“سلسلہ سوال و جواب نمبر-17”
سوال: کیا قسطوں پر ریٹ بڑھا کر خرید و فروخت کرنا جائز ہے؟
Published Date:11-12-2017
جواب:
الحمدللہ۔۔۔!!
*قسطوں پر خرید و فروخت جائز ہے، بشرطیکہ چیز کی جو قیمت نقد مارکیٹ میں ہے قسطوں پر بھی اسی قیمت میں خرید و فروخت ہو۔ اور اگر قسطوں کی وجہ سے چیز کی قیمت اس کی نقد مارکیٹ قیمت سے بڑھا دی جائے تو یہ نا جائز اور حرام ہے۔ کیونکہ یہ سود کی پھیلی ہوئی بے شمار صورتوں میں سے ایک صورت ہے*
📚ابو ہریرہ رضی ﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ،
نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ.
رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیع میں دو بیع کرنے سے منع فرمایا،
(سنن ترمذی،حدیث نمبر_1231/حدیث صحیح)
مزید ایک حدیث میں اسکی وضاحت اس طرح فرمائی،
📚ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ راوی حدیث بیان کرتے ہیں کہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ بَاعَ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ فَلَهُ أَوْكَسُهُمَا أَوِ الرِّبَا
جس شخص نے ایک چیز میں دو قیمتیں مقرر كیں تو اس کے لئے ان میں سے کم قیمت والی بیع (جائز) ہے یا پھر اس کے لئے سود ہے،
(سنن ابی داؤد،حدیث نمبر-3461حدیث حسن ہے)
(سلسلہ صحیحہ حدیث نمبر-2614)
(ارواء الغلیل، حدیث نمبر-1295)
ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں،
📚نهى رسول الله صلي الله عليه وسلم عن صفقتين في صفقة واحدة،
کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک سودے میں دو سودوں سے منع فرمایا ہے،
(مسند احمد، ج8/ص383 ،حدیث نمبر-3783)
📚حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں
(کہ ایک سودے میں دو سودوں کا مطلب یہ ہے) کہ انسان یہ کہے :
وإن کان بنقد فبكذا وإن كان بنسيئة فبكذا،
یہ چیز نقد ہو تو اتنے کی اور اگر ادھار ہو تو اتنے کی،
( مصنف ابن ابی شیبہ،ج4/ص307،
حدیث نمبر-20454)
📚اسی طرح اوپر ذکر کردہ ابو داؤد والی حدیث کے ایک راوی سماک بن حرب رحمۃ اللہ علیہ(تابعی) ایک بیع میں دو بیعیں کرنے کا معنی بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آدمی کوئی چیز فروخت کرتا ہے اور وہ خریدار سے کہتا ہے کہ نقد لو گے تو اتنے کی اور اگر ادھار (قسطوں پر) لو گے تو اتنے کی،
📒عام شارحینِ حدیث آئمہ نے اس حدیث کا یہی مفہوم بیان کیا ہے جن میں،
امام ابن قتیبہ ، امام ابن سیرین ، امام ابن الاثیر، امام نسائی، امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہم اور ان کے علاوہ کئی آئمہ شامل ہیں۔
📒کچھ علماء جن میں عرب کے مفتیان بھی شامل ہیں قسطوں پر قیمت بڑھانے کو جائز کہتے ہیں اور دلیل دیتے ہیں کہ جس حدیث میں دو قیمتوں سے منع کہا گیا ہے وہ انکے لئے ہے جو قیمت مقرر نہ کریں، یعنی بیچنے والے نے جب خریدار سے کہا کہ نقد کی قیمت یہ اور قسطوں پر یہ ہے اور خریدار اس چیز کو لے گیا اور یہ نہ بتایا کہ میں نقد لے جا رہا ہوں یا قسطوں پر تو اس جہالت کی بنا پر یہ بیع حرام ہے۔
اور اگر خریدار بتا دیتا کہ میں نے نقد مثلاً 100 روپے کی لی ہے یا قسطوں پر 150کی تو پھر یہ بیع صحیح ہوئی۔)
*یہ بات کئی وجوہ سے غلط ہے،بعض علماء جو اسے جائز کہتے کہ اگر شروع میں قیمت متعین کر لی جائے تو پھر جائز ہو گا، ان علماء کی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صریح فرمان کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے،*
📒کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صاف واضح فرمان ہے کہ ایک چیز کی دو قیمتیں لگانا درست نہیں، اور اگر ادھار میں زیادہ قیمت لگائی تو وہ سود ہے، اس حدیث میں یہ کہیں بھی نہیں لکھا کہ اگر خریدتے وقت قیمت مقرر کر لی جائے یا اگر خریدنے والا خوشی سے ادھار پر زیادہ پیسوں میں خرید لے تو یہ جائز ہو گا،
📒اگر صاف واضح حدیث نہ بھی ہوتی تو بھی ایسی تجارت حرام ہے کیونکہ یہ سودی کاروبار ہی ہے، پیسوں پر سود بھی وقت اور مہلت کا لیا جاتا اور چیزوں پر اضافی پیسے بھی مدت اور مہلت کے لیے جاتے جو کہ سود ہے۔۔!!
*خلاصہ یہ ہوا کہ پہلی حدیث سے یہ بات سمجھ آئی کہ ایک ہی چیز کے دو ریٹ لگانا جائز نہیں اور دوسری میں مزید وضاحت آ گئ کہ اگر دو ریٹ لگانے بھی ہیں تو جو ادھار والا دوسرا ریٹ ہے وہ نقد ریٹ سے کم لگایا جائے،اگر نقد قیمت کم رکھی جائے اور ادھار پر قیمت بڑھا دی جائے تو یہ سود ہو جائے گا،اور ادھار کی صورت میں اضافی رقم اصل میں مدت کا معاوضہ ہے اور مدت کا معاوضہ لینا سود ہے، اور پھر قسطوں کے کاروبار میں دنیاوی لحاظ سے بھی بہت ساری خرابیاں ہیں،جس طرح سود پر قرضہ لینے والے کی مجبوری سے فائد اٹھا کر اس سے اضافی پیسے لیے جاتے اسی طرح قسطوں کا لالچ دے کر غریب آدمی کے پیسے برباد کیے جاتے،جس طرح سودی کاروبار میں امیر آدمی مزید امیر اور غریب آدمی مزید غریب اور قرضوں میں ڈوب رہا اسی طرح قسطوں کے کاروبار میں بھی یہی کچھ ہو رہا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا وجہ قرض لینے سے بچنے کی طرف رغبت دلائی ہے، کیونکہ قرضے سے بہت سارے فتنے جنم لیتے ہیں، کبھی قرض لینے والے کی نیت بدل جاتی ہے کبھی قرض دینے والا زیادتی کرتا ہے، نتیجہ لڑائی جھگڑے اور قطع تعلقی کی صورت میں نکلتا ہے،جب کہ ان قسطوں والوں نے ہر تیسرے شخص کو قرض کی دلدل میں دھنسا دیا ہے جسکا اکثر و بیشتر نتیجہ بھی لڑائی جھگڑا ،لوٹ مار اور فریب ہی کی صورت میں نکلتا ہے،*
*شریعت واضح حرام سے بچنے کے ساتھ ساتھ مشتبہات سے بچنے کا بھی حکم دیتی ہے،تو جس چیز میں شک ہو کہ وہ حلال ہے یا حرام تو اس چیز کو جائز کہنا کیسے ٹھیک ہو سکتا؟*
📚رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح کرلیا ہے، اور ان كےدرمیان كچھ شبہے والی چیزیں ہیں، جو ان میں داخل ہو گیا تو قریب ہے كہ وہ گناہ كر لے اور جو ان شبہے والی چیزوں سے بچ گیا تو اس نے اپنے آپ کو كو محفوظ کرلیا، مثال اس چرواہے کی طرح ہے جسکی بکریاں چراگاہ كے ارد گرد چر رہی ہیں قریب ہے كہ وہ بکریاں بھاگ کر اس ممنوعہ چراگاہ میں داخل ہو جائیں،
ہر بادشاہ كی ایک چراگاہ ہے اور اللہ كی چراگاہ حرام كر دہ چیزیں ہیں۔
(مسند احمد،حدیث نمبر-18384)
(سلسلہ حدیث الصحیحہ، 128)
((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))
اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہمارا فیسبک پیج لائیک ضرور کریں۔۔.
آپ کوئی بھی سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کر سکتے ہیں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/
آفیشل ویب سائٹ
Alfurqan.info