“سلسلہ سوال و جواب نمبر-262″
سوال_حمل كى حالت ميں بيوى سے جماع کرنے کا شرعی حکم کیا ہے؟ کیا یہ مکروہ ہے؟ اور کیا حمل کے دوران یا آخری دنوں میں جماع سے بیوی یا بچے کو کوئی نقصان پہنچے گا۔۔؟
Published Date : 7-7-2019
جواب:
الحمدللہ:
*شوہر کے لیے ہر وقت اور ہر حالت ميں بيوى سے لطف اندوز ہونا جائز ہے، الا يہ كہ جس سے شريعت نے منع كيا ہے جیسے كہ دبر ميں وطئ كرنا حرام ہے، اور اسى طرح حيض يا نفاس كى حالت ميں بھى جماع كرنا حرام كيا گيا ہے*
*رہا مسئلہ حاملہ بيوى كا تو اس سے جماع كرنے كى حرمت كى كوئى دليل نہيں ہے، بلکہ حمل کی صورت میں جماع کرنے سے جنین(بچے)کی افزائش میں بہتری آتی ہے، ليكن اگر ماہر ڈاکڑ کے مطابق خدشہ ہو بچے كو ضرر و نقصان پہنچےگا تو پرہیز کریں ، اور ایسی صورتحال میں ضرر اور پرہیز كا اندازہ بھى تجربہ كار ليڈى ڈاكٹر ہى لگا سكتى ہے*
اللہ تعالیٰ نے بیوی کو شوہر کی کھیتی قرار دیا ہے،
📚القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة
آیت نمبر 223
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
نِسَآؤُكُمۡ حَرۡثٌ لَّـكُمۡ ۖ فَاۡتُوۡا حَرۡثَكُمۡ اَنّٰى شِئۡتُمۡ وَقَدِّمُوۡا لِاَنۡفُسِكُمۡؕ وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاعۡلَمُوۡٓا اَنَّکُمۡ مُّلٰقُوۡهُ ؕ وَ بَشِّرِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ ۞
ترجمہ:
تمہاری عورتیں تمہارے لیے کھیتی ہیں، سو اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو آؤ اور اپنے لیے آگے (سامان) بھیجو اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ یقینا تم اس سے ملنے والے ہو اور ایمان والوں کو خوشخبری دے دے
📚حافظ ابن كثير رحمہ اللہ كہتے ہيں:
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كا كہنا ہے:
الحرث: يہ بچہ پيدا ہونے كى جگہ ہے.
تو تم اپنى كھيتى ميں آؤ
يعنى جيسے چاہو آگے سے يا پھچلى جانب سے ايك ہى جگہ يعنى بچہ پيدا ہونے والى جگہ ميں جيسا كہ احاديث سے ثابت ہے.
(ديكھيں: تفسير ابن كثير ( 1 / 588 )
📚 سعودی مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:
حمل كے عرصہ ميں خاوند كے ليے بيوى سے كب جماع سے اجتناب كرنا واجب ہوتا ہے ؟
اور كيا ـ خاص كر حمل كے پہلے تين ماہ كے دوران ـ بيوى سے جماع كرنے سے بچے كے ليے نقصاندہ ہيں ؟
كميٹى كے علماء كا جواب تھا:
” جب حمل كو ضرر اور نقصان نہ ہو تو حاملہ عورت سے جماع كرنے ميں كوئى حرج نہيں، بلكہ حائضہ عورت سے جماع كرنا ممنوع ہے.
📚كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور آپ سے حيض كے بارہ ميں دريافت كرتے ہيں، آپ انہيں كہہ ديجئے كہ حيض كى حالت ميں عورتوں سے عليحدہ رہو، اور ان كے پاك ہونے تك ان كے قريب مت جاؤ، جب وہ پاك صاف ہو جائيں تو پھر جہاں سے اللہ نے حكم ديا ہے وہيں سے ان كے پاس آؤ، يقينا اللہ سبحانہ و تعالى توبہ كرنے والوں اور پاك صاف رہنے والوں سے محبت كرتا ہے
(سورہ البقرۃ _ 222 )
اور نفاس والى عورت بھى اس طرح ہے كہ اس سے پاك ہونے تك جماع نہيں كيا جائيگا، اور اسى طرح حج اور عمرہ كا احرام باندھنے والى عورت سے بھى ” انتہى
الشيخ عبد العزيز بن باز.
الشيخ عبد العزيز آل شيخ.
الشيخ عبد اللہ بن غديان.
الشيخ صالح الفوزان.
الشيخ بكر ابو زيد.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 19 / 353 )
📚اور شيخ عبد اللہ بن منيع حفظہ اللہ سے حاملہ عورت سے جماع كے بارہ ميں دريافت كيا گيا.
ان كا جواب تھا:
” شريعت اسلاميہ ميں حاملہ عورت سے خاوند كا جماع كرنا ممنوع نہيں ہے، بلكہ يہ نہى تو حيض اور نفاس والى عورت كے ساتھ خاص ہے، ليكن اگر تجربہ كار ڈاكٹر كسى خاص حالت كى بنا پر يہ فيصلہ كريں كہ اس سے جماع كرنا اس كى صحت كے ليے نقصاندہ ہے تو يہ حالت خاص ہے، اس پر قياس نہيں كيا جائيگا ” انتہى
ديكھيں: فتاوى و بحوث الشيخ عبد اللہ بن منيع ( 4 / 228 )
*رہا مسئلہ حمل كے آخرى مہينہ ميں جماع كرنا بيوى كے ليے نقصان دہ ہے يا نہيں؟*
اس كے بارہ ميں تجربہ كار ليڈى ڈاكٹر سے رابطہ كيا جائے كيونكہ يہ عورت كى طبيعت اور حمل كے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے، اور حمل كے نتيجہ ميں پيدا ہونے والے اثرات كے اعتبار سے ہوگا، جو مختلف ہوتے ہيں، اور اسے ماہر ليڈى ڈاكٹر ہى بتائےگى.
ليكن اصل كے اعتبار سے يہى ہے كہ حمل كى حالت ميں جماع كرنے سے نہ تو عورت كو كوئى نقصان ہے، اور نہ ہى بچہ كوكوئى ضرر ہوتا ہے،
بلكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو پيٹ ميں پائے جانے والے بچے كو كھيتى سے مشابہت دى ہے، اور آدمى كى منى كو اس پانى سے جو اس كھيتى كو لگايا جاتا ہے.
جیسا کہ مندرجہ ذیل احادیث میں ذکر ملتا ہے،
📚 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يَسْقِ مَاءَهُ وَلَدَ غَيْرِهِ
”جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنی ( منی ) کسی غیر کے بچے کو نہ پلائے
(سنن ترمذی حدیث نمبر_1131)
حدیث حسن
📚رویفع بن ثابت انصاری ہم میں بحیثیت خطیب کھڑے ہوئے اور کہا: سنو! میں تم سے وہی کہوں گا جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ جنگ حنین کے دن فرما رہے تھے: ”اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لانے والے کسی بھی شخص کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے سوا کسی اور کی کھیتی کو سیراب کرے“، (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب حاملہ لونڈی سے جماع کرنا تھا)۔۔۔۔۔۔۔انتہی
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر_2158)
*يہ احادیث اس بات كى دليل ہے كہ آدمى كے پانى سے ماں كے پيٹ ميں بچے كو فائدہ ہوتا ہے، جس كا معنى يہ ہوا كہ حالت حمل ميں بيوى كے ساتھ جماع كرنا اور رحم ميں انزال كرنے سے فائدہ ہوتا ہے نقصان نہيں*
📚ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” امام احمد رحمہ اللہ كہتے ہيں:
وطی بچے كى سماعت اور بصارت ميں اضافہ كا باعث بنتى ہے ”
ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 140 )
*اسی لیے شریعت نے قید ہو کر آنے والی حاملہ لونڈیوں سے مباشرت کرنے سے منع فرمایا ہے*
کیونکہ۔ حالت حمل میں کیا جانے والا جماع جنین(پیٹ میں موجود بچہ) کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے،
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ان حاملہ عورتوں کے بارہ میں جو لونڈیاں بن کر آتی تھیں اہل اسلام کو حکم دیا کہ ان سے جماع نہ کیا جائے جب تک وہ بچہ کو جنم نہ دے لیں،
کیونکہ جماع کرنے سے اس جنین کی نشوونما میں دوران حمل جماع کرنے والے کا بھی حصہ شامل ہوجاتا ہے ۔ پھر وہ بچہ نہ تو اس مسلمان کا وارث بن سکتا ہے کیونکہ اصل نطفہ اس مسلمان کا نہیں بلکہ کسی کافر کا ہے جسکے عقد میں وہ لونڈی پہلے رہی ہے۔ اور نہ ہی وہ بچہ اس غلام بن سکتا ہے کیونکہ اس مسلمان کا نطفہ بھی اسکی نشو ونما میں شامل ہو چکا ہے۔
📚سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسی لونڈی کو دیکھاجسکے بچہ کو جنم دینے کا وقت قریب تھا تو فرمایا :
«لَعَلَّهُ يُرِيدُ أَنْ يُلِمَّ بِهَا»، فَقَالُوا:
نَعَمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ أَلْعَنَهُ لَعْنًا يَدْخُلُ مَعَهُ قَبْرَهُ، كَيْفَ يُوَرِّثُهُ وَهُوَ لَا يَحِلُّ لَهُ؟ كَيْفَ يَسْتَخْدِمُهُ وَهُوَ لَا يَحِلُّ لَهُ؟»
شاید کہ اسکا مالک اس سے جماع کرنا چاہتا ہے؟ تو انہوں نے کہا جی ہاں‘ تو رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں چاہتا ہوں کہ اس پر ایسی لعنت کروں جو اسکے ساتھ اسکی قبر تک پہنچے‘ وہ اسے کیسے وارث بنائے گا جبکہ وہ اسکے لیے حلال نہیں ہے ‘ اور اسے کیسے غلام بنائے گا جبکہ وہ اسکے لیے حلال نہیں ہے ۔
(صحیح مسلم حدیث نمبر- 1441)
📚اسی طرح سیدنا رُوَیْفِع بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے حنین کے دن ارشاد فرمایا:
«لَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْقِيَ مَاءَهُ زَرْعَ غَيْرِهِ» – يَعْنِي: إِتْيَانَ الْحَبَالَى – «وَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَقَعَ عَلَى امْرَأَةٍ مِنَ السَّبْيِ حَتَّى يَسْتَبْرِئَهَا»
جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسکے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ اپنا پانی کسی دوسرے کی کھیتی کو پلائے یعنی دوسرے مرد سے حاملہ عورت کے ساتھ جماع کرے۔ اور جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسکے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ لونڈیوں میں سے کسی کے ساتھ جماع کرے حتى کہ استبراء کر لے (یعنی یا تو اسے حیض آ جائے یا اگر وہ حاملہ ہے تو بچہ کو جنم دے لے)
(سنن أبی داود حدیث نمبر_ 2158 )
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دوران حمل جماع کرنے سے جنین کی جسمانی صحت میں بہتری آتی ہے‘ اور اسکی خلقت کے نقائص ختم ہوتے ہیں ۔ بالکل اسی طرح جس طرح کھیتی کو پانی لگانے فصل سرسبز وشاداب ہوتی ہے۔لہذا دوران حمل اپنی بیوی سے جماع کرنا معیوب نہیں بلکہ مستحسن امر ہے اور یہ جنین کے لیے مفید بھی ہے۔ اسی سے علم طب کا یہ مسئلہ بھی نکھر کر سامنے آتا ہے کہ حمل کی حالت میں رحم کا منہ بند نہیں ہوتا بلکہ کھلا رہتا ہے‘ اور مرد کے پانی کی اس تک رسائی رہتی ہے۔ اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ دوسرے سے حاملہ لونڈیوں سے جماع کرنا حرام ہے جب تک انکا حمل وضع نہ ہو جائے،
*رہا مسئلہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حالت حمل میں جماع کرنے سے بچے كى پيدائش جلد ہو جاتى ہے، يہ قول صحيح نہيں، الا يہ كہ اگر جماع بڑى زبردستى اور شدت سے كيا جائے، اور عورت كا رحم كمزور ہو تو پھر تجربہ كار لوگوں كا قول يہى ہے*
*اس ليے خاوند كو چاہيے كہ وہ اپنى حاملہ بيوى كى نفسيات كا بھى خيال كرے، اور اس كى تكليف كا بھى، اور خاص كر آخرى ايام ميں كيونكہ اس كے ليے تو بيٹھنا بھى دوبھر ہو جاتا ہے، اس ليے خاوند كو جماع كے ليے مناسب حالت اختيار كرنى چاہيے تا كہ بيوى كو ضرر نہ ہو، اور نہ ہى بچے كو نصان پہنچے*
(( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))
📚حیض و نفاس کی حالت میں بیوی سے جماع کا حکم اور اسکا کفارہ کیا ہے؟
((دیکھیں سلسلہ نمبر_174))
📚اورل سیکس( یعنی منہ سے جنسی عمل کرنے ) کا شرعی حکم کیا ہے؟ نیز اسکا کفارہ…؟؟
(( دیکھیں سلسلہ نمبر_140 )))
🌹اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765
آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/
آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/