1,946

سوال_ اگر کوئی عورت/مرد زنا کر لیں تو کیا ان دونوں کا آپس میں نکاح جائز ہو گا؟ اور اگر شادی کے بعد پتا چلے کہ میاں بیوی میں سے کسی ایک نے ماضی میں زنا کیا تھا تو انکے نکاح کا کیا حکم ہو گا؟

سلسلہ سوال و جواب نمبر-106
سوال_ اگر کوئی عورت/مرد زنا کر لیں تو کیا ان دونوں کا آپس میں نکاح جائز ہو گا؟ اور اگر شادی کے بعد پتا چلے کہ میاں بیوی میں سے کسی ایک نے ماضی میں زنا کیا تھا تو انکے نکاح کا کیا حکم ہو گا؟

Published Date:24-10-2018

جواب.!
الحمدللہ..!

*بہت سے جھوٹی باتوں کی طرح ایک یہ بات بھی ہمارے معاشرے میں کم علمی کی وجہ سے مشہور ہے کہ زنا کرنے والے مرد و عورت آپس میں نکاح کر ہی نہیں سکتے،جبکہ یہ بات غلط ہے،*
*بلا شبہ یہ ایک قبیح اور غلیظ ترین گناہ عظیم ہے، مگر انکو نکاح سے روکنا درست نہیں،بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر کسی سے یہ جرم ہو جاتا ہے تو انکو آپس میں ہی نکاح کرنا چاہیے، تا کہ انکے معاملات آپس میں ہی رہیں اور انکا نکاح بالکل جائز ہے اور ہو سکتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ وہ نکاح سے پہلے سچے دل سے توبہ کر لیں*

*تفصیل کچھ اس طرح سے ہے۔۔۔*👇👇

*زانيہ عورت يا زانى مرد كا نكاح اس وقت تک صحيح نہيں جب تک وہ توبہ نہ كر لے، اور اگر عورت يا مرد توبہ نہيں كرتا تو ان كا نكاح صحيح نہيں ہوگا*

🌷اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
” بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلزَّانِىۡ لَا يَنۡكِحُ اِلَّا زَانِيَةً اَوۡ مُشۡرِكَةً وَّ الزَّانِيَةُ لَا يَنۡكِحُهَاۤ اِلَّا زَانٍ اَوۡ مُشۡرِكٌ‌ ۚ وَحُرِّمَ ذٰ لِكَ عَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ
زانی نکاح نہیں کرتا مگر کسی زانی عورت سے، یا کسی مشرک عورت سے، اور زانی عورت، اس سے نکاح نہیں کرتا مگر کوئی زانی یا مشرک۔ اور یہ کام ایمان والوں پر حرام کردیا گیا ہے۔
(سورہ النور،آئیت نمبر-3)

*یہ اشارہ عقد نکاح کی طرف ہے۔ یعنی یہ جانتے ہوئے کہ فلاں عورت بدکار اور غیر تائب ہے، اس سے نکاح کرنا مومن مردوں کے لیے حرام ہے، اسی طرح اپنی پاک دامن بیٹی کو کسی بدکار شخص کے نکاح میں دینا جو تائب نہ ہو، مومنوں کے لیے حرام ہے،*

🌷اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
(اَلْخَبِيْثٰتُ لِلْخَبِيْثِيْنَ وَالْخَبِيْثُوْنَ لِلْخَبِيْثٰتِ ۚ وَالطَّيِّبٰتُ للطَّيِّبِيْنَ )
[ النور : ٢٦ ]
” گندی عورتیں گندے مردوں کے لیے ہیں اور گندے مرد گندی عورتوں کے لیے ہیں اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لیے ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لیے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر بھی مردوں اور عورتوں کے نکاح کے لیے دونوں کے پاک دامن ہونے کی اور بدکار نہ ہونے کی شرط لگائی ہے،
🌷چناچہ فرمایا :
( وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الْمُؤْمِنٰتِ وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ اِذَآ اٰتَيْتُمُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ مُحْصِنِيْنَ غَيْرَ مُسٰفِحِيْنَ وَلَا مُتَّخِذِيْٓ اَخْدَانٍ )
[ المائدۃ : ائیت نمبر-5 ]
”اور مومن عورتوں میں سے پاک دامن عورتیں اور ان لوگوں کی پاک دامن عورتیں جنھیں تم سے پہلے کتاب دی گئی، جب تم انھیں ان کے مہر دے دو ، اس حال میں کہ تم قید نکاح میں لانے والے ہو، بدکاری کرنے والے نہیں اور نہ چھپی آشنائیں بنانے والے۔ “

*اوپر پہلی آئیت وَحُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ “ کی شان نزول میں مروی حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ بدکار عورتوں یا بدکار مردوں سے، جو تائب نہ ہوں، نکاح حرام ہے،
اس آيت كا سبب نزول اس حكم كو اور بھى زيادہ واضح کر دیتا ہے*

🌷عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی جسے مرثد بن ابی مرثد کہا جاتا تھا، وہ مکہ سے قیدی اٹھا کر مدینہ لایا کرتا تھا اور مکہ میں ایک بدکار عورت تھی، جسے عناق کہا جاتا تھا، وہ اس کی دوست تھی۔ مرثد بن ابی مرثد نے مکہ میں قید ایک آدمی سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اسے اٹھا لے جائے گا۔ اس کا بیان ہے کہ میں مکہ میں آیا اور میں چاندنی رات میں مکہ کی ایک دیوار کے سائے میں تھا کہ عناق آئی، اس نے دیوار کے ساتھ میرے سائے کا ہیولا دیکھا۔ جب وہ میرے پاس پہنچی تو اس نے مجھے پہچان لیا۔ کہنے لگی : ” مرثد ہو ؟ “ میں نے کہا : ” مرثد ہوں۔ “ کہنے لگی : ” مرحباً و اھلاً ، آؤ ہمارے پاس رات گزارو۔ “
میں نے کہا : ” عناق ! اللہ نے زنا حرام کردیا ہے۔ “ اس نے آواز دی، خیموں والو ! یہ وہ آدمی ہے جو تمہارے آدمی اٹھا لے جاتا ہے۔ چناچہ آٹھ آدمی میرے پیچھے لگ گئے اور میں (مکہ کے ایک پہاڑ) خندمہ پر چلنے لگا، حتیٰ کہ اس کی ایک غار تک پہنچ کر اس میں داخل ہوگیا۔ وہ لوگ آئے، حتیٰ کہ میرے سر پر آ کھڑے ہوئے اور انھوں نے پیشاب کیا، تو ان کا پیشاب میرے سر پر گرا، مگر اللہ تعالیٰ نے انھیں مجھ سے اندھا کردیا۔ پھر وہ واپس چلے گئے، میں بھی دوبارہ اپنے ساتھی کے پاس آیا اور اسے اٹھایا، وہ آدمی بھاری تھا، یہاں تک کہ میں اسے ” اذخر “ تک لے آیا (یعنی مکہ سے باہر جہاں اذخر گھاس تھی) ، اس کی بھاری بیڑی کھولی اور اسے اس طرح لے کر چلا کہ میں اسے اٹھاتا تھا اور وہ مجھے تھکا دیتا تھا، حتیٰ کہ میں مدینہ پہنچ گیا۔ تو میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہا : ” یا رسول اللہ ! میں عناق سے نکاح کرلوں ؟ “ میں نے دو مرتبہ یہ بات کہی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش رہے، مجھے کوئی جواب نہیں دیا،
یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی :
(اَلزَّانِيْ لَا يَنْكِحُ اِلَّا زَانِيَةً اَوْ مُشْرِكَةً ۡ وَّالزَّانِيَةُ لَا يَنْكِحُهَآ اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ ) [ النور : ٣ ]
تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” مرثد ! زانی نکاح نہیں کرتا مگر کسی زانیہ یا مشرکہ سے اور جو زانیہ یا مشرکہ ہے اس سے نکاح نہیں کرتا مگر جو زانی ہے یا مشرک ہے، اس لیے تو اس (عناق) سے نکاح مت کر۔ “
[سنن ترمذي، تفسیر القرآن، باب و من سورة النور : حدیث نمبر-3177)
(سنن نسائی حدیث نمبر- : 3230)
(سنن ابو داود حديث نمبر ( 2051 )
علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح قرار ديا ہے.

🌷سنن ابو داود كى شرح ” عون المعبود ” ميں لكھا ہے:
” اس حدیث ميں دليل ہے كہ كسى بھى شخص كے ليے ايسى عورت سے نكاح كرنا جائز نہيں جس سے زنا كا اظہار ہو چكا ہو، اور اس كى دليل مندرجہ بالا حديث ميں اس آيت كا ذكر ہے جس آيت كے آخر ميں يہ بيان كيا گيا ہے كہ:
” اور يہ مومنوں پر حرام كر ديا گيا ہے ”
تو يہ حرمت ميں صريح ہے ” انتہى

🌷ابن قیم (رح) نے فرمایا : ” زانیہ عورت سے نکاح کے متعلق اللہ تعالیٰ نے سورة نور میں تصریح فرمائی ہے کہ وہ حرام ہے اور فرمایا کہ جو اس سے نکاح کرے وہ زانی ہے یا مشرک، کیونکہ یا تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی پابندی قبول کرے گا اور اس کے وجوب کا عقیدہ رکھے گا یا نہیں۔ اگر وہ اس کے وجوب کا عقیدہ ہی نہ رکھتا ہو تو وہ مشرک ہے اور اگر اس کی پابندی قبول کرتا ہو اور اس کے وجوب کا عقیدہ رکھتا ہو، پھر اس کی خلاف ورزی کرے تو وہ زانی ہے۔ پھر اس کے حرام ہونے کی تصریح فرمائی کہ زانی یا مشرک سے نکاح مومنوں پر حرام کردیا گیا ہے۔ “
اور اس آیت کے مطابق امام احمد ابن حنبل (رح) پاک دامن مرد کا نکاح زانی غیر تائب عورت سے اور پاک دامن عورت کا نکاح زانی غیر تائب مرد سے حرام قرار دیتے ہیں،
(تفسیر القرآن الکریم،از عبدالسلام بھٹوی صاحب، سورہ نور آئیت نمبر-3)

*زانى مرد اور زانیہ عورت سے نكاح حرام ہونے كى يہ واضح دليل ہے جب تك وہ توبہ نہيں كرتے اس سے نكاح حرام ہے، اور اسى طرح زانى مرد سے بھى جب تك وہ توبہ نہ كرے نكاح كرنا جائز نہیں،*

*لیکن اگر زانی مرد یا زانیہ عورت زنا کے بعد سچی توبہ کر لیں اور اپنے گناہ پر شرمندہ ہوں تو انکا آپس میں بھی نکاح جائز ہے اور کسی اور ساتھ نکاح بھی جائز ہے،جیسا کہ کوئی مشرک مرد یا عورت شرک سے توبہ کرکے مسلمان ہوجائیں تو ان کے ساتھ نکاح جائز ہے،*

اس کی دلیل سورة فرقان کی آیت 70 ہے،
🌷اللہ پاک فرماتے ہیں!
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اِلَّا مَنۡ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًاصَالِحًـا فَاُولٰٓٮِٕكَ يُبَدِّلُ اللّٰهُ سَيِّاٰتِهِمۡ حَسَنٰتٍ‌ ؕ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوۡرًا رَّحِيۡمًا
مگر جس نے توبہ کی اور ایمان لے آیا اور عمل کیا، نیک عمل تو یہ لوگ ہیں جن کی برائیاں اللہ نیکیوں میں بدل دے گا اور اللہ ہمیشہ بےحد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔

🌷ابن عباس (رض) نے فرمایا :
” اہل شرک میں سے کچھ لوگوں نے قتل کیے اور بہت کیے اور زنا کیے اور بہت کیے، پھر وہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہنے لگے : ” آپ جو بات کہتے ہیں اور جس کی دعوت دیتے ہیں وہ بہت اچھی ہے، اگر آپ ہمیں یہ بتادیں کہ ہم نے جو کچھ کیا اس کا کوئی کفارہ ہے ؟ “ تو یہ آیت اتری :
(وَالَّذِيْنَ لَا يَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ ۔۔ ) [ الفرقان : ٦٨ ]
اور یہ آیت اتری :
(يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ )
[ الزمر : ٥٣ ]
” اے میرے بندو جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ! اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہوجاؤ،
[ مسلم، الإیمان، باب کون الإسلام یھدم ما قبلہ۔۔ : 122]

*یہ آیت ان لوگوں کے لیے بشارت ہے جن کی زندگی پہلے طرح طرح کے جرائم سے آلودہ رہی ہو اور اب وہ اپنی اصلاح پر آمادہ ہوں، یہی عام معافی کا دن تھا جس نے اس بگڑے ہوئے معاشرے کے لاکھوں انسانوں کو سہارا دے کر مستقبل کے بگاڑ سے بچا لیا اور انھیں امید کی روشنی دکھا کر اصلاح پر آمادہ کیا۔ اگر ان سے کہا جاتا کہ جو گناہ تم کرچکے ہو ان کی سزا سے اب تم کسی طرح بچ نہیں سکتے تو وہ ہمیشہ کے لیے بدی کے بھنور میں پھنس جاتے*

🌷ابن ابی حاتم نے اپنی سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ ایک آدمی نے ابن عباس (رض) سے پوچھا کہ میں ایک عورت کے پاس جاتا تھا اور اس کے ساتھ اس کام کا ارتکاب کرتا تھا جو اللہ نے مجھ پر حرام کیا ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سے توبہ کی توفیق عطا فرمائی۔ اب میرا ارادہ ہے کہ اس سے نکاح کروں تو کچھ لوگوں نے کہا ہے : ” إِنَّ الزَّانِيْ لَا یَنْکِحُ إِلَّا زَانِیَۃً أَوْ مُشْرِکَۃً “ ” زانی نہیں نکاح کرے گا مگر زانیہ سے یا مشرکہ سے۔ “ تو ابن عباس (رض) نے فرمایا : ” یہ آیت اس کے متعلق نہیں، تم اس سے نکاح کرلو، جو گناہ ہوگا وہ میرے ذمے رہنے دو ۔ “
(ابن کثیر، دکتور حکمت بن بشیر نے اس کی سند کو حسن کہا ہے)

🌷اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” زانيہ عورت كا نكاح اس وقت تک حرام ہے جب تك وہ توبہ نہ كر لے، چاہے اس سے ہو جس نے اس سے زنا كيا يا كسى اور سے، بلاشك و شبہ يہى صحيح ہے، اور سلف اور خلف ميں سے ايك گروہ كا مسلك بھى يہى ہے جن ميں امام احمد رحمہ اللہ وغيرہ شامل ہيں..
(ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 32 / 110 )

*لہذا ان تمام دلائل سے یہ ںات سمجھ آئی کہ زانی مرد یا زانیہ عورت جو توبہ نا کریں انکا نکاح جائز نہیں کسی کے ساتھ بھی، ہاں اگر وہ سچے دل سے شرمندہ ہو کر توبہ کر لیں تو انکا نکاح جائز ہے آپس میں بھی اور کسی دوسرے کے ساتھ بھی،*

🌷 *اب رہا دوسرا مسئلہ کہ اگر لڑکی اور لڑکے نے شادی سے پہلے زنا کیا تھا اور لڑکی کو حمل ٹھہر گیا تو کیا وہ نکاح کر سکتے ہیں؟ اور اگر انہوں نے توبہ کیے بنا نکاح کر لیا تو انکا نکاح درست ہے یا نہیں؟*

تو اس پر سعودی فتاویٰ کمیٹی کا فتویٰ پڑھیں 👇👇👇👇

سوال_میں امریکا کا رہائشی اورغیرشادی شدہ مسلمان ہوں ، میں نے ایک ہی لڑکی سے کئي ایک بار زنا کا ارتکاب کیا ہے ، اوراب وہ حاملہ ہے میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ کیا میں اس سے شادی کرسکتا ہوں تا کہ مشکل کا حل نکل سکے؟

🌷سعودی فتاویٰ کمیٹی کا جواب–:👇

زانی مرد کا زانیہ عورت سے شادی کرناجائز نہیں ہے اورنہ ہی وہ عورت اس مرد سے شادی کرسکتی ہے صرف ایک صورت میں یہ ہوسکتا ہے کہ جب دونوں توبہ کرلیں توان کی شادی ہوسکتی ہے ل،
اس لیے آپ اس عورت سے نکاح نہیں کرسکتے اگرچہ وہ عورت یھودی یا عیسائي ہی کیوں نہ ہو ، اور اگر مسلمان بھی ہو پھر بھی نکاح نہیں ہوسکتا اس لیے کہ وہ زانیہ ہے اور نہ ہی اس عورت کے لیے جائز ہے کہ وہ آپ کو بطور خاوند قبول کرے اس لیے کہ آپ زانی ہيں ۔

فرمان باری تعالی کچھ اس طرح ہے :
زانی مرد زانیہ یا مشرکہ عورت کے علاوہ کسی اورسے نکاح نہیں کرتا ، اورزانیہ عورت بھی زانی یا پھرمشرک مرد کے علاوہ کسی اورسے نکاح نہیں کرتی اورایمان والوں پر حرام کردیا گيا ہے
( النور _3 )
اوراس آیت میں اللہ تعالی نے جویہ فرمایا ہے کہ اور ایمان والوں پر یہ حرام کردیا گیا ہے، یہ اس نکاح کے حرام ہونے کی دلیل ہے ۔
لھذا آپ دونوں پر یہ واجب اورضروری ہے کہ آپ اللہ تعالی کی طرف رجوع کرتے ہوۓ اس کے سامنے توبہ کریں اوراس گناہ کوترک کرتے ہوۓ جوفحش کام آپ سے سرزد ہوا ہے اس پر نادم ہوں ، اوراس کا عزم کریں کہ آئندہ اس کام کودوبارہ نہيں کريں گے ۔اور ساتھ نیک صالح اعمال کریں،

اورتوبہ کے بعد اگر آپ اس لڑکی سے شادی کرنا چاہیں تونکاح سے قبل آپ پر ضروری اور واجب ہے کہ اس کا ایک حیض کے ساتھ استبراء رحم کریں ، اور اگر زنا کی وجہ سے حمل ظاہر ہوجاۓ توپھر آپ حدیث پرعمل کرتے ہوۓ اس حالت میں اس سے نکاح نہیں کرسکتے جب حمل سے فارغ ہوجاۓ تو آپ نکاح کرسکتے ہیں،

🌷نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے کہ انسان کسی دوسرے کی کھیتی کوسیراب کرتا پھرے ۔ ،

اور اگر کسی نے زنا کے بعد توبہ کیے بنا شادی کر لی تو انکے بارے میں فرماتے ہیں کہ ،
اگر تو دونوں نے شادى سے قبل اس حرام كام سے توبہ كر لى تھى تو ان كا نكاح صحيح ہے، ليكن اگر انہوں نے توبہ سے پہلے عقد نكاح كرايا تھا تو ان كا نكاح صحيح نہيں، اور انہيں اپنے كيے پر نادم ہو كر اس سے توبہ كرنى چاہيے اور آئندہ پختہ عزم كرنا چاہيے كہ وہ اس كام كو دوبارہ نہيں كريں گے، پھر وہ اپنا نكاح دوبارہ كرائيں
(دیکھیں فتاوی اللجنۃ الدائمۃ بحوالہ مجلۃ البحوث الاسلامیۃ ( 9ج / ص72 )

*تیسرا مسئلہ لا علمی میں نکاح کا ہے یعنی کہ اگر شوہر بیوی میں سے کسی ایک نے ماضی میں زنا کسی اور شخص سے کیا تھا اور توبہ بھی نہیں کی اور پھر نکاح کسی اور انسان سے کر لیا، تو کیا شادی کے بعد اس گناہ کے بارے اپنے شوہر یا بیوی کو بتانے کی ضرورت ہے یا نہیں؟ کیا انکا نکاح درست ہو گا؟*

🌷شیخ صالح المنجد مندرجہ ذیل مسئلہ میں فرماتے ہیں کہ اگر نکاح زانیہ عورت کے توبہ کرنے کے بعد ہوا تو جائز ہے، اور اگر نکاح عورت کے توبہ کرنے سے پہلے ہوا تو یہ نکاح جائز نہیں اور نکاح دوبارہ پڑھوایا جائے گا۔ لیکن اگر شوہر کو بیوی کے زنا کا علم نہیں ہے اور اگر نکاح کا دوبارہ پڑھوائے جانے کا مطلب ہے کہ شوہر کو اس زنا کے متعلق بتانا پڑھے گا جس کے نتیجے میں ممکن ہے کہ مرد اس عورت کو چھوڑ دے گا یا اس کے لئے زندگی دشوار ہو جائے گی تو عورت کے لئے جائز ہے کہ وہ اسی پہلے نکاح کے ساتھ ہی شوہر کے ساتھ رہ سکتی ہے، یہ اکثر اہل علم کا قول ہے اور بعض حنبلی فقہاء کا بھی یہی موقف ہے۔
(https://islamqa.info/en/199600)

*یعنی اس تیسری صورت میں کہ جب ایک دوسرے بارے پتا نا ہو اور زانی یا زانیہ کے بارے نا جانتے ہوئے لا علمی میں نکاح ہو گیا ہو تو یہ نکاح ان شاءاللہ درست ہو گا کیونکہ انکو پتا ہی نہیں تھا، وہ بس خود سے ہی توبہ کر لیں اور خاص کر عورت کو اپنا ماضی بتانے کی ضرورت نہیں،کیونکہ اس سے سو فیصد رشتہ ختم ہونے کے چانس ہیں، وہ بس سچے دل سے خود سے ہی تو بہ کر لے اور شرمندہ ہو کر اللہ سے معافی مانگ لے ،اللہ پاک بے شک معاف فرمانے والے ہیں،انکا نکاح ان شاءاللہ درست ہو گا،*

(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )

🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہمارا فیسبک پیج وزٹ کریں۔۔.
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں