983

کیا قبروں،مزاروں پر اللہ کے نام پر یا غیراللہ کے نام پر کوئی چیز صدقہ خیرات کرنا جائز ہے؟

“سلسلہ سوال و جواب-20”
سوال_کیا قبروں،مزاروں،درباروں پر اللہ کے نام پر یا غیراللہ کے نام پر کوئی چیز صدقہ خیرات کرنا جائز ہے؟

Published Date: 26-12-2017

جواب۔۔!
الحمدللہ۔۔!

*نذر و نیاز اور تقرب کی غرض سے  جانور ذبح کرنا عبادت ہے اور اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت جائز نہیں*

📚ارشاد باری تعالیٰ ہے،
قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ * لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ،
’’ کہہ دیجئے ! بلاشبہ میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اس بات کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے بات ماننے والا ہوں۔“
(سورہ الانعام،آئیت نمبر163-162)

📚حُرِّمَتۡ عَلَیۡکُمُ الۡمَیۡتَۃُ وَ الدَّمُ وَ لَحۡمُ الۡخِنۡزِیۡرِ وَ مَاۤ اُہِلَّ لِغَیۡرِ اللّٰہِ بِہٖ وَ الۡمُنۡخَنِقَۃُ وَ الۡمَوۡقُوۡذَۃُ وَ الۡمُتَرَدِّیَۃُ وَ النَّطِیۡحَۃُ وَ مَاۤ اَکَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَکَّیۡتُمۡ ۟ وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُب،
تم پرحرام کردیاگیا مردار اورخون اور سؤر کا گوشت اوروہ جس پر ﷲ تعالیٰ کے سواکسی کا نام پکارا گیا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اورجوکسی آستانے پرذبح کیا گیا ہو،
(سورہ المائدہ،آئیت نمبر-3)

*ان واضح آیات سے پتا چلا کہ ہر قسم کی عبادت، قربانی،جانوروں کے ذبیحےٰ اللہ کے لیے ہونا چاہیے، اس میں کسی کو شریک اور حصہ دار نہیں بنانا چاہیے۔،جو شخص کسی اور ہستی کے لیے جانور ذبح کرتا ہے وہ حرام ہے اور  اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے*

📚 ابن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،
لَعَنَ اللَّهُ مَنْ ذَبَحَ لِغَيْرِ اللَّهِ، 
’’ اللہ کی لعنت ہو اس آدمی پر جس نے غیر اللہ کے لیے ذبح کیا،
(مسند احمد،حدیث نمبر: 2913)

*کچھ لوگ کہتے کہ جی ہم تو دربار پر اللہ کا نام لے کر صدقہ کرتے ہیں تو صدقہ خیرات یا جانور چاہے اللہ کے نام پر بھی کریں پھر بھی قبروں کے پاس ذبح کرنے اور صدقہ کرنے سے منع کیا گیا ہے*

📚 سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لا عقر فى الاسلام . 
اسلام میں قبروں کے نزدیک ذبیحہ نہیں ہے
(مسنداحمد حدیث/13032)
(مصنف عبدالرزاق،6690)

📒 امام عبدالرزاق رحمہ اللہ نے عقر کی تشریح میں فرمایا ہے :
كانوا يعقرون عندالقبر بقرة او شاة . 
’’ مشرکین قبروں کے پاس گائے یا بکری ذبح کیا کرتے تھے۔“

📒 امام خطابی رحمہ اللہ نے ابوداؤد کی شرح میں فرمایا ہے :
’’ اہل جاہلیت سخی آدمی کی قبر پر اونٹ ذبح کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم اس کی سخاوت کا بدلا دے رہے ہیں، اس لیے کہ وہ اپنی زندگی میں اونٹ ذبح کر کے مہمانوں کو کھلاتا تھا، ہم اس کی قبر کے پاس ذبح کر رہے تاکہ درندے اور پرندے کھائیں اور جس طرح اس کی زندگی میں لنگر جاری رہتا تھا مرنے کے بعد بھی جاری ہے۔
[معالم السنن : 1ج/ ص734]

*مذکورہ بالا حدیث اور شرح سے معلوم ہو ا کہ قبروں کے پاس جانور ذبح کرنا زمانہ جاہلیت میں مشرکوں کا کام تھا جو قبروں پر لنگر جاری رکھتے تھے۔ اسلام نے آ کر اس کو ختم کیا اور یہ درس دیا کہ قبروں کے پاس جانور ذبح کرنا اسلام میں جائز نہیں۔ جو لوگ قبروں پر جا کر نذر و نیاز چڑھاتے اور جانور ذبح کرتے ہیں وہ اہل قبور کو مشکل کشا اور حاجت روا جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اگر یہاں نذرانہ دیا گیا تو ہماری حاجات پوری ہوں گی اور صاحب قبر راضی ہو گا۔ حالانکہ اصحابہ القبور نہ ہماری پکار سنتے ہیں اور نہ مشکلات حل کرنے پر قادر ہیں*

اب ایک اور حدیث ملاحظہ فرمائیں:

📚سنن ابوداؤد
کتاب: قسم کھانے اور نذر (منت) ماننے کا بیان
باب: اس کا بیان کہ نذر کا پورا کرناضروری ہے
حدیث نمبر: 3313
حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ رُشَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ إِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبُو قِلَابَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي ثَابِتُ بْنُ الضَّحَّاكِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ نَذَرَ رَجُلٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنِّي نَذَرْتُ أَنْ أَنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ هَلْ كَانَ فِيهَا وَثَنٌ مِن أَوْثَانِ الْجَاهِلِيَّةِ يُعْبَدُ ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ هَلْ كَانَ فِيهَا عِيدٌ مِنْ أَعْيَادِهِمْ ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَوْفِ بِنَذْرِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ لَا وَفَاءَ لِنَذْرٍ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا فِيمَا لَا يَمْلِكُ ابْنُ آدَمَ.
ترجمہ:
ابوقلابہ کہتے ہیں کہ مجھ سے ثابت بن ضحاک نے بیان کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایک شخص نے نذر مانی کہ وہ بوانہ (ایک جگہ کا نام ہے) میں اونٹ ذبح کرے گا تو وہ شخص نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا کہ میں نے بوانہ میں اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی ہے، تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کیا جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت وہاں تھا جس کی عبادت کی جاتی تھی ؟ لوگوں نے کہا : نہیں، پھر آپ ﷺ نے فرمایا : کیا کفار کی عیدوں میں سے کوئی عید وہاں منائی جاتی تھی ؟ لوگوں نے کہا : نہیں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اپنی نذر پوری کرلو البتہ گناہ کی نذر پوری کرنا جائز نہیں اور نہ اس چیز میں نذر ہے جس کا آدمی مالک نہیں،
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر_3313)
حدیث صحیح

*ااس حدیث میں واضح ہے کہ ایک شخص نے منت نذر مانی جو پورا کرنی واجب ہوتی مگر اسکو پورا کرنے سے پہلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے دو سوال کیے کہ وہاں کسی بت کی پوجا تو نہیں کی جاتی؟ اب یا پہلے کبھی؟
تو اس نے کہا نہیں،
پھر آپ نے پوچھا وہاں کوئی کفار کی عید یا میلہ وغیرہ تو نہیں لگتا تھا؟
اس نے کہا نہیں، پھر آپ نے اجازت دی،
مسلمان ہونے کے بعد اس نے وہ صدقہ وغیرہ تو اللہ کی رضا کیلے کرنا تھا لیکن
اگر وہاں کوئی میلہ لگتا یا بت ہوتا یو کوئی شرکیہ معاملہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی وہاں نذر پوری کرنے یعنی صدقہ کرنے کی اجازت نہ دیتے*

📒شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ یہ حدیث اس بات کی واضح دلیل ہے کہ جس مقام پر مشرکین کا میلا لگتا ہو یا اس مقام پر ان کا کوئی بت وغیرہ نصب ہو یا پہلے کبھی تھا اگرچہ اس مقام پر اب نہ میلے کا اہتمام ہوتا ہو اور نہ بت نصب ہو، ہمیں اس مقام پر اللہ تعالیٰ کے لیے کسی جانور کو ذبح کرنا ممنوع ہے۔
کیونکہ مشرکین کا کسی جگہ میلا لگانا یا کسی مقام پر ان کا غیر اللہ کی عبادت کرنا خالص اللہ کے لیے ذبح کرنا اور نذر پوری کرنے کے لیے مانع اور رکاوٹ ہے۔“
(هداية المستفيد_ ص1/ 400ج)

*ان تمام دلائل سے یہ بات واضح ہوئی کہ اگر کسی نے اللہ کی رضا کیلئے بھی کوئی جانور ذبح کرنا ہو یا صدقہ خیرات کرنا ہو تو اسے چاہیے کہ عام جگہوں پر تقسیم کرے، مساجد اللہ کے گھر ہیں وہاں تقسیم کر لے، یا کسی مدرسہ وغیرہ میں یا کسی بھی جگہ، لیکن کسی قبر یا دربار وغیرہ پر اللہ کے نام پر صدقہ خیرات کرنا بھی جائز نہیں*

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)))

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦ 
📖 سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
                   +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں