سلسلہ سوال و جواب نمبر-105″
سوال_اسلام میں خاندانی منصوبہ بندی کے بارے کیا حکم ہے؟کیا بچوں کی پیدائش میں وقفہ کے لیے گولیاں یا کونڈوم وغیرہ استعمال کرنا جائز ہے؟
Published Date: 23-10-2018
جواب۔۔!
الحمد للہ:
*اگر خاوند اولاد نہ چاہتا ہو تو عزل كرنا جائز ہے،ليكن اس ميں ايک شرط ہے كہ عزل وغيرہ كے ليے بيوى كى اجازت لينا ضرورى ہے كيونكہ بيوى كو بھى اولاد لينے كا حق ہے.*
🌷اس كى دليل درج ذيل احادیث ہیں،
جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
” ہم رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں عزل كيا كرتے تھے، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو اس كى خبر پہنچى تو آپ نے ہميں اس سے منع نہيں فرمايا ”
(صحيح بخارى حديث نمبر_5207)
(صحيح مسلم حديث نمبر: 1440)
🌷امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں كہ:
عزل يہ ہے كہ جب بيوى سے جماع كيا جائے تو جب انزال قريب ہو تو عضو تناسل باہر كھينچ كر منی شرمگاہ سے باہر خارج کر دی جائے،
🌷جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ :ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں عزل کیا کرتے تھے اورقرآن بھی نازل ہورہا تھا ،
(صحیح البخاری حدیث نمر:،5208)
صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1440 )
یعنی اگر عزل کرنا جائز نہ ہوتا تو اللہ پاک یقیناً اس سے منع کا حکم قرآن میں نازل کر دیتے،اسی حدیث کی ایک روایت میں الفاظ زيادہ ہيں،
سفیان رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ اگراس میں سے کچھ منع کیا جانا ہوتا توقرآن مجید ہمیں منع کردیتا،
🌷ابو داود رحمہ اللہ نے روايت كيا ہے كہ:
ايك شخص نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم، ميرى ايك لونڈى ہے اور ميں اس سے عزل كرتا ہوں مجھے پسند نہيں كہ اسے حمل ٹھہرے، اور ميں اس سے وہ كچھ چاہتا ہوں جو مرد چاہتے ہيں،
اور يہودى يہ كہتے ہيں كہ عزل كرنا چھوٹا زندہ درگور كرنا ہى ہے ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” يہودى جھوٹ بولتے ہيں،
اگر اللہ تعالى اس (بچے) کو پيدا كرنا چاہے تو تم اسے روک نہيں سكتے ”
(سنن ابو داود,حدیث نمبر_2171)
علامہ البانی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے،
🌷اور حضرت ابوسعید خدری کہتے ہیں ،
کہ جب ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بنی المصطلق کی جنگ میں گئے تو عرب قوم میں سے کچھ لونڈی غلام ہمارے ساتھ آئیں،
ہمیں عورتوں کی خواہش ہوئی اور مجرد رہنا ہمارے لئے سخت مشکل ہو گیا اور ان لونڈیوں سے جو ہمارے ہاتھ لگی تھیں ہم نے عزل کرنا چاہا) تا کہ ان کے حمل نہ ٹھہر جائے) آخر ہم نے عزل کا ارادہ کر لیا مگر پھر ہم نے سوچا کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان ہیں تو یہ جائز ہے یا نہیں؟
چنانچہ ہم نے آپ سے اس کے بارے میں دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،
کہ اگر تم عزل نہ کرو تو اس میں تمہارا کوئی نقصان نہیں ہے اس لئے کے قیامت تک جو جان پیدا ہو نیوالی ہے وہ تو پیدا ہو کر رہے گی
(صحیح بخاری،حدیث نمںر:2542)
(صحیح مسلم، حدیث نمبر:1438)
🌷 حضرت ابوسعید خدری راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عزل کرنے کے بارے میں پوچھا گیا (کہ عزل کرنا جائز ہے یا نہیں) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا منی کے ہر پانی سے بچہ نہیں بنتا، اور جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کو پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کو پیدا ہونے سے کوئی چیز نہیں روک سکتی (صحیح مسلم, کتاب النکاح، 1438)
🌷ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ، اور عرض کی : میری ایک لونڈی ہے ، وہی ہماری خادمہ ہے اور وہی ہمارے لیے پانی لانے والی بھی ہے اور میں اس سے مجامعت بھی کرتا ہوں ۔ میں ناپسند کرتا ہوں کہ وہ حاملہ ہو ۔
تو آپ نے فرمایا : ” اگر تم چاہو تو اس سے عزل کر لیا کرو ، ( لیکن ) یہ بات یقینی ہے کہ جو بچہ اس کے لیے مقدر میں لکھا گیا ہے وہ آ کر رہے گا ۔ ” وہ شخص ( چند دن ) رکا ، پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ، اور عرض کی : وہ لونڈی حاملہ ہو گئی ہے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” میں نے تمہیں بتا دیا تھا کہ جو اس کے لیے مقدر کیا گیا ہے وہ آ کر رہے گا
(صحیح مسلم، حدیث نمبر، 1439)
*یعنی تمہارے عزل کرنے سے اس پیدا ہونیوالی جان پر کوئی اثر نہیں ہو گا اگر اسے دنیا میں آنا ہے تو تم لاکھ عزل کر لو ضبط ولادت کے لاکھ طریق آزما لو وہ اس دنیا میں آ کر رہے گی اور اگر اس کا پیدا ہونا مقدر نہیں ہے، تو پھر نہیں آئیگی، چاہے تم عزل نہ بھی کرو،*
🌷ليكن يہ جائز ہونے كے ساتھ ساتھ بہت شديد قسم كا نا پسندیدہ عمل بھی ہے،
” نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عزل كرنے كے بارہ ميں دريافت كيا گيا تو آپ نے فرمايا:” يہ تو خفيہ طور پر بچے كو زندہ درگور كرنا ہے ”
(صحيح مسلم حديث نمبر _1442)
*اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تنبیہ کے طور پر فرمایا، یا پھر یہ کہ اس ارشاد کے ذریعہ گویا اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ عزل نہ کرنا ہی اولی اور زیادہ بہتر ہے،يہ حديث عزل كے نا پسندیدہ ہونے كى دليل ہے،لہذا مسلمان شخص كو ايسا اسى صورت ميں كرنا چاہيے جب اس كى ضرورت ہو، مثلا اگر بيوى مريض ہو اور حمل برداشت نہ كرسكتى ہو، يا پھر حمل اسے نقصان ديتا ہو یا ایسی عورت جسے بہت زیادہ حمل ہوتا ہو، اور اس ميں كچھ وقفہ دركار ہو تو پھر جائز ہے،*
اور عزل كرنا اس لیے بھی درست نہیں کہ اس ميں نكاح كا مقصد ہى فوت ہو جاتا ہے، كيونكہ نكاح كے مقاصد ميں كثرت نسل شامل ہے،
مسلمانوں كو چاہيے كہ وہ اپنى نسل ميں كثرت پيدا كريں اور جتنى استطاعت ہو بچے زيادہ سے زيادہ پيدا كريں؛
🌷كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسى كى راہنمائى كرتے ہوئے فرمايا ہے:
” تم ايسى عورت سے شادى كرو جو بہت زيادہ محبت كرنے والى ہو اور زيادہ بچے جننے والى ہو، كيونكہ ميں اپنی امت کے زيادہ ہونے كى وجہ سے دوسرى امتوں پر فخر كرونگا
(سنن ابو داود، حدیث نمبر،_2050 )
اور اس كا كوئى بھى انكار نہيں كر سكتا كہ امت كى كثرت اس كى عزت و قوت كا سبب ہے,
جب کہ کچھ نا سمجھ لوگوں كا گمان ہے كہ امت كى كثرت اس كى بھوك اور فقر كا باعث بنتى ہے حالانكہ يہ بات غلط اور خلاف فطرت ہے.
🌷فرمان بارى تعالى ہے:
: وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا
{ اور زمين پر چلنے پھرنے والے جتنے جاندار ہيں سب کا رزق اللہ تعالى کے ذمے ہے
(سورہ ہود،آیت نمبر:6)
*اور پھر عزل كرنے ميں عورت كى لذت كى تكميل بھى نہيں ہوتى، کیونکہ عورت کو لطف انزال کے بعد ہی آتا ہے، اور یہ اسکی حق تلفی ہے،لہذا اسکی رضامندی ضروری ہے،*
*مانع حمل گولیاں اور کونڈوم وغیرہ بھی عزل ہی کہ صورت ہیں تقریباً تقریباً*
🌷مندرجہ ذيل سوال فضیلۃ الشيخ محمد بن صالح عثيمین رحمہ اللہ تعالی کے سامنے پیش کیا گيا :کیا شادی کے ابتدائي دوبرس میں خاوند اوربیوی کی رضامندی سےمنع حمل جائز ہے؟ تا کہ وہ ایک دوسرے سے خوب لطف اٹھائیں؟
توشیخ رحمہ اللہ تعالی کا مندرجہ ذيل جواب تھا :
ایسا کرنا حرام نہیں ، لیکن بہتر اور افضل یہ ہے کہ ایسا نہ کیا جائے بلکہ انہیں نیک شگون اورنیک فال لینی چاہیے اوراللہ تعالی پر حسن ظن رکھنا چاہیے,
اوریہ بھی ہوسکتا ہے کہ بچے کی پیدائش میں جلدی کی وجہ سے خاوند اوربیوی کے مابین محبت والفت پیدا ہو جائے،
اوروہ بچہ خاوند اوربیوی اوران کے خاندان والوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک بن جائے،
وگرنہ دیکھنے میں آتا ہے جن کے ہاں جلدی بچے نہیں ہوتے ان میاں بیوی اور خاندان میں اکثر جھگڑے ہوتے ہیں، اور کئی بار نوبت طلاق تک بھی جا پہنچتی ہے،
کیونکہ جب بچے ہوتے ہیں تو بیوی شوہر کی جاسوسی کی بجائے اپنے بچوں پر توجہ دیتی ہے،
اور شوہر کام سے تھکا ہارا آ کر بیوی پر غصہ نکالنے کی بجائے بچوں ساتھ پیار میں مصروف ہو جاتا ہے،
🌷مزید ایک جگہ پر وہ فرماتے ہیں،
کسی خاتون کیلئے مانع حمل گولیاں استعمال کرنے کی اجازت دو شرائط کی موجودگی میں دی جا سکتی ہے:
1- کہ عورت کو حمل سے بچنے کی ضرورت ہو، مثلا: بیمار ہونے کی وجہ سے ہر سال حمل برداشت نہ کر سکتی ہو، یا اس کا جسم انتہائی کمزور ہو، یا ہر سال حاملہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہونے والےکسی دوسرے ضرر کا اندیشہ ہو۔کوئی اور مانع موجود ہو جس کی وجہ سے عورت کو نقصان کا خدشہ رہے۔
2- خاوند مانع حمل گولیاں استعمال کرنے کی اجازت دے؛ کیونکہ افزائش نسل خاوند کا حق ہے، اور اسی طرح گولیاں استعمال کرنے سے قبل طبی ماہرین سے مشورہ کرنا بھی ضروری ہے، کہ گولیوں کا استعمال نقصان دہ ہوگا یا نہیں۔
چنانچہ اگر مذکورہ بالا دونوں شرائط پائی جائیں، تو ان گولیوں کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن ان گولیوں کااثر دائمی نہیں ہونا چاہیے، یعنی: ایسی گولیاں استعمال نہ کی جائیں جن سے ہمیشہ کیلئے حمل کا امکان ختم ہو جائے، یہ جائز نہیں ہے، کیونکہ اس طرح کرنے سے نسل انسانی کا خاتمہ لازم آئے گا” انتہی
(فتاوى المرأة المسلمة_2ج/ص657- 658)
🌷مفتی اعظم شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
” طبی ماہرین کے مشورے اور شعبہ میڈیکل کی رائے پر موجودہ یا مستقبل کے خدشات کے باعث رحم کو حمل سے روکنے کیلئے شکم مادر سے نکال دینے کا کیا حکم ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
اگر واقعی اشد ضرورت ہو تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، بصورتِ دیگر رحم نکالنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ شریعت افزائشِ نسل کی حوصلہ افزائی کرتی ہے، اورکثرت امت کی ترغیب بھی دلاتی ہے، تاہم اگر یہ کام کسی ضرورت کی بنا پر ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، ایسے ہی شرعی مصلحت کیلئے وقتی طور پر منع حمل کے اسباب اختیار کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے
“انتہی( 9ج / ص434 )
*خلاصہ یہ ہے کہ بلا وجہ یا بلا ضرورت عزل یا کونڈوم یا گولیاں وغیرہ استعمال نہ کریں،اگر شرعی عذر یا ضرورت ہو تو عزل کر لیں اگر عزل نہ کر سکیں توضرورت کہ تحت کونڈوم یا گولیاں وغیرہ بھی استعمال کر سکتے ہیں،یہ حرام نہیں ہے لیکن بلا ضرورت بچنا ہی بہتر ہے*
(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )
🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہمارا فیسبک پیج وزٹ کریں۔۔.
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765