854

سوال_فرضی نماز کی جماعت کھڑی ہو تو پیچھے سنتیں پڑھنا کیسا ہے؟ اور اگر فجر کی جماعت سے پہلے سنتیں نا پڑھ سکیں تو پھر کب پڑھیں..؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-41″
سوال_فرضی نماز کی جماعت کھڑی ہو تو پیچھے سنتیں پڑھنا کیسا ہے؟ اور اگر فجر کی جماعت سے پہلے سنتیں نا پڑھ سکیں تو پھر کب پڑھیں..؟

Published Date: 30-3-2018

جواب..!
الحمدللہ..!!

*فرضی نماز کی جماعت ہو رہی ہو تو پیچھے سنتیں پڑھنا درست نہیں*

📚حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے،
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،
” جب نماز کے لئے اقامت ہوجائے تو فرض نماز کے سوا کوئی نماز نہیں ہوتی
( صحيح مسلم | كِتَابٌ :الْمَسَاجِدُ وَمَوَاضِعُ الصَّلَاةِ  | بَابٌ : كَرَاهَةُ الشُّرُوعِ فِي نَافِلَةٍ بَعْدَ شُرُوعِ الْمُؤَذِّنِ،
حدیث نمبر_710)
(سنن ترمذی،حدیث نمبر_421)
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر_1266)
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر_1151)

یہ حدیث مرفوعاً اور موقوفاً دونوں طرح روایت ہوئی ہے، یعنی اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان بھی ثابت ہے اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا فتویٰ بھی۔ یہ اصول ہے کہ موقوف روایت مرفوع حدیث کے لیے تقویت کا باعث ہوتی ہے۔ اس مرفوع حدیث میں واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ فجر کی سنتیں ہوں یا کوئی اور نماز، فرض نماز کی اقامت کے بعد پڑھنا ممنوع ہے۔

 📙امام ترمذی رحمہ اللہ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
”بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور دیگر اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے کہ جب نماز کی اقامت کہہ دی جائے تو آدمی صرف فرضی نماز ہی پڑھ سکتا ہے۔ امام سفیان ثوری، امام عبداللہ بن مبارک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہویہ اس کے مطابق فتویٰ دیتے ہیں۔“
(سنن الترمذي، تحت الحديث : 421) 

📚حضرت عبداللہ بن سرجس
( المزنی حلیف بنی مخزوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) سے روایت ہے ،
انھوں نے کہا :
دَخَلَ رَجُلٌ الْمَسْجِدَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صَلَاةِ الْغَدَاةِ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ فِي جَانِبِ الْمَسْجِدِ، ثُمَّ دَخَلَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا سَلَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ : ” يَا فُلَانُ، بِأَيِّ الصَّلَاتَيْنِ اعْتَدَدْتَ ؛ أَبِصَلَاتِكَ وَحْدَكَ أَمْ بِصَلَاتِكَ مَعَنَا ؟ ”
ایک آدمی مسجد میں آیا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز پڑھا رہے تھے ، اس نے مسجد کے ایک کونے میں دو رکعتیں پڑھیں ، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں شریک ہوگیا ،
جب ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو فرمایا : ” اے فلاں! تو نے دو نمازوں میں سے کون سی نماز کو شمار کیا ہے؟
اپنی اس نماز کو جو تم نے اکیلے پڑھی ہے؟
یا اس کو جو ہمارے ساتھ پڑھی ہے؟
(صحیح مسلم،كِتَابٌ:الْمَسَاجِدُ وَمَوَاضِعُ الصَّلَاةِ،
باب/مؤذن کی اقامت شروع کرنے کے بعد نفل نماز پڑھنا نا پسندیدہ٬  حدیث نمبر_712)
(سنن ابو داؤد، باب/جب امام نماز پڑھا رہا ہو تو فجر کی سنتیں نا پڑھنے کا  بیان- حدیث نمبر_1265)
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر_1152)
(مسند احمد،حدیث نمبر_20777)

📚حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ دو رکعتیں پڑھ رہا تھا اور ادھر مؤذن اقامت کہہ رہا تھا۔ آپ نے اسے کنکری ماری اور فرمایا : کیا صبح کی نماز چار رکعت پڑھتا ہے ؟“
( السنن الکبریٰ للبیھقی : 483/2۔ وسندہٗ صحیحٌ) 

📚سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : إذا أقيمت الصلاة فلا صلاة إلا المكتوبة
”جب فرض نماز کی اقامت کہہ دی جائے تو فرضی نماز کے سوا کوئی نماز نہیں ہوتی۔“
 (مصنف ابن ابي شيبه : 76/2، وسندہٗ صحیحٌ)

*ان احادیث اور محدثین کے اس طرح  باب باندھنے سے  اور صحابہ کرام کے قول و عمل سے یہ بات صاف سمجھ آ رہی ہے  کہ جب فرض نماز کی جماعت کھڑی ہو جائے تو پیچھے سنتیں پڑھنا درست نہیں، اور جس نے سنتیں پڑھی تھیں اسکو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ڈانٹا تھا،لہذا، جب فرضی نماز کی جماعت کھڑی ہو جائے تو پیچھے کوئی نفل نماز نا پڑھے ،جو پڑھ رہا ہو وہ اقامت ہونے پر سلام پھیر کر جماعت کے ساتھ مل جائے،*

*اب رہی یہ بات کہ اگر فجر کی جماعت سے پہلے سنتیں نا پڑھ سکیں تو کب پڑھیں کیونکہ فجر کے بعد بھی نفلی نماز سے منع کیا گیا ہے،فجر کے بعد نفلی نماز سے منع کیا گیا ہے لیکن اگر کسی کی سنتیں رہتی ہوں تو وہ فجر کی نماز کے بعد دو سنتیں پڑھ سکتا ہے، اسکی اجازت بھی خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی ہے..!*

جیسا کہ۔۔۔۔!!
📚جامع ترمذی
کتاب: نماز کا بیان
باب: جس کی فجر کی سنتیں چھوٹ جائیں وہ فجر( فرضوں) کے بعد انہیں پڑھ لے
حدیث نمبر: 422
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو السَّوَّاقُ الْبَلْخِيُّ، قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ جَدِّهِ قَيْسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُقِيمَتِ الصَّلَاةُ فَصَلَّيْتُ مَعَهُ الصُّبْحَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ انْصَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَنِي أُصَلِّي، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏  مَهْلًا يَا قَيْسُ أَصَلَاتَانِ مَعًا ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي لَمْ أَكُنْ رَكَعْتُ رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ، ‏‏‏‏‏‏قالَ:‏‏‏‏  فَلَا إِذًا ،
قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏
، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ قَالَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ بِهَذَا الْحَدِيثِ:‏‏‏‏ لَمْ يَرَوْا بَأْسًا أَنْ يُصَلِّيَ الرَّجُلُ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْمَكْتُوبَةِ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ.
ترجمہ:
قیس  (قیس بن عمرو بن سہل)  ؓ کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نکلے اور جماعت کے لیے اقامت کہہ دی گئی، تو میں نے آپ کے ساتھ فجر پڑھی، پھر نبی اکرم  ﷺ  پلٹے تو مجھے دیکھا کہ میں نماز پڑھنے جا رہا ہوں، تو آپ نے فرمایا:  قیس ذرا ٹھہرو، کیا دو نمازیں ایک ساتھ  ١ ؎  (پڑھنے جا رہے ہو؟ )  میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے فجر کی دونوں سنتیں نہیں پڑھی تھیں۔ آپ نے فرمایا:  تب کوئی حرج نہیں   ٢ ؎۔  
امام ترمذی کہتے ہیں:
اہل مکہ میں سے کچھ لوگوں نے اسی حدیث کے مطابق کہا ہے کہ آدمی کے فجر کی فرض نماز پڑھنے کے بعد سورج نکلنے سے پہلے دونوں سنتیں پڑھنے میں کوئی حرج نہیں،
تخریج دارالدعوہ:
سنن ابی داود/ الصلاة ٢٩٥ (١٢٦٧)،
(سنن ابن ماجہ/الإقامة ١٠٤ (١١٥٤)،
( تحفة الأشراف: ١١١٠٢)،
(مسند احمد (ص٥/٤٤٧، ح23760)صحیح)  
قال الشيخ الألباني:  صحيح، ابن ماجة (1151)  
(صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 422)

وضاحت:  ١ ؎:
مطلب یہ ہے کہ: فجر کی فرض کے بعد کوئی سنت نفل تو ہے نہیں، تو یہی سمجھا جائے گا کہ تم فجر کے فرض کے بعد کوئی فرض ہی پڑھنے جا رہے ہو۔ 
٢ ؎: یہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نماز فجر کے بعد سورج نکلنے سے پہلے فجر کی دونوں سنتیں پڑھنا جائز ہے، اور امام ترمذی نے جو اس روایت کو مرسل اور منقطع کہا ہے وہ صحیح نہیں، کیونکہ یحییٰ بن سعید کے طریق سے یہ روایت متصلاً بھی مروی ہے، جس کی تخریج ابن خزیمہ نے کی ہے اور ابن خزیمہ کے واسطے سے ابن حبان نے بھی کی ہے، نیز انہوں نے اس کے علاوہ طریق سے بھی کی ہے۔  

ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں۔۔!

📚سنن ابوداؤد
کتاب: نماز کا بیان
باب: اگر فجر کی سنتیں فوت ہوجائیں تو ان کو کب ادا کیا جائے؟
حدیث نمبر: 1267 
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَيْسِ بْنِ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا يُصَلِّي بَعْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ رَكْعَتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ صَلَاةُ الصُّبْحِ رَكْعَتَانِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ الرَّجُلُ:‏‏‏‏ إِنِّي لَمْ أَكُنْ صَلَّيْتُ الرَّكْعَتَيْنِ اللَّتَيْنِ قَبْلَهُمَا فَصَلَّيْتُهُمَا الْآنَ، ‏‏‏‏‏‏فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ترجمہ:
قیس بن عمرو ؓ کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے ایک شخص کو نماز فجر ختم ہوجانے کے بعد دو رکعتیں پڑھتے دیکھا، تو آپ  ﷺ  نے فرمایا:  فجر دو ہی رکعت ہے ، اس شخص نے جواب دیا: میں نے پہلے کی دونوں رکعتیں نہیں پڑھی تھیں، وہ اب پڑھی ہیں، اس پر رسول اللہ  ﷺ  خاموش رہے۔  
تخریج دارالدعوہ:
سنن الترمذی/الصلاة ١٩٧ (٤٢٢)،
(سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ١٠٤(١١٥٤)،
(تحفة الأشراف: ١١١٠٢)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٥/٤٤٧) (صحیح  )

*ان احادیث مبارکہ سے یہ بات سمجھ آئی کہ اگر کسی کی فجر کی سنتیں جماعت سے پہلے رہ جائیں تو وہ فجر کی جماعت کے بعد پڑھ سکتا ہے، لیکن یہ اس وقت ہے جب جماعت کے بعد سورج نکلنے میں ابھی وقت ہو،*

*اصل بات پھر وہی کہ اگر سنت پر عمل کرتے ہوئے فجر بھی اول وقت میں پڑھیں تو بعد میں سنتیں پڑھنے کا وقت آرام سے مل جاتا،*

📚ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ مسلمان عورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز فجر پڑھنے چادروں میں لپٹ کر آتی تھیں۔ پھر نماز سے فارغ ہو کر جب اپنے گھروں کو واپس ہوتیں تو انہیں اندھیرے کی وجہ سے کوئی شخص پہچان نہیں سکتا تھا۔
(صحیح بخاری،حدیث نمبر_578)

*کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپکے صحابہ فجر جلدی یعنی  اندھیرے میں ہی پڑھ لیتے تھے تو جماعت کے بعد بھی سورج نکلنے میں کافی ٹائم ہوتا تھا ،تو جنکی سنتیں رہ جاتیں وہ اس وقت سنتیں پڑھ لیتے تھے،*

*لیکن اگرفجر کی جماعت ہی اتنی لیٹ ہو جیسا کہ آجکل کچھ بھائی روشنی ہونے پر جماعت کرواتے،تو ایسی صورت میں جب نماز کے بعد  سورج نکل رہا ہو تو پھر وہ سنتیں نہیں پڑھ سکتے,کیونکہ طلوع آفتاب کے وقت نفل نماز پڑھنا ممنوع ہے جیسا کہ گزشتہ سلسلہ نمبر- 39 میں ہم نے احادیث مبارکہ کا مطالعہ کیا تھا،تو اس صورت میں جسکی سنتیں رہ جائیں وہ سورج نکلنے کے بعد بھی پڑھ سکتا ہے*

جیسا کہ
📚فرمان نبویﷺ ہے۔۔!
”جامع ترمذی
کتاب: نماز کا بیان
باب: کہ فجر کی سنتین اگر چھوٹ جائیں تو طلوع آفتاب کے بعد پڑھے
حدیث نمبر: 423
حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ الْعَمِّيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏  مَنْ لَمْ يُصَلِّ رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ فَلْيُصَلِّهِمَا بَعْدَ مَا تَطْلُعُ الشَّمْسُ .
قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ يَقُولُ:‏‏‏‏ سفيان الثوري،‏‏‏‏ وَابْنُ الْمُبَارَكِ،‏‏‏‏ وَالشَّافِعِيُّ،‏‏‏‏ وَأَحْمَدُ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏
ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا:  جو فجر کی دونوں سنتیں نہ پڑھ سکے تو انہیں سورج نکلنے کے بعد پڑھ لے
  ١ ؎۔  
امام ترمذی کہتے ہیں:
  بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں،   
تخریج دارالدعوہ: 
تفرد بہ المؤلف( تحفة الأشراف: ١٢٢١٧) (صحیح) 
قال الشيخ الألباني:  صحيح، الصحيحة (2361)  
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 423

وضاحت: 
١ ؎: اس حدیث کی سند میں ایک راوی قتادہ ہیں جو مدلس ہیں، انہوں نے نصر بن انس سے عنعنہ کے ساتھ روایت کیا ہے، نیز یہ حدیث اس لفظ کے ساتھ غیر محفوظ ہے، عمرو بن عاصم جو ہمام سے روایت کر رہے ہیں، ان الفاظ کے ساتھ منفرد ہیں، ہمام کے دیگر تلامذہ نے ان کی مخالفت کی ہے اور اسے ان لفاظ کے علاوہ دوسرے الفاظ کے ساتھ روایت کی ہے اور وہ الفاظ یہ ہیں «من أدرک ركعة من صلاة الصبح قبل أن تطلع الشمس فقد أدرک الصبحَ»  جس آدمی نے سورج طلوع ہونے سے پہلے صبح کی نماز کی ایک رکعت پالی اس نے صبح کی نماز پا لی  ( یعنی صبح کے وقت اور اس کے ثواب کو  )  نیز یہ حدیث اس بات پر بصراحت دلالت نہیں کرتی ہے کہ جو اسے صبح کی نماز سے پہلے نہ پڑھ سکا ہو وہ سورج نکلنے کے بعد ہی لازماً پڑھے، کیونکہ اس میں صرف یہ ہے کہ جو اسے نہ پڑھ سکا ہو وہ سورج نکلنے کے بعد پڑھ لے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو اسے وقت ادا میں نہ پڑھ سکا ہو یعنی سورج نکلنے سے پہلے نہ پڑھ سکا ہو تو وہ اسے وقت قضاء میں یعنی سورج نکلنے کے بعد پڑھ لے،

اس میں کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جس سے صبح کی نماز کے بعد ان دو رکعت کو پڑھنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے اس کی تائید دارقطنی، حاکم اور بیہقی کی درج ذیل روایت سے ہوتی ہے!

📚فرمان نبویﷺ
جو شخص سورج طلوعِ ہونے تک فجر کی دو رکعت نا پڑھ سکے وہ سورج نکلنے کے بعد پڑھ لے،
(مستدرک حاکم،_ج1ص408_
حدیث1015)
بخاری مسلم کی شرط پر یہ حدیث صحیح ہے،
(سنن الکبری للبیہقی،ج2/ص681_ح4231)

*لہٰذا جسکی فجر کی سنتیں جماعت سے پہلے رہ جائیں تو وہ جماعت کے بعد پڑھ سکتا،لیکن اگر سورج نکل رہا ہو تو پھر تھوڑا انتظار کر لے اور سورج نکلنے کے بعد سنتیں پڑھ لے*

((واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب))

📚کون کون سے مکروہ اوقات میں نماز پڑھنا ممنوع ہے؟ نیز فجر اور عصر کے بعد نفل نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
((دیکھیں_سلسلہ نمبر_39 ))

📚کیا عصر کے بعد نفل نماز پڑھنا منع ہے؟
((دیکھیں سلسلہ نمبر-40))

📚پنجگانہ نمازوں کے صحیح اور مسنون اوقات کیا ہیں؟
تفصیلی جواب کیلئے دیکھیں
(( سلسلہ نمبر-152))

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦         سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 📑
     کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
                   +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں