ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت میں افضل ترین شخصیت ابوبکررضي اللہ تعالی عنہ ہیں اور خلافت کے بھی وہی زيادہ حق دارتھے ان کے بعد عمربن الخطاب اورپھرعثمان بن عفان اوران کےبعد علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنھم سے تعارض نہیں رکھتا ، اس لیے کہ کسی ایک صحابی کی کسی چیزمیں معین فضیلت اس پردلالت نہی کرتی کہ وہ سب صحابہ سے افضل ہیں ، اورنہ ہی ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کا صحابہ کرام میں سب سے افضل ہونا اس کے منافی ہے جیسا کہ عقائد کے باب میں یہ مقرر شدہ بات ہے ۔
اس حدیث کے جومعانی ذکرکیے گۓ ہیں ان میں کچھ کا ذکر کیا جاتا ہے :
ان کے معنی میں یہ کہا گيا ہے کہ :
یہاں پر مولا ولی جو کہ عدو کی ضدہے کے معنی میں ہے تومعنی یہ ہوگا ، جس سے میں محبت کرتا ہوں علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی اس سے محبت کرتے ہیں ، اور یہ بھی معنی کیا گيا ہے کہ : جومجھ سے محبت کرتا ہے علی رضی اللہ تعالی عنہ اس سے محبت کرتے ہيں ،یہ معنی قاری نے بعض علماء سےذکرکیا ہے ۔
اورامام جزری رحمہ اللہ تعالی نے نھایہ میں کہا ہے کہ :
حدیث میں مولی کا ذکر کئ ایک بار ہوا ہے ، یہ ایک ایسا اسم ہے جو بہت سے معانی پرواقع ہوتا ہے ، اس کے معانی میں : الرب ، المالک ، السید ، المنعم ( نتمتیں کرنے والا ) ، المعتق آزاد کرنےوالا ) ، الناصر ( مددکرنے والا) ، المحب ( محبت کرنےوالا ) ، التابع ( پیروی کرنے والا) ، الجار( پڑوسی ) ، ابن العم ( چچا کا بیٹا ) ، حلیف ، العقید( فوجی افسر ) ، الصھر ( داماد) العبد ( غلام ) ، العتق ( آزاد کیا گیا ) ، المنعم علیہ ( جس پرنعمتیں کی جائيں ) ۔
ان معانی میں سے اکثر تو حدیث میں وارد ہیں جن کا اضافت کے اعتبارسے معنی کیا جاتا ہے ، توجس نے بھی کوئ کام کیا یا وہ کام اس کے سپرد ہوا تو اس کا مولا اور ولی ہے ، اورحدیث مذکورہ کوان مذکورہ اسماء میں سے اکثر پر محمول کیا جا سکتا ہے ۔

📚امام شافی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ اس سے اسلام کی ولاء مراد ہے جیسا کہ اللہ تعالی کے اس فرمان میں ہے :
یہ اس لیے کہ اللہ تعالی مومنوں کا مولی ومددگار ہے اور کافروں کا کوئ بھی مولی ومددگارنہیں ۔

📚اورطیبی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
حدیث میں مذکور ولایہ کواس امامت پرمحمول کرنا صحیح نہیں جو مسلمانوں کے امورمیں تصرف ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں مستقل طورپرتصرف کرنے والے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں ان کے علاوہ کوئ اورنہیں تواس لیے اسے محبت اورولاء اسلام اوراس جیے معانی پرمحمول کرنا ضروری ہے ۔
(دیکھیں تحفۃ الاحوذی لشرح الترمذي حديث نمبر ( 3713 ) اس کی عبارت میں کچھ تصرف کر کے پیش کیا گیا ہے ۔
واللہ تعالی اعلم،)

______&_________

*ان احادیث سے شیعہ حضرات کا عید غدیر ثابت کرنا جھوٹ کا پلندہ ہے*

اس میں شک نہیں کہ من کنت مولاہ فعلی مولاہ والی روایت کی تصحیح میں علمائے کرام کا اختلاف ہے۔ اور یہ اختلاف دلائل کی بنیاد پر ہے،بہرحال اصل اختلاف اس مفہوم میں ہے جو اہل تشیع اس سے لیتے ہیں۔

اہل تشیع اس حدیث کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کا اعلان سمجھتے ہیں اور اس حدیث کی بنا پر وہ عید غدیر کے نام سے ایک تہوار بھی مناتے ہیں،
کچھ روایات میں واقعہ کچھ اس طرح ملتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری سفرحج سے مدینہ منورہ واپسی کے موقعہ پر غدیرخُم (جومکہ اورمدینہ کے درمیان ایک مقام ہے) پر خطبہ ارشاد فرمایا تھا، اوراس خطبہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت ارشاد فرمایا تھا:
”من کنت مولاہ فعلی مولاہ”
جس کا میں دوست ہوں علی بھی اس کا دوست ہے، اس خطبہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود یہ بتلانا تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہ کے محبوب اورمقرب بندے ہیں، ان سے اورمیرے اہل بیت سے تعلق رکھنا مقتضائے ایمان ہے، اور ان سے بغض و عداوت یا نفرت وکدورت ایمان کے منافی ہے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا غدیرخُم میں ”من کنت مولاہ فعلی مولاہ” ارشاد فرمانا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے اعلان کے لئے نہیں بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی قدر و منزلت بیان کرنے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت کو ایک فریضہ لازمہ کے طورپر امت کی ذمہ داری قراردینے کے لئے تھا، اور الحمدللہ! اہل سنت و الجماعت اتباع سنت میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی محبت کو اپنے ایمان کا جزء سمجھتے ہیں۔
چونکہ یہ خطبہ ماہ ذوالحجہ میں ہی ارشاد فرمایا تھا، اس لیے ایک فرقہ اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لئے خلافت بلافصل ثابت کرتا ہے، اورماہ ذوالحجہ کی اٹھارہ تاریخ کو اسی خطبہ کی مناسبت سے عید مناتا ہے، اور اسے عید غدیر کا نام دیا جاتا ہے۔ اس دن عید کی ابتداء کرنے والا ایک حاکم معزالدولۃ گزرا ہے، اس شخص نے 18 ذوالحجہ 351 ہجری کو بغداد میں عید منانے کا حکم دیا تھا اوراس کانام ”عید خُم غدیر” رکھا۔
جب کہ دوسری طرف ماہ ذوالحجہ کی اٹھارہ تاریخ کوخلیفہ سوم امیرالمومنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی شہادت بھی ہے۔ جس کا تقاضہ یہ ہے کہ اس دن اس طرح کی خرافات سے مسلمان دور رہیں، دین اسلام میں صرف دوعیدیں اور دو ہی تہوارہیں، ایک عیدالفطر اور دوسری عیدالاضحیٰ، ان دو کے علاوہ دیگر تہواروں اورعیدوں کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں، اس لئے نہ منانا جائزہے اور نہ ان میں شرکت درست ہے،
اہل تشیع سے کوئی پوچھے کہ بالفرض!
اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت کا اعلان کرنا ہی تھا تو یہ کوئی چھپانے کی چیز تو نہیں تھی …اور نہ ہی یہ چھپانے سے چھپنے والی تھی، بلکہ یہ تو عوام کے فائدہ کی چیز اور امت مسلمہ کو وحدت کی ایک لڑی میں پرونے کا سبب تھی، تو سوال یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع، عرفات، مزدلفہ، منیٰ یا بیت اللہ میں اس کا اعلان کیوں نہ کیا؟ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان جگہوں اور مجمع عام میں اعلان کرنے سے کون سا امر مانع تھا؟

سوال یہ ہے کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سے دور،جحفہ کی ایک وادی میں،اور عین حالت سفر میں اس اعلان کرنے کا کیا مقصد تھا؟ کہیں اس کا یہ معنی تو نہیں؟ بلکہ یقینا ایسا ہی ہے کہ یہ سب کچھ اہل تشیع کا خانہ زاد ہے، ورنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنے بھی اعلانات کئے، مجمع عام میں کئے ہیں۔
رہا یہ امکان یا الزام کہ عین ممکن ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نعوذباللہ! اخفا اور تکیہ سے کام لیا ہو، مگر سوال یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو واضح طور پر فرمایا دیا گیا تھا کہ:
📚” یایہا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک، وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ“
(مائدہ : ۶۷)…
اے رسول! پہنچا دے جو تجھ پر اُترا تیرے رب کی طرف سے اور اگر ایسا نہ کیا تو تونے کچھ نہ پہنچایا اس کا پیغام…

کیا کہا جائے کہ اس ارشاد الٰہی کے باوجود بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اخفا اور تکیہ سے کام لیں گے ؟ ناممکن ہے، بلکہ ایسا سوچنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ناصرف بدترین تہمت ہے ،بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بدترین گستاخی ہے ۔

الغرض! کیا اہل تشیع بتلاسکتے ہیں کہ ایسی کون سی مجبوری تھی جس کی بنا پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ اعلان غدیر خم میں کرنے کا فیصلہ کیا؟

اسی طرح یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت کا اعلان کرنا تھا تو صاف الفاظ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اپنا نائب بنانے کی بجائے ”من کنت مولاہ فعلی مولاہ“ میں ”مولیٰ“ جیسا مبہم لفظ جو رب، مالک، سیّد، منعم، معتق، ناصر، محب، تابع، پڑوسی، حلیف، غلام اور آزاد شدہ غلام وغیرہ مختلف معانی کا احتمال رکھتا ہے، (مرقاة، ج:۵، ص:۵۶۸)

یا جو حضرت علی رض سے محبت، الفت، تعلق اور دوستی کی ترغیب پر دلالت کرتا ہو، کیونکر استعمال فرمایا؟

حدیث و تاریخ کے مطالعہ سے شیعہ حضرات کے، حضرت علی رض کی خلافت بلا فصل کے اس استدلال یا دوسرے الفاظ میں گپ کی قلعی کھل جاتی ہے،

📚چنانچہ اس حدیث کی شرح میں شارح مشکوٰة علامہ علی القاری اپنی مشہور کتاب” مرقات“ میں فرماتے ہیں کہ:
”اس فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا یہ تھا کہ حضرت علی کو حضرت اسامہ نے فرمایا تھا کہ: ”آپ میرے مولیٰ نہیں، میرے مولیٰ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں“ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں جس کا مولیٰ، علی بھی اس کا مولیٰ ہے “
اس سے ذرا آگے اسی صفحہ پر علامہ علی قاری علامہ شمس الدین جزری کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ:
”حضرت علی کرم اللہ وجہہ جب یمن میں تھے تو وہاں لوگوں نے حضرت علی کے بارہ میں کچھ باتیں کیں، جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی اطلاع ہوئی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے حجة الوداع کے بعد واپسی پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی قدر و منزلت کو بیان کرتے ہوئے یہ فرمایا: ”جو شخص مجھ سے محبت رکھتا ہے وہ علی سے بھی محبت رکھے۔“
(مرقاة، ص:۵۶۸، ج:۵)

__________&_______

*لہٰذا ان جیسے جملوں سے اہل تشیع کا یہ استدلال کرنا کہ علی رضی الله عنہ باقی سارے صحابہ سے افضل ہیں درست نہیں ہے ، اور پھر یہ بھی یاد رہے کہ اسی قسم کے الفاظ بعض دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائے ہیں*

مثلاً

📚نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبیلہ اشعر کے لوگوں کے بارے فرمایا کہ
فَهُمْ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُمْ
وہ میرے ہیں اور میں ان سے ہوں،
(صحیح بخاری حدیث نمبر-2486)
(صحیح مسلم حدیث نمبر-2500)

📚سیدنا جلیبیب رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا:
ھذا منی و انا منہ
یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں
(صحيح مسلم | كِتَابٌ : فَضَائِلُ الصَّحَابَةِ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمْ | بَابٌ : مِنْ فَضَائِلِ جُلَيْبِيبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حدیث نمبر-2472)

📚اور جب حمزہ رضی اللہ عنہ کی ایک بچی کے بارے علی، زید اور جعفر رضی اللہ عنہم کا جھگڑا ہوا۔ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس کا میں زیادہ مستحق ہوں، یہ میرے چچا کی بچی ہے۔ جعفر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ میرے بھی چچا کی بچی ہے اور اس کی خالہ میرے نکاح میں بھی ہیں۔ زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرے بھائی کی بچی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچی کی خالہ کے حق میں فیصلہ کیا اور فرمایا کہ خالہ ماں کی جگہ ہوتی ہے،
پھر علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا
” أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْكَ ”
کہ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔

جعفر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ
” أَشْبَهْتَ خَلْقِي وَخُلُقِي
” تم صورت اور عادات و اخلاق سب میں مجھ سے مشابہ ہو۔

زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ
” أَنْتَ أَخُونَا وَمَوْلَانَا ”
تم ہمارے بھائی بھی ہو اور ہمارے مولا بھی۔
(صحيح البخاري | كِتَابٌ : الصُّلْحُ | بَابٌ : كَيْفَ يُكْتَبُ : هَذَا مَا صَالَحَ فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ وَفُلَانُ بْنُ فُلَانٍ. حدیث نمبر-2699 )

اہل عقل کو غور کرنا چاہیے کہ ان تمام احادیث میں باقی صحابہ کرام کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یہ الفاظ
(فَهُمْ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُمْ) (هَذَا مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ)
(أَنْتَ أَخُونَا وَمَوْلَانَا) استعمال کرنے سے کیا مراد ہے؟ اور خاص کر حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زید رضی اللہ عنہ کو اپنا مولا فرمایا ہے، تو اس مولا سے کیا مراد لیا جائے؟یقیناً آپکا جواب دوست اور محبت کے معنی میں ہو گا،

*پس ثابت ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق تمام روایات کے مجموعہ کے سیاق و سباق اور پس منظر پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رض کے لیے “مولا” وغیرہ کا لفظ محبت، دوست، محبوب کے معنی میں استعمال فرمایا ہے، اور یہی معنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے سمجھا تھا اور اسی معنی کے کچھ الفاظ دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لیے بھی ثابت ہیں،اور کچھ لوگوں کا اس حدیث سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلافت کا حقدار سمجھنا یا باقی تمام صحابہ سے افضل سمجھنا سوائے کم علمی اور خیانت کے کچھ نہیں*

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

📚میں علم کا شہر ہوں اور علی رضی اللہ عنہ اسکا دروازہ۔۔۔ !
کیا یہ حدیث صحیح سند سے ثابت ہے؟
(((دیکھیں سلسلہ نمبر-135)))

ا📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦ سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 📑
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں