1,011

سوال_بچوں کے ایسے تصویری کھلونے جو انسانوں یا حیوانوں کی شکلوں کے ہوں جیسے گڑیا، بھالو اور گھوڑا وغیرہ۔۔کیا انکا بیچنا/خریدنا اور گھروں میں رکھنا جائز ہے؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-298″
سوال_بچوں کے ایسے تصویری کھلونے جو انسانوں یا حیوانوں کی شکلوں کے ہوں جیسے گڑیا، بھالو اور گھوڑا وغیرہ۔۔کیا انکا بیچنا/خریدنا اور گھروں میں رکھنا جائز ہے؟

Published Date: 16-10-2019

جواب!!
الحمدللہ!!

*جاندار چیزوں کی مورتیوں اور تصاویر کو اسلام نے حرام قرار دیا ہے نا انکو بنانا جائز ہے اور نا ہی بیچنا جائز ہے،بلکہ صاحب شریعت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انکے بنانے والوں اور گھر میں رکھنے والوں کے بارے بہت سی احادیث میں وعید بھی سنائی ہے*

چند ایک احادیث یہ ہیں،

📚نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَيْتًا فِيهِ كَلْبٌ وَلَا تَصَاوِيرُ، رحمت کے فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا یا مورتیاں ہوں،
(صحیح بخاری،حدیث نمبر:5949)

📚آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،
إِنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَذَابًا عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ الْمُصَوِّرُونَ
قیامت کے دن تصاویر بنانے والے کو سخت ترین عذاب سے دوچار کیا جائے گیا۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر:5950)

📚آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،
”جو لوگ یہ مورتیں بناتے ہیں انہیں قیامت کے دن عذاب کیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا کہ جس کو تم نے بنایا ہے اب اس میں جان بھی ڈالو۔“
(صحیح بخاری حدیث نمبر :5951)

رسول اللہ ﷺاس گھر میں داخل نہیں ہوتے تھےجن میں تصویر یں ہوتی تھیں،

📚عائشہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتی ہیں کہ انہوں نے ایک گدا خریدا جس پر تصویریں تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( اسے دیکھ کر ) دروازے پر کھڑے ہو گئے اور اندر تشریف نہیں لائے۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں نے جو غلطی کی ہے اس سے میں اللہ سے معافی مانگتی ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ گدا کس لیے ہے؟ میں نے عرض کیا کہ آپ کے بیٹھنے اور اس پر ٹیک لگانے کے لیے ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان مورت کے بنانے والوں کو قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا کہ جو تم نے پیدا کیا ہے اسے زندہ بھی کر کے دکھاؤ اور فرشتے اس گھر میں نہیں داخل ہوتے جس میں مورت ہو۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر:5957)

*ان تمام احادیث سے یہ بات ثابت ہوئی کہ مورتیوں اور تصاویر بنانےاور شوقیہ طور پر انہیں اپنے پاس رکھنے یا گھر میں سجانے کی بہت سخت وعیدیں ہیں،ہاں البتہ ان تصاویر کی چند ایک صورتیں جائز ہیں ان میں سے ایک صورت بچوں کے کھلونوں کی بھی ہے،لہذا گڑیا اور جانوروں کے پتلے نما کھلونے اگر بچوں کیلئے ہوں تو ان کی تجارت کرنے میں کوئی حرج نہیں؛ کیونکہ گڑیا سے کھیلنے کی اجازت موجود ہے، اور ویسے بھی بچوں کو ایسی کئی چیزوں میں رخصت ہے جن کی بڑوں کو نہیں ہے،البتہ جن مجسموں کو بڑے افراد اپنی بیٹھک اور گاڑی وغیرہ میں سجانے کیلیے خریدیں تو انہیں فروخت کرنا جائز نہیں ہے،*

*بچوں کے کھلونوں کے جواز کے دلائل*

📚ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا نے کہا
وَنُصَوِّمُ صِبْيَانَنَا الصِّغَارَ مِنْهُمْ – إِنْ شَاءَ اللَّهُ – وَنَذْهَبُ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَنَجْعَلُ لَهُمُ اللُّعْبَةَ مِنَ الْعِهْنِ ، فَإِذَا بَكَى أَحَدُهُمْ عَلَى الطَّعَامِ ؛ أَعْطَيْنَاهَا إِيَّاهُ عِنْدَ الْإِفْطَارِ.
کہ ہم اپنے چھوٹے بچوں کو بھی روزہ رکھواتے تھے اور ہم انہیں مسجد کی طرف لے جاتے اور ہم ان کے لئے روئی کی گڑیاں بناتے اور جب ان بچوں میں سے کوئی کھانے کی وجہ سے روتا تو ہم انہیں وہ گڑیا دے دیتے تاکہ وہ افطاری تک ان کے ساتھ کھیلے،
(صحیح مسلم،حدیث نمبر-1136)
(صحیح بخاری حدیث نمبر-1960)

📚ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ
كُنْتُ أَلْعَبُ بِالْبَنَاتِ ، فَرُبَّمَا دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدِي الْجَوَارِي، فَإِذَا دَخَلَ خَرَجْنَ، وَإِذَا خَرَجَ دَخَلْنَ.
میں گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی، کبھی کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آتے، میرے پاس لڑکیاں ہوتیں، تو جب آپ اندر آتے تو وہ باہر نکل جاتیں اور جب آپ باہر نکل جاتے تو وہ اندر آ جاتیں،
(سنن ابي داود، كِتَاب الْأَدَبِ/ باب فِي اللَّعِبِ بِالْبَنَاتِ/ باب: گڑیوں سے کھیلنے کا بیان_حدیث نمبر-4931)

📚صحیح بخاری اور مسلم میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ :
(میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنی گڑیوں سے کھیلتی تھی اور میری کچھ سہیلیاں بھی میرے ساتھ کھیلتی تھیں۔۔۔ الحدیث)
( صحیح بخاری: حدیث نمبر_6130)
(صحیح مسلم: حدیث نمبر_2440)

📚حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں اسکی شرح میں کہتے ہیں:
” وَاسْتُدِلَّ بِهَذَا الْحَدِيث عَلَى جَوَاز اِتِّخَاذ صُوَر الْبَنَات وَاللُّعَب مِنْ أَجْل لَعِب الْبَنَات بِهِنَّ , وَخُصَّ ذَلِكَ مِنْ عُمُوم النَّهْي عَنْ اِتِّخَاذ الصُّوَر , وَبِهِ جَزَمَ عِيَاض وَنَقَلَهُ عَنْ الْجُمْهُور , وَأَنَّهُمْ أَجَازُوا بَيْع اللُّعَب لِلْبَنَاتِ لِتَدْرِيبِهِنَّ مِنْ صِغَرهنَّ عَلَى أَمْر بُيُوتهنَّ وَأَوْلادهنَّ وَقَدْ تَرْجَمَ اِبْن حِبَّان : الإِبَاحَةُ لِصِغَارِ النِّسَاء اللَّعِب باللُّعَب …. وفي رِوَايَة جرير عن هشام : ” كُنْت أَلْعَب بِالْبَنَاتِ وَهُنَّ اللُّعَب ” أَخْرَجَهُ أَبُو عَوَانَة وَغَيْره
“اس حدیث سے یہ دلیل لی گئی ہے کہ بچیوں کے کھیلنے کیلیے گڑیا اور کھلونوں کی تصویر اور شکل بنانا جائز ہے، اسے تصاویر کی عام ممانعت سے خاص کیا گیا ہے، قاضی عیاض نے یہ بات ٹھوس الفاظ میں کہی ہے اور اس موقف کو جمہور سے نقل کیا ہے، اور انہوں نے بچیوں کے کھیلنے کیلیے گڑیا فروخت کرنا جائز قرار دیا ہے تا کہ بچیوں کی بچپن سے ہی امورِ خانہ داری اور اولاد کی دیکھ بھال کرنے کی تربیت ہو، ابن حبان رحمہ اللہ نے اس حدیث کیلیے عنوان قائم کیا ہے: “چھوٹی بچیوں کیلیے کھلونوں سے کھیلنے کا جواز۔۔۔” اور ابن جریر کی ہشام سے روایت کردہ روایت میں الفاظ یوں ہیں[جس کا اردو مفہوم یہ ہے]: “میں بچیوں کی شکل کے بنے ہوئے کھلونوں سے کھیلتی تھی” اسے ابو عوانہ وغیرہ نے روایت کیا ہے۔

📚وَتَابَعَهُ النَّوَوِيُّ فِي شَرْحِ مُسْلِمٍ , فَقَالَ : يُسْتَثْنَى مِنْ مَنْعِ تَصْوِيرِ مَا لَهُ ظِلٌّ , وَمِنْ اتِّخَاذِهِ لُعَبَ الْبَنَاتِ , لِمَا وَرَدَ مِنْ الرُّخْصَةِ فِي ذَلِكَ . وَهَذَا يَعْنِي جَوَازَهَا , سَوَاءٌ أَكَانَتْ اللُّعَبُ عَلَى هَيْئَةِ تِمْثَالِ إنْسَانٍ أَوْ حَيَوَانٍ , مُجَسَّمَةً أَوْ غَيْرَ مُجَسَّمَةٍ , وَسَوَاءٌ أَكَانَ لَهُ نَظِيرٌ فِي الْحَيَوَانَاتِ أَمْ لا , كَفَرَسٍ لَهُ جَنَاحَانِ . ..
امام نووى رحمہ اللہ نے صحيح مسلم كى شرح ميں قاضى كے قول كى متابعت كرتے ہوئے كہا ہے:
” تصوير كى ممانعت سے وہ كچھ مسثنى ہے جس كا سايہ نہ ہو اور بچيوں كے گڈياں پٹولے، كيونكہ اسميں رخصت وارد ہے، اور اس كا معنى جواز ہے، چاہے وہ گڈياں اور پٹولے اور كھلونے انسان كى شكل و ہيئت يا حيوان كى شكل و ہيئت ميں مجسمہ يا غير مجسمہ ہوں، اور چاہے اس كى حيوانات ميں مثال ملتى ہو يا نہ ملتى ہو، جيسا كہ پروں والا گھوڑا ….

اور جمھور علماء نے اس استثناء کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا والی اوپر ذکر کردہ روایات سے استدلال کیا ہے،

مزید ایک روایت ملاحظہ فرمائیں

📚ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک یا خیبر سے واپس آئے، اور ان کے گھر کے طاق پر پردہ پڑا تھا، اچانک ہوا چلی، تو پردے کا ایک کونا ہٹ گیا، اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی گڑیاں نظر آنے لگیں، آپ نے فرمایا:
عائشہ! یہ کیا ہے؟
میں نے کہا: میری گڑیاں ہیں،
آپ نے ان گڑیوں میں ایک گھوڑا دیکھا جس میں کپڑے کے دو پر لگے ہوئے تھے، پوچھا: یہ کیا ہے جسے میں ان کے بیچ میں دیکھ رہا ہوں؟
عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہا) نے فرمایا یہ گھوڑا ہے،
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اور یہ کیا ہے جو اس کے اوپر ہے؟
میں نے کہا یہ: دو پر ہیں،
آپ نے فرمایا: گھوڑے کے بھی پر ہوتے ہیں؟
عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں میں نے کہا:
کیا آپ نے نہیں سنا کہ سلیمان علیہ السلام کا ایک گھوڑا تھا جس کے پر تھے، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہنس پڑے یہاں تک کہ میں نے آپ کی داڑھیں دیکھ لیں۔
(سنن ابو داود حدیث نمبر_4932)
اسے البانی نے غایۃ المرام (129)میں صحیح قرار دیا ہے۔

______&________

📚شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
“گڑیا اور کتابوں میں موجود چیزوں کے مجسمے خریدنے کا کیا حکم ہے مثلاً: حیوانات، پرندوں وغیرہ کی تصاویر، انہیں خریدنے کی وجہ یہ ہے کہ بچے انہیں دیکھ کر خوشی محسوس کرتے ہیں اور جلدی سیکھ جاتے ہیں، اب مجھے نہیں معلوم کہ اس کا کیا حکم ہے؟”

📒تو اس پر انہوں نے جواب دیا:
“بچیوں کی گڑیا جو عورت، بچی یا بچے کی شکل کا مجسمہ ہوتی ہے اس کی دو قسمیں ہیں:

📔پہلی قسم:
جائز ہے اس میں کوئی حرج نہیں ، جیسے کہ آج کل بغیر آنکھ، ناک، منہ اور چہرے کے خد و خال کے بغیر بن رہی ہیں تو اس کے جائز ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا جن گڑیوں سے کھیلتیں تھیں وہ بھی اسی قسم کی تھیں۔

📔دوسری قسم:
پلاسٹک سے بنی ہوئی گڑیاں جو بالکل ہو بہو انسان کی طرح ہوتی ہیں، یہاں تک کہ اس کی آنکھیں، ہونٹ، پلکوں کے بال اور بھنویں سب کچھ انسانوں جیسا ہوتا ہے، بلکہ بعض تو چلتی بھی ہیں اور آوازیں بھی نکالتی ہیں، تو اس کے جائز ہونے میں تامل ہے، تاہم میں اس کے متعلق سختی نہیں اپناتا؛ کیونکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ وہ گڑیوں سے کھیلتی تھیں، اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس سے بچیوں کیلیے گڑیوں سے کھیلنے کی قدرے وسعت کشید ہوتی ہے، خصوصاً ایسی صورت حال میں جیسے کہ آپ نے بھی ذکر کیا ہے کہ بچے خوش ہوتے ہیں، تاہم اس کے مثبت پہلو کے باوجود ہم یہ کہتے ہیں کہ : ایسی گڑیا کا متبادل جب تک موجود ہو تو ایسی گڑیا لینے سے بچنا چاہیے جس کے جائز ہونے میں یقین بھی نہیں ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (یقینی چیز اپنا کر غیر یقینی چیز کو چھوڑ دو)

البتہ دیگر جانوروں کی شکلوں کے کھلونے مثلاً: گھوڑا، شیر اور دیگر اسی طرح کے جانور تو انہیں لینے کی مطلقاً کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی؛ ایسے کھلونوں کی بجائے آلات کار، بلڈوزر وغیرہ لے لیے جائیں؛ کیونکہ بچہ جس طرح جانداروں کی شبیہ دیکھ کر بہل جاتا ہے اسی طرح ایسے کھلونوں سے بھی بہل جائے گا، اور اگر ایسی صورت حال پیدا ہو جائے کہ کوئی گنجائش باقی نہ ہو مثلاً: کوئی ایسی گڑیا گفٹ میں دے تو اس کا سر کاٹ دے اور اسے اپنے پاس بغیر سر کے رکھ لے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے” انتہی
(“لقاء الباب المفتوح”_ج26/6ص)

*مورتی میں اصل چیز سر کا حصہ ہوتا ہے، چنانچہ اگر مورتی کا سر کاٹ دیا جائے، یا چہرے کے خدو خال مٹا دیے جائیں تو ممانعت زائل ہو جائے گی*

📚جیسے کہ سنن بیہقی: (14580) میں ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : “صورت اصل میں سر ہے، چنانچہ اگر اس کا سر کاٹ دیا جائے تو ، صورت باقی نہیں رہے گی”

📚ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :
“اگر صورت ابتدا میں صرف بدن کی ہو ؛ سر شامل نہ ہو تو یہ ممانعت میں داخل نہ ہوگی، کیونکہ یہ کسی جاندار کی صورت نہیں ہے” انتہی
(” المغنی” 7/282)

📚 ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میرے پاس جبریل آئے، تو انہوں نے مجھے کہا: میں آپکے پاس گزشتہ رات بھی آیا تھا، لیکن مجھے اندر داخل ہونے سے صرف اس بات نے روکا کہ دروازے پر مورتیاں بنی ہوئی تھیں۔۔، تو آپ ان کے سر کاٹنے کا حکم دے دیں تو وہ درخت کی طرح ہوجائیں گی۔۔۔)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ایسا ہی کیا۔
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-4158)

📚مبارکپوری رحمہ اللہ “تحفۃ الأحوذی” (8/73)میں کہتے ہیں:
“اس حدیث میں دلیل ہے کہ جب کسی صورت کی ہیئت تبدیل کر دی جائے ، یعنی اس کا سر کاٹ دیا جائے، یا خد وخال مٹا دیے جائیں کہ بعد میں صرف صورت کی شبیہ سی باقی رہ جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے” انتہی

📚شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اگر صورت واضح نہ ہو ، یعنی: اسکی آنکھیں، ناک، منہ، اور انگلیاں وغیرہ واضح نہ ہو تو یہ مکمل صورت نہیں ہے، اور نہ ہی تخلیق الہی کا مقابلہ ہے”

انہوں نے یہ بھی کہاہے کہ:
“اور روئی سے بنی ہوئی [گڑیا وغیرہ] جس کی شکل کوئی اتنی واضح نہیں ہوتی، اگرچہ اسکے اعضا سر، گردن سمیت موجود ہوتے ہیں، لیکن سر میں آنکھیں، ناک نہیں ہوتی، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ یہ تخلیق ِ الہی کا مقابلہ نہیں ہے” انتہی
(مجموع فتاوى الشيخ_2ج/278ص)

___________&_______

📚سعودی فتاویٰ کمیٹی سے سوال کیا گیا کہ ميں نے مجسمہ اور مسطحہ تصاوير كے متعلق پڑھا ہے كہ يہ حرام ہيں، تو پھر عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا اون اور كپڑے كے كھلونوں كے ساتھ كيوں كھيلا كرتى تھيں اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى انہيں اس سے كيوں منع نہ كيا ؟
بہت سارے دين اسلام كا صحيح التزام كرنے والے مسلمانوں كى بچياں بھى كھلونوں سے كھيلتى ہيں، اس كا حكم كيا ہے ؟

📒جواب از سعودی فتاویٰ کمیٹی!
الحمد للہ:

يہ اون اور كپڑے كے كھلونے تصاوير شمار نہيں ہوتے، كيونكہ ان ميں نہ تو سر صرف اون وغيرہ كا ايك ٹكڑا ہى ہوتا ہے، اور اس ميں چہرے كے باقى نشانات يعنى نہ تو كان ہوتے ہيں، اور نہ ہى آنكھيں، اور نہ ہى ناك اور منہ، اور جب تصوير سر اور اس ميں موجود نشانات و علامات سے خالى ہو تو اس كى حرمت ختم ہو جاتى ہے.
پھر اگر ہم يہ تسليم بھى كر ليں كہ يہ تصوير ہے، تو اس كا معنى يہ نہيں كہ اس سے مطلقا تصاوير مباح ہو جاتى ہيں، بلكہ يہ تو حرمت ميں سے ايك شرعى غرض كى بنا پر مستثنى ہے، اور وہ يہ كہ بچيوں كى تعليم و تعليم اور پرورش اور ان ميں موجود ماں والى حس كو بڑھانا اور اسے نمو دينا تا كہ وہ مستقبل كے ليے تيار ہو جائيں.
اكثر علماء كرام نے تصاوير اور مجسمے بنانے كى حرمت سے بچيوں كے گڈياں اور پٹولے مستثنى كيے ہيں، مالكيہ، شافعيہ اور حنابلہ كا مسلك يہى ہے، اور قاضى عياض رحمہ اللہ نے بھى اكثر علماء كرام سے اس كا جواز نقل كيا ہے،

مالكى اور شافعى اور حنبلى حضرات نے حضرت عائشہ صدیقہ رض والی روایت كى تعليل بيان كرتے ہوئے كہا ہے كہ يہ بچيوں كو اولاد كى تربيت كرنے كى تعليم دينے كے ليے مستثنى ہے كہ اس غرض كے ليے بچيوں كے ليے كھلونے بنانا جائز ہيں.

اور يہ تعليل اس ميں ظاہر ہوتى ہے چاہے وہ كھلونا انسان كى ہيئت ميں ہو، اور يہ اس گھوڑے كے معاملہ ميں ظاہر نہيں جس كے دو پر تھے، اس ليے حليمى نے يہ بھى اور اس كے علاوہ اور بھى تعليل بيان كى ہے، اس كى كلام درج ذيل ہے:

بچوں كے ليے اس ميں دو فائدے ہيں، ايك تو جلدى والا فائدہ ہے اور دوسرا فائدہ دير والا ہے، جلدى والا فائدہ يہ كہ: بچوں ميں نشو و نما كا مادہ پايا جاتا ہے اس سے انسيت، كيونكہ بچہ اگر دلى طور پر خوش ہوگا اور اس كا شرح صدر ہو گا تو اس كى نشو ونما بھى قوى ہوگى، كيونكہ سرور و خوشى دل كو خوش و باغ باغ كر ديتى ہے اور دل خوش اور منبسط ہونے ميں روح بھى منبسط ہوتى ہے، اور وہ بدن ميں پھلتى پھولتى ہے، اور ا سكا اعضاء و جوارع ميں اثر مضبوط ہوتا ہے.

اور دير والا فائدہ يہ ہے كہ:

وہ اس سے بچوں كى تربيت اور ان سے محبت اور ان پر شفقت كرنا سيكھيں گى، اور يہ چيز كى طبيعت ميں شامل ہو جائيگى حتى كہ جب وہ بڑى ہونگى اور تو اپنى اولاد كےليے بھى وہى كچھ كرينگى جو انہيں اپنے ليے خوش اور اچھا لگتا تھا، كہ اولاد كو بھى اس كا حق ہے.

اور ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح البارى ميں بعض علماء سے يہ دعوى نقل كيا ہے كہ:
كھلونے بنانا حرام ہے، شروع ميں جائز تھے، پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے تصاوير سے ممانعت كے عموم كى بنا پر منسوخ كر ديے گئے.

ليكن اس دعوى كا رد يہ ہے كہ نسخ كے دعوى كى بھى اسطرح مخالفت ہے، وہ اس طرح كہ كھلونوں سے كھيلنے كى اجازت بعد ميں تھى، وہ اس طرح كہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى حديث ميں يہ بيان ہوا ہے جو اس كى تاخير پر دلالت كرتا ہے، كيونكہ اس حديث ميں بيان ہوا ہے كہ يہ واقعہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے جنگ تبوك سے واپسى كے موقع پر پيش آيا، تو يہ اس كے متاخر ہونے كى دليل ہے ”
(الموسوعۃ الفقھيۃ/ مادۃ تصوير.)
(https://islamqa.info/ar/answers/9473/)

(سلسلہ کا خلاصہ)

*ان تمام احادیث ، محدثین کرام اور سلف صالحین کے اقوال و شرح سے یہ بات ثابت ہوئی کہ انسانوں،حیوانوں کی صورتوں، ڈھانچوں والے بچوں کے ایسے کھلونے جنکی شکلیں واضح نہیں ہوتی انکے بیچنے، خریدنے یا گھر میں رکھنے میں کوئی حرج نہیں، اور وہ کھلونے جن میں شکلیں بالکل واضح ہوں یعنی کان ،آنکھ اور ناک وغیرہ بھی بالکل واضح ہوں تو بہتر ہے کہ یا تو انکے سر کاٹ دیئے جائیں، یا صورتیں مٹا دی جائیں یا پھر ایسے کھلونوں سے پرہیز کیا جائے،اگرچے واضح شکلوں والے کھلونوں کو بھی ہم حرام نہیں کہہ سکتے،اور نا ہی ایسے کھلونے گھر میں رکھنے سے کسی قسم کے گناہ کا ہم فتویٰ لگا سکتے ہیں، کیونکہ بچوں کے کھلونوں کی گنجائش خود صاحب شریعت نے دی ہے، اور ایسے تصاویری کھلونے، تصویر یا مورتیوں والے حکم کی حرمت سے مستثنیٰ ہیں، لیکن پھر بھی احتیاط بہتر ہے اور بالکل ہو بہو انسانوں یا جانوروں کی شکلوں والے کھلونوں کی بجائے بہتر ہے کہ گاڑیوں،کرینوں اور مسخ شدہ تصویروں والے کھلونے بچوں کو دیے جائیں*

(( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦ سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 📑
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں