814

سوال_ اگر وضو کر کے جرابیں ڈالی ہوں تو کیا دوبارہ وضو کے وقت جرابوں پر مسح کرنا جائز ہے؟ یا جرابیں اتار کر پاؤں دھونا ضروری ہیں؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-149”
سوال_ اگر وضو کر کے جرابیں ڈالی ہوں تو کیا دوبارہ وضو کے وقت جرابوں پر مسح کرنا جائز ہے؟ یا جرابیں اتار کر پاؤں دھونا ضروری ہیں؟

Published Date:21-11-2018

جواب۔۔!!
الحمدللہ۔۔۔۔!!

*اگر وضو کر کے جرابیں ڈالی ہوں تو دوبارہ وضو کرتے وقت جرابیں اتار کر پاؤں دھونے کی ضرورت نہیں،صرف جرابوں پر مسح کر لینا کافی ہے ،اور خاص کر سردیوں میں جرابوں پر مسح کرنا اللہ کی طرف سے بہت بڑی نعمت ہے ہم پر،مگر بہت سے لوگ، طہارت اور وضو کےبعد،پہنی ہوئی جرابوں پر مسح کرنے میں (سخت) حرج (تنگی) محسوس کرتے ہیں حالانکہ اکثر سلف صالحین کے نزدیک جرابیں موزوں ہی کے قائم مقام ہیں،اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث مبارکہ اور صحابہ کے عمل سے بھی باقاعدہ جرابوں پر مسح کرنا ثابت ہے*

*پہلی حدیث*
🌹عروہ بن مغیرہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ،
كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَأَهْوَيْتُ لِأَنْزِعَ خُفَّيْهِ ، فَقَالَ : دَعْهُمَا ، فَإِنِّي أَدْخَلْتُهُمَا طَاهِرَتَيْنِ ، فَمَسَحَ عَلَيْهِمَا .
میں ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، تو میں نے چاہا ( کہ وضو کرتے وقت ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے موزے اتار ڈالوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں رہنے دو۔ چونکہ جب میں نے انہیں پہنا تھا تو میرے پاؤں پاک تھے۔ ( یعنی میں وضو سے تھا ) پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر مسح کیا۔
(صحیح البخاری،حدیث نمبر- 206)

*دوسری حدیث*
🌹مغیرہ بن شعبہؓ بیان کرتے ہیں،
تَوَضَّأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَسَحَ عَلَى الْجَوْرَبَيْنِ وَالنَّعْلَيْنِ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور دونوں جرابوں اور جوتوں پر مسح کیا۔
(ابوداؤد کتاب الطہارۃ باب المسح علی الجوربین٬ جرابوں پر مسح کرنے کا بیان
حدیث نمبر-159)

(سنن نسائی، كِتَابُ الطَّهَارَةِ | الْمَسْحُ عَلَى الْجَوْرَبَيْنِ وَالنَّعْلَيْنِ جرابوں اور جوتوں پر مسح کرنے کا بیان
حدیث نمبر-125)

(سنن ابن ماجہ، كِتَابُ الطَّهَارَةِ وَسُنَنِهَا | بَابٌ : مَا جَاءَ فِي الْمَسْحِ عَلَى الْجَوْرَبَيْنِ جرابوں پر مسح کرنے کا بیان
حدیث۔نمبر-564)

یہ حدیث بالکل صحیح ہے ،درج ذیل تمام علماء نے اسکی تصدیق کی ہے،

1_مفتی اعظم شیخ ابن باز (١٤١٩ هـ)، حاشية بلوغ المرام لابن باز ٩١ • إسناده حسن کہا ہے
اور شیخ ابن باز نے ہی مجموع فتاوى ابن باز ١١٢/١٠ • [ثابت کہا ہے]

2_علامہ الألباني (١٤٢٠ هـ)، تمام المنة ١١٢ • إسناده صحيح على شرط البخاري، بخاری کی شرط پر اس حدیث کو صحیح کہا ہے،

3_ابن حبان (٣٥٤ هـ)، صحيح ابن حبان ١٣٣٨ • أخرجه في صحيحه

4_الألباني (١٤٢٠ هـ)، صحيح ابن ماجه ٤٥٩ • صحيح

5_الألباني (١٤٢٠ هـ)، صحيح ابن ماجه ٤٦٠ • صحيح

6_ اس حدیث کو ابن حزم نے صحیح کہا۔ حافظ اسماعیلی نے فرمایا کہ اس کی سند بخاری کی شرط پر صحیح ہے لہذا امام بخاری کو یہ چاہئے تھا کہ وہ اس حدیث کو صحیح بخاری میں درج کرتے ۔
(النکت الظراف لابن حجر ،ج8/ص493)

7_حافظ ابن القیمؒ نے “زاد المعاد” ج1/ص199)
میں کہا:کہ نبی کریم ﷺ نے جرابوں اور جوتوں پر مسح کیا ہے ” یہ قول اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک مغیرہ بن شعبہ کی حدیث صحیح ہے،

8_امام ترمذی نے بھی یہ حدیث ذکر کی ہے، کہ نبی ﷺ نے وضو کیا اور جرابوں اور جوتوں پر مسح کیا۔
(سنن ترمذی،حدیث نمبر-99 / امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے)

*تیسری حدیث*
🌹ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَرِيَّةً فَأَصَابَهُمُ الْبَرْدُ، فَلَمَّا قَدِمُوا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَكَوْا إِلَيْهِ مَا أَصَابَهُمْ مِنَ الْبَرْدِ، فَأَمَرَهُمْ أَنْ يَمْسَحُوا عَلَى الْعَصَائِبِ وَالتَّسَاخِينِ.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ،
ایک سریہ ( چھوٹا لشکر ) بھیجا تو اسے ٹھنڈ لگ گئی، جب وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ( وضو کرتے وقت ) عماموں ( پگڑیوں ) اور تساخین پر مسح کرنے کا حکم دیا۔
(سنن ابوداؤد،حدیث نمبر-146)
(مسند احمد،حدیث نمبر-22383)
عربی میں تساخین ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جس سے پاؤں گرم رکھیں جائیں،
اس میں موزے بھی شامل ہیں اور جرابیں بھی،

1_اس روایت کی سند صحیح ہے، اسے حاکم نیشاپوری رحمہ اللہ اور حافظ ذھبی رحمہ اللہ دونوں نے صحیح کہاہے۔
(المستدرک والتلخیص ،الرقم:۶۰۲)
اس حدیث پر امام احمد رحمہ اللہ کی جرح کے جواب کےلئے نصب الرایہ (۱؍۱۶۵)وغیرہ دیکھیں۔

*اوپر تینوں احادیث میں موزوں، جرابوں،جوتوں، اور پگڑیوں، ان چاروں کے الگ الگ نام ذکر ہیں،لہذا ان سب پر مسح کرنا جائز ہے*

🌹بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی جرابوں پر مسح کرتے تھے، اور صحابہ میں سے کسی نے بھی ان پر اعتراض نہیں کیا،
ان میں چند کے نام یہ ہیں،
امام ابوداؤد کہتے ہیں:
علی بن ابی طالب، ابن مسعود، براء بن عازب، انس بن مالک، ابوامامہ، سہل بن سعد اور عمرو بن حریث، عمر بن خطاب اور ابن عباس رضوان علیہم اجمعین جرابوں پر مسح کرتے تھے،
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر-159)
(مصنف ابن ابی شیبہ،ج1/ص 186 تا 189_حدیث نمبر،1984٬1979،1987،1990)

صحابہ کرام کے یہ آثار مصنف ابن ابی شیبہ (۱؍۱۸۸،۱۸۹)،
مصنف عبدالرزاق (۱؍۱۹۹،۲۰۰)،
محلی ابن حزم (۲؍۸۴)
الکنی للدولابی(۱؍۱۸۱)وغیرہ میں باسند موجود ہیں۔

*صحابہ کا عمل*
🌹علی رضی اللہ عنہ
امام ابن المنذر النیسابوری رحمۃ اللہ نے فرمایا:عمروبن حریث نے کہا میں نے دیکھا (سیدنا) علی رضی اللہ عنہ نے پیشاب کیا،پھروضوءکیا اور جرابوں پر مسح کیا۔(الاوسط ج۱ /ص۴۶۲،وفی الاصل مردانیۃ وھو خطأ،طبعی)
اس کی سند صحیح ہے۔

🌹سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے جرابوں پر مسح کیا۔
دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ (۱؍۱۸۸ح:۱۹۷۹،وسندہ حسن)

🌹قتادہ بیان کرتے ہیں کہ بے شک انسؓ جرابوں پر مسح کرتے تھے
(ابن ابی شیبہ ۱۸۸/۱ ح ،الاوسط۴۶۲/۱، المعجم الکبیر للطبرانی ۲۴۴/۱) اس کی سند صحیح ہے (سندا ضعیف )

🌹 ابو مسعودؓ
عبد الرزاق (۷۷۷) اور ابن المنذر نے “الأعمش عن إبراھیم عن ھمام بن الحارث عن أبي مسعود” کی سند سے روایت کیا ہے کہ ابو مسعود (عقبہ بن عمرو البدری الانصاری) رضی اللہ تعالیٰ عنہ جرابوں پر مسح کرتے تھے۔ اس کی سند صحیح ہے۔
اس روایت کی سند اعمش کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے لیکن مصنف ابن ابی شیبہ ۱۸۹/۱ح ۱۹۸۷ میں اس کا صحیح شاہد ہے لہذا یہ روایت بھی اس شاہد کی وجہ سے صحیح لغیرہ ہے۔

🌹سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے جرابوں پر مسح کیا۔
دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ(۱؍۱۸۹ح:۱۹۸۴وسندہ صحیح)

🌹سیدنا عقبہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے جرابوںپر مسح کیا،
دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ (۱؍۱۸۹ح۱۹۸)اور اس کی سند صحیح ہے۔

🌹سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے جرابوںپر مسح کیا،
دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ (۱؍۱۸۹ح۱۹۹۰)وسندہ حسن

*تابعین کا عمل*

🌹ابراھیم النخعی رحمہ اللہ جرابوں پر مسح کرتے تھے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ۱؍۱۸۸ح۱۹۷۷)
اس کی سند صحیح ہے۔

🌹سعید بن جبیر رحمہ اللہ نےجرابوں پر مسح کیا۔(مصنف ابن ابی شیبہ ۱؍۱۸۹ح۱۹۷۹)اس کی سند صحیح ہے۔

🌹عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ جرابوں پر مسح کے قائل تھے۔
(المحلی ۲؍۸۶)

*معلوم ہوا کہ تابعین کا بھی جرابوں پر مسح کے جواز پر اجماع ہے*

*محدثین و سلف صالحین کے اقوال*

🌹امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سفیان الثوری،ابن المبارک ،شافعی، احمد اور اسحق (بن راھویہ) جرابوں پر مسح کے قائل تھے۔(بشرطیکہ وہ موٹی ہوں)دیکھئے(سنن الترمذی ،ح:۹۹)

🌹چنانچہ ابن منذر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نو صحابہ کرام سے جرابوں پر مسح کرنا مروی ہے، ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں: علی بن ابی طالب، عمار بن یاسر، ابو مسعود، انس بن مالک، ابن عمر، براء بن عازب، بلال، ابو امامہ، اور سہل بن سعد رضی اللہ عنہم اجمعین “انتہی
“الأوسط ” (1/462)

🌹ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“ابو داود نے ان کی تعداد میں مزید اضافہ کرتے ہوئے کہا: ابو امامہ، عمرو بن حریث، عمر فاروق اور ابن عباس رضی اللہ عنہم بھی ان میں شامل ہیں۔
لہذا جرابوں پر مسح کرنے کے بارے میں دلیل صحابہ کرام کا عمل ہے، ابو قیس کی روایت نہیں ہے۔
نیز امام احمد نے جرابوں پر مسح کو صراحت کیساتھ جائز قرار دیا ہے، لیکن ابو قیس کی روایت کو کمزور کہا ہے۔

یہ امام احمد رحمہ اللہ کا علمی عدل و انصاف ہے کہ انہوں نےجرابوں پر مسح کیلئے دلیل صحابہ کرام کا عمل، اور صریح قیاس کو رکھا ہے؛ کیونکہ جرابوں اور موزوں کے مابین کوئی مؤثر فرق نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے دونوں کا حکم الگ الگ کیا جائے” انتہی
“تهذيب السنن” (1/187)

🌹ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“صحابہ کرام نے جرابوں پر مسح کیا اور ان کے زمانے میں کسی نے ان کی مخالفت نہیں کی تو اس طرح ا س پر اجماع ہو گیا ” انتہی
“المغنی” (1/215)

🌹شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“جرابوں اور جوتوں میں فرق صرف اور صرف یہ ہے کہ جرابیں اون کی ہوتی ہیں اور جوتے چمڑے کے ہوتے ہیں۔
چنانچہ یہ بات تو واضح ہے کہ : اس قسم کا فرق شرعی احکام میں مؤثر نہیں ہوتا، اس لیے چمڑے ، سوت، سن، یا اون کسی بھی چیز کے ہوں سب کا حکم ایک ہی ہوگا۔
بالکل اسی طرح جیسے سیاہ یا سفید احرام کی چادر میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔۔۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ چمڑا اون سے زیادہ دیر تک چلتا ہے، لیکن اس سے شرعی حکم پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوتے، نیز چمڑے کے مضبوط ہونے سے بھی کوئی اثر مرتب نہیں ہوگا۔۔۔
اور یہ بھی وجہ ہے کہ: جیسے چمڑے کے بنے ہوئے موزوں پر مسح کرنے کی ضرورت پڑتی ہے بالکل اسی طرح اون وغیرہ کی بنی ہوئی جرابوں پر مسح کرنے کی بھی ضرورت پڑتی ہے، دونوں میں مسح کرنے کی ضرورت اور حکمت بالکل یکساں ہیں، لہذا اگر ان دونوں کا حکم یکساں نہ رکھا گیا تو یہ دو ایک جیسی چیزوں کے درمیان تفریق ڈالنے کے مترادف ہوگا جو کہ کتاب و سنت سے ثابت شدہ عدل اور قیاس صحیح پر مبنی موقف سے متصادم ہے، اور جو [موزے اور جرابوں میں مسح کا حکم الگ الگ رکھنے کیلیے ]یہ فرق بیان کرے کہ جراب میں سے پانی رس کر انسانی جلد تک پہنچ جائے گا اور موزے میں نہیں رسے گا تو یہ غیر مؤثر فرق ہے” انتہی
“مجموع الفتاوى” (21/214)

🌹 صحیح مسلم کی شرح لکھنے والے امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“ہمارے [شافعی] فقہائے کرام نے عمر اور علی رضی اللہ عنہما سے جرابوں پر مسح کرنے کا جواز نقل کیا ہے چاہے جرابیں باریک ہی کیوں نہ ہوں، نیز یہی بات ابو یوسف، محمد، اسحاق، اور داود سے بھی انہوں نے نقل کی ہے” انتہی
(“المجموع شرح المهذب” (1/500)

🌹ہر حالت میں جرابوں پر مسح کے جواز کے موقف کو شیخ البانی اور شیخ ابن عثیمین رحمہما اللہ راجح قرار دیتے ہیں
(Islamqa.info)

🌹سعودی فتاویٰ کمیٹی سے سوال ہوا
فتوى نمبر:( 1946 )
س: جرابوں پر مسح کرنے کا حکم کیا ہے یہ جائز ہے یا نہیں؟
ج: الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على رسوله وآله وصحبه ۔۔۔۔ وبعد:
وضو میں جرابوں پر مسح کرنے کے متعلق فقہاء کے درميان اختلاف ہے: بعض علماء نے ممنوع قرار دیا، اور كچهـ ميں سے جائز قرار دیا ہے۔ اور صحیح یہ ہے کہ جرابوں پر مسح کرنا جائز ہے
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
عبد اللہ بن قعود
عبد اللہ بن غدیان،
عبدالرزاق عفیفی ،
عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز
(http://alifta.com)

🌹موزے ،جرابیں باریک ہوں یا موٹی یا پھٹی ہوئی سب پر مسح جائز ہے،
سفیان ثوری فرماتے ہیں:
اس وقت تک مسح کرتے رہو جب تک وہ (موزے) تیرے پاؤں سے لٹکے رہیں، کیا تجھے معلوم نہیں کہ مہاجرین اور انصار کے موزے پھٹے ہوئے ہی ہوتے تھے،
(مصنف عبدالرزاق ج1/ص194_حدیث نمبر753) (سنن البیہقی: ج1/ص283)

🌹(بقول حنفیہ) امام ابوحنیفہ پہلے جرابوں پر مسح کے قائل نہیں تھے لیکن بعد میں انہوں نے رجوع کرلیاتھا،
امام ابو حنیفہ کا جدید اور آخری موقف بھی جرابوں پر مسح کے جواز کا تھا
امام ترمذیؒ ان کا جدید موقف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
سَمِعْت صَالِحَ بْنَ مُحَمَّدٍ التِّرْمِذِيَّ قَال: سَمِعْتُ أَبَا مُقَاتِلٍ السَّمَرْقَنْدِيَّ، يَقُولُ: ( دَخَلْتُ عَلَى أَبِي حَنِيفَةَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ، فَدَعَا بِمَاءٍ فَتَوَضَّأَ وَعَلَيْهِ جَوْرَبَانِ، فَمَسْحَ عَلَيْهِمَا، ثُمَّ قَالَ: (( فَعَلْتُ الْيَوْمَ شَيْئًا لَمْ أَكُنْ أَفْعَلُهُ، مَسَحْتُ عَلَى الْجَوْرَبَيْنِ وَهُمَا غَيْرُ مُنَعَّلَيْنِ،
’’میں نے صالح بن محمد سنا وہ کہتے ہیں میں نے میں ابو مقاتل سمرقندی سے سنا وہ کہتے ہیں کہ میں جس بیماری میں امام ابوحنیفہ صاحب کی وفات ہوئی تھی اس بیماری کے ایام میں میرا امام صاحب کے ہاں جانا ہوا تو انھوں نے پانی منگوایا اور انھوں نے جرابیں پہنے ہوئے وضو کیا پس آپ ان پر مسح کیا پھر فرمایا: میں نے آج ایسا کام کیا ہے جو میں اس سے پہلے نہیں کرتا تھا یعنی میں نے جورابوں پر مسح کیا ہے حالاں کہ جرابوں کے نیچے چمڑا نہیں لگا تھا‘‘
(“الجامع” للترمذي [ج1/ص: 167) تحقيق و تعليق شيخ احمد شاكر
(سنن ترمذی،تحت الحدیث،99)

(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)

🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں