922

سوال_سجدہ تلاوت یعنی قرآن پڑھتے ہوئے اگر درمیان میں سجدہ والی آیت آ جائے تو کیا سجدہ کرنا فرض ہے؟اور کیا وضو کے بنا سجدہ ادا ہو جائے گا؟ اور سجدہ تلاوت کی مسنون دعا کونسی ہے؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-24″
سوال_سجدہ تلاوت یعنی نماز یا غیر نماز میں قرآن پڑھتے ہوئے اگر درمیان میں سجدہ والی آئیت آ جائے تو کیا سجدہ کرنا فرض ہے؟ اور کیا حائضہ،جنبی اور بے وضو وضو سجدہ تلاوت کر سکتے؟نیز سجدہ تلاوت کا طریقہ اور مسنون دعا کونسی ہے؟

Published Date: 14-1-2018

جواب۔۔۔!
الحمدللہ۔۔۔!!

*تمام عبادات میں سجدہ ایک بہت فضیلت والی عبادت ہے اور سجدہ میں بندہ اللہ کے بہت زیادہ قریب ہوتا ہے،اور شرعی طور پر سجدہ تلاوت کی بہت اہمیت ہے، اس کی اہمیت کا اندازہ درج ذیل حدیث سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے*

📚ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” إِذَا قَرَأَ ابْنُ آدَمَ السَّجْدَةَ، فَسَجَدَ اعْتَزَلَ الشَّيْطَانُ يَبْكِي يَقُولُ : يَا وَيْلَهُ “، وَفِي رِوَايَةِ أَبِي كُرَيْبٍ : ” يَا وَيْلِي، أُمِرَ ابْنُ آدَمَ بِالسُّجُودِ، فَسَجَدَ، فَلَهُ الْجَنَّةُ، وَأُمِرْتُ بِالسُّجُودِ، فَأَبَيْتُ، فَلِي النَّارُ “.
جب انسان آیت سجدہ تلاوت کرتا اور سجدہ کرتا ہے، تو شیطان روتا ہوا الگ ہو جاتا ہے، اور کہتا ہے: ہائے خرابی! ابن آدم کو سجدہ کا حکم ہوا، اس نے سجدہ کیا، اب اس کے لیے جنت ہے، اور مجھ کو سجدہ کا حکم ہوا، میں نے انکار کیا، میرے لیے جہنم ہے ۔
(صحیح مسلم،کتاب الایمان،حدیث نمبر-81)
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر-1052)

*اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سجدہ تلاوت چھوڑ دینا مناسب نہیں ہے، جب انسان آیت سجدہ پڑھے خواہ وہ زبانی پڑھے یا دیکھ کر، نماز کے اندر ہو یا باہر، ہر حالت میں اسے سجدہ تلاوت کرنا چاہئے،*

چند ایک دلائل ملاحظہ فرمائیں!

📚صحیح بخاری
کتاب: نماز کسوف کا بیان
باب: باب: امام جب سجدہ کی آیت پڑھے اور لوگ ہجوم کریں تو بہرحال سجدہ کرنا چاہیے۔
حدیث نمبر: 1076
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ آدَمَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ السَّجْدَةَ وَنَحْنُ عِنْدَهُ فَيَسْجُدُ وَنَسْجُدُ مَعَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَنَزْدَحِمُ حَتَّى مَا يَجِدُ أَحَدُنَا لِجَبْهَتِهِ مَوْضِعًا يَسْجُدُ عَلَيْهِ.
ترجمہ:
ہم سے بشر بن آدم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے علی بن مسہر نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں عبیداللہ عمری نے خبر دی، انہیں نافع نے اور نافع کو ابن عمر ؓ نے کہ  نبی کریم  ﷺ  آیت سجدہ کی تلاوت اگر ہماری موجودگی میں کرتے تو آپ  ﷺ  کے ساتھ ہم بھی سجدہ کرتے تھے۔ اس وقت اتنا اژدھام ہوجاتا کہ سجدہ کے لیے پیشانی رکھنے کی جگہ نہ ملتی جس پر سجدہ کرنے والا سجدہ کرسکے۔

