1,621

سوال_منی، اور مذی میں کیا فرق ہے۔؟ انکے خارج ہونے سے جسم اور کپڑوں کی طہارت کا کیا حکم ہے۔۔؟ اور کیا مذی خارج ہونے سے بھی غسل فرض ہو جاتا ہے..؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-37″
سوال_منی، اور مذی میں کیا فرق ہے؟
انکے خارج ہونے سے جسم اور کپڑوں کی طہارت کا کیا حکم ہے؟ کیا منی خارج ہونے سے صرف غسل کرنا پڑے گا یا کپڑے بھی تبدیل کرنا ضروری ہیں؟نیز کیا مذی خارج ہونے سے بھی غسل فرض ہو جاتا ہے..؟

Published Date:15-3-2018
جواب۔۔!!

الحمدللہ۔۔

*تمام مسلمانوں سے گزارش ہے کہ اس تحریر کو ضرور پڑھیں، کیونکہ ہمارے ہاں پاکیزگی اور طہارت بہت اہمیت کی حامل ہے، جب تک ہم ٹھیک سے طہارت نہیں حاصل کر لیتے ہماری عبادات بھی درست نہیں ہوتیں، چونکہ یہ ایک اہم مسئلہ ہے ہم اس مسئلہ کو سمجھنے کے لیے  مختلف سوالوں کی شکل دیتے ہیں، جو اکثر اوقات مرد و خواتین شرم کی وجہ سے کسی سے پوچھ نہیں پاتے*

🌷#سوال_1
*منی اور مذی کسے کہتے ہیں۔۔؟*

جواب_

*منی*
وہ گھاڑھا مادہ جو میاں بیوی کے جماع کے دوران یا احتلام کے وقت مرد و خواتین کی شرمگاہ سے نکلتا ہے، اسے منی کہتے ہیں،

*مذی*
وہ پتلا لیس دار مادہ جو میاں بیوی کے بوس و کنار کے وقت یا رومانوی قصے کہانیاں اور جنسی ویڈیوز وغیرہ دیکھنے سے مرد و خواتین کی شرمگاہ  سے نکلتا ہے،
اسے مذی کہتے ہیں،
_______&&&&&________

🌷#سوال_2 
*ہمیں کس طرح پتا چلے گا کہ خارج ہونے والی چیز منی ہے۔۔۔۔؟ اور مرد و خواتین کی منی کی علامات کیا ہیں۔۔؟؟*

جواب_
مرد كا مادہ منويہ گاڑھا اور سفيد ہوتا ہے، ليكن عورت كى منى پتلى اور زرد رنگ كى ہوتى ہے.

اس كى دليل درج ذیل احادیث ہیں،

📚ام سليم رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے پوچھا کہ اگر عورت خواب میں وہی دیکھے جو مرد دیکھتا ہے تو کیا اس پر بھی غسل فرض ہو جائے گا؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” جب عورت ايسا خواب ميں ديكھے تو وہ غسل كرے ”
ام سليم رضى اللہ تعالى عنہا كہتى ہيں: ـ مجھے اس سے شرم آ گئى ـ اور ميں نے عرض كيا،
كيا ايسا ہوتا ہے ؟
تو رسو ل كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
تو پھر مشابہت كس طرح ہوتى ہے ؟ بلا شبہ مرد كا مادہ گاڑھا اور سفيد، اور عورت كا مادہ پتلا اور زرد ہوتا ہے، دونوں ميں سے جو بھى اوپر ہو جائے، يا سبقت لے جائے اس كى مشابہت ہو جاتى ہے ”
(ﺻﺤﻴﺢ ﻣﺴﻠﻢ- ﻛﺘﺎﺏ اﻟﺤﻴﺾ – ﺑﺎﺏ ﻭﺟﻮﺏ اﻟﻐﺴﻞ ﻋﻠﻰ اﻟﻤﺮﺃﺓ ﺑﺨﺮﻭﺝ اﻟﻤﻨﻲ ﻣﻨﻬﺎ، حدیث نمبر_311)
(سلسلہ احادیث الصحیحہ، حدیث نمبر_453)

صحيح مسلم كى شرح ميں امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
📒قولہ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم:
” مرد كا مادہ منويہ گاڑھا سفيد ہوتا ہے، اور عورت كا پانى پتلا زرد ہوتا ہے ”
يہ منى كى صفت كے بيان ميں عظيم دليل ہے، تندرستى اور عام حالات ميں منى كى حالت اور صفت يہى ہے.

📒علماء كرام كا كہنا ہے: تندرستى اور صحت كى حالت ميں مرد كى منى گاڑھى سفيد ہوتى ہے اور اچھل اچھل كر خارج ہوتى ہے، اور اس كے خارج ہوتے وقت لذت آتى ہے، اور جب منى خارج ہو چكے تو خارج ہونے كے بعد فتور اور ٹھراؤ پيدا ہوتا اور اس كى بو تقريبا كھجور كے شگوفہ اور گوندھے ہوئے آٹے كى بو كى طرح ہوتى ہے…

( بعض اوقات كسى سبب كے باعث منى كى رنگت تبديل ہو جاتى ہے مثلا ) بيمار ہو تو اس كى پانى پتلى زرد ہو گى، يا پھر منى والى جگہ ميں استرخاء( يعنى ڈھيلا پن ) پيدا ہو جائے تو بغير لذت اور شہوت ہى خارج ہونا شروع ہو جاتى ہے، يا پھر جماع كثرت سے كيا جائے تو منى سرخ ہو كر گوشت كے پانى كى طرح ہو جاتى ہے، اور بعض اوقات تو تازہ خون ہى خارج ہوتا ہے…

*پھر منى  كے تين خواص ہيں جس سے منى با اعتماد شمار ہوتی ہيں یعنی یہ یقین کیا جاتا یے کہ یہ واقع ہی منی خارج ہوئی، ان علامتوں سے آپ منی کہ پہچان کر سکتے ہیں*

#پہلا خاصہ:
شہوت سے خارج ہونا، اور بعد ميں فتور یعنی ڈھیلا پن،سستی پيدا ہو جانا

#دوسرا خاصہ:
اس كى بو كھجور كے شگوفہ كى طرح ہوتى ہے جيسا كہ بيان كيا جا چكا ہے.

#تيسرا خاصہ:
اچھل كر خارج ہونا.

ان تين علامتوں ميں سے كسى ايک علامت كا پايا جانا منى ہونے كے ليے كافى ہے،
تينوں كا بيک وقت پايا جانا شرط نہيں،
اور اگر ان تينوں ميں سے كوئى بھى نہ ہو تو پھر وہ منى نہيں ہو گى، اور ظن غالب كا ہونا بھى منى كے ثبوت كے ليے كافى نہيں،
يہ سب باتیں  تو مرد كى منى كے متعلقہ تھیں،

📒*رہا عورت كى منى كا مسئلہ تو وہ پتلى زرد ہوتى ہے*

اور بعض اوقات اس كى قوت و طاقت بڑھ جانے كى بنا پر سفيد بھى ہو جاتى ہے، اس كے دو خاصے ہيں، اگر ان ميں سے كوئى ايك بھى ہو تو وہ منى شمار ہو گى:

#پہلا:
اس كى بو مرد كى منى جيسى ہو گی (یعنی کجھور کے شگوفے یا گندھے آٹے کی بو جیسی ہو گی،)
#دوسرا:
خارج ہوتے وقت لذت آئے، اور بعد ميں فتور (ڈھیلا پن) پيدا ہو.

ديكھيں:
(شرح مسلم للنووى ( 3 ج/ 222 ص)

*یہ تو تھیں مرد و عورت کی منی کی علامات، کہ ان علامتوں سے ہم یہ پہچان سکتے ہیں کہ نکلنے والا مادہ  منی ہی تھا یا کچھ اور*

________&&&________________

🌷#سوال_3
*اگر منی خارج ہو جائے تو پھر جسم اور کپڑوں کی طہارت کا کیا حکم ہو گا..؟*

جواب_
اگر منی خارج ہو جائے، وہ خواب میں احتلام کی صورت میں خارج ہو یا بیوی سے ہمبستری کے ذریعے یا مشت زنی وغیرہ کے ذریعے کوئی خارج کرے تو اس پر غسل واجب ہو جائے گا،

اسی طرح اگر احتلام کے بعد کپڑوں پر منی کی نشان نظر آئیں تو غسل فرض ہو گا ، اگرچہ اسے احتلام یاد نا بھی ہو،

لیکن اگر خواب میں احتلام دیکھا مگر کپڑوں پر منی کے نشانات نظر نہیں آئے تو پھر غسل واجب نہیں ہو گا،

📚جیسا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو (کپڑوں پر)  تری دیکھے لیکن اسے احتلام یاد نہ آئے،
آپ نے فرمایا: ”وہ غسل کرے“
اور اس شخص کے بارے میں ( پوچھا گیا ) جسے یہ یاد ہو کہ اسے احتلام ہوا ہے لیکن وہ تری نہ پائے تو آپ نے فرمایا: ”اس پر غسل نہیں“
ام سلمہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول!
کیا عورت پر بھی جو ایسا دیکھے غسل ہے؟
آپ نے فرمایا: عورتیں بھی ( شرعی احکام میں ) مردوں ہی کی طرح ہیں۔
(سنن ترمذی، حدیث نمبر_113) صحیح
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر_236)حسن

*اور کپڑوں پر جس جگہ منی لگی ہو اگر وہ خشک ہے تو اسکو کھرچ لینا کافی ہے، اگر گیلی ہے تو کپڑے کو اس جگہ سے دھو لینا کافی ہے،سارے کپڑے تبدیل کرنا ضروری نہیں*

جیساکہ،
📚حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس منی کے بارے میں پوچھا گیا جو کپڑے کو لگ جائے۔
تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں منی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے دھو ڈالتی تھی پھر آپ نماز کے لیے باہر تشریف لے جاتے اور دھونے کا نشان ( یعنی کپڑے کو دھونے سے ) پانی کے دھبے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے میں باقی ہوتے۔
(صحیح بخاری،حدیث نمبر_230)

📚اور ایک روایت میں یہ بات ملتی ہے کہ،
ام المؤمنین  عائشہ رضی الله عنہا کے ہاں ایک مہمان آیا تو انہوں نے اسے ( اوڑھنے کے لیے ) اسے ایک زرد چادر دینے کا حکم دیا۔
وہ اس میں سویا تو اسے احتلام ہو گیا،
ایسے ہی بھیجنے میں کہ اس میں احتلام کا اثر ہے اسے شرم محسوس ہوئی، چنانچہ اس نے اسے پانی سے دھو کر بھیجا،
تو عائشہ رضی الله عنہا نے کہا:
اس نے ہمارا کپڑا کیوں خراب کر دیا؟
اسے اپنی انگلیوں سے کھرچ دیتا، بس اتنا کافی تھا، بسا اوقات میں اپنی انگلیوں سے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے کپڑے سے اسے کھرچ دیتی تھی۔ امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- صحابہ کرام، تابعین اور ان کے بعد کے فقہاء میں سے سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے کہ کپڑے پر منی لگ جائے تو اسے کھرچ دینا کافی ہے، اگرچہ دھویا نہ جائے،
(سنن ترمذی،حدیث نمبر_116)
(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر_538)
(صحیح مسلم،کتاب الطہارہ، حدیث نمبر_288)

ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ ،

📚عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے كپڑوں سے اذخر كے تنكوں كے ساتھ (گیلی) منى كو پونچھ ديا كرتے تھے، اور پھر اسى لباس ميں نماز ادا كرتے، اور اپنے كپڑوں سے خشك منى كو كھرچ كے نماز ادا كرتے تھے ”
(مسند احمد، ج6/ص243)
(صحيح ابن خزيمہ،حدیث نمبر_288)
(علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے
ارواء الغليل ( 1 / 197 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے)

*ان احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ منی لگے کپڑے کو تبدیل کرنا یا دھونا واجب نہیں، اگر خشک اور موٹی تہہ ہو تو خرچ کر صاف کر دے پھر اسی میں نماز پڑھ سکتا اور اگر گیلی ہو تو کسی چیز سے صاف کر دے یا کھرچنے کے قابل نا ہو تو پھر وہاں سے اتنا حصہ دھو لے جہاں منی لگی ہو ، اور اسی کپڑے میں نماز پڑھ سکتا ہے،اکثر مرد و خواتین صحبت یا احتلام کے بعد کپڑے تبدیل کرنا فرض سمجھتے ہیں ،جب کہ کپڑے تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں،*

________________&&&&&____________

🌷#سوال_4
*مذی کی پہچان کیا ہے؟*

جواب:
مذى سفيد رنگ كا ليس دار مادہ ہوتا ہے، جو میاں بیوی کے گلے لگنے ،یا بوس و کنار کرنے سے یا  جماع كى سوچ يا اردہ كے وقت خارج ہوتا ہے،
یا بعض اوقات رومانوی قصے کہانیاں پڑھنے اور فحش ویڈیوز وغیرہ دیکھنے سے خارج ہوتا ہے،
یہ اچھل کر خارج نہیں ہوتا ہے،اور نہ ہى نكلنے كے بعد فتور پيدا ہوتا ہے، يعنى جسم ڈھيلا نہيں پڑتا.
اور مرد و عورت دونوں سے ہى مذى خارج ہوتى ہے، ليكن مردوں كى بنسبت عورتوں ميں زيادہ یہ مسئلہ ہوتا ہے.۔.!
(ديكھيں: شرح مسلم للنووى ( 3 / 213 )

__________&&&__________

🌷#سوال_5 
*اگر مذی خارج ہو جائے تو جسم اور کپڑوں کی طہارت کا کیا حکم ہے؟*

جواب_
مذى خارج ہونے سے شرمگاہ کو دھو کر صرف وضو ہى كرنا ہو گا، اس سے غسل فرض نہیں ہوتا،
اس كى دليل على رضى اللہ تعالى عنہ كى درج ذيل حديث ہے،

📚علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ،
مجھے مذی بکثرت آتی تھی، چونکہ میرے گھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی ( فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا ) تھیں۔ اس لیے میں نے(شرم کی وجہ سے) ایک شخص ( مقداد بن اسود اپنے شاگرد ) سے کہا کہ وہ آپ ﷺ  سے اس مذی کے متعلق مسئلہ معلوم کریں انہوں نے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مذی نکلنے پر شرمگاہ کو دھو لو اور وضو کرو،
(صحیح بخاری، حدیث نمبر_269)

*یعنی مذی خارج ہونے سے غسل کرنا واجب نہیں ، بلکہ صرف وضو ٹوٹ جاتا ہے،*

📒ابن قدامہ رحمہ اللہ نے ” المغنى ” ميں علماء كرام كا اجماع نقل كيا ہے كہ مذى خارج ہونے سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے.
(ديكھيں:
(المغنى ابن قدامہ المقدسى ( 1 / 168 )

*يہاں ايک چيز پر متنبہ رہنا ضرورى ہے كہ مذى نجس اور پليد ہے اس ليے بدن كو جہاں لگے اسے دھونا ہو گا،جیسا کہ اوپر والی حدیث میں یہ بات ذکر ہوئی، ليكن لباس كو جہاں لگے تو اسے پاک كرنے كے ليے شريعت مطہرہ نے مشقت دور كرتے ہوئے تخفيف كى ہے كہ صرف اتنا ہى كافى ہے كہ آپ ايک چلو پانى لے كر مذى لگنے والى جگہ پر چھڑک ديں تو وہ كپڑا پاک ہو جائيگا، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مذى لگے ہوئے كپڑے كو پاک كرنے كى كيفيت بيان فرمائی ہے،*

📚سھل بن حنيف رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں:
مجھے بہت زيادہ مذى آتى اور ميں كثرت سے غسل كيا كرتا تھا، چنانچہ ميں نے اس كے متعلق رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” آپ كو اس سے وضوء كرنا كافى ہے ”
ميں نے عرض كيا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرے لباس ميں جہاں لگى ہوئى ہو اسے كيا كروں؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” آپ كے ليے اتنا ہى كافى ہے كہ چلو بھر پانى لے كر جہاں لگى ہو اس پر چھڑك دو ”
(سنن ترمذی،حدیث نمبر_115)
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر_210)
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر_506)

📒تحفۃ الاحوذى ميں ہے:
اس حدیث سے يہ ستدلال كيا جاتا ہے كہ اگر كپڑے كو مذى لگ جائے تو اس پر پانى چھڑكنا كافى ہے، اور دھونا واجب نہيں.
ديكھيں: تحفۃ الاحوذى ( ص1 / 373ج )

*اگر کوئی کپڑا بھی دھونا چاہے تو دھو لے اسکی مرضی ہے*

*اللہ پاک ہم سب کو صحیح معنوں میں قرآن و حدیث کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں آمین ثم آمین*

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

📚کیا مرد و خواتین کیلئے جنابت کی حالت میں غسل کے بنا سونا،کھانا پینا یا روزہ رکھنا جائز ہے؟ نیز کیا غسل جنابت سے پہلے عورت کھانا وغیرہ بنا سکتی اور بچے کو دودھ پلا سکتی؟
((دیکھیں سلسلہ نمبر-55))

📚کیا بے وضو، حائضہ اور جنبی کیلئے قرآن مجید کو چھونا اور پڑھنا جائز ہے؟
((دیکھیں سلسلہ نمبر-94))

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦  سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 📑
     کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
                   +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں