“سلسلہ سوال و جواب نمبر-182”
سوال_نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا نماز جنازہ کیسے ادا ہوا؟ اور نماز جنازہ ادا کرتے ہوئے کوئی امام کیوں نہیں تھا؟
Published Date: 5-1-2019
جواب:
الحمدللہ:
*صحیح روایات میں ثابت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلم پر نماز جنازہ اکیلے اکیلے ادا کی تھی باجماعت ادا نہیں کی*
🌹چنانچہ ابو عسیب یا ابو عسیم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : (وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز جنازہ کے لیے حاضر ہوئے تو صحابہ کرام نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز جنازہ کیسے ادا کریں؟
جواب دیا: کہ تم چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں [بٹ کر حجرے میں] داخل ہو جاؤ۔
تو صحابہ کرام اس دروازے سے اندر داخل ہوتے اور آپ کا جنازہ ادا کرتے اور پھر دوسرے دروازے سے نکل جاتے)
اس روایت کو امام احمد نے مسند احمد [طبع مؤسسہ رسالہ] (34/365) میں نقل کیا ہے۔مسند احمد کے اس ایڈیشن کے محققین کہتے ہیں کہ:
“اس حدیث کی سند صحیح ہے،
حماد بن سلمہ کے علاوہ اس کے راوی بخاری اور مسلم کے ہیں،
*نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز جنازہ سے متعلق ابن ماجہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث ملتی ہے، کہ*
🌹جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے قبر کھودنے کا ارادہ کیا، تو ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو بلوا بھیجا، وہ مکہ والوں کی طرح صندوقی قبر کھودتے تھے، ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو بھی بلوا بھیجا، وہ مدینہ والوں کی طرح بغلی قبر کھودتے تھے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دونوں کے پاس قاصد بھیج دئیے، اور دعا کی کہ اے اللہ! تو اپنے رسول کے لیے بہتر اختیار فرما، بالآخر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ ملے، اور ان کو لایا گیا، ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نہیں ملے، لہٰذا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بغلی قبر کھودی گئی، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب لوگ منگل کے دن آپ کی تجہیز و تکفین سے فارغ ہو گئے، تو آپ اپنے گھر میں تخت پر رکھے گئے، اور لوگوں نے جماعت در جماعت اندر آنا شروع کیا، لوگ نماز جنازہ پڑھتے جاتے تھے، جب سب مرد فارغ ہو گئے، تو عورتیں جانے لگیں جب عورتیں بھی فارغ ہو گئیں، تو بچے جانے لگے، اور آپ کے جنازے کی کسی نے امامت نہیں کی۔ پھر لوگوں نے اختلاف کیا کہ آپ کی قبر کہاں کھودی جائے، بعض نے کہا کہ آپ کو مسجد میں دفن کیا جائے، بعض نے کہا کہ آپ کو آپ کے ساتھیوں کے پاس مقبرہ بقیع میں دفن کیا جائے، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: جس نبی کا بھی انتقال ہوا اسے وہیں دفن کیا گیا جہاں پہ اس کا انتقال ہوا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ حدیث سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر اٹھایا جس پر آپ کا انتقال ہوا تھا، لوگوں نے آپ کے لیے قبر کھودی، پھر آپ کو بدھ کی آدھی رات میں دفن کیا گیا، آپ کی قبر میں علی بن ابی طالب، فضل بن عباس، ان کے بھائی قثم بن عباس، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام شقران رضی اللہ عنہم اترے۔ ابولیلیٰ اوس بن خولہ رضی اللہ عنہ نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے کہا: میں آپ کو اللہ کی قسم اور اپنی اس صحبت کی قسم دیتا ہوں جو ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاصل ہے، ( مجھ کو بھی قبر میں اترنے دیں ) تو علی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: اتر جاؤ، اور شقران جو آپ کے غلام تھے، نے ایک چادر لی جس کو آپ اوڑھا کرتے تھے، اسے بھی آپ کے ساتھ قبر میں دفن کر دیا اور کہا: قسم اللہ کی! اس چادر کو آپ کے بعد کوئی نہ اوڑھے، چنانچہ اسے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دفن کر دیا گیا۔
(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر_1628)
لیکن یہ روایت ضعیف ہے،
سند میں حسین بن عبداللہ متروک ہے،
اور اسی طرح سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی حدیث امام بیہقی نے دلائل النبوہ (7/250) میں بیان کی ہے، لیکن وہ روایت بھی ضعیف ہیں۔”
*البتہ ابن ماجہ والی اس حدیث میں نماز جنازہ والے ٹکڑے کوامام قرطبی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے،*
🌹[عن ابن عباس:]
فلما فرغوا من جهازِه صلَّى اللهُ عليْهِ وسلَّمَ يومَ الثلاثاءِ، وُضِعَ على سريرِه في بيتِه، ثمَّ دخل الناسُ على رسولِ اللهِ صلَّى اللهُعليْهِ وسلَّمَ أرسالًا يُصلُّون عليه، حتى إذا فرغواأدخلوا النساءَ، حتى إذا فرغْنَ أدخلوا الصبيانَ، ولم يُؤَمَّ الناسُ على رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليْهِ وسلَّمَ أحدٌ
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب لوگ منگل کے دن آپ کی تجہیز و تکفین سے فارغ ہو گئے، تو آپ اپنے گھر میں تخت پر رکھے گئے، اور لوگوں نے جماعت در جماعت اندر آنا شروع کیا، لوگ نماز جنازہ پڑھتے جاتے تھے، جب سب مرد فارغ ہو گئے، تو عورتیں جانے لگیں جب عورتیں بھی فارغ ہو گئیں، تو بچے جانے لگے، اور آپ کے جنازے کی کسی نے امامت نہیں کی
القرطبي المفسر (٦٧١ هـ)،
(تفسير القرطبي ٥/٣٤٥ • إسناده حسن بل صحيح
🌹ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز جنازہ ٹولیوں کی شکل میں ادا کرنے سے متعلق تمام اہل سیرت اور روایات نقل کرنے والے متفق ہیں ان کا اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے” ختم شد
” التمهيد ” (24/397)
*اس مسئلے سے متعلق تمام کے تمام آثار اگر کوئی دیکھنا چاہے تو وہ ان درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کرے،*
1_مصنف ” عبد الرزاق صنعانی: (3/473) باب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا جنازہ پڑھنے کی کیفیت کے بارے میں۔
2_مصنف ” ابن ابی شیبہ:(14/552) باب ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے متعلق وارد آثار کے بارے میں” ،
3_ “البدر المنیر ” از ابن ملقن (5/274-279)۔
4_ ” تلخیص الحبیر ” از ابن حجر (2/290-291)
5_ الخصائص الكبرى ” از سیوطی (2/412-413)وغیرہ دیکھ سکتا ہے۔
______________&_______
*دوسری بات علمائے کرام نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا نماز جنازہ بغیر امام کے تنہا مختلف ٹولیوں کی شکل میں ادا کرنے کے متعدد اسباب ذکر کئے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں:*
*پہلا سبب:*
کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ بغیر جماعت کے نماز جنازہ کی ادائیگی کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خود صحابہ کرام کو وصیت تھی، لیکن یہ بات صحیح سند سے ثابت نہیں ہو سکی، اس لیے کہ یہ بات ضعیف احادیث میں آئی ہے۔
🌹چنانچہ سہیلی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“بلا جماعت جنازے کی ادائیگی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے خاص تھی، اور ایسا عمل دلیل کے بغیر ممکن نہیں ، اسی طرح یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خود اس طرح جنازہ پڑھنے کی وصیت کی تھی، اس بات کو طبری نے سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔
اس کی فقہی توجیہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر دورد پڑھنا لازمی قرار دیتے ہوئے فرمایا: ( صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيماً )تم نبی درود و سلام بھیجو۔ [ الأحزاب:56] تو درود پڑھنے کا آیت میں موجود حکم اس بات کا متقاضی ہے کہ درود اسا کرنے میں امام نہ ہو بلکہ انفرادی طور پر ہو اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے وقت آپ پر صلاۃ [یعنی جنازہ] پڑھنا بھی اس آیت کے الفاظ میں شامل ہے، یعنی آیت میں ہر طرح کی صلاۃ [درود اور نماز جنازہ] شامل ہے ” اقتباس مختصرا مکمل ہوا
” الروض الأنف ” (7/594-595)
*دوسرا سبب:*
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز جنازہ کی امامت کسی فضیلت سے کم نہیں تو اس فضیلت کو حاصل کرنے کے لیے ہر کسی نے کوشش کرنی تھی؛ کیونکہ سب صحابہ کرام آپ سے شدید ترین محبت کرتے تھے اور اس محبت کا تقاضا تھا کہ کوئی بھی اس فضیلت کے حصول میں کسی دوسرے کو موقع نہ دے؛ کیونکہ یہ موقع ایسا موقع تھا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ دنیاوی زندگی کا آخری مرحلہ تھا اور ہر ایک کی خواہش تھی کہ یہ موقع اسی کو مل جائے۔ نیز اس چیز کی چاہت اس وقت بھی اس لیے زیادہ ہوتی کہ ابھی تک خلافت اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد زمام قیادت کا فیصلہ نہیں ہوا تھا، تو اس چیز کو بھی پیش نظر رکھتے ہوئے مسلمانوں کے مابین اتحاد و اتفاق کی فضا قائم رکھنے کیلیے بغیر جماعت کے نماز جنازہ پڑھی گئی، نیز اس چیز کا بھی انتظار تھا کہ کسی ایک شخص کو خلیفہ متعین کر لیا جائے تا کہ اسی کی اقتدا میں نماز ادا کی جائے ؛ کیونکہ نماز با جماعت کے لیے امامت خلیفہ ہی کرواتا تھا۔
🌹امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“رسول اللہ کا جنازہ لوگوں نے اکیلے اکیلے ادا کیا کوئی بھی ان کی امامت نہیں کرواتا تھا؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے جنازے کا امام بننا بہت بڑی بات تھی، نیز صحابہ کرام کی چاہت تھی کہ نماز جنازہ کی ادائیگی میں کوئی بھی ہمارے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے درمیان بطور امام نہ ہو ” ختم شد
” الأم ” (1/314)
🌹اسی طرح امام رملی رحمہ اللہ امام شافعی کی مندرجہ بالا گفتگو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں:
“کیونکہ اس وقت تک خلیفہ کا تعین نہیں ہوا تھا جو لوگوں کی امامت کروائے، چنانچہ اگر کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے جنازے کیلیے آگے ہو جاتا تو پھر وہ ہر معاملے میں آگے ہوتا اور خلیفہ بھی وہی شخص ہوتا” ختم شد
” نهاية المحتاج ” (2/482)
*تیسرا سبب*
صحابہ کرام کا یہ ذوق تھا کہ وہ برکت حاصل کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر ذاتی حیثیت میں جنازہ پڑھنا چاہتے تھے، بجائے اس کے کہ کوئی امامت کرائے اور بقیہ اس کے پیچھے جنازہ ادا کریں؛ کیونکہ کسی کو بھی یہ بات قبول نہیں تھی کہ کوئی جنازے کی ادائیگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور اس کے درمیان امام بن کر برکت کے حصول میں واسطہ بنے۔
🌹اس بارے میں امام قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“صحابہ کرام کا ہدف یہ تھا کہ ہر شخص ذاتی حیثیت میں کسی کے ماتحت رہے بغیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر جنازہ ادا کرنے کی برکت حاصل کر لے” ختم شد
” الجامع لأحكام القرآن ” (4/225)
🌹شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا جنازہ صحابہ کرام نے بلا جماعت ادا کیا؛ کیونکہ صحابہ کرام کو یہ پسند نہیں تھا کہ کوئی آگے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے جنازے کی امامت کروائے؛ اس لیے صحابہ کرام ٹولیوں کی شکل میں آ کر تنہا جنازہ پڑھتے، پہلے مردوں نے ادا کیا پھر عورتوں نے” ختم شد
*چوتھا سبب:*
نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا احترام اور آپ کی تعظیم آڑے تھی، نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے جنازے کی امامت کروانے کے لیے دلوں میں ایک ہیبت تھی؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں کے امام، قائد اور رہنما تھے، تو کسی میں اتنی جرأت نہیں تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی امامت والی جگہ پر کھڑا ہواور آپ کی وفات کے بعد آپ کی اجازت کے بغیر امام بن جائے۔ اس سبب کے متعلق آپ دیکھ سکتے ہیں یہ دوسرے اور تیسرے سبب سے متصادم ہے۔
🌹علامہ بہوتی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“میت پر نماز جنازہ با جماعت سنت ہے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام نے با جماعت جنازہ پڑھایا اور لوگ با جماعت جنازہ پڑھاتے آئے ہیں، ماسوائے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے جنازے کے؛ کیونکہ آپ کے احترام کی وجہ سے آپ کا با جماعت جنازہ نہیں پڑھایا گیا۔” ختم شد
شرح منتهى الإرادات ” (1/357)
*تو یہ وہ اسباب ہیں جو علمائے کرام نے با جماعت جنازہ نہ ہونے کے ذکر کئے ہیں، ان میں سے کوئی بھی ایسا سبب نہیں ہے جن کے بارے میں کسی اہل علم نے پختگی اور ٹھوس لفظوں میں کہا ہو کہ یہی وہ وجہ ہے جس کی بنا پر با جماعت جنازہ نہیں ہوئی، اس لیے عین ممکن ہے کہ یہ تمام یا ان میں سے کچھ اسباب مد نظر ہوں ، جس کی وجہ سے صحابہ کرام نے با جماعت جنازہ ادا نہیں کیا، اور یہ بھی ممکن ہے کہ جتنے اسباب ہم نے اوپر ذکر کئے ہیں ان کے علاوہ کوئی اور وجہ ہو، اس بارے میں اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے۔*
(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)
🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765
آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/
آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2