591

سوال_حجاج کرام کے واپس آنے پر گھر کی زیبائش و آرائش کرنا، خوشی منانا، دعوتیں کرنا، کیا یہ سب جائز ہے یا بدعت میں آئے گا؟ نیز حج و عمرہ کرنے والوں کو مبارک کن الفاظ میں دی جائے ؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-261”
سوال_حجاج کرام کے واپس آنے پر گھر کی زیبائش و آرائش کرنا، خوشی منانا، دعوتیں کرنا، کیا یہ سب جائز ہے یا بدعت میں آئے گا؟ نیز حج و عمرہ کرنے والوں کو مبارک کن الفاظ میں دی جائے ؟

Published Date: 5-7-2019

جواب:
الحمدللہ:

*حجاج کرام کے واپس آنے پر اسراف اور فضول خرچی سے بچتے ہوئے تقریب منعقد کرنا، اور انکے لئے کھانا بنانا، اس بارے میں یہی لگتا ہے کہ یہ جائز ہے، بلکہ اگر حج سے واپس آنیوالا شخص خود ہی لوگوں کیلئے کھانا تیار کروائے، اور لوگوں کی دعوت بھی دے تو یہ جائز ہے، لیکن ان سارے معمالات میں اگر مقصد ریاکاری ، دکھلاوا ہو کہ لوگوں میں مشہور ہو جائے تو پھر بالکل جائز نہیں*

📚جندب رض کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” جو ریاکاری کرے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے لوگوں کے سامنے ظاہر کر دے گا ، اور جو اللہ کی عبادت شہرت کے لیے کرے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے رسوا و ذلیل کرے گا
(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر_4207)
حدیث صحیح

*لیکن ریاکاری کی نیت کے بغیر ایسا کرنا جائز ہے اور سنت نبوی میں صحابہ کرام کا مسافروں کے سفر حج، عمرہ، تجارت، یا کسی اور چیز کے سفر سے واپس آنے کی خوشی میں خوشی منانے کا ثبوت ملتا ہے*

📚چنانچہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے موقع پر مکہ تشریف لائے تو عبد المطلب کے خاندان میں سے کچھ نو عمر لڑکوں نے آپکا استقبال کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کو اپنے آگے اور ایک کو اپنے پیچھے سوار کر لیا،

(اس حدیث کو امام بخاری اپنی صحیح بخاری میں حدیث نمبر 1798 پر کتاب العمرہ میں باب: “آنے والے حجاج کا استقبال کرنا، اور تین افراد کا سواری پر بیٹھنا” کے تحت ذکر کیا ہے)

📚ابن زبیر نے جعفر رضی اللہ عنہم کے بیٹے سے کہا:”کیا تمہیں یاد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں ، تم ، اورابن عباس اکٹھے ملے تھے؟ ابن زبیر نے کہا: ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بٹھا لیا تھا، اور تمہیں چھوڑ دیا تھا”
(صحیح بخاری حدیث نمبر_3082)

📚 عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی سفر سے مدینہ واپس آتے تو پہلے ہم آگے ہوتے، [ایک بار] میں ، حسن، اور حسین رضی اللہ عنہما اکٹھے آپکو ملے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم میں سے ایک کو اپنے آگے بیٹھا لیا، اور دوسرے کو اپنے پیچھے بٹھا لیا، اور پھر ہم مدینہ میں داخل ہوئے،
(صحیح مسلم: حدیث نمبر-2428)

📚حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو اونٹ یا گائے ذبح کی۔۔!
دوسری روایت میں یہ الفاظ زائد ہیں گائے ذبح کی اور لوگوں کو گوشت کھلایا۔۔۔۔۔۔!

(صحيح البخاري | كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ | بَابُ الطَّعَامِ عِنْدَ الْقُدُومِ.
باب: مسافر جب سفر سے لوٹ کر آئے تو لوگوں کو کھانا کھلائے (دعوت کرے)۔

نیچے امام بخاری رحمہ اللہ ابن عمر رض کا عمل نقل کرتے ہیں کہ:

📚وكان ابن عمر يفطر لمن يغشاه.
‏‏‏‏ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما (جب سفر سے واپس آتے تو) ملاقاتیوں کے آنے کی وجہ سے روزہ نہیں رکھتے تھے۔
(صحیح بخاری قبل الحدیث-3089)

📚نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“نقیعہ” بنانا مستحب ہے، [نقیعہ ] اس کھانے کو کہا جاتا ہے جو مسافر کے آنے پر تیار کیا جائے، اور اسکا اطلاق مسافر یا کسی اور کی طرف سے بنائے گئے کھانے کے سبب پر ہوتا ہے، ۔۔۔ اور اسکی دلیل یہ ہے کہ کہ جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : “آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے ، تو اپ نے اونٹ یا گائے ذبح کی تھی” بخاری”
(” المجموع ” ( 4 / 400 )

📚اور شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
سائل: “مکہ سے حجاج کی واپسی کے بارے میں ایک رسم ہے جو کہ دیہاتوں میں بہت زیادہ پھیل چکی ہے”
شیخ: “کیا اس سال پھیلی ہے؟”
سائل: “تقریبا ہر سال ہوتی ہے، اس کیلئے کھانا تیار کیا جاتا ہے، جسے وہ “حجاج کیلئے ذبیحہ” یا “حجاج کی خوشی” یا “حجاج کی سلامی” جیسے مختلف نام دیکر پکارتے ہیں، اور بسا اوقات اس میں استعمال ہونے والا گوشت قربانی کا گوشت بھی ہوتا ہے، اور بسا اوقات خصوصی طور پر جانور ذبح بھی کیا جاتا ہے، اس میں کچھ نہ کچھ فضول خرچی بھی ہوتی ہے، تو اس بارے میں آپکا شرعی نقطہ نظر کیا ہے؟ اور سماجی اعتبار سے آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟”
شیخ: “اس میں کوئی حرج نہیں ہے، حجاج کرام کی آمد پر انکی عزت افزائی میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ یہ انکی خوشی میں شراکت ہے، اور اس سے لوگوں میں حج کرنے کی مزید تڑپ پیدا ہوتی ہے، لیکن فضول خرچی کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے، یہ منع ہے؛ کیونکہ فضول خرچی شریعت میں بالکل منع ہے، چاہے مذکورہ محفل میں ہو یا کسی اور جگہ،

📚فرمان الہی ہے:
( وَلا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ ) اور فضول خرچی مت کرو، بیشک اللہ تعالی فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
[الأنعام:141 ]،

📚ایسے ہی اللہ تعالی کا فرمان ہے:
( إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ) بیشک فضول خرچ لوگ شیاطین کے بھائی ہیں۔
[الإسراء:27 ]

لیکن اگر حاضرین کی تعداد کو مد نظر رکھ کر کھانا مناسب مقدار میں بنایا جائے، یا احتیاطا کچھ زیادہ بنا لیں، تو شرعی اعتبار سے اس میں کچھ نہیں ہوگا ، جبکہ سماجی اعتبار سے یہ رسم صرف دیہاتوں میں ہے، اور شہروں میں نہیں ہے، کیونکہ ہم بہت سے لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ حج سے واپس آتے ہیں ، لیکن اسکے باوجود انکے لئے کھانے تیار نہیں کروائے جاتے، اس لئے ہوسکتا ہے کہ یہ رسم چھوٹے دیہاتوں میں موجود ہو، اور اس میں کوئی حرج والی بات بھی نہیں ہے، دیہات والے عموماً سخی ہوتے ہیں، اور ان میں سے کوئی بھی دوسروں کے حقوق میں کسی قسم کی کمی نہیں کرتا”
(” لقاءات الباب المفتوح ” )
( 154 / سوال نمبر: 12 )

_______&______

دوم:

سعودی فتاویٰ کمیٹی سرکاری ویبسائٹ (الاسلام سؤال وجواب) پر ایک سوال کے جواب میں یہ لکھتے ہیں کہ:

*یہ بات ٹھیک ہے کہ سنت نبوی میں حجاج کی واپسی پر روشنیاں کرنا، اور بیل بوٹوں سے گھر کی آرائش کرنے کے بارے میں کوئی تعلیمات نہیں ہیں، اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل سےایسا کچھ ثابت ہے*

اس لیے کچھ اہل علم نے اس کام کے ناجائز ہونے کا فتوی دیا ہے، اور ممانعت کیلئے کچھ اسباب بھی ذکر کئے ہیں، جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں

1- چونکہ یہ عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپکے صحابہ کرام سے ثابت نہیں ہے، اس لئے یہ بدعت ہے۔

2- اس عمل میں ریا کاری کا شائبہ پایا جاتاہے۔

3- اس سے مال کا ضیاع ہوتا ہے۔

ہمیں غور و فکر کرنے پر جو محسوس ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ: یہ عمل جائز ہے، اور فاضل علمائے کرام نے ممانعت کی وجوہات بیان کی ہیں وہ اس عمل کی تحریم کیلئے ناکافی ہیں، اور انکی ذکر کردہ وجوہات کا جواب درج ذیل سے دیا جاسکتا ہے:

1- یہ عمل عام عادات میں سے ہے، عبادات میں سے نہیں ہے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے غیر ثابت شدہ ہونے کی بنا پر اس کام سے روکنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے،کیونکہ عادات کے بارے میں یہ اصول مشہور ہے کہ : عادات اصل میں جائز ہوتی ہیں، اور دلیل عادات سے منع کرنے والا شخص ہی دیگا۔

2- عام طور پر زیبائش کیلئے کیا جانے والا کام معمولی نوعیت کا ہوتا ہے، جس کیلئے بہت زیادہ پیسہ نہیں لگانا پڑتا، اور جن لوگوں کو ہم نے دیکھا ہے: وہ کچھ بیل بوٹے ، اور لکڑی کی کچھ اشیاء آرائش کیلئے استعمال کرتے ہیں، وہ عام طور پر انکے پاس موجود ہوتی ہیں، اور ہمیں ان چیزوں کو فروخت کرنے کیلئے کوئی ایسی دکان بھی نظر نہیں آئی جہاں [صرف حجاج کی آمد کیلئے تقریبات منانے کیلئے مختص ]سامان موجود ہو، تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی تقریبات کی تیاری کیلئے کوئی زیادہ خرچہ نہیں آتا، کہ لوگوں کو فضول خرچی کی وجہ سے منع کیا جائے، ہاں یہ بات اہل ثروت اور مالدار افراد پر کہی جاسکتی ہے کہ وہ فضول خرچی کرتے ہیں، لیکن اس پر بھی یہی جواب دیا جاسکتا ہے کہ انکے پاس اتنا مال موجود ہے جس کی وجہ سے وہ اسراف میں داخل ہی نہیں ہوتے۔

3- ایسے کام کرنے سے ریا کاری کرنا لازم نہیں آتا، کیونکہ حج مخفی عبادات میں شامل نہیں ہے کہ حج کے اعلان پر ریاکاری کا شائبہ شامل ہو، بلکہ اس کے برعکس پراگندہ اور بے سود حالت سے ریاکاری کا شائبہ قوی ہوجاتا ہے، بالکل ایسے ہی حجاج کی واپسی پر آرائش و زیبائش میں بھی ریاکاری شامل ہوسکتی ہے، چنانچہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ریاکاری کی بنیاد اصل میں کرنے والے کی نیت اور اسکے دلی رویّہ پر ہے۔

اس لئے ظاہر یہی ہے کہ حجاج کے واپس آنے پر کی جانے والی آرائش عادات میں شام ہے، اور عادات کیلئے اصول یہی ہے کہ عادات جائز ہوتی ہیں، اور ان آرائش کو حرام قرار دینے والوں کے پاس کوئی ایسی قوی دلیل نہیں ہے جس سے اس زیبائش کو حرام قرار دیا جا سکے

________&_________

سوم:

*حجاج کرام کو مبارک باد دینے کیلئے آنے والے افراد شرعی طور پر کوئی بھی جائز الفاظ استعمال کر سکتے ہیں*

📚مثلا: یہ کہیں کہ:
” تَقَبَّلَ اللَّهُ طَاعَتَكُمْ ” یعنی:
“اللہ تعالی آپکی عبادات قبول فرمائے”

📚یا پھر :
” تَقَبَّلَ اللَّهُ حَجَّكُمْ ”
یعنی: “اللہ تعالی آپکا حج قبول فرمائے”

📚یا یہ کہہ دیں کہ:
” حَجَّاً مَبْرُوْراً وَسَعْياً مَشْكُوْراً ”
یعنی:”اللہ تعالی آپکے حج کو مبرور، اور عبادات کیلئے جد وجہد کو مقبول بنائے”

*کچھ ضعیف احادیث اور آثار میں حجاج کرام کیلئے واپسی پر الفاظ ملتے ہیں، ہم انہیں سند کے اعتبار سے ثابت شدہ نہیں کہتے ، لیکن ان الفاظ کو بطور دعا استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے،*

مثلاً ان دعاؤں میں یہ الفاظ شامل ہیں کہ:

📚” قَبِلَ اللَّهُ حَجَّكَ ، وَغَفَرَ ذَنْبَكَ ، وَأَخْلَفَ نَفَقَتَكَ ” یعنی: اللہ تعالی آپکا حج قبول فرمائے، آپکے گناہوں کو بخش دے، اور آپکا خرچہ واپس لوٹا دے۔

📚” تَقَبَّلَ اللَّهُ نُسُكَكَ ، وَأَعْظَمَ أَجْرَكَ ، وَأَخْلَفَ نَفَقَتَكَ ” یعنی:
اللہ تعالی آپکے مناسک قبول فرمائے، آپکو ڈھیروں اجر سے نوازے، اور آپکا خرچہ واپس لوٹا دے،
الحمد للہ! اس میں وسعت ہے،

(( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))

🌹اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں