“سلسلہ سوال و جواب نمبر-96”
سوال_صحابہ کرام کی کردار کشی کیوں کی گئی؟ اسباب کیا تھے،؟ اور یہ کردار کشی کن لوگوں نے کی؟
Published Date:12-10-2018
جواب..!!
الحمدللہ!!
*تاریخ اسلام کو صحیح طریقہ سے سمجھنے کے لیے کچھ ابتدائی معلومات ہم پڑھ رہے تھے ، اسی کڑی کا یہ آخری سلسلہ ہے، اسکے بعد ہم خلافت راشدہ کی تاریخ پڑھنا شروع کر دینگے ان شاءاللہ،*
*نئے احباب جنہوں نے ابھی جوائن کیا ہے ہمارا گروپ، انکی اطلاع کے لیے بتلاتا چلوں کہ ہم ہر جمعہ کے دن تاریخ اسلام کے بارے جاننے کی کوشش کرتے ہیں اور اس سے متعلقہ تین سلسلے گزر چکے ہیں، نئے قارئین سے گزارش ہے اگر آپ تاریخ کا شوق رکھتے ہیں تو پچھلے تین سلسلے
87،88 اور 92 ضرور پڑھیں*
*ابتدائی معلومات کے اس سلسلے میں ہم جاننے کی کوشش کریں گے کہ ،
صحابہ کرام کی کردار کشی کیوں کی گئی؟
انکے اسباب کیا تھے،؟
اور یہ کردار کشی کن لوگوں نے کی اور یہ روایات تاریخ کی کتابوں میں منتقل کیسے ہوئیں؟
اور ہم ان روایات کا جائزہ کیسے لے سکتے ہیں؟*
*صحابہ کرام کی کردار کشی*
اس سیکشن میں ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ کون سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کردار کشی کی گئی اور اس کے اسباب کیا تھے؟اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ دیکھیں گے کہ یہ کردار کشی کن لوگوں نے کی اور یہ روایتیں تاریخ کی کتابوں میں منتقل کیسے ہوئیں؟
کردار کشی کی مہم کے اسباب بنیادی طور پر تین قسم کے تھے: سیاسی، مذہبی اور قبائلی۔ ہم ان کی تفصیل بیان کرتے ہیں:
1 ۔*سیاسی اسباب*
تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلی اور دوسری صدی ہجری میں حکومت وقت کے خلاف متعدد باغیانہ تحریکیں اٹھیں۔ ان تحریکوں کی یہ ضرورت تھی کہ عوامی حمایت حاصل کی جائے۔ اس کے علاوہ انہیں اپنے کارکنان کے جذبات کو مشتعل کرنے کی ضرورت تھی۔ ان باغیانہ تحریکوں کے قائدین کو یہ کام آسان لگا کہ ماضی کی شخصیتوں کا نام استعمال کر کے لوگوں کی حمایت حاصل کی جائے اور ان کے جذبات کو مشتعل کیا جائے۔
اس مقصد کے لیے جس ہستی کے نام کو سب سے زیادہ استعمال کیا گیا، وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی ذات تھی۔ ایک پارٹی نے آپ سے غیر معمولی عقیدت کا اظہار کیا اور آپ کی شخصیت کو ایک دیوتا کی سی حیثیت دینے کی کوشش کی۔ بعض لوگوں نے آپ کو صحابہ کرام میں سب سے افضل قرار دیا تو بعض نے آپ کا درجہ نبی بلکہ اس سے بھی بلند کرنے کی کوشش کی۔ بعض افراد نے آپ کو خدا کا اوتار قرار دیا اور بعض نے یہ کہا کہ آپ کے اندر خدا حلول کر گیا تھا۔ اس کے برعکس مخالف پارٹیوں نے آپ کی کردار کشی کی کوشش کی اور آپ کو جلیل القدر صحابی کے درجے سے اتار کر آپ پر معاذ اللہ کفر کا فتوی عائد کیا یا پھر آپ کو قاتل عثمان بنانے کی کوشش کی۔ اس کے ساتھ ساتھ جن صحابہ کرام کا اختلاف رائے حضرت علی کے ساتھ ہوا، انہیں بھی مختلف پارٹیوں نے اپنی اپنی ضرورت کے مطابق ہیرو یا ولن بنانے کی کوشش کی۔ ان میں خاص طور پر حضرت طلحہ، زبیر، عائشہ، معاویہ اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔ ان کے علاوہ خلفائے ثلاثہ حضرت ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کی کردار کشی کی گئی۔
بعینہ یہی معاملہ سانحہ کربلا کے ساتھ ہوا۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت کے واقعات سنا کر چونکہ لوگوں کے جذبات مشتعل کر کے تحریک اٹھانا آسان تھا، اس وجہ سے اس پورے واقعے کو رومانوی رنگ (Romanticizing) دے دیا گیا۔ اس کے برعکس حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے اپنی حکومت کی قربانی دے کر مسلمانوں میں جو اتحاد پیدا کیا، اسے بالکل نظر انداز کر دیا گیا کیونکہ باغیانہ تحریکوں کے لیے اس میں کوئی ایسی مثال موجود نہ تھی جس سے وہ لوگوں کے جذبات کو ابھار سکتے۔ جن لوگوں کو حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما سے کسی وجہ سے بغض تھا، انہوں نے ان حضرات کی کردار کشی بھی کی۔
ہم یہ دیکھتے ہیں کہ خاص کر ان حضرات کی کردار کشی کی گئی ہے جو کسی نہ کسی درجے میں سیاسی امور میں شریک رہے۔ ایسے صحابہ جو سیاست سے دور رہے، کے بارے میں ہمیں بہت ہی کم کردار کشی پر مبنی روایات ملتی ہیں۔ مثلاً حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں تنقیدی روایات مل جاتی ہیں لیکن ان کے صاحبزادے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں ایسی کوئی روایت نہیں ملتی۔ اسی طرح حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی کردار کشی کی گئی ہے لیکن انہی کے عابد و زاہد فرزند عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کا سبھی احترام کرتے ہیں۔
انسان کی یہ عادت ہے کہ وہ اپنے مفادات کی عینک سے دنیا کو دیکھتا ہے اور ضرورت پڑنے پر جھوٹ سے بھی کام چلا لیتا ہے۔ دنیاوی اور دینی معاملات سبھی میں ایسا ہوتا ہے۔ اگر ہم اپنے دور کا جائزہ لیں تو ایسا ہی نظر آتا ہے۔ جو لوگ بھی سیاست کے میدان میں اترتے ہیں، ان کی اخبارات بھی جی کھول کر کردار کشی کرتے ہیں لیکن ایسے لوگ جو خاموشی سے علمی مشاغل یا عبادت میں مشغول رہتے ہیں ، ان کے بارے میں ایسا نہیں ہوتا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ چھوٹی موٹی مساجد کے امام صاحبان محفوظ رہتے ہیں جبکہ بڑی بڑی مساجد کے ائمہ کے خلاف سازشیں کر کے انہیں معزول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حکومت اور کاروباری اداروں کے چھوٹے موٹے ملازمین کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھاتا مگر بڑے بڑے عہدوں پر فائز لوگوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔
2۔ *مذہبی اسباب*
صحابہ کرام کی کردار کشی کے مذہبی محرکات بھی انتہائی اہمیت کے حامل تھے۔ جن لوگوں کو اسلام سے نفرت تھی اور انہوں نے مجبوراً اسلام کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا، نے اسلام کو بدنام کرنے کا ایک طریقہ یہ نکالا کہ جلیل القدر صحابہ کی کردار کشی کی جائے تاکہ اسلام کو بدنام کیا جا سکے۔ اس میں خاص کر عبداللہ بن سبا اور اس کی پارٹی کے لوگ نمایاں تھے۔
نویں صدی کے مشہور محدث ابن حجر عسقلانی (773-852/1371-1448) ،
ابو زرعۃ الرازی کا یہ قول نقل کرتے ہیں:
🌷جب آپ کسی ایسے شخص کو دیکھیں جو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے کسی کی کردار کشی کرتا ہے تو جان لیجیے کہ وہ شخص زندیق ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برحق ہیں، قرآن برحق ہے اور جو کچھ حضور لائے ہیں ، حق ہے۔ یہ سب کچھ ہم تک صحابہ کرام ہی کے واسطے سے پہنچا ہے تو ان صحابہ پر اعتراض کرنے کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا ہے کہ وہ ہمارے گواہوں کو مجروح کریں تاکہ اس طرح قرآن اور حدیث ہی کو بے کار بنا کر رکھ دیں۔ اس سے بدرجہا بہتر ہے کہ خود ایسے لوگوں کو قابل اعتراض اور مجروح قرار دیا جائے,
(ابن حجر عسقلانی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ۔ مقدمہ۔ 1/24۔ قاہرہ: مرکز ہجر للبحوث والدراسات العربیہ و اسلامیہ)
🌷صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کردار کشی کا یہ مذہبی محرک ابتدائی صدیوں میں نمایاں رہا ہے۔ اسلام نے جزیرہ نما عرب اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں پر غلبہ پا لیا تھا، اس وجہ سے یہاں پر پہلے سے موجود مذاہب کے لوگوں میں ایک بے چینی پائی جاتی تھی کیونکہ وہ اسلام کو اپنے مذاہب کے لیے خطرہ محسوس کر رہے تھے۔ ان میں خاص کر عرب کے قدیم مشرکانہ دین، یہودیت، مجوسیت اور مانی ازم کے لوگ نمایاں تھے۔ ان لوگوں نے اس خطرے سے نمٹنے کے لیے اپنے تئیں یہ کوشش کی کہ وہ بظاہر مسلمانوں کے لبادے میں سامنے آئیں اور اسلام سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کریں۔ عربوں میں یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ارتداد کی تحریک پیدا کی اور پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت برپا کی۔ اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں انہی لوگوں نے فتنہ و فساد برپا کیے رکھا۔
🌷پہلی صدی ہجری میں ان میں صرف ایک شخصیت ایسی ہے جو غیر معمولی طور پر نمایاں ہے اور اس کا نام ہے عبداللہ بن سبا۔ اس کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ وہ ایک یہودی خاندان سے تعلق رکھتا تھا اور اس نے خاص کر اسی مقصد کے لیے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اسلام قبول کیا اور عبادت و ریاضت سے اپنا سکہ مسلمانوں پر جمانے کی کوشش کی۔ اس نے مختلف شہروں میں ڈیرہ ڈال کر یہ کوشش کی کہ حکومت وقت کے خلاف ایک باغیانہ تحریک پیدا کر دی جائے اور اس کے لیے اس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نام کو خوب استعمال کیا۔ موجودہ دور کے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ابن سبا کوئی حقیقی نہیں بلکہ محض ایک افسانوی شخصیت تھی۔ اس موضوع پر ہم تفصیل سے آگے گفتگو کریں گے۔
🌷دوسری صدی ہجری میں جب بنو عباس برسر اقتدار آئے تو ان کے ساتھ ایران اور خراسان کے باشندوں کو خاصی پذیرائی حاصل ہوئی۔ ان میں قدیم ایرانی مذاہب کے لوگ بھی شامل تھے۔ انہوں نے پہلی صدی ہجری کی باغی تحریک کے ساتھ تعلق قائم کیے اور ان کے ساتھ مل کر ایسی روایتیں وضع کیں جن کا مقصد ہی یہ تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کردار کو مجروح کر کے ان پر سے امت کا اعتماد اٹھایا جائے۔ چونکہ صحابہ کرام ہی کے ذریعے قرآن اور حدیث امت تک پہنچی ہے، اس وجہ سے ان پر اعتماد اٹھ جانے کا نتیجہ یہ ہوتا کہ لوگوں کا قرآن و حدیث پر ہی اعتماد اٹھ جاتا۔ چنانچہ کثیر تعداد میں روایتیں گھڑی گئیں اور انہیں مسلمانوں میں پھیلایا گیا۔ دوسری صدی کے مورخین کے بارے میں ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ ان کی غالب اکثریت ایسی تھی جو ہر قسم کے رطب و یابس کو قبول کر لیتی تھی۔ انہوں نے ان روایتوں کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور اپنی کتب تاریخ کا حصہ بنا لیا۔ ان سے یہ روایتیں تیسری صدی ہجری کی کتب تاریخ میں آئیں اور وہاں سے بعد کی صدیوں کی کتب تاریخ کا حصہ بن گئیں۔
ایسا نہیں ہے کہ ان لوگوں کا یہ داؤ کامیاب ہو گیا ہو۔ اللہ تعالی نے چونکہ اپنے دین کی حفاظت کرنا تھی، اس وجہ سے اس نے محدثین کی صورت میں اس فتنہ کا سدباب کر دیا۔ انشاء اللہ مسلمانوں کی علمی تاریخ کے ضمن میں ہم تفصیل سے بیان کریں گے کہ اس موقع پر محدثین میں ایک عجیب تحریک پیدا ہوئی اور وہ یہ تھی کہ حدیث کو بیان کرنے والے راویوں کے حالات کا سراغ لگایا جائے اور یہ جاننے کی کوشش کی جائے کہ یہ لوگ کس درجے میں قابل اعتماد تھے۔ اس کے لیے جو غیر معمولی محنت ان محدثین نے کی، اسی کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم اب جانتے ہیں کہ عہد رسالت اور عہد صحابہ سے متعلق معلومات کے قابل اعتماد مآخذ کون سے ہیں اور ناقابل اعتماد کون سے۔ اگرچہ محدثین کا فوکس احادیث کے راویوں پر تھا لیکن انہوں نے اسی کے ضمن میں تاریخی روایات کے راویوں سے متعلق بھی اہم معلومات ہم تک پہنچا دیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں کی روایتیں گھڑنے کے باوجود امت نے بحیثیت مجموعی صحابہ کرام کے بارے میں ان روایات کو قبول نہیں کیا اور آج بھی امت کی غالب اکثریت سبھی صحابہ سے دل و جان سے محبت کرتی ہے۔
3۔ *قبائلی اسباب*
اس کے علاوہ ایک اور فیکٹر بھی ایسا ہے جس کی وجہ سے بعض مخصوص لوگوں کی کردار کشی کی گئی جن میں سے بعض صحابہ ہیں اور بعض تابعین۔ ہم جانتے ہیں کہ مختلف عرب قبائل میں ایک دوسرے دشمنیاں پائی جاتی تھیں۔ ان میں بنو کلاب، بنو طے، بنو ازد، بنو نخع، بنو کندہ وغیرہ وہ قبائل تھے جو عراق کی فتح کے بعد بصرہ اور کوفہ میں جا کر آباد ہو گئے تھے۔ ان کی باہمی چپقلش اسلام کے بعد بھی جاری رہی۔ جب راویوں نے تاریخی روایات بیان کرنا شروع کیں تو انہوں نے قبائلی دشمنی میں اپنے مخالف افراد کے نام مختلف جرائم کے ضمن میں بیان کر دیے۔ حضرت عثمان کی شہادت ہو یا حضرت حسین رضی اللہ عنہما کی، جنگ جمل ہو یا جنگ صفین، سانحہ حرہ ہو یا کوئی اور واقعہ۔۔۔ راویوں نے اپنے مخالف قبائل اور ذیلی قبائل کو بدنام کرنے کے لیے ان کے نام جھوٹ منسوب کیا۔ اس وجہ سے تاریخی روایات کی جانچ پڑتال کرتے ہوئے یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ جس شخص کی کردار کشی کی جا رہی ہے، اس کے قبیلے اور راوی کے قبیلے میں کوئی دشمنی تو نہیں تھی؟ اس کے لیے عرب قبائل کے باہمی تعلقات اور تاریخی شخصیات اور راویوں کے شجرہ نسب کا مطالعہ نہایت اہمیت کا حامل ہے اور اس کے لیے انساب کی کتب سے بہت مدد مل سکتی ہے۔
*تاریخی روایاتاور ان کے راویوں کی چھان بین*
🌷اوپر ہم تفصیل سے بیان کر چکے ہیں کہ تاریخی معلومات کی تحقیق اور تجزیہ کیسے کیا جاتا ہے؟ خاص کر ایسی تاریخی روایات جن سے کوئی بڑا سیاسی یا مذہبی اختلاف پیدا ہو، کی تفصیلی چھان بین کی ضرورت ہوتی ہے اور ماخذ کی تحقیق، داخلی تحقیق، خارجی تحقیق اور تاریخی اسباب کا تجزیہ کے تمام طریقوں کو اختیار کرنا وہاں ضروری ہوجاتا ہے۔ یہ اختلاف عام طور پر انہی روایات میں پایا جاتا ہے جن میں مخصوص صحابہ کرام کی کردار کشی کی گئی ہے۔ اس سیکشن میں ہم دیکھیں گے کہ ان تاریخی روایات کی چھان بین کیسے کی جائے؟
کون سے راویوں نے صحابہ کرام سے جھوٹ منسوب کیا؟
اگر ہم کتب تاریخ کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام اور دیگر شخصیات کی کردار کشی پر مبنی روایات کا 99% حصہ صرف چند افراد سے مروی ہے۔ یہ سب وہ ہیں جو دوسری یا تیسری صدی ہجری کے مشہور “اخباری” ہیں۔ ان میں ابو مخنف لوط بن یحیی ، محمد بن سائب الکلبی، ہشام بن محمد الکلبی، محمد بن عمر الواقدی اور سیف بن عمر التیمی نمایاں ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ اور لوگ بھی ہیں لیکن ان سے مروی ایسی روایات کی تعداد بہت ہی کم ہے۔
ان مورخین کے بارے میں جو پچھلے سلسلوں میں تفصیلات جرح و تعدیل کے ماہرین نے بیان کی ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام کے تمام راوی شدید ضعیف، متعصب اور ناقابل اعتماد تھے۔ ان میں سے اکثر پر یہ الزام ہے کہ جھوٹ گھڑ کر صحابہ کرام کی طرف منسوب کر دیا کرتے تھے۔ فن تاریخ کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ اگر ایک شخص کسی معاملے میں متعصب ہو، تو اس کی بات کو قبول نہیں کیا جاتا ہے۔ یہ تمام حضرات عہد صحابہ کے ساٹھ ستر سال بعد پیدا ہوئے۔ یہ ان واقعات کے چشم دید گواہ نہ تھے بلکہ انہوں نے ادھر ادھر سے روایتیں جمع کر کے اپنی کتابیں مرتب کر لیں جو بعد کی کتب کا حصہ بن گئیں۔ پھر یہ جن راویوں کی بنیاد پر یہ واقعات بیان کرتے ہیں، ان میں سے اکثر کے حالات زندگی معلوم نہیں ہیں اور اس بات کا تعین نہیں کیا جا سکتا ہے کہ وہ راوی قابل اعتماد تھے یا نہیں۔ عین ممکن ہے کہ ان متعصب اخباریوں نے اپنی روایتوں کے متن کی طرح سندیں بھی گھڑ کر ان کے ساتھ لگا لی ہوں۔ چونکہ انہوں نے نامعلوم راویوں کے نام نقل کیے ہیں، اس وجہ سے ہمیں معلوم نہیں کہ وہ راوی بھی قابل اعتماد تھے یا نہیں تھے، یا ان کا کوئی وجود بھی تھا یا نہیں تھا۔
*کیا راویوں کی چھان بین حسن ظن کے قرآنی حکم کی خلاف ورزی نہیں ہے؟*
یہاں پر ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب ہمیں قرآن مجید نے حسن ظن کا حکم دیا ہے تو پھر ان راویوں سے متعلق بھی حسن ظن ہی کیوں نہ رکھا جائے اور ان کی باتوں کو قبول کیوں نہ کیا جائے۔ ؟؟
اس کے جواب کے لیے ایک مثال پر غور کیجیے۔ اگر ہمیں کسی شخص سے کروڑوں کی ڈیل کرنا ہو یا اس کے ساتھ اپنی بچی کا رشتہ کرنا ہو اور ہمارا کوئی قابل اعتماد دوست ہمیں آکر یہ بتائے کہ یہ شخص دراصل بہت بڑا فراڈیا اور دھوکے باز ہے تو کیا ہمیں حسن ظن سے کام لیتے ہوئے اس شخص سے معاملہ کر لینا چاہیے؟
یقینی طور پر ہمیں اس شخص سے حسن ظن تو رکھنا چاہیے مگر اس سے ڈیل میں احتیاط برتنی چاہیے۔ ہم یا تو اس شخص کے بارے میں تحقیقات کریں گے اور اگر تحقیق ممکن نہ ہوئی اور ڈیل کرنے سے اجتناب کریں گے۔ بعینہ یہی معاملہ ان راویوں کے ساتھ بھی کرنا چاہیے کہ ان سے حسن ظن رکھتے ہوئے ان کی روایتوں کو قبول کرنے میں احتیاط برتنا چاہیے۔ یہ احتیاط حسن ظن کے خلاف نہیں ہے۔
سورۃ الحجرات میں جہاں ہمیں حسن ظن کا حکم دیا گیا ہے، وہاں اس بات کا حکم بھی موجود ہے کہ کسی غلط شہرت رکھنے والے کی بات پر قدم اٹھانے سے پہلے اس بات کی تحقیق کر لینا چاہیے۔
🌷ارشاد باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْماً بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ.
اے اہل ایمان! اگر آپ لوگوں کے پاس کوئی فاسق خبر لے آئے تو اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کسی گروہ کو جہالت میں نقصان پہنچا بیٹھیں اور پھر اپنے فعل پر نادم ہوں۔ (الحجرات 49:6)
اب چونکہ ان راویوں کے بارے میں ہمیں نہایت ہی قابل اعتماد اہل علم میں سے ایک دو نہیں بلکہ دسیوں افراد نے بتا دیا ہے کہ یہ متعصب اور جھوٹ گھڑنے والے لوگ ہیں، اس وجہ سے ہمیں چاہیے کہ ان کی بیان کردہ روایات کی چھان بین ضرور کر لیں۔ ہمیں ان راویوں کی ذات سے کوئی دشمنی نہیں رکھنی چاہیے لیکن ان کی بیان کردہ روایات کو قبول کرنے میں احتیاط برتنی چاہیے۔
*ان راویوں سے متعلق معلومات کا ماخذ کیا ہے؟*
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جن ماہرین نے ان مورخین کو غیر مستند قرار دیا ہے، ان کی معلومات کا ماخذ کیا ہے؟انہوں نے کس بنیاد پر ان مورخین کو غیر مستند قرار دیا ہے۔ اس کے لیے ہمیں فن رجال کے ارتقاء کو دیکھنا ہو گا۔
جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں کہ دور جاہلیت ہی سے عربوں میں “فن انساب “کو غیر معمولی حیثیت حاصل تھی اور ان کے ماہرین مختلف قبائل، ان کے خاندانوں اور نمایاں افراد کے حالات کو ریکارڈ کیا کرتے تھے۔ دور جاہلیت میں کتابیں لکھنے کا رجحان نہیں تھا بلکہ ان معلومات کو سینوں میں محفوظ کیا جاتا تھا۔ جو شخص ان معلومات کا بڑا حافظ ہوتا، اسے معاشرے میں نہایت ہی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا کیونکہ یہی قبائلی تاریخ تھی جس کی بنیاد پر اہل عرب اپنے اپنے قبیلے پر فخر کیا کرتے تھے۔ اسلام کے بعد کتابیں تحریر کرنے کا رجحان پیدا ہوا جو کہ دوسری صدی ہجری میں بہت نمایاں ہو گیا۔ اس میں دیگر علوم کی طرح انساب اور طبقات کی کتابیں بھی لکھی جانے لگیں جن میں مختلف افراد کے حالات زندگی اکٹھے کیے جاتے۔ جو لوگ یہ کام کرتے تھے، انہیں افراد یا قبائل سے کوئی ذاتی قسم کا تعلق نہ ہوتا تھا بلکہ وہ نہایت ہی غیر جانبداری سے ان افراد کے حالات زندگی (Biography)مرتب کرتے۔ ممکن ہے کہ کوئی ایک ماہر، کسی ایک شخص کے بارے میں متعصب ہو اور اس کے بارے میں کچھ لکھ دے، لیکن تمام کے تمام ماہرین اس شخص سے تو متعصب نہ ہو سکتے تھے۔
حالات زندگی مرتب کرنے والوں کے ساتھ ساتھ ماہرین کا ایک اور طبقہ بھی تھا جسے “ماہرین جرح و تعدیل” کہا جاتا ہے۔ ان میں یہ لوگ نمایاں ہیں:
· یحیی بن معین (158-233/775-848)
· ابن المدینی (161-234/777-848)
· احمد بن حنبل (164-241/780-855)
· بخاری (194-256/810-870)
· ابو حاتم الرازی (195-277/811-890)
· نسائی (214-303/829-915)
· ابن حبان (270-354/883-965)
· ابن عدی(277-365/890-976)
· دار قطنی (306-385/918-995)
اس فن کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ سے متعلق روایات کی جانچ پڑتال کر کے یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ کون سی روایت مستند ہے اور کون سی نہیں۔ ان حضرات نے اس فن میں مہارت حاصل کی کہ ان لوگوں کے حالات کی جانچ پڑتال کر کے یہ فیصلہ کریں کہ کون سا شخص لائق اعتماد ہے اور کس درجے میں ہے اور کون سا شخص ناقابل اعتماد ہے اور اس کا درجہ کیا ہے؟ ان حضرات نے بارہ درجوں کا ایک اسکیل مرتب کیا جس میں چھ درجات جرح (ناقابل اعتماد ہونا) اور چھ درجات تعدیل (قابل اعتماد ہونا) کے مقرر کیے۔ ان میں سب سے نچلا درجہ “کذاب” کا تھا جس میں انتہائی درجے کا جھوٹا شخص شمار کیا جاتا۔ ابو مخنف، واقدی، سیف بن عمر اور ہشام کلبی کا شمار اسی آخری طبقے میں کیا گیا ہے۔
جرح و تعدیل کے ماہرین نے عالم اسلام کے مختلف شہروں کے سفر کیے اور ان راویوں سے متعلق معلومات اکٹھا کیں۔ یہ حضرات متعدد بنیادوں پر کسی راوی کو ثقہ یا ضعیف یا کذاب قرار دیتے تھے:
· ایک تو اس راوی سے ملنے جلنے والوں سے اس کے حالات معلوم کیے جاتے۔ اگر وہ راوی ان کے زمانے میں زندہ ہوتا تو اس سے مل کر اور اس کے حالات کی جانچ پڑتال کرتے ورنہ ان لوگوں سے رائے لیتے، جو اس شخص کو جانتے تھے۔
· اس راوی کی بیان کردہ روایات کا موازنہ اس کے ہم سبق دیگر راویوں کی بیان کردہ روایات سے کرتےاور اگر یہ دیکھتے کہ اس راوی کی روایات میں فرق ہے تو پھر اس کی مزید چھان بین کر کے اس کے متعلق فیصلہ کرتے۔ مثلاً ایک استاذ کے دس شاگرد ہیں۔ ان میں سے نو تو اپنے استاذ کی روایت کو ایک طرح بیان کرتے ہیں جبکہ دسواں اس سے مختلف بات کرتا ہے۔ اس فرق کی چھان بین کی جاتی اور یہ دیکھا جاتا فرق سنجیدہ نوعیت کا ہے یا معمولی ہے اور کیا یہ شخص کیا ہر روایت میں ایسا کر رہا ہے یا کسی ایک آدھ جگہ اس سے ایسا ہوا ہے۔ جس شخص کی روایات میں انہیں بہت زیادہ فرق ملتا، اس کے فرق کے تناسب سے اس کا درجہ متعین کیا جاتا۔
ان حضرات نے اس فن پر کتابیں لکھیں اور یہ فن مرتب ہوتا چلا گیا۔ آٹھویں صدی ہجری میں اس فن کے ایک بہت بڑے ماہر گزرے جن کا نام ابو الحجاج یوسف المزی (654-742/1256-1341) ہے۔ انہوں نے سابقہ ماہرین کی کتابوں کو ایک انسائیکلو پیڈیا کی شکل میں اکٹھا کر دیا، جس کا نام “تہذیب الکمال” ہے۔ اس انسائیکلو پیڈیا کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی بیروت کے طبع شدہ ایڈیشن کی 35 جلدیں ہیں جن میں سے ہر ایک 500 صفحات پر مشتمل ہے۔ مزی ہی کے ایک شاگرد شمس الدین ذہبی (673-748/1275-1347) نے “میزان الاعتدال” کے نام سے اس کا ایک خلاصہ تیار کیا جو اب پانچ پانچ سو صفحات کی آٹھ جلدوں میں چھپتا ہے۔
ہم نے اس سلسلے میں اسی کو بنیاد بنایا ہے کیونکہ اس میں علم جرح و تعدیل کی سابقہ کتابوں کا خلاصہ آ گیا ہے۔ ذہبی نے ایک اور کتاب بھی لکھی جو “سیر الاعلام النبلا” کے نام سے مشہور ہے۔ اس میں انہوں نے 4300 صفحات میں 6895 مشہور لوگوں کا تذکرہ کیا ہے۔ یہ کتاب بھی ہمارا ماخذ رہی ہے۔
راویوں سے متعلق معلومات کس حد تک مستند ہیں؟
*اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان ماہرین نے جو معلومات مرتب کی ہیں، وہ بذات خود کس درجے میں مستند ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ان ماہرین نے اپنے کسی تعصب کے سبب کسی راوی کو کذاب کہہ دیا ہو۔*
عقلی اعتبار سے ایسا ممکن ہے کہ ایک ماہر کسی شخص سے تعصب کی بنیاد پر اسے کذاب کہہ دے لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ ہر ماہر ہی اسے تعصب کی بنیاد پر کذاب کہے۔ اب یہ تو ممکن نہیں ہے کہ مختلف شہروں اور مختلف زمانوں سے تعلق رکھنے والے ان ماہرین نے مل کر یہ سازش کی ہو کہ چلو فلاں فلاں کو مل کر “کذاب” قرار دے ڈالیں۔ جرح و تعدیل کے ماہرین میں آپس میں اختلاف رائے بھی ہوتا ہے لیکن ہمارے زیر بحث مورخ راویوں کے بارے میں یہ سب کے سب متفق ہیں کہ یہ حضرات قابل اعتماد نہیں ہیں۔
ویسے بھی اگر ہمیں کسی سے رشتہ کرنا ہو یا اس سے کوئی کاروباری ڈیل کرنا ہو اور اس کے بارے میں ہمیں اڑتی اڑتی خبر بھی مل جائے کہ وہ قابل اعتماد نہیں تو ہم یا تو اس سے معاملہ کرنے میں احتیاط کرتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جب ان مورخین کے بارے میں بہت سے ماہرین نے ہمیں یہ بتا دیا کہ یہ ناقابل اعتماد ہیں تو پھر عقل کا تقاضا یہی ہے کہ ان کی روایات کو قبول کرنے میں احتیاط کی جائے۔
*کیا تاریخ پر تحقیق کے لیے علم جرح و تعدیل سے مدد لینا درست ہے؟*
اس سوال کا جواب ہاں میں ہے کیونکہ علم رجال ہی سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ روایات بیان کرنے والے لوگ کس درجے میں قابل اعتماد ہیں۔ علم رجال کی تحقیق وہی چیز ہے جسے اہل مغرب Source Criticism کہتے ہیں۔
امت کی اکثریت کا موقف یہی ہے تاہم بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ علم جرح و تعدیل کو تاریخ پر تحقیق میں استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ یہاں ہم فریقین کے دلائل پیش کر رہے ہیں۔ قارئین خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ کون سا موقف درست ہے۔
علم جرح و تعدیل سے مدد نہ لینے والوں کے دلائل
علم جرح و تعدیل سے مدد نہ لینے والوں کے دلائل یہ ہیں:
بعض حضرات تاریخی روایات کو جانچنے کے لئے اسماءالرجال کی کتابیں کھول کر بیٹھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فلاں فلاں راویوں کو ائمہ رجال نےمجروح قرار دیا ہے، اور فلاں راوی جس وقت کا واقعہ بیان کرتا ہے اس وقت تو وہ بچہ تھا یا پیدا ہی نہیں ہوا تھا، اور فلاں ایک روایت جس کے حوالے سے بیان کرتا ہے اس سے تو وہ ملا ہی نہیں۔ اسی طرح وہ تاریخی روایات پرتنقید حدیث کے اصول استعمال کرتے ہیں اور اس بنا پر اس کو رد کردیتے ہیں کہ فلاں واقعہ سند کے بغیر نقل کیا گیا ہے، اور فلاں روایت کی سند میں انقطاع ہے۔
یہ باتیں کرتے وقت یہ لوگ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ محدثین نے روایات کی جانچ پڑتال کے یہ طریقے دراصل احکامی احادیث کے لیے اختیار کیے ہیں، کیوں کہ ان پر حرام و حلال، فرض و واجب اور مکروہ و مستحب جیسےاہم شرعی امور کا فیصلہ ہوتا ہے اور یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ دین میں کیاچیز سنت اور کیا چیز سنت نہیں ہے . یہ شرائط اگر تاریخی واقعات کے معاملہ میں لگائی جائیں ، تو اسلامی تاریخ کے ادوار ما بعد کا تو سوال ہی کیا ہے، قرن اول کی تاریخ کا بھی کم از کم 9/10 حصہ غیر معتبر قرار پائے گا،اور ہمارے مخالفین ان ہی شرائط کو سامنے رکھ کر ان تمام کارناموں کو ساقط الاعتبار قرار دے دیں گے جن پر ہم فخر کرتے ہیں، کیوں کہ اصول حدیث اور اسماءالرجال کی تنقید کے معیار پر ان کا بیشتر حصہ پورا نہیں اترتا۔ حد یہ ہے کہ سیرت پاک میں بھی مکمل طور پر اس شرط کے ساتھ مرتب نہیں کی جاسکتی کہ ہر روایت ثقات سے ثقات نے متصل سند کے ساتھ بیان کی ہو۔
خاص طور پر واقدی اور سیف بن عمر اور ان جیسے دوسرے راویوں کے متعلق ائمہ جرح و تعدیل کے اقوال نقل کر کے بڑے زور کے ساتھ یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ حدیث ہی نہیں، تاریخ میں بھی ان لوگوں کا کوئی بیان قابل قبول نہیں ہے۔ لیکن جن علماء کی کتابوں سے ائمہ جرح و تعدیل کے یہ اقوال نقل کیے جاتے ہیں، انہوں نے صرف حدیث کے معاملہ میں ان لوگوں کی روایات کو رد کیا ہے۔ رہی تاریخ، مغازی اور سیر، تو انہی علماء نے اپنی کتابوں میں جہاں کہیں ان موضوعات پر کچھ لکھا ہے ، وہاں وہ بکثرت واقعات انہی لوگوں کے حوالہ سے نقل کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر حافظ ابن حجر کو دیکھیے، جن کی ’’تہذیب التہذیب‘‘ سے ائمہ رجال کی یہ جرحیں نقل کی جاتی ہیں۔ وہ اپنی تاریخی تصنیفات ہی میں نہیں بلکہ اپنی شرح بخاری (فتح الباری)
تک میں جب غزوات اور تاریخی واقعات کی تشریح کرتے ہیں تو اس میں جگہ جگہ واقدی اور سیف بن عمر اور ایسے ہی دوسرے مجروح راویوں کے بیانات بے تکلف نقل کرتے چلے جاتے ہیں۔
اسی طرح حافظ ابن کثیر اپنی کتاب ’’البدایہ و النہایہ‘‘ میں خود ابو مخنف کی سخت مذمت کرتے ہیں، اور پھر خود ہی ابن جریر طبری کی تاریخ سے بکثرت وہ واقعات نقل بھی کرتے ہیں، جو انہوں نے اس کے حوالہ سے بیان کیے ہیں۔ اسے صاف معلوم ہوتا ہے کہ علم حدیث کے اکابر علماء نے ہمیشہ تاریخ اور حدیث کے درمیان واضح فرق ملحوظ رکھا ہے اور ان دونوں کو خلط ملط کر کے وہ ایک چیز پر تنقید کے وہ اصول استعمال نہیں کرتے جو درحقیقت دوسری چیز کے لیے وضع کیے گئے تھے۔ یہ طرز عمل صرف محدثین ہی کا نہیں، اکابر فقہاء تک کا ہے جو روایات کو قبول کرنے میں اور بھی زیادہ سختی برتتے ہیں۔ مثال کے طور پر امام شافعی ایک طرف واقدی کو سخت کذاب کہتے ہیں اور دوسری طرف کتاب الام میں غزوات کے متعلق اس کی روایات سے استدلال بھی کرتے ہیں۔
اس کے یہ معنی بھی نہیں ہیں کہ یہ لوگ ان مجروح راویوں کے تمام بیانات کو آنکھیں بند کر کے قبول کرتے چلے گئے ہیں۔ دراصل انہوں نے نہ ان لوگوں کے تمام بیانات کو رد کیا ہے اور نہ سب کو قبول کر لیا ہے۔ وہ ان میں سے چھانٹ چھانٹ کر صرف وہ چیزیں لیتے ہیں، جو ان کے نزدیک نقل کرنے کے قابل ہوتی ہیں، جن کی تائید میں بہت سا دوسرا تاریخی مواد بھی ان کے سامنے ہوتا ہے، اور جن میں سلسلہ واقعات کے ساتھ مناسبت بھی پائی جاتی ہے۔ اس لیے کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ ابن سعد، ابن عبد البر، ابن کثیر، ابن جریر، ابن اثیر، ابن حجر اور ان جیسے دوسرے ثقہ علماء نے اپنی کتابوں میں جو حالات مجروح راویوں سے نقل کیے ہیں، انہیں رد کر دیا جائے۔ یا جو باتیں ضعیف یا منقطع سندوں سے لی ہیں، یا بلا سند بیان کی ہیں، ان کے متعلق یہ رائے قائم کر لی جائے کہ وہ بالکل بے سر وپا ہیں، محض گپ ہیں اور انہیں بس اٹھا کر پھینک ہی دینا چاہیے،
(سید ابو الاعلی مودودی۔
خلافت و ملوکیت۔ حدیث و تاریخ کا فرق۔ ص 302-304)
*علم جرح و تعدیل سے مدد لینے کے قائلین کے دلائل*
عام اہل علم کا موقف یہ ہے کہ علم جرح و تعدیل کا استعمال جیسے حدیث کی چھان بین کے لیے ہوتا ہے، ویسے ہی تاریخ پر بھی کیا جانا چاہیے۔ علم تاریخ میں ماخذ کی تحقیق (Source Criticism) ایک مسلمہ اصول ہے اور سبھی ممالک کے مورخین اس پر عمل کرتے ہیں۔ یہ بات تو مانی جا سکتی ہے ہے کہ عام سے معاملات میں ماخذ کی تحقیق کی ضرورت نہیں ہے لیکن جن روایات کی بنیاد پر امت میں فرقے بنے ہوئے ہوں، تاریخ ہی نہیں بلکہ عقائد میں بھی اختلاف پیدا ہوا ہو اور جن کی بنیاد پر ماضی کے کسی انسان کے کردار پر انگلی اٹھائی گئی ہو، ان کے معاملے میں تو ضروری ہے کہ علم رجال کی بنیاد پر پوری طرح چھان بین کے بعد ہی کسی بات کو قبول یا مسترد کیا جائے۔ اس کی وضاحت ہم ایک مثال کے ذریعے کرتے ہیں۔
فرض کیجیے کہ ایک بڑے دینی عالم کے بارے میں یہ بات معلوم و معروف ہے کہ مالی امور میں وہ ایک دیانت دار شخص تھے۔ ان کی دیانت داری کے واقعات مشہور و معروف ہیں اور اس معاملے میں ان کے کردار پر ان کے کسی دشمن نے بھی کبھی اعتراض نہیں کیا ہے۔ یہ عالم 1950میں وفات پا جاتے ہیں۔ ایک ایسا شخص جو بالفرض 1965 میں پیدا ہوتا ہے اور اس کے بارے میں یہ بات مشہور و معروف ہے کہ وہ کسی مذہب دشمن سیاسی جماعت سے تعلق رکھتا ہے، دینی شخصیات کے بارے میں متعصب ہے اور ان کے متعلق جھوٹا پراپیگنڈا کرتا ہے۔ اب یہ شخص کوئی ایسا واقعہ بیان کرے جس کے مطابق وہ عالم اپنے مدرسے کے فنڈ میں کرپشن کرتے تھے تو کیا ہمیں اس شخص کی بیان کر دہ روایت کو آنکھیں بند کر کے قبول کر لینا چاہیے؟
یقیناً ہمارا جواب نفی میں ہو گا۔ سب سے پہلے تو ہم اس روایت کو اسی بنیاد پر مسترد کر دیں گے کہ اس کو بیان کرنے والا خود قابل اعتماد نہیں ہے اور وہ دینی شخصیات سے متعلق جھوٹا پراپیگنڈا کرتا ہے۔ پھر اس سے یہ پوچھا جائے گا کہ وہ تو ان عالم کی وفات کے 15سال بعد پیدا ہوا، وہ اس واقعے کا عینی شاہد تو ہو نہیں سکتا۔ اس نے یہ بات کس سے سنی ہے؟ اگر وہ شخص کسی کا نام نہ بتا سکے تو یہی کہا جائے گا کہ اس نے جو روایت بیان کی ہے، اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اگر وہ کسی دوسرے شخص کا نام بتا دے تو اس شخص کے بارے میں بھی لازماً تجزیہ کیا جائے گا کہ وہ شخص کون ہے؟ اس کے حالات کیا تھے؟ کیا وہ کسی کے بارے میں متعصب تھا یا نہیں؟ کیا وہ کسی سیاسی جماعت کے پراپیگنڈا ونگ میں شامل تو نہیں تھا؟ یہ سب باتیں دیکھی جائیں گی اور تب ہی یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ یہ واقعہ درست ہو سکتا ہے یا نہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ اگر جرح و تعدیل کو تاریخ میں استعمال نہ کرنے کے قائلین میں سے کسی شخص کے استاذ یا والدین کے بارے میں کوئی کرپشن یا بدکاری یا اسی نوعیت کا کوئی گھناؤنا الزام عائد کر دے تو یہ حضرات لازماً انہی اصولوں پر عمل کا مشورہ دیں گے۔ اگر موجودہ دور کی کسی شخصیت کا یہ معاملہ ہے تو پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں متعصب لوگوں اور ان کی مخالف جماعتوں کے پراپیگنڈا ونگ کے لوگوں کے بارے میں اس سے بڑھ کر ہی احتیاط کرنی چاہیے۔
یہ بات کہ “قرن اول کی تاریخ کا بھی کم از کم 9/10حصہ غیر معتبر قرار پائے گا،اور ہمارے مخالفین ان ہی شرائط کو سامنے رکھ کر ان تمام کارناموں کو ساقط الاعتبار قرار دے دیں گے جن پر ہم فخر کرتے ہیں، کیوں کہ اصول حدیث اور اسماءالرجال کی تنقید کے معیار پر ان کا بیشتر حصہ پورا نہیں اترتا۔” بھی درست نہیں ہے۔ قرن اول میں سے عہد رسالت کی تاریخ کا بڑا حصہ قرآن مجید اور صحیح احادیث میں بیان ہوا ہے ۔ عہد صحابہ کی تاریخ کے بڑے بڑے واقعات، جن میں ان کے تمام مثبت کارنامے شامل ہیں، پورے تواتر سے ہم تک منتقل ہوئے ہیں اور ان کے بارے میں کوئی غیر مسلم مورخ بھی انکار نہیں کر سکتا ہے۔ یہ کوئی ایک دو روایتیں نہیں بلکہ ہزارہا روایتیں ہیں جو مل کر کم از کم معنوی حد تک حد تواتر تک پہنچتی ہیں۔ اگر کوئی شخص ان کا انکار کرنا چاہے تو وہ دن میں سورج کی موجودگی کا انکار بھی کر سکتا ہے اور یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ زمین پر ہوا اور پانی موجود نہیں ہیں۔
یہ بات بھی درست نہیں ہے کہ طبری، ابن اثیر، ابن حجر اور ابن کثیر جیسے محقق علماء نے واقدی اور ابو مخنف وغیرہ کی تمام روایتوں کو قبول کیا ہے۔ ان حضرات نے عام سے معاملات میں ان لوگوں کی روایتوں کو قبول کیا ہے لیکن جہاں صحابہ کرام کی کردار کشی جیسا حساس معاملہ ہے، وہاں ان پر تنقید کی ہے۔ اوپر آپ طبری، ابن اثیر اور ابن کثیر کے اقتباسات پڑھ ہی چکے ہیں کہ انہوں نے اپنی کتب کے متعلق خود یہ کہہ دیا ہے کہ ہم نے بات کو محض نقل کیا ہے ، اس کے صحیح ہونے یا نہ ہونے کی ذمہ داری اس شخص پر ہے جس کا ہم نے حوالہ دیا ہے۔
*کیا ان ناقابل اعتماد راویوں کی تمام روایتوں کو رد کر دیا جائے؟*
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم ان ناقابل اعتماد راویوں کی تمام روایتوں کو رد کردیں کیونکہ اگر ہم ایسا کریں گے تو پھر عہد صحابہ کی تاریخ کا 90% حصہ ضائع ہو جائے گا اور ہمیں اس ضمن میں کچھ بھی علم نہ ہو سکے گا۔ اول تو یہ دعوی ہی درست نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہماری تاریخ انہی چند راویوں کی مرہون منت ہے۔ طبری میں ان چار پانچ افراد یعنی واقدی، سیف بن عمر، ابو مخنف اور ہشام کلبی کی روایتوں کو اکٹھا کر لیا جائے تو یہ 90% نہیں بلکہ کافی کم بنتا ہے۔ ڈاکٹر خالد کبیر علال نے ان راویوں کی کل روایات کی تعداد 1819 گنوائی ہے،
(خالد کبیر علال۔
مدرسۃ الکذابین فی روایۃ التاریخ الاسلامی و تدوینہ۔ 115۔ الجزائر: دار البلاغ)
جو کہ طبری کی روایات کا 90% بہرحال نہیں ہے۔ پھر ان چاروں راویوں کی تمام کی تمام روایتوں کو دریا برد کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ صرف انہی روایتوں پر تنقید کی جائے گی جن میں انہوں نے خاص طور پر حقائق کو مسخ کرتے ہوئے صحابہ کرام کی کردار کشی کی کوشش کی ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ عام تاریخی واقعات میں انہیں کوئی گڑبڑ کرنے کی ضرورت نہ تھی، لیکن جن معاملات میں یہ متعصب تھے، ان میں انہوں نے حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہم اپنی زندگیوں میں یہ دیکھتے ہیں کہ لوگ عام طور پر جھوٹ نہیں بولتے لیکن جہاں معاملہ ان کے مفادات یا تعصبات کا آ جائے، وہاں پھر وہ جھوٹ سے کام لیتے ہیں۔ یہی معاملہ ان متعصب راویوں کا ہے کہ جہاں انہیں تعصب کا مرض لاحق ہوا، وہاں انہوں نے جھوٹی روایت گھڑی یا سچی روایت میں جعلی جملے داخل کر دیے لیکن جہاں تعصب کا معاملہ نہیں تھا، وہاں انہیں بھی جھوٹ بولنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔
تاریخی روایات میں ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے بعض واقعات تو پورے کے پورے خود گھڑے ہیں لیکن اکثر مشہور تاریخی روایات کے ضمن میں ایک آدھ ایسے جملے یا پیرا گراف کا اضافہ کر دیا ہے کہ جس سے وہ اپنا مقصد حاصل کر سکیں۔ مثلاً حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے انتخاب کا واقعہ مشہور ہے۔ اسے بالعموم یہ ٹھیک بیان کرتے ہیں لیکن بیچ بیچ میں کوئی ایک آدھ لفظ یا جملہ ایسا لگا جاتے ہیں، جس سے ان کا مقصد پورا ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس مثلاً جنگ صفین اور سانحہ کربلا کے واقعات میں پوری پوری جعلی روایتیں موجود ہیں۔ اس وجہ سے لازم ہے کہ ہم ان چاروں راویوں اور ان کے دیگر ساتھیوں کی ان روایات پر قبول نہ کریں جن میں صحابہ کی کردارکشی کی گئی ہو۔ ہاں عام واقعات جن میں ایسا نہ ہو، کو قبول کرنے میں حرج نہیں ہے۔ تاہم اگر کوئی بہت محتاط ہو اور وہ ان راویوں کی کسی روایت کو بھی قبول نہ کرے، تو اس کا طرز عمل بھی ٹھیک ہے اور اس کے طریقہ کار پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا ہے، مگر پھر وہ تفصیلی تاریخ مرتب نہ کر سکے گا۔
ہم اپنے زمانے میں بھی دیکھتے ہیں کہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ روزانہ اخبار میں بے شمار ایسے واقعات کا ذکر ہوتا ہے جو عام نوعیت کے ہوتے ہیں جیسے کہیں کوئی حادثہ پیش آیا، یا کسی نے غرباء کی مدد کی یا کسی ملک میں جنگ چھڑ گئی یا کہیں سیلاب آ گیا۔ اس معاملے میں کسی راوی کو جھوٹ بولنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ہے، اس وجہ سے ان کے بارے میں کوئی تردد نہیں کرتا ہے کہ خبر کی جانچ پڑتال کرے۔ انہیں عام طور پر درست تسلیم کر لیا جاتا ہے اور اگر ان کی تردید اگلے چند روز میں شائع نہ ہو تو یہ مسلمہ حیثیت اختیار کر جاتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر اخبار میں کسی ایسے شخص کے بارے میں خبر چھپے، جس کا اعلی کردار معلوم و معروف ہو۔ مثلاً عبد الستار ایدھی صاحب یا مدر ٹریسا صاحبہ کے بارے میں کوئی شخص بے ہودہ قسم کے الزامات عائد کرے تو ہر شخص چونک اٹھے گا اور یہ جاننے کی کوشش کرے گا کہ اخبار کو یہ خبر کہاں سے ملی ہے۔ پھر اس تحقیق میں یہ معلوم ہو کہ یہ خبر کسی ایسے رپورٹر نے لگوائی ہے، جو ان شخصیات سے کسی وجہ سے تعصب رکھتا ہے، تو پھر ہر معقول شخص کا فیصلہ یہی ہو گا کہ یہ خبر جھوٹ ہے۔ ہاں، جو شخص کسی وجہ سے ان شخصیات کے بارے میں متعصب ہو، وہ ہٹ دھرمی کا راستہ اختیار کرے گا اور اس خبر کے درست ہونے پر اصرار کرے گا۔
اس طریق کار پر ایک سوال مزید وارد ہوتا ہے کہ کیا یہ طرز عمل “میٹھا میٹھا ہپ ہپ ، کڑوا کڑوا تھو تھو” کے مترادف نہیں ہے اور کیا اسے دوغلی پالیسی نہیں کہا جائے گا؟
اس کے جواب کے لیے ہم ایک اور مثال سے وضاحت کرتے ہیں۔ فرض کیجیے کہ کوئی ایسا شخص ، جس کا اپنا کیریکٹر مشکوک ہو، ہمیں آ کر یہ بتائے کہ ہمارے دادا نے فلاں وقت فلاں شہر کا سفر کیا تھا اور اس وقت انہوں نے اس شخص کو سو روپے دے کر اس کی مدد کی تھی۔ ہمیں معلوم ہو کہ ہمارے دادا نیک آدمی تھے اور ہر ضرورت مند کی مدد کرتے تھے اور سفر بھی کرتے رہتے تھے۔ کیا اس بات پر یقین کرنے میں ہمیں کوئی تردد ہو گا؟ اس کے برعکس اگر وہ آ کر یہ کہے کہ جناب آپ کے دادا رشوت لیتے تھے، یا انہوں نے کسی طوائف سے ناجائز تعلقات قائم کیے تھے ، یا وہ خود کسی طوائف کی اولاد تھے۔ کیا اس شخص کی بات پر ہم فوراً ایمان لے آئیں گے؟ اول تو ہم فوراً ہی اس کی بات کی تردید کریں گے۔ اگر وہ اپنے دعوی کے حق میں کوئی ثبوت پیش کرے گا تو اس کی ہر ممکن جانچ پڑتال کی کوشش کریں گے اور جب تک آخری درجے میں ٹھوس ثبوت نہ ملیں گے، اس وقت تک اس کی بات کا اعتبار نہ کریں گے۔
بالکل اسی طرح عام تاریخی روایات جن میں عام سے واقعات ہوں اور کوئی اختلافی بات نہ ہو، ایک ناقابل اعتماد راوی سے بھی قبول کی جا سکتی ہے لیکن اختلافی امور میں، خاص کر جب اس شخص کی روایت دیگر صحیح روایتوں کے خلاف ہو، کو رد کرنا لازم ہے۔ اس کو ایک اور مثال سے سمجھیے۔ ہمارے دور میں اکثر صحافی کسی نہ کسی سیاسی پارٹی کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں۔ جب وہ کچھ لکھتے ہیں تو اپنی پارٹیوں کی حمایت کرتے ہیں اور مخالف پارٹیوں کی کردار کشی کرتے ہیں۔ کچھ صحافی ایسا کھلے عام کرتے ہیں اور کچھ ذرا فنکاری کے ساتھ ڈھکے چھپے انداز میں لکھتے ہیں۔ ایسا کرنے پر انہیں اپنی اپنی پارٹیوں کی جانب سے پیسہ ملتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کی ایسی تحریروں کا کوئی اعتبار نہ کیا جائے گا لیکن اگر یہی صحافی کسی ایسے معاملے میں کچھ بیان کریں جس کا کوئی تعلق اس پارٹی بازی سے نہ ہو، مثلاً سماجی نوعیت کا کوئی آرٹیکل لکھیں، یا دنیا کے کسی اور ملک کے بارے میں کچھ لکھیں تو اس کا اعتبار کر لیا جاتا ہے۔
*یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان متعصب راویوں کی عام باتوں کو بھی کیوں لیا جائے۔ چونکہ یہ معلوم ہے کہ وہ جھوٹ گھڑتے تھے، تو پھر ان کی تمام کی تمام روایات ہی کو دریا برد کیوں نہ کر دیا جائے؟*
آئیڈیل تو یہی ہے کہ ایسا ہی ہونا چاہیے لیکن اس میں ایک عملی مسئلہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر ان راویوں کی تمام روایتوں کو اٹھا کر پھینک دیا جائے تو پھر تاریخی کتب میں جزوی تفصیلات نہ مل سکیں گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہی وہ لوگ تھے جنہیں تاریخ میں دلچسپی تھی اور انہوں نے اس سے متعلق ہر قسم کی رطب و یابس روایتیں اکٹھی کیں۔ اس زمانے تو کیا، خود ہمارے دور کے بارے میں بھی یہی حال ہے۔ اگر کوئی شخص ہمارے زمانے کی تاریخ لکھنے بیٹھے اور یہ اصول طے کر لے کہ کسی بھی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھنے والے کسی بھی صحافی کی بیان کردہ کوئی بھی رپورٹ قبول نہیں کی جائے گی تو وہ تاریخ لکھ ہی نہ سکے گا کیونکہ شاید ہی کوئی ایسا صحافی ہو گا جس کا تعلق کسی بھی پارٹی سے نہ ہو۔ اس وجہ سے درست اصول یہی ہے کہ ان راویوں کی عام روایتیں قبول کر لی جائیں لیکن جس معاملے میں یہ متعصب ہوں، اس معاملے میں ان کی روایات کو قبول نہ کیا جائے۔ اگر کوئی ایسا شخص مل جائے جو بالکل ہی غیر جانبدار ہو تو پھر اس کی بات کو باقی سب پر یقیناً ترجیح دی جائے گی۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ مذکورہ چار جھوٹے راویوں کی روایتیں بھی بہت زیادہ نہیں ہیں اور مخصوص واقعات ہی میں ان کی روایات زیادہ ملتی ہیں۔
یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی راوی کسی شخص کے بارے میں متعصب ہے لیکن وہ ایسی روایت پیش کرتا ہے جو اس کے اپنے تعصبات کے خلاف ہے تو کیا اس روایت کو قبول کیا جائے؟ اس سوال کا جواب ہاں میں ہے۔ ہمارے زمانے میں ایک شخص مثلاً پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتا ہو اور کوئی ایسی بات کہے جو مسلم لیگ کے حق میں ہو، یا پیپلز پارٹی کے خلاف ہو، تو اسے تسلیم کر لیا جاتا ہے کہ یہ گھر کی گواہی ہے۔ اسی طرح مسلم لیگ کے لوگوں کی ایسی بات جو ان کے خلاف اور پیپلز پارٹی کے حق میں ہو، تسلیم کرنے میں کسی کو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ بالکل اسی طرح ابو مخنف، سیف بن عمر، ہشام کلبی اور اس نوعیت کے دیگر راویوں کی جو روایتیں صحابہ کرام کے حق میں ہوں ، انہیں قبول کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں ہے۔
*مورخین نے ناقابل اعتماد روایتیں اپنی کتب میں درج کیوں کی تھیں؟*
ایک عام طالب علم کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ متعصب راویوں کی یہ روایتیں مورخین نے اپنی کتابوں میں درج ہی کیوں کیں اور انہیں اٹھا کر باہر کیوں نہ پھینک دیا؟ کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ مورخین ، ان متعصب راویوں پر اعتماد کرتے تھے؟ اس سوال کا جواب ہم اوپر دے چکے ہیں تاہم اس کے اہم پہلو یہاں دوبارہ بیان کر رہے ہیں۔
یہ سوال اصل میں اس دور کے علمی مزاج اور ماحول سے لاعلمی کی بنیاد پر پیدا ہوتا ہے۔ اس ماحول کی تفصیل ہم پہلے بیان کر چکے ہیں۔ تاریخ کے جو اولین مآخذ ہمیں دستیاب ہیں، یہ بالعموم تیسری صدی ہجری میں لکھے گئے ہیں جب دور صحابہ کی تاریخ کو دو سو برس سے زائد کا عرصہ گزر چکا تھا۔ جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ دوسری صدی کے نصف تک مسلم دنیا میں کاغذ کمیاب تھا، اس وجہ سے کتابیں لکھنے کر پھیلانے کا رواج نہیں تھا بلکہ جو لوگ لکھتے تھے، اس کی حیثیت ان کی ذاتی ڈائری کی سی ہوا کرتی تھی۔ جب مسلمانوں نے140/757 کے لگ بھگ چینیوں سے کاغذ بنانے کا فن سیکھا تو ان کے ہاں کتابیں لکھنے کے عمل کا آغاز ہوا اور تیسری صدی ہجری کے اوائل اور نصف میں جب کتابیں بڑے پیمانے پر لکھی جانے لگیں تو ان کا اسلوب وہی تھا جو اس سے پہلے زبانی روایت کا چلا آ رہا تھا۔ سب سے پہلے تو ضرورت اس امر کی محسوس ہوئی کہ جو کچھ علم اب تک زبانی یا ذاتی ڈائریوں کی صورت میں چلا آ رہا ہے، اسے مرتب کر لیا جائے۔ چنانچہ تفسیر، حدیث، فقہ، تاریخ، ادب، شاعری، فلسفہ غرض ہر علم میں جو کچھ دستیاب تھا، اسے لکھا جانے لگا۔ حدیث اور تاریخ کے میدان میں پہلے مرحلے پر ان روایات کو اکٹھا کیا گیا۔ اہل علم کا فوکس یہ تھا کہ علم کو مرتب کیا جائے، صحیح و غلط کو بعد میں اگلے مرحلے پر دیکھ لیا جائے گا۔ یہ مرحلہ دوسری صدی کے آخر سے شروع ہو کر پانچویں صدی کے آخر تک جاری رہا اور اس عمل میں تین سو سال لگے۔ روایات پر تنقید اور چھان بین کے عمل کا آغاز تیسری صدی ہجری کے نصف سے شروع ہوا اور اب تک جاری ہے۔ اس دور کے ناقدین نے اپنی ترجیحات یہ متعین کیں کہ جن روایات میں کوئی دینی مسئلہ ہو، ان کی چھان بین پہلے کر لی جائے۔ تاریخی روایات کی جانچ پڑتال کا معاملہ کچھ دیر سے شروع ہوا۔
یہ بات ہم جانتے ہیں کہ کوئی مصنف جب کتاب لکھتا ہے تو وہ اپنے زمانے کے لوگوں کی علمی اور ذہنی سطح ہی کو مدنظر رکھتے ہوئے لکھتا ہے۔ آج بھی جو کتابیں لکھی جاتی ہیں،
وہ زیادہ سے زیادہ اگلے پچاس سو برس کے قارئین کی علمی و ذہنی سطح کو ہی مدنظر رکھ سکتے ہیں۔ ابن سعد، طبری اور بلاذری وغیرہ نے بھی جب کتب لکھیں تو ان کے پیش نظر ہم لوگ نہیں تھے بلکہ ان کے اپنے دور کے قارئین تھے۔ یہ لوگ پہلی دو صدیوں کے کم از کم مشہور راویوں سے اچھی طرح واقف تھے۔ اگر ان کے سامنے مثلاً واقدی یا ابو مخنف کی کوئی روایت پیش کی جاتی تو وہ جانتے تھے کہ واقدی اور ابو مخنف کا علمی مقام کیا ہے اور ان کی روایتوں پر کس درجے میں اعتبار کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح سے وہ بآسانی یہ معلوم کر لیتے کہ قابل اعتماد روایت کون سی ہے اور ناقابل اعتماد کون سی۔ یہی وجہ ہے کہ مورخین نے ان کی روایتوں کو درج کر دیا کیونکہ ان کے سامنے اپنے دور کے لوگ تھے جو صحیح اور ضعیف روایتوں میں فرق کر سکتے تھے۔
اصل میں یہ بعد کے ادوار کے مورخین کی غلطی ہے کہ انہوں نے مکھی پر مکھی مارتے ہوئے سابقہ مورخین کی بیان کردہ روایتوں کو آنکھیں بند کر کے قبول کیا اور پھر سند کے بغیر اپنی کتب میں درج کر لیا۔ ان کا کام یہ تھا کہ قدیم مورخین کی بیان کردہ روایتوں کی چھان بین کر کے اپنی کتب لکھتے لیکن روایت پرستی کی وجہ سے انہوں نے ایسا نہ کیا۔
تاہم محقق مورخین جیسے ابن کثیر (701-774/1301-1372) اور ابن خلدون (732-808/1332-1405) نے روایتوں پر تنقید بھی کی ہے لیکن ان حضرات نے بھی ہر اہم مقام پر ایسا نہیں کیا ہے بلکہ بعض مخصوص مواقع پر ہی ایسا کیا ہے۔ اس کی وجہ بھی شاید یہ رہی ہو گی کہ تاریخ کے جو معاملات ان کے زمانے میں اہمیت اختیار کر گئے، انہوں نے ان پر تاریخی تنقید کے اصول استعمال کیے لیکن جو معاملات ان کے زمانے میں زیادہ اہم نہیں سمجھے گئے، وہاں انہوں نے تحقیق کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ ہمارا بھی معاملہ یہی ہے کہ ہم انہی مسائل پر زیادہ گہرائی میں تحقیق کرتے ہیں جو ہمارے زمانے میں ہاٹ ایشوز بن جاتے ہیں اور دیگر معاملات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
*کیا ایک روایت کا متعدد کتب میں پایا جانا اس کے مستند ہونے کی دلیل ہے؟*
اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ مورخین نے روایتوں کو ایک دوسرے سے نقل کیا ہے۔ ایک مورخ اگر دوسرے مورخ سے کوئی روایت نقل کرتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ روایت میں کوئی اضافی مضبوطی پیدا ہو جاتی ہے۔ بعد کی کڑیوں میں جتنے مرضی لوگ روایت کرتے رہیں، اس سے فرق نہیں پڑتا۔ اصل بات یہ ہوتی ہے کہ واقعے کے عینی شاہدین کی تعداد کیا ہے؟ اس کی وضاحت ہم ایک مثال سے کرتے ہیں۔ ہم اپنے دور میں دیکھتے ہیں کہ کوئی مشہور آدمی قتل ہو گیا ہے۔ کوئی شخص یہ بیان کر دیتا ہے کہ اسے فلاں نے قتل کیا ہے۔ اس سے سن کر دس آدمی یہ بیان کرتے ہیں کہ فلاں نے فلاں کو قتل کیا ہے۔ پھر ان دس سے سن کر سو اور سو سے سن کر ہزار آدمی یہی بات بیان کرتے ہیں۔ عدالت میں ان سب کی گواہی صرف ایک ہی شخص کی مانی جائے گی کیونکہ اصل عینی شاہد ایک ہے۔ اگر وہ عینی شاہد قابل اعتماد نہیں ہے تو عدالت اس کی گواہی پر فیصلہ نہیں کر سکتی ہے۔
مثلاً اگر راوی A نے کوئی بات دو افراد A1, A2 سے بیان کی۔A1نے وہ بات آگے دو مزید افراد A1.1 A1.2 سے کہی اور پھر A1.2 نے اسے مزید دو افراد A1.2.1 اور A1.2.2 سے کہہ دی۔
اسی طرح دوسرے شخص A2 نے اس بات کو زیادہ پھیلایا اور چار افراد تک یہی بات پہنچا دی اور انہوں نے آگے اس بات کو پہنچا دیا۔
اگرچہ تیرہ افراد اس بات کو کہہ رہے ہیں لیکن درحقیقت یہ بات ایک ہی شخص A کی کہی ہوئی بات ہے۔
اگر یہی شخص A قابل اعتماد نہیں ہے تو بات بھی قبول نہیں کی جائے گی۔ جعلی تاریخی روایات میں یہ چیز عام ہے کہ کسی واقعے کو بیان کرنے والا ایک ہی شخص ہوتا ہے جس کا اپنا چال چلن مشکوک ہوتا ہے۔
واقعے سے متعلق ان شہادتوں کی ایک اور شکل ہو سکتی ہے جیسے بظاہر ایک واقعے کو چار افراد W, X, Y, Z بیان کر رہے ہیں اور دعوی موجود ہے کہ وہ عینی شاہد ہیں۔ لیکن ان چاروں کی بات کو صرف اور صرف ایک شخص A بیان کر کے آگے پھیلا رہا ہے۔ اس وجہ سے پوری بات کے مستند ہونے کا دار و مدار اسی ایک شخص پر ہے۔ اگر یہ شخص جھوٹ بولتا ہو تو ممکن ہے کہ اپنے سے پہلے دس بیس پچاس عینی شاہد پیدا کر لے۔ جعلی تاریخی روایات میں بالعموم یہی معاملہ ہے۔ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ ایک روایت کو کئی مورخین بیان کرتے ہیں لیکن اس کی سند کسی ایک شخص جیسے ابو مخنف یا واقدی پر پہنچ کر یہی شکل اختیار کر لیتی ہے جو ہم نے اوپر بیان کی ہے۔ اس کے بعد یہی شخص اپنے اوپر کے بہت سے راوی پیدا کر لیتا ہے۔
*ہمارا یہ سلسلہ جانبدارانہ کیوں ہے؟*
اس سلسلے پر یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ آپ نے اس میں جگہ جگہ تعصب کی مذمت کی ہے اور قارئین کو غیر متعصبانہ رویہ اختیار کرنے کی تلقین کی ہے۔ دوسری جانب آپ نے صحابہ کرام کے حق میں جانب داری کا مظاہرہ کیا ہے اور ان تمام روایات کو مسترد کر دیا ہے جن میں ان کے خلاف کوئی بات جاتی ہو اور ان روایات کو قبول کیا ہے جن میں کوئی بات ان کے حق میں جاتی ہو۔ کیا یہ دوغلی پالیسی اور تعصب نہیں ہے؟
اس کے جواب میں ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ ہم ہرگز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حق میں بھی متعصب نہیں ہیں۔ ان سے متعلق جو معلومات ہمیں قرآن، حدیث اور تاریخی روایات کی صورت میں ملتی ہیں، اس کے دو حصے ہیں:
قرآن مجید اور صحیح احادیث سے تو ان کی جو تصویر سامنے آتی ہے ، وہ یہ ہے کہ یہ حضرات انسانی اخلاق کے اعلی ترین مرتبہ پر فائز تھے۔ اسلام دشمن کفار کے مقابلے میں یہ سخت تھے اور آپس میں ایک دوسرے کے لیے سراپا رحمت تھے۔ تاریخی روایات کا بڑا حصہ بھی ان کی یہی تصویر پیش کرتا ہے اور اس کی مثالیں ہم اس سلسلے کے شروع میں پیش کر چکے ہیں اور مزید مثالیں آگے آ رہی ہیں۔ اس کے برعکس تاریخی روایات کا ایک قلیل حصہ، جس کے راوی ہشام کلبی، ابو مخنف، واقدی اور سیف بن عمر ہیں، اس کے برعکس یہ تصویر پیش کرتا ہے کہ بعض صحابہ آپس میں ایک دوسرے سے بغض رکھتے تھے اور انسانی اخلاق کے پست ترین مرتبہ پر فائز تھے۔ ان چاروں مورخین کے بارے میں یہ بات ائمہ فن نے بیان کر دی ہے کہ یہ مورخین جھوٹ گھڑ کر پھیلایا کرتے تھے۔
تاریخی تحقیق کے مسلمہ اصول جن پر اہل مغرب اور اہل مشرق سبھی کا اتفاق ہے، یہ ہیں:
· کسی شخص یا گروہ کےبارے میں ایسی منفی بات جو اس کے تعصب رکھنے والے بیان کرتے ہوں، قابل قبول نہ ہو گی۔
· کسی شخص یا گروہ کے بارے میں ایسی بات، جو اس کے مجموعی کردار سے مطابقت نہ رکھتی ہو، قابل قبول نہ ہو گی۔
ہم نے اس کے سوا اور کچھ نہیں کیا کہ ان اصولوں کا بے لاگ اطلاق کرتے ہوئے مذکورہ بالا مورخین کی ان روایات کو، جو ان اصولوں سے مطابقت نہ رکھتی ہوں، مسترد کر دیا ہے۔ کیا اس رویے کو جانبداری اور تعصب کہا جا سکتا ہے؟ اب اگر اسے کوئی بھی شخص صحابہ کرام کے حق میں تعصب کہتا ہے، تو وہ کہہ لے لیکن تاریخ کے غیر جانبدار ماہرین ایسا ہرگز نہ کہیں گے۔ غیر مسلم ماہرین تحقیق سے اس سلسلے میں رائے لی جا سکتی ہے کیونکہ مسلمانوں کے اندرونی اختلافات سے انہیں تو کوئی سرو کار نہ ہو گا۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں بعض لوگ یہ رویہ اختیار کرتے ہیں کہ کسی ایک کے حق میں اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ اس سے دوسرے صحابہ کی تنقیص ہوتی ہے۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ اس رویے سے بچتے ہوئے تمام صحابہ کا یکساں احترام کریں۔ اگر ان کے درجات میں فرق ہے تو وہ اللہ تعالی کے ہاں ہو گا۔ ہمارے لیے یہ سب سروں کے تاج ہیں۔
*مثبت روایات کی تحقیق کیوں نہیں کی گئی؟*
یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ اس میں جو مثبت روایات دی گئی ہیں، ان کی فن رجال اور جرح و تعدیل کے تحت تحقیق کیوں نہیں کی گئی ہے؟ ان میں سے بہت سی روایتیں ضعیف ہوں گی۔
ہمیں اس بات کا اعتراف ہے کہ اس سلسلے میں ہم نے جو مثبت روایات بیان کی ہیں، اگر ان کی فن رجال کے تحت تحقیق کی جائے تو ان میں سے بہت سی روایتیں ضعیف اور بہت سی روایتیں صحیح ثابت ہوں گی۔ اس کے برعکس اگر منفی روایتوں کو دیکھا جائے تو وہ سب کی سب ضعیف بلکہ موضوع (Fake) کے درجے کی ہیں۔ اس طرح منفی ضعیف روایتوں کے مقابلے پر مثبت ضعیف روایتیں ہی موجود ہیں۔ مثبت روایات کو ہم نے محض اس وجہ سے قبول نہیں کیا کہ یہ فن جرح و تعدیل کے تحت صحت کے درجے پر پورا اترتی ہیں بلکہ اس وجہ سے قبول کیا ہے کہ یہ قرآن مجید اور صحیح احادیث سے مطابقت رکھتی ہیں۔
اب اگر کوئی صاحب یہ کہیں کہ فن جرح و تعدیل کے معیار پر جو بھی روایت پوری نہ اترے، خواہ وہ منفی ہو یا مثبت، تو اسے رد کر دینا چاہیے۔ ہم اس رائے کا احترام کریں گے اور یہ کہیں گے کہ وہ ایسا کر سکتے ہیں۔ تاہم اس صورت میں انہیں صرف اور صرف قرآن مجید اور صحیح احادیث ہی پر اعتماد کرنا چاہیے اور بحیثیت مجموعی صحابہ کرام کے بارے میں یہ نظریہ رکھنا چاہیے کہ وہ ’’رحماء بینہم‘‘ تھے۔ پھر انہیں کسی بھی منفی روایت پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔
موجودہ دور میں مسعود احمد صاحب نے اپنی کتاب ’’تاریخ الاسلام و المسلمین‘‘ میں یہی اسلوب اختیار کیا ہے اور صرف قرآن مجید، صحیح بخاری اور صحیح مسلم سے یہ تاریخ مرتب کی ہے۔
جب مثبت اور منفی روایات دونوں ہی موجود ہوں اور دونوں ہی ضعیف کے درجے پر ہوں تو پھر عقلاً یہ صورتیں ممکن ہیں:
1. مثبت اور منفی دونوں قسم کی روایات کو قبول کر لیا جائے۔ یہ عقلاً محال ہے۔
2. منفی روایات کو قبول اور مثبت کو مسترد کیا جائے۔ بہت سے لوگوں نے ایسا کیا ہے۔ جن لوگوں کو حضرت عثمان و معاویہ رضی اللہ عنہما کے خلاف تعصب ہے، انہوں نے ان سے متعلق ایسا کیا ہے جبکہ جنہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف تعصب ہے، انہوں نے ان کے متعلق ایسا کیا ہے۔ یہ رویہ یقیناً متعصبانہ ہے۔
3. سبھی صحابہ کے بارے میں مثبت روایات کو قبول اور منفی کو مسترد کیا جائے۔ ہمارے خیال میں یہی کرنا چاہیے کیونکہ قرآن مجید اور صحیح احادیث اسی کی تائید کرتی ہیں۔ اس رویے کو اگر کوئی متعصبانہ اور جانبدارانہ کہے تو بہرحال یہ درست نہیں ہو گا۔
4. دونوں قسم کی روایات کو مسترد کر دیا جائے۔ یہی غیر جانبداری ہو سکتی ہے لیکن اس صورت میں کسی قسم کی تاریخی بحث کرنا ممکن نہیں ہے۔
اس وجہ سے ہم نے تیسری صورت کو اختیار کیا ہے لیکن یہ واضح رہے کہ یہ مثبت رویہ ہم نے تمام ہی تاریخی شخصیات کے بارے میں روا رکھا ہے۔
*تمام تاریخی شخصیات کے بارے میں آپ نے مثبت رویہ اختیار کیوں کیا ہے؟*
اس سلسلے پر یہ اعتراض بھی کیا جا سکتا ہے کہ آپ نے صرف صحابہ کرام ہی نہیں بلکہ تمام تاریخی شخصیات کے بارے میں مثبت رویہ اختیار کیوں کیا ہے۔ حتی کہ جن شخصیات کے بارے میں نہایت منفی باتیں کتب تاریخ میں ملتی ہیں، ان کے بارے میں بھی حسن ظن کی آپ تلقین کیوں کرتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں ہم قرآن مجید کی یہ آیت پیش کر سکتے ہیں۔
🌷يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيراً مِنْ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلا تَجَسَّسُوا وَلا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضاً أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتاً فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَحِيمٌ.
اے اہل ایمان! آپ لوگوں کو چاہیے کہ بہت زیادہ گمان کرنے سے بچا کریں۔ یقیناً بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ (کسی کی ذات سے متعلق) تجسس نہ کیا کریں اور نہ ہی آپ میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا آپ میں سے کوئی یہ پسند کرے گا کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے۔ آپ لوگ یقیناً اس سے کراہت محسوس کریں گے۔ اللہ سے ڈرتے رہیے کہ یقیناً اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔ (الحجرات 49:12)
جو لوگ ہمارے زمانے سے پہلے گزر گئے، ہمارے پاس کوئی ایسا طریقہ نہیں ہے کہ ہم ان کے اعمال کی جانچ پڑتال کر کے ان پر حکم لگا سکیں۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو اپنی حدود سے تجاوز ہو گا۔ تاریخی روایات کے بارے میں یہ بات معلوم و معروف ہے کہ ان میں بہت سا جھوٹ داخل کیا گیا ہے۔ لوگوں نے اپنے قبائلی، گروہی اور فرقہ وارانہ تعصبات کی بنیاد پر ایک دوسرے پر الزام تراشی کی ہے ، جو کہ تاریخی روایات کا حصہ بن گئی ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ کس نے کیا جھوٹ ان روایات میں داخل کیا ہے؟ اس وجہ سے ہمیں کسی خاص شخصیت کے بارے میں منفی رائے نہیں رکھنی چاہیے بلکہ اس کے معاملے کو اللہ تعالی کے سپرد کر دینا چاہیے۔ ان شخصیات کے بارے میں دو غلط صورتیں ممکن ہیں:
1۔ یہ واقعی برے ہوں اور ہم ان کے بارے میں اچھی رائے رکھ بیٹھیں۔
2۔ یہ فی الحقیقت اچھے ہوں اور ہم ان کے بارے میں بری رائے اختیار کر لیں۔
پہلی صورت میں ہمارے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ آخرت میں اللہ تعالی ہمیں اس بات پر ہرگز سزا نہ دیں گے کہ ہم نے کسی برے شخص کے بارے میں اچھی رائے کیوں اختیار کر لی تھی؟
لیکن دوسری صورت انتہائی خطرناک ہے۔ ایک شخص فی الحقیقت اچھا تھا، لیکن ہم نے محض تاریخی روایات کے سبب اس کے بارے میں بری رائے اختیار کر لی تو کم از کم ہمیں اس بات کے لیے تیار ضرور رہنا چاہیے کہ روز قیامت اگر اللہ تعالی نے پوچھ لیا کہ مشکوک معلومات کی بنیاد پر تم نے بدگمانی اور غیبت کا ارتکاب کیوں کیا تو ہم کیا جواب دیں گے؟
*ان مخصوص مورخین کے بارے میں حسن ظن کیوں نہ رکھا جائے؟*
یہاں یہ سوال بھی کیا جا سکتا ہے کہ پھر ابو مخنف، ہشام کلبی، واقدی اور سیف بن عمر کے بارے میں بھی حسن ظن رکھنا چاہیے کہ انہوں نے سچ ہی لکھا ہو گا۔ ان پر جھوٹ کا الزام لگانا کیا بدگمانی اور غیبت نہیں ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حسن ظن اور چیز ہے اور کسی معاملے میں احتیاط اور چیز۔ فرض کیجیے کہ اگر ہمیں کسی شخص سے کروڑوں کی ڈیل کرنا ہو یا اس کے ساتھ اپنی بچی کا رشتہ کرنا ہو اور ہمارا کوئی قابل اعتماد دوست ہمیں آکر یہ بتائے کہ یہ شخص دراصل بہت بڑا فراڈیا اور دھوکے باز ہے تو کیا ہمیں حسن ظن سے کام لیتے ہوئے اس شخص سے معاملہ کر لینا چاہیے؟ یقینی طور پر ہمیں اس شخص سے حسن ظن تو رکھنا چاہیے مگر اس سے ڈیل میں احتیاط برتنی چاہیے۔ ہم یا تو اس شخص کے بارے میں تحقیقات کریں گے اور اگر تحقیق ممکن نہ ہوئی اور ڈیل کرنے سے اجتناب کریں گے۔
بعینہ یہی معاملہ ان راویوں کے ساتھ بھی کرنا چاہیے کہ ان سے حسن ظن رکھتے ہوئے ان کی روایتوں کو قبول کرنے میں احتیاط برتنا چاہیے۔ یہ احتیاط حسن ظن کے خلاف نہیں ہے۔ سورۃ الحجرات میں جہاں ہمیں حسن ظن کا حکم دیا گیا ہے، وہاں اس بات کا حکم بھی موجود ہے کہ کسی غلط شہرت رکھنے والے کی بات پر قدم اٹھانے سے پہلے اس بات کی تحقیق کر لینا چاہیے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
🌷يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْماً بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ.
اے اہل ایمان! اگر آپ لوگوں کے پاس کوئی فاسق خبر لے آئے تو اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کسی گروہ کو جہالت میں نقصان پہنچا بیٹھیں اور پھر اپنے فعل پر نادم ہوں۔ (الحجرات 49:6)
اب چونکہ ان راویوں کے بارے میں ہمیں نہایت ہی قابل اعتماد اہل علم نے بتا دیا ہے کہ یہ متعصب اور جھوٹ گھڑنے والے لوگ ہیں، اس وجہ سے ہمیں چاہیے کہ ان کی بیان کردہ روایات کی چھان بین ضرور کر لیں۔ ہمیں ان راویوں کی ذات سے کوئی دشمنی نہیں رکھنی چاہیے لیکن ان کی بیان کردہ روایات کو قبول کرنے میں احتیاط برتنی چاہیے۔ پھر ان راویوں کی اپنی روایات میں تضاد موجود ہے۔ ان کی بعض روایات صحابہ کرام کی بڑی مثبت تصویر پیش کرتی ہیں اور بعض منفی۔ دونوں قسم کی روایات میں سے ایک ہی قسم درست ہو سکتی ہے۔ بیک وقت دونوں قسم کی روایات کو قبول کرنا عقلاً ممکن نہیں ہے۔ اب یہ ہر شخص کا اپنا انتخاب ہے کہ وہ مثبت تصویر والی روایتوں کو قبول کرے جو قرآن مجید اور صحیح احادیث کے مطابق ہیں یا پھر منفی تصویر والی روایتوں پر ریجھ جائے۔ بس یہ خیال رکھیے کہ دونوں صورتوں کا آخرت میں کیا انجام ہو سکتا ہے؟
*اس سلسلے کا مقصد کیا ہے؟*
اس سلسلے کے لکھنے کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہ تھا کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق ہمارے ہاں جو روایات پائی جاتی ہیں، فرقہ وارانہ تعصبات سے ماوراء ہو کر ان کا تجزیہ کیا جائے اور علم تاریخ کی رو سے ان کا جائزہ لیا جائے۔ اس سلسلے کے لکھنے میں جو محنت صرف ہوئی ہے،
اس پر میں اللہ تعالی کے سوا کسی سے بدلے کا طالب نہیں ہوں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ جنت میں جب حضرت ابوبکر، عمر، عثمان، علی، طلحہ، زبیر، معاویہ، حسن اور حسین رضی اللہ عنہم ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھیں گے اور اپنے ان محبین سے ملاقات کریں گے جنہوں نے ان کا ساتھ دیا ہو گا اور ان کی کچھ خدمت کی ہو گی، تو ان محبین اور خدمت گاروں کی فہرست میں اللہ تعالی اس بندہ ناچیز کا نام بھی لکھ دیں اور ان جلیل القدر صحابہ کی محفل میں کہیں آخری کونے میں جگہ عنایت فرما دیں،
*ایک عام آدمی تاریخی روایات کی چھان بین کیسے کر سکتا ہے؟*
*یہ کہا جا سکتا ہے کہ جناب ان تاریخی روایات کی چھان بین تو وہی کر سکتا ہے جسے عربی زبان اور فن تاریخ میں مہارت حاصل ہو۔ ایک عام آدمی یہ کیسے جانچ سکتا ہے کہ کس کی بات درست ہے اور کس کی غلط۔ اس کے جواب میں ہم عرض کریں گے کہ ایک عام آدمی بھی اگر اپنی عقل کو استعمال کرے تو وہ بآسانی یہ جانچ پڑتال کر سکتا ہے کہ کیا بات درست ہے۔ اس سلسلے میں ہم نے ایک عام آدمی کے نقطہ نظر سے یہی کوشش کی ہے۔ آپ اگر ان نکات پر عمل کریں تو اس سلسلے میں ہم نے جو کچھ پیش کیا ہے، اس کی تصدیق آپ خود کر سکتے ہیں:*
1۔ سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیجیے کہ اردو کی کتب تاریخ میں جو مواد ملتا ہے، وہ بالعموم پوری تحقیق اور چھان بین کے بعد نہیں لکھا گیا ہے۔ اردو کی کوئی کتاب پڑھتے وقت جس واقعے سے متعلق کوئی سوال آپ کے ذہن میں پیدا ہو، اس کے بارے میں دیکھیے کہ مصنف نے ماضی کی کس کتاب کا حوالہ دیا ہے۔ اگر انہوں نے یہ حوالہ قرون وسطی (جیسے ابن اثیر، ابن کثیر، ابن خلدون وغیرہ) کی کسی کتاب کا دیا ہے تو ان کتب میں جا کر دیکھیے کہ قرون وسطی کے ان مصنفین نے تیسری صدی ہجری کی کون سی کتاب سے وہ بات بیان کی ہے۔ جیسا کہ ہم بیان کر چکے ہیں کہ عہد صحابہ کی تاریخ کے قدیم ترین ماخذ جو اس وقت دستیاب ہیں، وہ تیسری صدی میں لکھے گئے اور عام تاریخی روایات کا 95% حصہ تین کتابوں میں ملتا ہے جو ابن سعد، بلاذری اور طبری نے لکھی ہیں۔ اگر قرون وسطی کے کسی مورخ نے کوئی حوالہ نہیں دیا ہے تو پھر یہ بات لائق اعتماد نہیں ہے۔ اگر حوالہ دیا ہے تو پھر تیسری صدی ہجری کی متعلقہ کتب میں دیکھیے کہ اس واقعے کی سند کیا ہے؟
2۔ سند میں چند راویوں کے نام بیان ہوئے ہیں، ان پر غور کیجیے۔ اگر یہ ابو مخنف لوط بن یحیی، ہشام بن محمد کلبی، واقدی یا سیف بن عمر التیمی میں سے کوئی ایک ہے، تو روایت کو بلا تامل مسترد کر دیجیے۔
عام طور پر جن روایات میں مسئلہ پیدا ہوتا ہے، وہ انہی چاروں میں سے کسی کی روایت کردہ ہوتی ہیں۔ اگر ان چاروں کے علاوہ کوئی اور شخص ہے تو آپ علم جرح و تعدیل کے کسی انسائیکلو پیڈیا میں اس راوی کے حالات کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ راویوں کے نام ہجائی ترتیب (Alphabetical order) میں ہوتے ہیں اور انہیں ڈھونڈنا بہت آسان ہے۔
چونکہ یہ کتب عربی میں ہیں، اس وجہ سے اگر آپ عربی نہیں جانتے تو مشکل ہو سکتی ہے۔ لیکن اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ آپ کسی بھی عربی جاننے والے سے پڑھوا کر دیکھ لیجیے۔ ویسے علم جرح و تعدیل کی کتب کی زبان بہت سادہ ہوتی ہے اور آپ اگر چند الفاظ کے معانی سیکھ لیں تو یہ جان سکتے ہیں کہ اس راوی کی حیثیت کیا ہے۔
الفاظ یہ ہیں:
· ثقہ: قابل اعتماد
· حجۃ: بہت ہی زیادہ قابل اعتماد
· مجروح: جس پر جرح کی گئی ہو، یعنی ایک حد تک ناقابل اعتماد
· صدوق :سچا آدمی ہے۔ یہ لفظ ایسے راوی کے بارے میں کہا جاتا ہے جو جھوٹ تو نہ بولتا ہو لیکن روایت کو محفوظ رکھ کر منتقل کرنے میں کمزور ہو۔
· لا باس بہ: اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ جملہ ایسے راوی کے متعلق کہا جاتا ہے جو ناقابل اعتماد نہ ہو مگر بہت زیادہ قابل اعتماد بھی نہ ہو۔
· غیر ثقہ / ضعیف: ناقابل اعتماد
· متروک: بہت زیادہ ناقابل اعتماد
· کذاب: جھوٹا آدمی جو روایتیں گھڑتا ہو۔ انتہائی ناقابل اعتماد۔
· دجال: انتہا درجے کا جھوٹا آدمی جو جھوٹ کے علاوہ مکرو فریب سے بھی کام لیتا ہو۔
· مدلس: وہ شخص جو روایتوں کی سند میں ایک خاص قسم کی گڑ بڑ کرتا ہو یعنی کمزور راویوں کو چھپا لیتا ہو۔
3۔ تاریخ طبری، انساب الاشراف، طبقات ابن سعد وغیرہ انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ کر لیجیے۔ ان کتب کے اوریجنل عربی ورژن اور اس کے ساتھ اردو ترجمے ڈاؤن لوڈ کر لیجیے۔ ان کے لنک یہاں دیے جا رہے ہیں۔
اگر یہ لنک کام نا کریں تو آپ کسی سرچ انجن سے ان کتابوں کو تلاش کر سکتے ہیں۔ مکتبہ وقفیہ پر آپ مینو میں سے متعلقہ سیکشن تلاش کر سکتے ہیں اور اس سیکشن کے مختلف ویب پیج پلٹتے جائیے۔ آپ کو یہ کتب مل جائیں گی۔ اسی طرح مکتبہ مشکاۃ الاسلامیہ پر بھی آپ سیکشن کے ذریعے یہ کتب تلاش کر سکتے ہیں۔ کتاب و سنت ڈاٹ کام پر ہم نے کتاب کی بجائے مصنف کا مین پیج دے دیا ہے، جو امید ہے کہ جلد تبدیل نہیں ہو گا۔
*کتابیں ڈاؤنلوڈ کرنے کے لیے ان لنکس پر جائیں، اوپر کتاب کا نام ہے،نیچے کتاب کا لنک ہے*
· تاریخ الرسل و الملوک از طبری ۔۔۔ عربی پی ڈی ایف ورژن: (مکتبہ وقفیہ، سیکشن: التاریخ)
http://www.waqfeya.com/category.php?cid=7&st=135
· تاریخ الرسل و الملوک از طبری ۔۔۔ عربی ورڈ ورژن: (مکتبہ مشکاۃ الاسلامیہ، سیکشن: “التاریخ الاسلامی”)
http://www.almeshkat.net/books/open.php?cat=13&book=620
· تاریخ الرسل و الملوک از طبری ۔۔۔ اردو ترجمہ پی ڈی ایف ورژن: (کتاب و سنت ڈاٹ کام، مصنف: محمد بن جریر الطبری)
http://www.kitabosunnat.com/…/1749-allama-abi-jafar-mohamma…
· طبقات ابن سعد۔۔۔ عربی پی ڈی ایف ورژن (مکتبہ وقفیہ، سیکشن: التراجم و الاعلام)
http://www.waqfeya.com/category.php?cid=25&st=225
· طبقات ابن سعد ۔۔۔۔ اردو پی ڈی ایف ورژن: (کتاب و سنت ڈاٹ کام، مصنف: محمد بن سعد کاتب الواقدی)
http://www.kitabosunnat.com/…/1726-muhammad-bin-sad-katib-a…
· انساب الاشراف ۔۔۔۔ عربی پی ڈی ایف ورژن
http://www.ahlalhdeeth.com/vb/showthread.php?t=115007
· میزان الاعتدال ۔۔۔۔ عربی پی ڈی ایف ورژن (مکتبہ وقفیہ، سیکشن: الجرح و التعدیل)
http://www.waqfeya.com/category.php?cid=14&st=120
· میزان الاعتدال ۔۔۔۔ عربی ورڈ ورژن (مکتبہ مشکاۃ الاسلامیہ ، سیکشن: علم رجال الحدیث)
http://www.almeshkat.net/books/open.php?cat=23&book=651
· سیرت الاعلام النبلا ۔۔۔ ۔ عربی آن لائن انسائیکلو پیڈیاجس میں تمام راویوں کے حالات آن لائن موجود ہیں اور آپ ان کے نام کے کسی حصے سے انہیں سرچ بھی کر سکتے ہیں۔ بس آپ کو عربی میں ٹائپ کرنا آتا ہو۔ عربی کا کی بورڈ اردو سے تھوڑا سا مختلف ہے اور بعض حروف جیسے أ، ئ، ؤ، ي، ی میں کچھ فرق پایا جاتا ہے۔ اگر آپ ٹائپ نہ کر سکتے ہوں تو ان ناموں کو کاپی پیسٹ کر کے بھی کام چلا سکتے ہیں۔
http://www.islamweb.net/hadith/RawyList.php
4۔ اس سلسلے میں آپ جو حوالہ پڑھیں، اس کا مکمل ریفرنس فٹ نوٹس میں دیا گیا ہے۔ عام طور پر 4/200 کا مطلب ہے کہ متعلقہ کتاب کی جلد نمبر 4 کا صفحہ نمبر 200۔ تاریخ طبری کو تاریخ وار مرتب کیا گیا ہے اور اس کی جلدیں جس طرح شائع ہوئی ہیں، ان میں سے ہر جلد کے اندر دو دو حصے بنا دیے گئے ہیں۔
اس وجہ سے اس کا حوالہ ہم نے اس طرح دیا ہے 25H/4/2-200 ۔ اس کا مطلب ہے 25 ہجری کے باب میں جلد 4 کے حصہ 2 کا صفحہ 200۔
سال کا ریفرنس دینے کا فائدہ یہ ہے کہ اگر آپ کے پاس طبری کا کوئی اور ورژن ہو تو آپ اس سال کے باب میں جا کر متعلقہ اقتباس کو ڈھونڈ سکتے ہیں۔ اس طرح ریفرنس کے مطابق متعلقہ کتاب میں جا کر دیکھ لیجیے اور اس کی تصدیق کر لیجیے۔ ورڈ ورژن کو آپ سرچ کے لیے استعمال کر سکتے ہیں جبکہ پی ڈی ایف ورژن کو آپ مطالعہ کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ دیگر کتب میں بھی حوالہ ایسے طریقے سے دیا جائے کہ اگر آپ کے پاس کتاب کا کوئی اور ورژن بھی ہو، تو آپ اس حوالے کو متعلقہ کتاب سے نکال کر اس کی تصدیق کر سکیں۔
طبری کے حوالے ہم نے اردو ورژن کے دیے ہیں تاکہ عام قارئین اس سے فائدہ اٹھا سکیں لیکن اردو ورژن میں مسئلہ یہ ہے کہ اکثر اوقات روایتوں کی سند کو حذف کر دیا جاتا ہے۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ روایت بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اصل عربی ورژن سے اس روایت کی سند بھی بیان کر دی جائے۔ اگر آپ سند کی تصدیق کرنا چاہیں تو عربی ورژن میں متعلقہ سال کے باب میں دیکھ سکتے ہیں۔
5۔ جن روایات پر ہم نے تنقید کی ہے، ان کی مکمل سندیں اس سلسلے کے اندر ہم نے فراہم کی ہیں۔ ان اسناد کو چیک کر لیجیے اور جن راویوں کی بنیاد پر ہم نے روایات کو غیر مستند قرار دیا ہے، ان کے حالات آپ شمس الدین ذہبی (673-748/1275-1347)کی کتابوں میزان الاعتدال اور سیر الاعلام النبلا میں پڑھ سکتے ہیں جو کہ فن رجال کے جامع انسائیکلو پیڈیا ہیں۔
ان کتب کا اوریجنل عربی ورژن ہی دستیاب ہے، اردو ترجمہ نہیں ہوا۔ لیکن اس کی زبان بالکل آسان اور سادہ ہے اور آپ متعلقہ راوی کو تلاش کر کے اس کے متعلق محدثین کی آراء پڑھ سکتے ہیں۔ جیسے لفظ کذاب، یا ثقہ، یا صدوق وغیرہ تو آپ سمجھ ہی سکتے ہیں۔ جہاں جہاں ہم نے راویوں پر جرح و تعدیل نقل کی ہے، وہاں ان کتب سے ہم نے متعلقہ راوی کا نمبر دے دیا ہے۔ اگر یہ نمبر کچھ آگے پیچھے ہو جائے تو ان کے نام ان کتب میں حروف تہجی کی ترتیب میں ہیں۔
اس طریقے سے ہم نے جو کچھ لکھا ہے، اس کی تصدیق آپ خود کر سکتے ہیں۔ جہاں پر ہم نے روایات کا تجزیہ کیا ہے اور اپنے دلائل پیش کیے ہیں، اس تجزیے کو آپ اپنی عقل سے پرکھ سکتے ہیں۔ اگر یہ درست محسوس ہو تو مان لیجیے ورنہ آپ خود ان روایات کا اپنا تجزیہ کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالی نے ہمیں عقل اسی لیے دی ہے کہ ہم اسے تجزیہ کرنے کے لیے استعمال میں لائیں۔ کسی بات کو محض اس وجہ سے ہرگز نہ مانیے کہ اسے ماضی کی کسی عظیم شخصیت نے درج کیا ہے بلکہ اپنے ذہن کو استعمال کیجیے۔ مسلمہ تاریخی اصولوں کو مدنظر رکھیے اور ان کی خلاف ورزی نہ کیجیے۔ ہم نے اس کتاب میں جو باتیں بیان کی ہیں، انہیں ہرگز اس وقت تک تسلیم نہ کیجیے جب تک کہ آپ ان کی خود تصدیق نہ کر لیں۔
*خلاصہ سلسلہ*
یہاں ہم اوپر کی بحث کا خلاصہ چند اصولوں کی صورت میں بیان کر رہے ہیں:
· اصول نمبر 1: ایسی روایت، جس میں کسی خاص شخصیت کی کردار کشی ہو اور اسے بیان کرنے والا کوئی راوی اس شخصیت کے خلاف تعصب رکھتا ہو، ہرگز قابل قبول نہیں ہے۔ ہاں اس راوی کی دیگر عام باتوں کو قبول کیا جا سکتا ہے۔
· اصول نمبر 2: روایت میں جو بات بیان ہوئی ہے، اسے اس زمانے کے مجموعی مزاج اور کیفیت سے مطابقت رکھنی چاہیے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں ہمیں قرآن مجید سے معلوم ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔ ہزاروں روایتیں بھی اسی بات کی تائید کرتی ہیں اور یہ بات تواتر سے ثابت ہے۔ اس وجہ سے کوئی بھی ایسی روایت ، جو صحابہ کرام کے درمیان باہمی بغض اور نفرت کو ظاہر کرتی ہو، جھوٹی اور جعلی روایت ہے۔ اس بات کی مزید تصدیق اصول نمبر 1 سے کی جا سکتی ہے۔
· اصول نمبر 3: حسن ظن سے کام لیجیے کہ اللہ تعالی نے ہمیں حسن ظن کا حکم دیا ہے۔ تاریخی روایات اگر حد تواتر کو نہ پہنچیں تو ان سے محض “ظن” اور “گمان” ہی قائم کیا جا سکتا ہے۔ کسی بھی تاریخی شخصیت کے کسی عمل کے بارے میں اس وقت تک منفی رائے قائم نہ کیجیے جب تک کہ تواتر سے ا س کے بارے میں منفی بات معلوم نہ ہو جائے۔ اس کے بعد بھی اپنی رائے کو اس کے عمل تک ہی محدود رکھیے۔ اس کی شخصیت پر کفر، فسق وغیرہ کا حکم نہ لگائیے کہ یہ صرف اللہ تعالی کا کام ہے۔ وہی فیصلہ کرے گا کہ کون کافر ہے اور کون فاسق۔ ہماری رائے زیادہ سے زیادہ یہ ہونی چاہیے کہ کیا عمل درست تھا اور کیا غلط؟
اس کے علاوہ ہم نے اس سلسلے میں مختلف ادوار میں مرتب کی جانے والی تاریخ کی تاریخ بیان کی ہے اور اہم مورخین کے نام اور ان کے قابل اعتماد ہونے یا نہ ہونے پر بحث کی ہے۔
*ابتدائی معلومات کا یہ آخری سلسلہ تھا اگلے سلسلے سے ہم خلفاء راشدین میں سے ایک ایک کے دور کو لے کر اس زمانے سے متعلق تفصیل سے پڑھیں گے ان شاءاللہ*
(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )
🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہمارا فیسبک پیج وزٹ کریں۔۔.
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765