📚صحیح بخاری
کتاب: نماز کسوف کا بیان
باب: باب: مسلمانوں کا مشرکوں کے ساتھ سجدہ کرنا حالانکہ مشرک ناپاک ہے (اس کو وضو کہاں سے آیا)۔
حدیث نمبر: 1071
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عِكْرِمَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَجَدَ بِالنَّجْمِ وَسَجَدَ مَعَهُ الْمُسْلِمُونَ وَالْمُشْرِكُونَ وَالْجِنُّ وَالْإِنْسُ، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَاهُ بْنُ طَهْمَانَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَيُّوبَ .
ترجمہ:
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، کہا ہم سے ایوب سختیانی نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے، ان سے ابن عباس ؓ نے کہ  نبی کریم  ﷺ  نے سورة النجم میں سجدہ کیا تو مسلمانوں، مشرکوں اور جن و انس سب نے آپ  ﷺ  کے ساتھ سجدہ کیا،

📚صحیح بخاری
کتاب: نماز کسوف کا بیان
باب: باب: سورۃ النجم میں سجدہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 1070
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَسْوَدِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ سُورَةَ النَّجْمِ فَسَجَدَ بِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَمَا بَقِيَ أَحَدٌ مِنَ الْقَوْمِ إِلَّا سَجَدَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخَذَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ كَفًّا مِنْ حَصًى أَوْ تُرَابٍ فَرَفَعَهُ إِلَى وَجْهِهِ وَقَالَ:‏‏‏‏ يَكْفِينِي هَذَا، ‏‏‏‏‏‏فَلَقَدْ رَأَيْتُهُ بَعْدُ قُتِلَ كَافِرًا.
ترجمہ:
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے، ابواسحاق سے بیان کیا، ان سے اسود نے، ان سے عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہ  نبی کریم  ﷺ  نے سورة النجم کی تلاوت کی اور اس میں سجدہ کیا اس وقت قوم کا کوئی فرد  (مسلمان اور کافر)  بھی ایسا نہ تھا جس نے سجدہ نہ کیا ہو۔ البتہ ایک شخص  (امیہ بن خلف)  نے ہاتھ میں کنکری یا مٹی لے کر اپنے چہرہ تک اٹھائی اور کہا کہ میرے لیے یہی کافی ہے۔ عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہا کہ بعد میں میں نے دیکھا کہ وہ کفر کی حالت ہی میں قتل ہوا۔

*نماز کے اندر اگر سجدہ تلاوت آ جائے تو نماز کے اندر ہی سجدہ تلاوت کیا جائے گا*

📚صحیح بخاری
کتاب: نماز کسوف کا بیان
باب: باب: جس نے نماز میں آیت سجدہ تلاوت کی اور نماز ہی میں سجدہ کیا۔
حدیث نمبر: 1078
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبِي ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي بَكْرٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي رَافِعٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ صَلَّيْتُ مَعَ أَبِي هُرَيْرَةَ الْعَتَمَةَ فَقَرَأَ:‏‏‏‏ إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ سورة الانشقاق آية 1 فَسَجَدَ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ مَا هَذِهِ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ سَجَدْتُ بِهَا خَلْفَ أَبِي الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا أَزَالُ أَسْجُدُ فِيهَا حَتَّى أَلْقَاهُ.
ترجمہ:
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ میں نے اپنے باپ سے سنا کہا کہ ہم سے بکر بن عبداللہ مزنی نے بیان کیا، ان سے ابورافع نے کہا کہ  میں نے ابوہریرہ ؓ کے ساتھ نماز عشاء پڑھی۔ آپ نے إذا السماء انشقت‏ کی تلاوت کی اور سجدہ کیا۔ میں نے عرض کیا کہ آپ نے یہ کیا کیا؟ انہوں نے اس کا جواب دیا کہ میں نے اس میں ابوالقاسم  ﷺ  کی اقتداء میں سجدہ کیا تھا اور ہمیشہ سجدہ کرتا ہوں گا تا آنکہ آپ  ﷺ  سے جا ملوں۔

_____________&_______

*ان احادیث سے پتہ چلا کہ سجدہ تلاوت بہت افضل اور اہم ہے، لیکن اسے واجب نہیں کہا جا سکتا،کیونکہ کئی احادیث میں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ سے یہ بات ثابت ہے کہ وہ بعض اوقات سجدہ تلاوت نہیں کرتے تھے *

دلائل درج ذیل ہیں.!

📚صحیح بخاری
کتاب: نماز کسوف کا بیان
باب: باب: سجدہ کی آیت پڑھ کر سجدہ نہ کرنا۔
حدیث نمبر: 1072 
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ أَبُو الرَّبِيعِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ خُصَيْفَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ قُسَيْطٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ سَأَلَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَزَعَمَ أَنَّهُ قَرَأَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّجْمِ فَلَمْ يَسْجُدْ فِيهَا.
ترجمہ:
ہم سے سلیمان بن داؤد ابوالربیع نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں یزید بن خصیفہ نے خبر دی، انہیں  (یزید بن عبداللہ)  ابن قسیط نے، اور انہیں عطاء بن یسار نے کہ  انہوں نے زید بن ثابت ؓ سے سوال کیا۔ آپ نے یقین کے ساتھ اس امر کا اظہار کیا کہ نبی کریم  ﷺ  کے سامنے سورة النجم کی تلاوت آپ نے کی تھی اور نبی کریم  ﷺ  نے اس میں سجدہ نہیں کیا۔

📚صحيح البخاري
كِتَاب سُجُودِ الْقُرْآنِ
کتاب: سجود قرآن کے مسائل
10. بَابُ مَنْ رَأَى أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ يُوجِبِ السُّجُودَ:
باب: اس شخص کی دلیل جس کے نزدیک اللہ تعالیٰ نے سجدہ تلاوت کو واجب نہیں کیا۔

باب کے نیچے امام بخاری رحمہ اللہ آثار نقل کرتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے.!

📚وقيل لعمران بن حصين الرجل يسمع السجدة ولم يجلس لها قال: ارايت لو قعد لها كانه لا يوجبه عليه،
‏‏‏‏ اور عمران بن حصین صحابی سے ایک ایسے شخص کے متعلق دریافت کیا گیا جو آیت سجدہ سنتا ہے مگر وہ سننے کی نیت سے نہیں بیٹھا تھا تو کیا اس پر سجدہ واجب ہے۔ آپ نے اس کے جواب میں فرمایا اگر وہ اس نیت سے بیٹھا بھی ہو تو کیا؟ (گویا انہوں نے سجدہ تلاوت کو واجب نہیں سمجھا)
(صحیح بخاری قبل الحدیث-1077)

📚صحیح بخاری
کتاب: نماز کسوف کا بیان
باب: باب: اس شخص کی دلیل جس کے نزدیک اللہ تعالیٰ نے سجدہ تلاوت کو واجب نہیں کیا۔
حدیث نمبر: 1077
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ أَخْبَرَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ التَّيْمِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْهُدَيْرِ التَّيْمِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو بَكْرٍ:‏‏‏‏ وَكَانَ رَبِيعَةُ مِنْ خِيَارِ النَّاسِ عَمَّا حَضَرَ رَبِيعَةُ مِنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُقَرَأَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ عَلَى الْمِنْبَرِ بِسُورَةِ النَّحْلِ حَتَّى إِذَا جَاءَ السَّجْدَةَ نَزَلَ فَسَجَدَ وَسَجَدَ النَّاسُ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى إِذَا كَانَتِ الْجُمُعَةُ الْقَابِلَةُ قَرَأَ بِهَا، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى إِذَا جَاءَ السَّجْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا نَمُرُّ بِالسُّجُودِ فَمَنْ سَجَدَ فَقَدْ أَصَابَ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ لَمْ يَسْجُدْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَسْجُدْ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏وَزَادَ نَافِعٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ اللَّهَ لَمْ يَفْرِضْ السُّجُودَ إِلَّا أَنْ نَشَاءَ.
ترجمہ:
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں ہشام بن یوسف نے خبر دی اور انہیں ابن جریج نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے ابوبکر بن ابی ملیکہ نے خبر دی، انہیں عثمان بن عبدالرحمٰن تیمی نے اور انہیں ربیعہ بن عبداللہ بن ہدیر تیمی نے کہا۔۔۔ ابوبکر بن ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ  ربیعہ بہت اچھے لوگوں میں سے تھے ربیعہ نے وہ حال بیان کیا جو عمر بن خطاب ؓ کی مجلس میں انہوں نے دیکھا۔ عمر ؓ نے جمعہ کے دن منبر پر سورة النحل پڑھی جب سجدہ کی آیت  ( ‏‏‏‏ولله يسجد ما في السمٰوٰت ‏‏‏‏)  آخر تک پہنچے تو منبر پر سے اترے اور سجدہ کیا تو لوگوں نے بھی ان کے ساتھ سجدہ کیا۔ دوسرے جمعہ کو پھر یہی سورت پڑھی جب سجدہ کی آیت پر پہنچے تو کہنے لگے لوگو! ہم سجدہ کی آیت پڑھتے چلے جاتے ہیں پھر جو کوئی سجدہ کرے اس نے اچھا کیا اور جو کوئی نہ کرے تو اس پر کچھ گناہ نہیں اور عمر ؓ نے سجدہ نہیں کیا اور نافع نے عبداللہ بن عمر ؓ سے نقل کیا کہ اللہ تعالیٰ نے سجدہ تلاوت فرض نہیں کیا ہماری خوشی پر رکھا۔
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-1077)

*اور اہل علم رحمہم اللہ کے صحیح ترین اقوال کے مطابق بھی سجدہ تلاوت سنت ہے، واجب نہیں ہے، جمہور کا یہی موقف ہے*

📒نووی رحمہ اللہ سجدہ تلاوت کا حکم بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: 
“ہمارا مذہب یہ ہے کہ سجدہ تلاوت سنت ہے، واجب نہیں ہے، اور اسی کے جمہور علمائے کرام قائل ہیں”انتہی
(” المجموع ” 3/557)

📒اور ابن قدامہ رحمہ اللہ جمہور کے قول کی تائید میں استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں:
“زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : “میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کو سورہ نجم سنائی، اور ہم میں سے کسی نے بھی سجدہ تلاوت نہیں کیا”متفق علیہ، اور صحابہ کرام کا اسی پر اجماع ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے کہ : “عمر رضی اللہ عنہ نے  جمعہ کے دن منبر پر سورہ نحل تلاوت کی، اور جب سجدہ کی آیت آئی تو منبر سے اتر کر سجدہ تلاوت کیا، اور لوگوں نے بھی سجدہ تلاوت کیا، پھر جب آئندہ جمعہ  آیا تو پھر سورت کی تلاوت کی لیکن اس بار عمر رضی اللہ عنہ نے سجدہ تلاوت نہیں کیا” حدیث کے ایک لفظ یہ بھی ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: “اللہ تعالی نے ہم پر سجدہ تلاوت فرض نہیں کیا، اگر ہم چاہیں [تو سجدہ تلاوت کر سکتے ہیں] تو پھر آپ نے سورت کی تلاوت کی، اور سجدہ نہیں کیا، سامعین کو بھی سجدہ کرنے سے منع کر دیا” یہ عمل عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے بہت بڑے مجمعے کے سامنے  تھا، اور کسی نے بھی عمر رضی اللہ عنہ کے عمل کی تردید نہیں کی، اور نہ اس قول  کی مخالفت کسی سے منقول ہے”انتہی
(” المغنی ” (1/362)

____________&__________

*سعودی فتاویٰ ویبسائٹ پر ایک فتویٰ میں درج ذیل سوال پوچھا گیا کہ*

سوال:
اگر میں قرآن مجید کا انگلش میں ترجمہ پڑھ رہا ہوں، اور جب سجدہ والی آیت کا ترجمہ پڑھوں تو کیا مجھ پر سجدہ تلاوت کرنا واجب ہے؟

جواب کا متن:
الحمد للہ:

عربی سے کسی دوسری زبان میں قرآن مجید کے ترجمہ کو “قرآن”  شمار نہیں کیا جاتا، بلکہ اسے قرآن مجید کی تفسیر کہا جاسکتا ہے؛ چنانچہ قرآن  وہ ہے جو عربی زبان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم  پر نازل ہوا ، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
( إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ) 
ترجمہ: بیشک ہم نے قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا ہے، امید ہے تم سمجھ جاؤ۔
[يوسف:2]
اس لئے عربی زبان سے کسی اور زبان میں  قرآن مجید کا ترجمہ اگر کر دیا جائے تو  اسے قرآن مجید کی  تفسیر کہا جائے گا،
چنانچہ  عربی کے علاوہ دیگر زبانوں میں قرآن مجید کا ترجمہ پڑھنے پر سجدہ تلاوت کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس حالت میں قرآن نہیں بلکہ قرآن  مجید کے معانی کا ترجمہ پڑھا جاتا ہے۔
(واللہ اعلم)
(موقع الاسلام سوال و جواب )

_______&_______________

*اوپر ذکر کردہ تمام احادیث اور سلف صالحین کے اقوال سے یہ پتا چلا کہ قرآن کی تلاوت کرتے یا سنتے وقت جب سجدہ والی آیات تلاوت کی جائیں تو سجدہ کرنا چاہیے، چاہے نماز میں ہوں یا نماز کے باہر، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر سجدہ تلاوت کرتے تھے ،اور کبھی نہیں بھی کرتے تھے تا کہ لوگ اسے فرض نہ سمجھ لیں،*

*یعنی سجدہ تلاوت فرض نہیں ہے، اگر کر لیں تو اچھی بات ہے اور شیطان کے لیے تکلیف دہ عمل ہے، اور اگر نہ بھی کریں تو گناہ نہیں ہو گا*

*صرف عربی میں قرآن پڑھتے ہوئے سجدہ تلاوت کیا جائے گا،اسکا ترجمہ یا تفسیر جو کسی اور زبان میں ہو پڑھتے ہوئے سجدہ تلاوت نہیں کرنا*

___________&__________

*سجدہ کے لیے با وضو ہونا ضروری نہیں ہے،کیونکہ وضو صرف نماز کے لیے ضروری ہے*

جیسا کہ حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ..!

📚حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ مِنَ الْخَلَاءِ، فَقُدِّمَ إِلَيْهِ طَعَامٌ، فَقَالُوا : أَلَا نَأْتِيكَ بِوَضُوءٍ ؟ فَقَالَ : ” إِنَّمَا أُمِرْتُ بِالْوُضُوءِ إِذَا قُمْتُ إِلَى الصَّلَاةِ 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء سے نکلے، تو آپ کی خدمت میں کھانا پیش کیا گیا، لوگوں نے عرض کیا: کیا ہم آپ کے پاس وضو کا پانی نہ لائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے وضو کرنے کا حکم صرف اس وقت دیا گیا ہے جب میں نماز کے لیے کھڑا ہوں،
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر_3760)
(سنن ترمذی،حدیث نمبر-1847)
حدیث صحیح

*سجدہ تلاوت کے لیے قبلہ رخ ہونا ضروری نہیں، کیونکہ باوضو اور قبلہ رخ ہونا تو نماز کی شرائط میں سے ہے*

📒امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
سجدہ تلاوت چونکہ نماز نہیں ہے، لہذا اس کے لیے نماز کی شرائط مقرر نہیں کی جائیں گی بلکہ یہ وضو کے بغیر بھی جائز ہے۔ (مجموع فتاویٰ 23/165)

📒امام شوکانی رحمہ اللہ نے نیل الاوطار (2/340) میں اسی کو ترجیح دی ہے۔

📚ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ النجم کی تلاوت کے وقت سجدہ کیا تو مسلمانوں، مشرکوں اور جن و انس سب نے آپ کے ساتھ سجدہ کیا۔
(بخاری، سجود القرآن، سجود المسلمین مع المشرکین والمشرک نجس لیس لہ وضوء، ح: 1071)

ظاہر ہے کہ اس وقت سب مسلمان باوضو نہ ہوں گے اور مشرکوں کے وضو کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ مشرک تو ناپاک ہیں، ان کا وضو کیونکر ہو سکتا ہے!

📚نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی موجودگی میں سجدہ والی آیت پڑھتے اور سجدہ کرتے تو ہم بھی آپ کے ساتھ اس طرح سجدہ کرتے کہ پیشانی رکھنے کی جگہ بھی نہ ملتی جس پر سجدہ کرتے۔
(بخاری: 1075)

اس قدر ہجوم میں اکٹھے سجدہ کرتے وقت نہ تو ہر شخص باوضو ہوتا ہے اور نہ قبلہ رخ۔

📚 عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سجدہ تلاوت بغیر وضو کے ہی کر لیتے تھے۔ (أَبْوَابُ سُجُودِ الْقُرْآنِ | بَابُ سُجُودِ الْمُسْلِمِينَ مَعَ الْمُشْرِكِينَ قبل الحدیث،1071)

📒امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ کا موقف ہے کہ جو بے وضو شخص آیت سجدہ سنے وہ سجدہ کرے، خواہ جس سمت بھی اس کا چہرہ ہو۔ (المغنی 2/175)

📒حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
جب وضو کرنا مشکل ہو تو اس روایت سے بغیر وضو کے سجدہ تلاوت کرنے کے جواز پر استدلال کیا گیا ہے۔
(فتح الباری)

اس سے معلوم ہوتا ہے اگر وضو کرنے میں مشقت نہ ہو تو سجدہ تلاوت کے لیے وضو کرنا افضل ہے۔

📒بلکہ ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
سجدہ تلاوت کے لیے وہی شرط عائد کی جائے جو نفل نماز کے لیے لگائی جاتی ہے۔ یعنی حدث اور نجاست سے طہارت، ستر ڈھانپنا، قبلہ رخ ہونا اور نیت کرنا۔ اس میں ہمیں کسی اختلاف کا علم نہیں سوائے اس روایت کے جو عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حائضہ اگر آیتِ سجدہ سنے تو (صرف) اپنے سر سے اشارہ کر دے۔ (المغنی 2/175)

📒مولانا عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ بھی سجدہ تلاوت کے لیے انہی شرائط کے قائل ہیں۔
(تحفۃ الاحوذی 2/219)

📒امام زہری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
سجدہ تلاوت کے لیے طہارت ضروری ہے۔ اگر کوئی سفر کی حالت میں نہ ہو بلکہ گھر پر ہو تو سجدہ قبلہ رو ہو کر کیا جائے اور سواری پر قبلہ رخ ہونا ضروری نہیں۔ جدھر بھی رخ ہو سجدہ کر لینا چاہئے۔
(بخاری، سجود القرآن، من رای ان اللہ عزوجل لم یوجب السجود)

*خلاصہ یہ ہے کہ اگرچہ سجدہ تلاوت کے لیے باوضو اور قبلہ رُو ہونا ضروری نہیں تاہم باوضو اور قبلہ رُو ہو کر سجدہ تلاوت کرنا افضل ہے*

📒امام مسجد نبوی ابوبکر جابر جزائری لکھتے ہیں:
اس میں زیادہ ثواب ہے کہ سجدہ کرنے والا باوضو اور قبلہ رخ ہو کر سجدہ کرے۔ (منھاج المسلم، ص: 385)

___________&_____________

*سجدہ تلاوت کی  مسنون دعائیں یہ ہیں*

📚«اَللّٰهُمَّ اکْتُبْ لِی بِهَا عِنْدَکَ أَجْرًا وَضَعْ عَنِّی بِهَا وِزْرًا وَاجْعَلْهَا لِی عِنْدَکَذُخْرًا وَتَقَبَّلْهَا مِنِّی کَمَا تَقَبَّلْتَهَا مِنْ عَبْدِکَ دَاوُدَ»
”اے اللہ! اس کے بدلے تو میرے لیے اجر لکھ دے، اور اس کے بدلے میرا بوجھ مجھ سے ہٹا دے، اور اسے میرے لیے اپنے پاس ذخیرہ بنا لے، اور اسے مجھ سے تو اسی طرح قبول فرما جیسے تو نے اپنے بندے داود سے قبول کیا تھا“۔
(سنن ترمذی، الجمعة، باب ماجاء ما يقول فی سجود القرآن، حدیث نمبر_579)
(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر-1053)
حدیث حسن/صحیح

*سجدۂ تلاوت کی  دوسری مسنون دعا یہ بھی ہے*

📚جامع ترمذی
کتاب: سفرکا بیان
باب: قرآن کے سجدوں میں کیا پڑھے ؟
حدیث نمبر: 580
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:‏‏‏‏ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي سُجُودِ الْقُرْآنِ بِاللَّيْلِ:‏‏‏‏  سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلَقَهُ وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ بِحَوْلِهِ وَقُوَّتِهِ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  رات کے وقت قرآن کے سجدوں کہتے:
’’سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلَقَهُ، وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ بِحَوْلِهِ وَقُوَّتِهِ»
میرے چہرے نے اس ذات کو سجدہ کیا ہے جس نے اسے بنایا، اور اپنی طاقت و قوت سے اس کے کان اور اس کی آنکھیں پھاڑیں ۔  
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔  
تخریج دارالدعوہ:
(  سنن ابی داود/ الصلاة ٣٣٤ (١٤١٤)،
( سنن النسائی/التطبیق ٧٠ (١١٣٠)، 
( تحفة الأشراف: ١٦٠٨٣)،
مسند احمد (٦/٣٠، ٢١٧) (صحیح)  
قال الشيخ الألباني: 
صحيح، صحيح أبي داود (1273)  
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 580

*بعض علماء نے اس روایت کو ضعیف لکھا ہے کیونکہ سنن ابو داؤد_1414 والی روایت میں مجہول راوی ہے، لیکن سنن ترمذی اور نسائی وغیرہ کی سند میں عن رجل (مجہول راوی) نہیں ہے، اور خالد الخداء کی روایت ابوالعالیہ سے ثابت ہے اس لئے اس حدیث کی صحت میں کوئی کلام نہیں)*

اسکے علاوہ نماز کے سجدوں والی عام دعائیں اور تسبیحات بھی سجدہ تلاوت میں پڑھ سکتے ہیں کوئی حرج نہیں،

_______&_______

*سجدہ تلاوت کرنے کا طریقہ*

سجدہ تلاوت نمازہی کی طرح سات اعضاء پر کرنا ہے مگر اس میں نماز کی طرح شرائط نہیں ہیں۔سجدہ تلاوت کے لئے طہارت شرط نہیں ہے،حائضہ عورت جنبی مرد بھی سجدہ کر سکتے،اگر باوضو ہو تو اچھی بات ہےاور ممکن ہو تو افضل ہے قبلہ رخ ہوجائے تاہم بغیر قبلہ رخ کیا گیا سجدہ بھی ادا ہوجائے گا۔ سجدہ کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ اکبر کہتے ہوئے سجدہ میں جائے اور سجدہ تلاوت کی دعا کرے۔ سجدہ تلاوت کی دعا کافی ہے تاہم سجدہ تلاوت کی دعا کے ساتھ یا صرف عام سجدوں کی دعائیں اور دیگر مسنون دعائیں بھی کرسکتے ہیں،سجدہ میں دعا کرنے کے بعد بغیر تکبیر کے سر اٹھالے، بس ایک ہی سجدہ کرے ۔ سجدہ کے لئے نہ تو یہ ضروری ہے کہ بغیر وضو والا ضروری طور پر وضو کرے اور نہ ہی سجدہ کے لئے کھڑے ہوکر تکبیر تحریمہ کہنا یا سجدہ سے اٹھتے وقت تکبیر کہنا یا سجدہ کرکے سلام پھیرنا ثابت ہے۔ البتہ دوران نماز سجدہ تلاوت میں جاتے اور اٹھتے وقت تکبیر کہی جائے گی،

_________&___________

*سجدہ تلاوت کے متعلق شیخ مقبول سلفی حفظہ اللہ تعالیٰ کے تحریر سے ماخوذ چند دیگر مسائل*

📒عورت سجدہ کرے تو سر ڈھانپنا ضروری نہیں ہے تاہم بہتر ہے اور بعض اہل علم نے ضروری قرار دیا ہے مگر اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔

📒دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ حائضہ بھی قرآن پڑھ سکتی ہے وہ اگر سجدہ تلاوت سے گزرے تو شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے کہا ہےکہ حیضاء اور نفساء کے سجدہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ 

📒 ٭جس طرح اسباب والی نمازیں مکروہ اوقات میں بھی ادا کرسکتے ہیں اسی طرح سجدہ تلاوت بھی کرسکتے ہیں خواہ سورج ڈوب رہاہو یا نکل رہاہو۔ 

📒کوئی تلاوت کرے اور تھوڑی دیر بعد سجدہ کرے تو کوئی حرج نہیں ہے لیکن آیت سجدہ کی تلاوت پہ طویل وقت گزر جائے اور سجدہ نہیں تھا تو اب سجدہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ 

📒کوئی گاڑی چلاتے ہوئے ٹیپ رکارڈسے تلاوت کی آیت سنے تو ممکن ہو تو سجدہ کرلے ورنہ چھوڑ بھی سکتا ہے کیونکہ واجب نہیں ہے ، عدم وجوب کی دلیل اوپر گزری ہے۔

📒 ٹرین، جانورکی سواری اور جہاز وغیرہ پر سفر کرتے وقت آیت سجدہ پڑھنے یا سننے یا لاؤڈسپیکرسے آیت سجدہ سننے کا بھی یہی حکم ہے۔ سواری پہ سجدہ نہ کر سکنے کی صورت میں ہاتھ کے اشارے کے ساتھ تھوڑا سا جھک جائے اور دعا پڑھ لے یہ بھی کافی ہے،
 

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦ 
📖 سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
                   +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں