1,347

سوال_کیا مرد و عورت کے لیے تنہائی میں ننگا / کھڑے ہو کر غسل کرنا جائز ہے؟ قرآن و حدیث سے وضاحت فرمائیں،

سلسلہ سوال و جواب نمبر-161″
سوال_کیا مرد و عورت کے لیے تنہائی میں ننگا / کھڑے ہو کر غسل کرنا جائز ہے؟ قرآن و حدیث سے وضاحت فرمائیں،

Published Date:8-12-2018

جواب:
الحمدللہ:

*مرد و خواتین کے لیے تنہائی اور خلوت میں ننگے ہو کر اور کھڑے ہو کر غسل کرنا جائز ہے البتہ شرمگاہ کو چھپانے کے لیے بیٹھ کر یا کپڑا باندھ کر نہائیں تو زیادہ افضل ہے*

🌹امام بخاری رحمہ اللہ نے صیح بخاری،
کتاب الغسل میں یوں باب باندھا ہے

*باب من اغتسل عريانا وحده في الخلوة، ومن تستر فالتستر افضل*
باب: اس شخص کے بارے میں جس نے تنہائی میں ننگے ہو کر غسل کیا اور جس نے کپڑا باندھ کر غسل کیا اور کپڑا باندھ کر غسل کرنا افضل ہے۔

نیچے وہ یہ روایت ذکر کرتے ہیں کہ:
🌹وَقَالَ بَهْزُ بْنُ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ” اللَّهُ أَحَقُّ أَنْ يُسْتَحْيَا مِنْهُ مِنَ النَّاسِ “.
اور بہز بن حکیم نے اپنے والد سے، انہوں نے بہز کے دادا (معاویہ بن حیدہ) سے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ لوگوں کے مقابلے میں زیادہ مستحق ہے کہ اس سے شرم کی جائے۔

اور پھر یہ دو احادیث دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں،

🌹ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روائیت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بنی اسرائیل ننگے ہو کر اس طرح نہاتے تھے کہ ایک شخص دوسرے کو دیکھتا لیکن موسیٰ علیہ السلام تنہا پردہ سے غسل فرماتے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ بخدا موسیٰ کو ہمارے ساتھ غسل کرنے میں صرف یہ چیز مانع ہے کہ آپ کے خصیے بڑھے ہوئے ہیں۔ ایک مرتبہ موسیٰ علیہ السلام غسل کرنے لگے اور آپ نے کپڑوں کو ایک پتھر پر رکھ دیا۔ اتنے میں پتھر کپڑوں کو لے کر بھاگا اور موسیٰ علیہ السلام بھی اس کے پیچھے بڑی تیزی سے دوڑے۔ آپ کہتے جاتے تھے۔ اے پتھر! میرا کپڑا دے۔ اے پتھر! میرا کپڑا دے۔ اس عرصہ میں بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام کو ننگا دیکھ لیا اور کہنے لگے کہ بخدا موسیٰ کو کوئی بیماری نہیں اور موسیٰ علیہ السلام نے کپڑا لیا اور پتھر کو مارنے لگے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بخدا اس پتھر پر چھ یا سات مار کے نشان باقی ہیں۔
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-278)

🌹اس حديث سے علماء كرام نے استدلال كيا ہے كہ اگر عليحدگى ميں ہو تو ننگے ہونا جائز ہے، خاص كر جب كوئى ضرورت ہو مثلا غسل وغيرہ كى اس جواز كے اكثر علماء كرام قائل ہيں،
جيسا كہ حافظ ابن حجر نے فتح البارى ميں ذكر كيا ہے.
(ديكھيں: فتح البارى_1 ج/ ص385 )

امام بخاری دوسری حدیث یہ پیش کرتے ہیں:

🌹اور ابوہریرہ سے ہی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ (ایک بار) ایوب علیہ السلام ننگے غسل فرما رہے تھے کہ سونے کی ٹڈیاں آپ پر گرنے لگیں۔ ایوب علیہ السلام انہیں اپنے کپڑے میں سمیٹنے لگے۔ اتنے میں ان کے رب نے انہیں پکارا۔ کہ اے ایوب!
کیا میں نے تمہیں اس چیز سے بےنیاز نہیں کر دیا، جسے تم دیکھ رہے ہو۔ ایوب علیہ السلام نے جواب دیا ہاں تیری بزرگی کی قسم۔ لیکن تیری برکت سے میرے لیے بے نیازی کیونکر ممکن ہے۔ اور اس حدیث کو ابراہیم نے موسیٰ بن عقبہ سے، وہ صفوان سے، وہ عطاء بن یسار سے، وہ ابوہریرہ سے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے، اس طرح نقل کرتے ہیں ” جب کہ ایوب علیہ السلام ننگے ہو کر غسل کر رہے تھے “
(آخر تک)۔
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-279)

*امام بخاری رحمہ اللہ نے خلوت تنہائی میں ننگے نہانے کو جائز کہا ہے، لیکن ستر ڈھانپ کر نہانا افضل قرار دیا ہے،ننگے نہانے کہ جواز میں دو احادیث بیان کی ہیں،*

*ایک موسیٰ علیہ السلام کا خلوت تنہائی میں غسل کرنا اور دوسرا ایوب علیہ السلام کا خلوت میں ننگے غسل کرنا اور یہ واقعات بیان کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عمل کی تردید نہیں کی اس لیے ہماری شریعیت میں بھی اسی طرح خلوت میں نہانا جائز ٹھہرا،*

🌹علماء كرام نے صحيحين كى حديث سے استدلال كيا ہے كہ بے لباس ا ور ننگے ہو كر غسل كرنا جائز ہے، جس ميں موسى عليہ السلام كا بے لباس اور ننگے ہو كر غسل كرنے كا ذكر ملتا ہے.
ديكھيں صحيح بخارى حديث نمبر ( 274 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 339 )
امام نووى رحمہ اللہ نے اس حديث پر باب باندھتے ہوئے كہا ہے:
خلوت ميں ننگا اور بے لباس ہو كر غسل كرنے كے جواز كا بيان.
اور اسى طرح ايوب عليہ السلام كا بھى ننگے اور بے لباس ہو كر غسل كرنا ثابت ہے، جيسا كہ صحيح بخارى حديث نمبر ( 275 ) ميں بيان ہے.

🌹امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
” پچھلے باب ميں ہم بيان كر چكے ہيں كہ: خلوت ميں ضرورت كے وقت شرمگاہ ننگى كرنا جائز ہے، اور يہ غسل كرنے، اور پيشاب كرنے، اور بيوى سے مباشرت كرنے كى حالت وغيرہ ميں ہے، ان سب حالتوں ميں خلوت كے اندر رہتے ہوئے ننگا ہونا جائز ہے.
ليكن ان سب حالات ميں لوگوں كى موجودگى اور ان كے سامنے بے لباس ہونا حرام ہے.
علماء كرام كا كہنا ہے:
خلوت ميں غسل كرتے وقت چادر وغيرہ باندھنا ننگے ہونے سے افضل ہے، اور غسل وغيرہ ميں ضرورت كى مدت ننگا اور بے لباس ہونا جائز ہے، اور ضرورت سے زيادہ ننگے رہنا حرام ہے، صحيح يہى ہے….
(ديكھيں:شرح مسلم للنووى 4 / 32 )

🌹امام ابن حزم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
ام المؤمنین میمونہ رضي اللہ تعالی عنہا کی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ( نے غسل کیا اور آپ) چادر کے بغیر تھے ،
کیونکہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں،
🌹 کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ برتن میں داخل کیا اورپھر اپنی شرمگاہ پر پانی بہایا اوراسے اپنے بائيں ہاتھ سے دھویا۔۔۔(بخاری،249)
(دیکھیں المحلی لابن حزم_9ج/ص165)

🌹سعودی مفتی شیخ صالح المنجد رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ کیا ننگے ہو کر غسل کرنا جائز ہے تو انکا جواب تھا،

جى ہاں آدمى كے ليے بے لباس اور ننگا ہو كر غسل كرنا جائز ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اس كا ثبوت ملتا ہے، جيسا كہ ام المؤمنين ميمونہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:
” انہوں نے اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك ٹب جس ميں آٹے كے اثرات لگے ہوئے تھے سے غسل كيا ”
اور يہ بھى ثابت ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كے ساتھ بھى غسل فرمايا، جيسا كہ بخارى اور مسلم ميں كئى ايك جگہ حديث موجود ہے.
غسل كرتے وقت جسم چھپانے كے وجوب كے متعلق نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كوئى بھى صحيح حديث ثابت نہيں، اگرچہ بعض سلف رحمہ اللہ غسل كرتے وقت پردہ كو ترجيح ديتے ليكن شريعت اسے واجب نہيں كرتى بلكہ صرف اتنا ہى كافى ہے كہ لوگوں كى نظروں سے اوجھل ہو سامنے ننگا نہ ہو.
(Islamqa.info_6976)

*ان تمام احادیث اور محدثین کی اقوال سے ثابت ہوا کہ تنہائی میں ننگے ہو کر غسل کرنا جائز ہے،*

*لیکن تنہائی میں بھی شرمگاہ چھپانے کے لیے کپڑا باندھ کر یا بیٹھ کر غسل کرنا افضل ہے اس کی دلیل یہ ہے*

🌹رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو بغیر تہ بند کے ( میدان میں ) نہاتے دیکھا تو آپ منبر پر چڑھے اور اللہ کی حمد و ثنا کی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ حیاء دار ہے پردہ پوشی کرنے والا ہے اور حیاء اور پردہ پوشی کو پسند فرماتا ہے لہٰذا جب تم میں سے کوئی نہائے تو ستر کو چھپا لے ۔
سنن ابو داؤد حدیث نمبر-4012)

دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں،

🌹حضرت معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو گھر کے صحن میں غسل کرتے دیکھا تو فرمایا ،
بے شک اللہ شرم کرنے والا برد بار اور پردہ پوش ہے جب تم میں سے کوئی غسل کرے تو وہ ستر ڈھانپے اگرچہ دیوار کی اوٹ کے ساتھ ہو،
(تاریخ جرجان _225/332)
( بحوالہ ارواء الغلیل ج7/ص368)

تیسری روایت میں یہ الفاظ ہیں

🌹معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں،میں نے کہا: اللہ کے نبی!
ہم اپنی شرمگاہیں کس قدر کھول سکتے ہیں اور کس قدر چھپانا ضروری؟
آپ نے فرمایا: ”تم اپنی شرمگاہ اپنی بیوی اور اپنی لونڈی کے سوا ہر ایک سے چھپاؤ“، میں نے پھر کہا: جب لوگ مل جل کر رہ رہے ہوں ( تو ہم کیا اور کیسے کریں؟ )
آپ نے فرمایا: ”تب بھی تمہاری ہر ممکن کوشش یہی ہونا چاہیئے کہ تمہاری شرمگاہ کوئی نہ دیکھ سکے“،
میں نے پھر کہا: اللہ کے نبی! جب آدمی تنہا ہو؟ آپ نے فرمایا: ”لوگوں کے مقابل اللہ تو اور زیادہ مستحق ہے کہ اس سے شرم کی جائے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
(سنن ترمذی،حدیث نمبر-2794)
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-4017)

*واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب*

🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں