“سلسلہ سوال و جواب نمبر-323”
سوال_کیاشریعت نے تجارت میں منافع(Profit) کی کوئی حد مقرر کی ہے؟
زیادہ سے زیادہ کس حد تک منافع لیا جاسکتا ہے؟ کچھ علماء جو کہتے ہیں کہ دس یا فیصد تک منافع جائز ہے؟ کیا یہ بات قرآن وحدیث سے ثابت ہے؟
Published Date: 17-03-2020
جواب:
الحمدللہ:
*بلاشبہ شریعت کی نظر میں دولت کمانے اور منافع حاصل کرنے کے لیے تجارت ایک بہترین اور معزز پیشہ ہے۔قرآن کی متعدد آیتوں اور صحیح حدیثوں میں تجارت کا تذکرہ اچھے(Profit) میں ہوا ہے۔بلکہ قرآن کی مختلف آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے منافع کو “فَضْلِ اللَّهِ ” (اللہ کافضل) قراردیا ہے*
📚اعوذباللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
فَإِذا قُضِيَتِ الصَّلوٰةُ فَانتَشِروا فِى الأَرضِ وَابتَغوا مِن فَضلِ اللَّهِ ..
“پس جب نماز ختم ہوجائے توزمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔”
(سورہ جمعہ آئیت نمبر-10)
📚وَآخَرونَ يَضرِبونَ فِى الأَرضِ يَبتَغونَ مِن فَضلِ اللَّهِ…
“اورکچھ دوسرے ہیں جو زمین میں سفر کرتے ہیں اللہ کا فضل تلاش کرتے ہوئے۔”
(سورہ المزمل آئیت نمبر-20)
*حج جیسی عظیم عبادت کے دوران بھی اللہ نے اس فضل کو کمانے سے منع نہیں کیا*
فرماتا ہے:
📚لَيسَ عَلَيكُم جُناحٌ أَن تَبتَغوا فَضلًا مِن رَبِّكُم…
“تمہارے لیے کوئی حرج نہیں ہے کہ تم اللہ کا فضل تلاش کرو(یعنی حج کے دوران بھی)”
(سورہ البقرہ آئیت نمبر-198)
📚حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
“أَلَا مَنْ وَلِيَ يَتِيمًا لَهُ مَالٌ فَلْيَتَّجِرْ فِيهِ وَلَا يَتْرُكْهُ حَتَّى تَأْكُلَهُ الصَّدَقَةُ”
“سنوجب کوئی شخص کسی ایسے یتیم کاسرپرست بنایا جائے جس کے پاس مال ودولت ہے تو اسے چاہیے کہ اس مال میں تجارت کرے اور اسے یونہی بغیر تجارت کے نہ چھوڑ دے کیونکہ اس طرح چھوڑنے سے اس کاسارا مال زکوٰۃ کھا جائے گی۔”
(سنن ترمذی حدیث نمبر-641)
یہ روائیت ضعیف ہے،
(لألباني ضعيف الجامع 2179) • ضعيف)
*یعنی جس مال میں تجارت نہ کی جائے اور ہر سال اس میں زکوٰۃ اد کی جائے تو دھیرے دھیرے یہ بغیر کسی منافع کے ختم ہوجائے گا، اگرچہ یہ روائیت سند کے لحاظ سے ضعیف ہے مگر یہ حدیث تجارت کے سلسلے میں ایک اہم بات کی طرف اشارہ کررہی ہے، وہ یہ کہ کسی بھی تجارت کا کم از کم یہ مقصد ہونا چاہیے کہ اس سے نفع حاصل کیا جائے تاکہ اس نفع سے انسان کی ضرورتیں پوری ہوں۔نان ونفقہ کا انتظام ہوجائے۔اور اس نفع کی وجہ سے اصل سرمایہ میں ہمیشہ اضافہ ہوتا رہے نہ کہ زکوٰۃ ادا کرنے کی وجہ سے دھیرے دھیرے یہ اصل سرمایہ بھی ختم ہوجائے*
*منافع کی شرعی حد*
قرآن وسنت کے تفصیلی مطالعے سے معلوم ہوتا ہےکہ شریعت نے منافع کی کوئی شرح متعین نہیں کی ہے۔نہ دس فیصد نہ بیس فیصد اور نہ اس سے زیادہ یا کم۔شاید اس کی حکمت ومصلحت یہ ہے کہ ہر زمانے اور ہر علاقے کے لیے منافع کی ایک ہی شرح متعین کرنا عدل و انصاف کے منافی ہے،کیونکہ کچھ سامان تجارت ایسے ہوتے ہیں جن کی کھپت (Consurning) بہت تیز ہوتی ہے۔اور ان کی فروخت جلد جلد ہوتی ہے۔مثلاً کھانےپینے کی چیزیں۔کچھ سامان تجارت ایسے ہوتے ہیں جن کی کھپت بہت سست اور کبھی کبھی بہت تیز ہوتی ہے۔مثلاً کار،فرنیچر اور کپڑے وغیرہ، ظاہر ہے کہ ان دونوں طرح کے سامان تجارت میں منافع کی شرح ایک جیسی نہیں ہو سکتی۔جس سامان تجارت کی کھپت جلد اور تیز ہوتی ہے ان میں منافع کی شرح کم ہونی چاہیے۔جب کہ دوسری قسم کے سامان تجارت میں یہ شرح زیادہ ہوسکتی ہے۔
*شریعت میں منافع کی حد مقرر نا کرنے کی بہت سی وجوہات ہیں، جن میں سے چند ایک یہ ہیں*
📒نمںر-1
بعض دکان دار چھوٹے ہوتےہیں اور کم سرمائے سے تجارت کرتےہیں۔ جب کہ بڑے دکان دار بڑے سرمایہ سے تجارت کرتے ہیں۔ یعنی ہول سیل ڈیلر حضرات،ظاہر ہے کہ بڑا سرمایہ دار بہت کم منافع لے کر بھی فائدے میں رہے گا۔جب کہ چھوٹا دکان دار کم منافع لے کر اپنی تجارت کو فروغ نہیں دے سکتا۔اس لیے ضروری ہے کہ وہ زیادہ نفع لے۔
📒نمبر-2
کچھ سامان تجارت ایسے ہوتے ہیں جن کا شمار ضروری اور بنیادی اشیاء صرف(Essential)(Goods اور کچھ سامان تجارت ایسے ہوتے ہیں جن کاشمار سامان تعیش(Luxury Goods) میں ہوتا ہے۔ظاہر ہے کہ ان دونوں قسم کے سامان تجارت میں منافع کی شرح ایک جیسی نہیں ہوسکتی۔بنیادی اشیاء غریب لوگ بھی خریدتے ہیں اس لیے ان میں منافع کی شرح بہت کم ہونی چاہیے۔جب کہ سامان تعیش میں منافع کی شرح زیادہ بھی کی جاسکتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ شریعت نے ضروری اور بنیادی اشیاء صرف مثلاً غلہ وغیرہ کی ذخیرہ اندوزی کوحرام قراردیا ہے کیونکہ ذخیرہ اندوزی کے ذریعے ان میں بہت زیادہ نفع حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔جو غریبوں کے لیے تباہ کن ہے۔ جبکہ لگزری گڈز یعنی کھانے پینے کے علاوہ صرف خوبصورتی والی قیمتی چیزوں کی ذخیرہ اندوزی حرام نہیں کی،
📒نمبر-3
بعض سامان تجارت ایسے ہوتے ہیں جو صرف ایک واسطے(Mediator) کے بعد بازار میں پہنچ جاتے ہیں۔اس لیے ان میں منافع کی شرح کم ہوتی ہے۔جب کہ بعض سامان تجارت فیکٹری سے نکل کر کئی واسطوں سے ہوتے ہوئے بازار میں آتے ہیں۔اس قسم کے سامان تجارت میں پہلے سامان کے مقابلے میں منافع کی شرح زیادہ ہونی چاہیے۔
📒نمبر-4
بعض اوقات تجارت انتہائی نازک چیزوں کی ہوتی ہے جیسے شیشہ وغیرہ جس میں اکثر ٹوٹ پھوٹ سے نقصان ہوتا رہتا ہے تو اس میں پروفٹ کم رکھنے سے دکاندار کو نقصان ہوتا ہے، ٹوٹنے والے مال کا نقصان بھی اسے باقی مال سے نکالنا ہوتا ہے،
📒نمبر-5
بعض اوقات تجارت ایسی نایاب چیزوں کی ہوتی ہے جنکی سیل کم ہوتی ہے مطلب دکاندار گاہک کی ضرورت کیلے ایک آئٹم پچاس یا سو کی تعداد میں لاتا ہے تو بمشکل 10 پیس بکتے ہیں اور باقی ضائع ہو جاتے ہیں، مثال کے طور پر جیسے میرا موبائل کا بزنس ہے تو موبائل کا گلاس پروٹیکٹر 30 سے 35 روپے کا آتا ہے، جو ہم روٹین کے عام موبائلز کو 50 کا بھی لگا دیتے ہیں، مگر جو خاص امپورٹڈ موبائلز ہیں جو بہت کم آتے ہیں وہ سو کا لگاتے ہیں، اب بظاہر اس میں منافع تو تین گنا ہے، مگر ان خاص موبائلز کے پروٹیکٹر اور موبائل کور وغیرہ سو میں سے 10 یا 20 بکتے ہیں باقی ضائع ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ ماڈل دوبارہ مارکیٹ میں بکتا نہیں، اب اگر دکاندار اس طرح کی خاص چیزیں بھی تھوڑا پروفٹ لیکر بیچے تو باقی مال ضائع ہونے کی وجہ سے اسے فائیدہ کی بجائے ڈبل نقصان ہو گا،
📒نمبر-6
ایک صورت یہ بھی ہے کہ ایک شخص منڈی وغیرہ سے سبزی لیکر وہیں بیچ دیتا ہے وہ کم پروفٹ لیکر بیچ دے گا، لیکن ایک شخص اس سبزی کو منڈی سے لیکر سارا دن گلی گلی شہر شہر گاؤں گاؤں گھومتا ہے محنت کرتا ہے، تو وہ اس سبزی میں زیادہ پروفٹ لے گا کیونکہ اسکی محنت زیادہ ہے، اس نے وقت زیادہ دیا ہے، ایک شخص کی گاؤں میں دکان چھوٹی ہے کرایہ تھوڑا ہے، وہ کم منافع لے گا تو بھی گزارا ہو گا، اور ایک شخص کی مال میں دکان بڑی ہے، کرایہ زیادہ ہے، تو وہ زیادہ نفع لے گا،تا کہ دکان کے اخراجات نکال سکے،
غرض کہ منافع کی شرح متعین کرنے میں بہت سارے عوامل کار فرما ہوتے ہیں جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا۔عدل وانصاف کا تقاضا ہے کہ منافع کی شرح متعین کرتے وقت ان سب عوامل کی رعایت کی جائے اگر شریعت نے تمام حالات اور تمام طرح کے سامان تجارت میں منافع کی ایک ہی شرح متعین کردی ہوتی تو یہ بات عدل وانصاف کے منافی ہوتی۔شریعت نے تاجر کے ضمیر پر یہ بات چھوڑ دی ہے کہ وہ ان سب عوامل کی رعایت کرتے ہوئے اور معاشرہ میں مروجہ اصول کو دیکھتے ہوئے منافع کی کوئی شرح متعین کرلے۔وہ ایسی شرح متعین کرے جس سے نہ اسے نقصان ہو اور نہ خریداروں کو۔کسی کی حق تلفی نہ ہو۔کیونکہ اسلامی معاشیات میں اخلاقیات کا بڑا عمل دخل ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے بالکل برعکس کہ جس نظام میں دولت کمانے کی خاطر ہر طریقہ جائز ہے چاہے وہ دولت سود سے آتی ہو یا ذخیرہ اندوزی کے ذریعہ یا شراب اور دوسری مضر اشیاء فروخت کرکے،
جبکہ اسلامی معاشیات میں ہر وہ طریقہ تجارت حرام ہے جس میں کسی کی حق تلفی ہوتی ہو یا جو اخلاقیات کے منافی ہو۔اسلام نے اگرچہ منافع کی کوئی شرح متعین نہیں کی ہے لیکن اخلاقیات کی پابندی ہرحالت میں ضروری ہے۔
*بعض حنفی علماء نے سو یا اس سے زائد فیصد منافع حاصل کرنے کو غلط قراردیا ہے*
*جب کہ بعض مالکی علماء نے تیس پینتیس فیصد سے زیادہ نفع کو غلط قراردیا ہے*
*حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے عمل سے ثابت ہے کہ انھوں نے کبھی سو فیصد اور کبھی اس سے بھی زیادہ نفع لیا ہے،ان لوگوں کا عمل اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ بعض صورتوں میں سو یا اس سے زیادہ فیصد نفع لیا جاسکتا ہے بشرط یہ کہ کسی پر ظلم نہ ہو رہا ہو یا کسی کی حق تلفی نہ ہو رہی ہو۔ ذیل میں چند ایسے واقعات پیش کررہا ہوں جن میں سو فیصد یا اس سے بھی زیادہ نفع لینے کا تذکرہ موجود ہے*
دلیل نمبر-1
📚۔بخاری،ترمذی اور مسند احمد وغیرہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک دینار دے کر بھیجا کہ وہ اس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک بکری خرید لیں۔عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بکری والے سے مول تول کیا اور ایک دینار میں دو بکریاں خرید لیں۔وہ دونوں بکریاں لے کر آرہے تھے کہ راستے میں انھیں ایک شخص مل گیا اس نے دونوں بکریوں میں سے ایک بکری ایک دینار کے عوض خرید لی۔(گویاحضرت عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سو فیصد نفع لے کر بکری فروخت کی) پھرعروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فرمایا کہ یہ لیجئے ایک بکری اور ساتھ میں ایک دینار۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تعجب سے دریافت کیا کہ عروہ تم نے یہ کیسے کیا؟عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سارا واقعہ بیان کردیا۔اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عروہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کی تجارت میں برکت کی دعادی اور پھر تو ان کا یہ حال ہوا کہ اگر مٹی بھی خریدتے تو اس میں انہیں نفع ہو جاتا۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر-3642)
(سنن ترمذی حدیث نمبر-1258)
(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر-2402)
(مسند احمد حدیث نمبر-19356)
اس حدیث میں واضح دلیل ہے کہ عروہ رضی اللہ عنہ نے ایک دینار میں دو بکریاں خریدیں اور پھر رستے میں ہی آدھے دینار والی بکری کو ایک دینار میں بیچ دیا،اور دینار بھی واپس لے آئے اور بکری بھی، یعنی سو فیصد منافق حاصل کیا، اور یہ سارا واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتایا تو آپ نے کوئی اعتراض نہیں کیا، بلکہ انکو تجارت میں برکت کی دعا دی، جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ منافع کی کوئی شرعی حد مقرر نہیں،
دلیل نمبر-2
📚سو فیصد سے بھی زیادہ نفع لینے کا واقعہ بخاری شریف میں ذرا تفصیل کے ساتھ درج ہے۔اس واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی تھے اور جنھیں دنیا ہی میں جنت کی خوش خبری دے دی گئی تھی۔انھوں نے مدینہ کےمضافات میں ایک زمین ایک لاکھ ستر ہزار درہم میں خریدی۔ان کی شہادت کے بعد ان کا قرض چکانے کے لیے ان کے بیٹے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے یہی زمین سولہ لاکھ درہم میں فروخت کی۔۔انتہی!
(صحیح بخاری حدیث نمبر-3129)
گویا انہوں نے سو گنا نفع حاصل کیا،
یہ واقعہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت کا ہے۔زمین فروخت کرنے والے حضرت عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے اور زمین خریدنے والے متعدد جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین تھے مثلاً معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عبداللہ بن جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ۔
اور یہ سودا بہت سارے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی موجودگی میں طے پایا۔اگر اس طرح کوئی سو فیصد نفع لینا شریعت کی نظر میں غلط ہو تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ضرور اعتراض کرتے لیکن کسی نے بھی اعتراض نہیں کیا۔اس لیے یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ سو فیصد سے زیادہ نفع بھی لیاجاسکتا ہے بشرط یہ کہ اس میں کوئی غبن دھوکا اورذخیرہ اندوزی نہ ہو۔
*ان واقعات کوبیان کرنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ہر طرح کی تجارت میں سویا اس سے زیادہ فیصد نفع لیناجائز ہے۔ان کے بیان کامقصد صرف یہ ہے کہ شریعت نے نفع کی کوئی شرح مقرر نہیں کی ہے۔بعض صورتوں میں نفع کی شرح سو فیصد یا اس سے زائد بھی ہوسکتی ہے اور شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔بشرط یہ کہ غبن،دھوکا اور ذخیرہ اندوزی کے ذریعے یہ نفع نہ حاصل کیا جائے*
📒 سعودی فتاویٰ کمیٹی کا فتویٰ:
السوال
“” إنه متسبب في البيع والشراء، وإنه يبيع السلعة مؤجلا بربح قد يصل إلى الثلث أو الربع، وقد يبيع السلعة على شخص بثمن أقل أو أكثر من بيعها على الآخر. ويسأل هل يجوز ذلك؟
الجواب :
قال الله تعالى:
( وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ) ،
وقال تعالى: ( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوهُ ) الآية .
وعليه : فإذا كان السائل يبيع ما يبيعه بعد تملكه إياه تملكا تاما وحيازته ، فلا حرج عليه في بيعه بما يحصل التراضي والاتفاق عليه ، سواء ربح الربع أو الثلث ، كما أنه لا حرج عليه في تفاوت سعر بيعه بضائعه ، بشرط أن لا يكذب على المشتري، بأنه باعه مثل ما باع على فلان، والحال أن بيعه عليه يختلف عنه ، وأن لا يكون فيه غرر ، ولا مخالفة لما عليه سعر السوق.
إلا أنه ينبغي له التخلق بالسماحة والقناعة ، وأن يحب لأخيه المسلم ما يحب لنفسه ، ففي ذلك خير وبركة ، ولا يتمادى في الطمع والجشع ، فإن ذلك يصدر غالبا عن قساوة القلوب ، ولؤم الطباع ، وشراسة الأخلاق” انتهى .
*خلاصہ*
اس فتویٰ کا مختصر خلاصہ یہ ہے کہ ایک شخص سوال کرتا ہے کہ کیا دکاندار کیلئے یہ جائز ہے کہ کسی کو تھوڑے پروفٹ پر اپنی چیز بیچے اور کسی کو زیادہ پروفٹ پر؟
تو علمائے کرام نے جواب دیا ،
کہ اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور جب خریدنے والا اس قیمت پر راضی ہو اور دکاندار جھوٹ وغیرہ بول کر نا بیچے تو اسکے لیے اپنی مرضی کا کم یا زیادہ منافع لینا جائز ہے، جیسے وہ اپنی چیز کو قیمت خرید سے کم میں بیچ سکتا ہے ایسے ہی وہ اسکو زیادہ سے زیادہ منافع ساتھ بھی بیچ سکتا ہے، چاہے وہ تہائی لے یا چوتھائی اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن اگر وہ مارکیٹ کے ریٹ کے مطابق اور مناسب منافع کے ساتھ بیچے اور لوگوں سے بھلائی کرے تو یہ احسن ہے،
(فتاوى اللجنة الدائمة” (13/ 88)
الشيخ عبد الله بن منيع … الشيخ عبد الله بن غديان … الشيخ عبد الرزاق عفيفي …
الشيخ عبد العزيز بن عبد الله بن باز .)
📒شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کا فتویٰ..!
وسئل الشيخ ابن عثيمين رحمه الله :
” هل هناك حدٌ شرعي يحدد الأرباح التجارية فيضعها في الثلث أو غيره ، فإنني سمعت أن من الناس من يحددها بالثلث ، ويستدل على ذلك بأن عملية البيع تكون مبنية على التراضي ، واختاروا الثلث ليرضي الجميع . نرجو التوضيح والتفصيل مأجورين؟
فأجاب :
الربح الذي يكتسبه البائع ليس محدداً شرعاً ، لا في كتاب الله ولا في سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم ، ولا في إجماع أهل العلم ، ولا علمنا أن أحداً حدده .
غاية ما في ذلك أن بعضاً من أهل العلم ، لما ذكروا خيار الغَبْن : قالوا إن مثله أن يُغبن بعشرين في المائة ، أي بالخمس .
ولكن مع هذا ، ففي النفس منه شيء ؛ فإن التحديد بالخمس ليس عليه دليلٌ أيضا .
فعلى كل حال : فإننا نقول : إنه لا حد للربح ؛ لعموم قوله تعالى : ( وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ ) ، وعموم قوله تعالى : ( إِلاَّ أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ ) .
فمتى رضي المشتري بالثمن ، واشترى به : فهو جائز ، ولو كان ربح البائع فيه كثيراً .
اللهم إلا أن يكون المشتري ممن لا يعرفون الأسعار ، غريراً بالقِيَم والأثمان : فلا يجوز للبائع أن يخدعه ، ويبيع عليه بأكثر من ثمن السوق ، كما يفعله بعض الناس الذي لا يخافون الله ، ولا يرحمون الخلق ، إذا اشترى منهم الصغير والمرأة والجاهل بالأسعار: باعوا عليه بأثمان باهظة . وإذا اشترى منهم من يعرف الأسعار ، وهو عالمٌ يعرف كيف يشتري : باعوا عليه بثمن أقل بكثير .
إذن نقول في الجواب : إن الربح غير محدد شرعاً ، فيجوز للبائع أن يربح ما شاء ؛ لعموم الآيتين الكريمتين (وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ) و (إِلاَّ أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ) ، ولأن الزيادة والنقص خاضعان للعرض والطلب ، فقد يكون الطلب شديداً على هذه السلعة فترتفع قيمتها ، وقد يكون ضعيفاً فتنخفض .
ومن المعلوم أنه قد يشتري الإنسان الشيء بمائة ثم تزيد الأسعار فجأة فيبيعها في اليوم الثاني أو بعد مدةٍ طويلة بمائتين أو بثلاثمائة أو أكثر .
نعم ، من احتكر شيئاً معيناً من المال ، وصار لا يبيعه إلا بما يشتهي : فإن لولي الأمر أن يتدخل في أمره ، وأن يجبره على بيعه بما لا يضره ، ولا يضر الناس ، سواءٌ كان هذا المحتكر واحداً من الناس ، أو جماعةً لا يتعامل بهذا الشيء إلا هم ، فيحتكرونه ؛ فإن الواجب على ولي الأمر في مثل هذه الحال أن يجبرهم على البيع بربحٍ لا يضرهم ، ولا يضر غيرهم .
أما إذا كانت المسألة مطلقة ، والشيء موجودٌ في كل مكان لا يحتكره أحد ، فإنه لا بأس أن يأخذ ما شاء من الربح ، إلا إذا كان يربح على إنسانٍ جاهل غرير لا يعرف ؛ فهذا حرامٌ عليه أن يربح عليه أكثر مما يربح الناس في هذه السلعة ” انتهى من
( “فتاوى نور على الدرب”.)
*خلاصہ*
عظیم سعودی مفتی شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ کیا منافع کی کوئی شرعی حد مقرر ہے؟ میں نے کچھ لوگوں سے سنا ہے کہ شریعت میں ایک تہائی منافع کی حد مقرر ہے ؟ اور اگر کسی شخص نے کوئی چیز کم قیمت میں خریدی ہو اور بعد میں مارکیٹ میں اس چیز کا ریٹ بڑھ جائے تو کیا وہ اسکو زیادہ قیمت پر بیچ سکتا ہے؟
تو شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کا جواب تھا کہ شریعت میں منافع کی کوئی شرعی حد مقرر نہیں ہے، نا قرآن میں نا سنت رسول میں اور نا ہی علمائے کرام کا اس پر کوئی اجماع ہے، اور نا ہی میرے علم میں ہے کہ کسی نے اسکی حد مقرر کی ہو، دکاندار جتنا چاہے منافع لے سکتا ہے اور اسکی دلیل قرآن کی یہ عمومی آئیت ہے کہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور جب خریدنے والا اس قیمت پر راضی ہو تو بیچنے والے کیلے جائز ہے کہ وہ جتنا چاہے منافع لے، ۔۔۔۔ اور اگر کسی شخص نے کوئی چیز کم قیمت پر خریدی اور وہ چیز پڑی رہی اور بعد میں ریٹ بڑھ گئے تو اس شخص کیلئے اس چیز کو زیادہ قیمت پر بیچنا جائز ہے ،
لیکن اگر وہ جھوٹ بولے یا کسٹمر کی معصومیت کا فائیدہ اٹھا کر اس سے ڈبل ٹرپل منافع کمائے، یا ذخیرہ اندوزی کر کے قیمت بڑھا کر بیچے تو یہ سب حرام اور ناجائز ہے،
( ماخوذ از فتاویٰ نور علی الدب)
*ان تمام دلائل سے بات ثابت ہوئی کہ شریعت نے منافع کی کوئی حد مقرر نہیں کی ہے اور اسے مارکیٹ پر چھوڑدیا ہے کیونکہ مانگ اور سپلائی کے اُصول پر مارکیٹ منافع کی شرح خود ہی مقرر کرلیتا ہے۔معاشیات کا علم رکھنے والے اس اُصول کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ البتہ اگر صورتحال ایسی ہو کہ مارکیٹ میں منافع کی شرح چند اسباب کی بنا پر ضرورت سے زیادہ ہو تو ایسی صورت میں حکومت کے لیے ضروری ہے کہ مارکیٹ میں دخل اندوزی کرتے ہوئے قیمت اور منافع کی شرح کو متعین کردے*
__________&____________
*ضرورت اس بات کی ہے کہ یہاں اُن منافعوں کا بھی مختصر تذکرہ کر دیا جائے جن کا حاصل کرنا حرام ہے*
1۔حرام اشیاء مثلاً شراب،نشیلی دواؤں اور مورتیوں وغیرہ کی تجارت سے حاصل کیا گیا نفع حرام ہے۔اسی طرح ہر اس چیز کی تجارت سے حاصل کیا ہوا نفع حرام ہے جو لوگوں کے لیے نقصان دہ ہے۔مثلاً کھانے کی وہ چیزیں جو زیادہ وقت گزرنے کی وجہ سے گل سڑ گئی ہوں یا وہ دوائیں جو صحت کے لیے مضر ہوں وغیرہ وغیرہ۔۔”
2۔فریب دھوکے سے حاصل کیا گیا منافع حرام ہے۔
دھوکے کی صورتیں یہ بھی ہیں کہ خریدار کو بھولا بھالا اور سادہ لوح سمجھ کر اس سے ضرورت سے زیادہ قیمت وصول کرلی جائے۔یاخریدار کی شدید ضرورت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے دگنی چوگنی قیمت وصول کی جائے۔نفع حاصل کرنے کے یہ طریقے حرام ہیں
3۔کھانے پینے کی بنیادی ضروریات والے سامان کی ذخیرہ اندوزی کرکے حاصل کیا گیا نفع بھی حرام ہے۔
____________&____________
*اس پوری بحث کاخلاصہ یہ ہے کہ تجارت میں منافع حاصل کرنا جائز بلکہ پسندیدہ عمل ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے”فضل اللہ” سے تعبیر کیا ہے۔شریعت نے منافع کی کوئی حد مقرر نہیں کی ہے۔بعض احادیث میں سو فیصد یا اس سے زیادہ نفع لینے کا تذکرہ موجود ہے*
*بہتر یہ ہوگا کہ کم منافع پر قناعت کیا جائے۔کم منافع لینے سے سامان کی فروخت بڑھ جاتی ہے اور کاروبار میں اضافہ ہوتا ہے جب کہ زیادہ منافع لینے سے وقتی فائدہ تو ضرور ہوتا ہےلیکن حقیقت میں زیادہ نفع لینے سے کاروبار میں زوال شروع ہوجاتا ہے۔حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو نہایت مال دار صحابی تھے اور دنیا ہی میں انھیں جنت کی خوشخبری دے دی گئی تھی ان سے ان کی مال داری کا سبب پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ میں نے کبھی کم سے کم نفع کو بھی نہیں ٹھکرایا*
*بہت زیادہ نفع لینا بعض حالات میں جائز نہیں،جیسے وہ اشیائے صرف جن کا تعلق غریبوں سے ہوتا ہے اور وہ اشیاء صرف جنھیں ہم لازمی اور ضروری اشیاء قرار دیتےہیں۔مثلاً کھانے پینے کی چیزیں اور کپڑے وغیرہ۔ان میں ضرورت سے بہت زیادہ نفع لینا درست نہیں اور دھوکا،غبن،ذخیرہ اندوزی یا ہر اس طریقے سے نفع حاصل کرنا حرام ہے،جس سے خریداروں کو نقصان پہنچے۔اسی طرح حرام چیزوں کی تجارت سے کمایا ہوا نفع بھی حرام ہے۔اگرچہ تاجروں کو حلال نفع کمانے کا پورا حق ہے ،لیکن حکومت کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ ضرورت پڑنے پر اشیاء صرف کی قیمت اور منافع کی شرح متعین کرنے کے لیے دخل اندازی کرے تاکہ چند لوگ مل کر عوام کو نقصان نہ پہنچا سکیں*
(والله تعالیٰ اعلم باالصواب)
🌹اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765
آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/
آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/