سلسلہ سوال و جواب نمبر-85″
سوال_کیا عورتیں قبرستان جا سکتی ہیں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں مدلل جواب دیں؟
Published Date:19-8-2018
جواب:
الحمدللہ:
*مسلمانوں کے ہاں عورتوں کے قبرستان جانے پر بڑی بحث ہوتی ہے کچھ لوگ تو اس کو حرام کہتے ہیں اور کچھ مکروہ،جب کے اگر ہم صاحب شریعت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کی طرف دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ عورتوں کے لیے قبرستان جانا جائز ہے ,البتہ بکثرت جانا منع ہے*
*پہلے پہل رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے مردوں اور عورتوں سب کو قبرستان جانے سے منع فرما دیا تھا لیکن بعد میں اجازت دے دی،*
🌷بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ، آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا اب زیارت کیا کرو
(صحیح مسلم کتاب الجنائز باب استئذان النبی صلى اللہ علیہ وسلم ربہ حدیث نمبر-977)
(مسند احمد،حدیث نمبر-22958)
🌷ابو داؤد کی روایت میں یہ الفاظ ہیں،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
میں نے تم کو قبروں کی زیارت سے روکا تھا سو اب زیارت کرو کیونکہ ان کی زیارت میں موت کی یاد دہانی ہے،
(سنن ابو داؤد، حدیث نمبر-3235)
🌷اور ابن ماجہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
قبروں کی زیارت کیا کرو، اس لیے کہ یہ تم کو آخرت کی یاد دلاتی ہیں،
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر- 1569)
*ان احادیث میں جو قبروں کی زیارت کی اجازت دی جا رہی ہے اس اجازت میں مرد و خواتین دونوں شامل ہیں*
🌷ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی والدہ کی قبر پر آئے تو رو پڑے اور اپنے آس پاس کے لوگوں کو ( بھی ) رلا دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے اپنے رب سے اپنی ماں کی مغفرت طلب کرنے کی اجازت مانگی تو مجھے اجازت نہیں دی گئی، پھر میں نے ان کی قبر کی زیارت کرنے کی اجازت چاہی تو مجھے اس کی اجازت دے دی گئی، تو تم بھی قبروں کی زیارت کیا کرو کیونکہ وہ موت کو یاد دلاتی ہے،
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر-3234)
🌷رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے روکا تھا۔ اب محمد کو اپنی ماں کی قبر کی زیارت کی اجازت دے دی گئی ہے۔ تو تم بھی ان کی زیارت کرو، یہ چیز آخرت کو یاد دلاتی ہے“
۱؎۔ امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- بریدہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابو سعید خدری، ابن مسعود، انس، ابوہریرہ اور ام سلمہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ وہ قبروں کی زیارت میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں۔
(سنن ترمذی،حدیث نمبر-1054)
🌷 ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں قبرستان گئیں اور پھر واپس گھر آکر انہوں نے رسول اللہ ﷺسے قبرستان جا کر کرنے کی دعاء پوچھی تو آپ ﷺ نے انہیں یہ دعاء سکھائی:
السَّلَامُ عَلَى أَهْلِ الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ، وَيَرْحَمُ اللهُ الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِينَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللهُ بِكُمْ لَلَاحِقُون
َ (صحيح مسلم : حدیث نمبر_974)
🌷 عبد اللہ بن ابی ملیکہ سے روایت کیا ہے کہ : “عائشہ رضی اللہ عنہا ایک دن قبرستان سے آرہی تھیں، تو میں نے اُن سے عرض کیا:
ام المؤمنین! آپ کہاں سے آرہی ہیں؟
تو انہوں نے کہا: اپنے بھائی عبد الرحمن بن ابو بکر کی قبر سے۔
میں نے کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر جانے سے منع نہیں فرمایا؟
تو انہوں نے فرمایا: ہاں! منع کیا تھا، لیکن بعد میں قبروں کی زیارت کرنے کا حکم دیا تھا”
(الألباني/ أحكام الجنائز،230 إسناده صحيح رجاله ثقات )
( الألباني /، إرواء الغليل،234ص /ج3 •صحيح)
*یہ حدیث صحیح الاسناد ہے،*
اسکے تمام راوی ثقہ ہیں،
حافظ عراقی کہتے ہیں کہ:
“ابن ابی دنیا نے اپنی کتاب “القبور”میں اسے جید سند کے ساتھ روایت کیا ہے”
اس حدیث کو مستدرک حاکم (1392) نے
اور انہی کی سند سے بیہقی (7207) نے
دیکھیں: “تخريج أحاديث الإحياء” (ص 1872)
اور البانی رحمہ اللہ نے اسے “الإرواء” (3/233) میں صحیح قرار دیا ہے۔
🌷اور ابن ماجہ (1570) نے مختصراً اسے روایت کیا ہے، اس میں لفظ یوں ہیں:
عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے کی رخصت دی۔
اسے بوصیری نے “الزوائد” (2/42) میں صحیح کہا ہے۔
*لیکن یاد رہے یہ اجازت کبھی کبھار کے لیے ہے، بکثرت قبرستان جانے سے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو منع کیا ہے بلکہ اس عمل پر لعنت فرمائی ہے*
🌷ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی بہت زیادہ زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت بھیجی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
(سنن ترمذی کتاب الجنائز باب ما جاء فی کراھیۃ زیارۃ القبور للنساء حدیث نمبر-1056)
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر-1576)
(مسند احمد ،حدیث نمبر،8449)
*ان دلائل سے نتیجہ یہ نکلا کہ عورتیں کبھی کبھار قبروں پر جاسکتی ہیں،اس سے آخرت یاد آتی ہے ۔ قبروں کی زیارت ہو یا کوئی بھی ایسا نیک عمل جسکے لیے شریعت اسلامیہ نے کوئی وقت یا دن مقرر نہیں کیا ہے اسکے لیے کسی بھی دن یا وقت کو خاص کر لینا بھی بدعت ہے،لہذا عید کے ایام کو قبروں کی زیارت کے لیے خاص کرنا یا محرم الحرام کے پہلے دس دنوں کو خاص کرنا دونوں ہی بدعت ہیں ۔ اسی طرح بن سنور کر، رنگ رنگیلے لباس اور بے پردگی کی حالت میں قبرستان جانا کہ گویا مقابلہ حسن میں شرکت ہو رہی ہے یہ اس سے بھی بڑی مصیبت ہے،ان تمام رسم و رواج اور تہواروں سے بچتے ہوئے، باپردہ ہو کر کبھی کبھار خواتین قبرستان جا سکتی ہیں،*
(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)
اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہمارا فیسبک پیج لائیک ضرور کریں۔۔.
آپ کوئی بھی سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کر سکتے ہیں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765
ہمنے دیکھا ہے بہت سے لوگوں کو کہ کسی کا انتقال ہونے پر لوگ بکثرت آتے ہیں اور ایک عجیب سا ماحول بن جاتا ہے گویا کہ کسی کی میت نہیں بلکہ نمائش کی کوئی چیز ہو اور پھر کھانے پینے کے لئے ٹینٹ وغیرہ کا کہیں تھوڑے سے فاصلے پر میت کے گھر والوں کی طرف سے انتظام کیا جاتا ہے
. ایک اور مسئلہ کی وضاحت قرآن وحدیث کی روشنی میں کریں کہ عورتوں کی میت کا دیکھنا کیسا ہے