“سلسلہ سوال و جواب نمبر-306″
سوال_ کیا مسجد سے متصل گھر، چھت یا تہہ خانے میں موجود مرد و عورتیں امام کی اقتداء میں نماز پڑھ سکتے ہیں جبکہ وہ امام کی صرف آواز سن رہے ہوں۔۔؟
نیز اگر مقتدیوں میں سے کچھ عورتیں یا مرد چھت پر امام سے آگے کھڑے ہوں تو کیا انکی نماز درست ہو گی؟
Published Date: 16-11-2019
جواب:
الحمدللہ:
*عورتوں کی صف اگر مسجد کی بالائی منزل پر یا تہہ خانہ میں ہو اور مردوں کی صف زمین کی سطح پر ہو،نیز عورتوں کی صف مردوں کی صف سے مقدم ہو، یا مؤخر ہو ، یا بھلے برابر ہو تو ایسی صورت میں انکی نماز امام کے ساتھ درست ہے،*
*اسی طرح عورتوں کی صف اور امام کے درمیان دیوار یا پردہ حائل ہو تو بھی نماز صحیح ہو گی*
*اسی طرح اگر امام ایک کمرے میں ہو اور اس کے ساتھ چند مقتدی ہوں اور جگہ کی تنگی کی بنا پر باقی متقدی دوسرے کمرے میں امام کی اقتدا کریں تو یہ بھی درست ہے*
*اگر کسی مسجد سے متصل مکان میں امام کی تکبیرات سنائی دیتی ہوں تو اس مکان کی چھت یا صحن میں امام کی اقتدا درست ہے۔ مگر تمام مقتدی چھت پر بھی امام کے پیچھے کھڑے ہوں امام سے آگے نہیں*
دلائل ملاحظہ فرمائیں :
📒امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح بخاری میں باب قائم کیا ہے،
صحيح البخاري/كِتَاب الْأَذَانِ
بَابُ إِذَا كَانَ بَيْنَ الإِمَامِ وَبَيْنَ الْقَوْمِ حَائِطٌ أَوْ سُتْرَةٌ،
باب: جب امام اور مقتدیوں کے درمیان کوئی دیوار حائل ہو یا پردہ ہو (تو کچھ قباحت نہیں)۔
📚وقال الحسن: لا باس ان تصلي وبينك وبينه نهر، وقال ابو مجلز: ياتم بالإمام وإن كان بينهما طريق او جدار إذا سمع تكبير الإمام،
اور امام حسن بصری نے فرمایا کہ اگر امام کے اور تمہارے درمیان نہر ہو جب بھی نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں اور ابومجلز تابعی نے فرمایا کہ اگر امام اور مقتدی کے درمیان کوئی راستہ یا دیوار حائل ہو جب بھی اقتداء کر سکتا ہے بشرطیکہ امام کی تکبیر سن سکتا ہو،
(صحیح بخاری حدیث نمبر-729 ، قبل الحدیث )
اور پھر نیچے یہ حدیث ذکر کرتے ہیں،
📚سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں :
کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُصَلِّي مِنَ اللَّیْلِ فِي حُجْرَتِہٖ، وَجِدَارُ الْحُجْرَۃِ قَصِیرٌ، فَرَأَی النَّاسُ شَخْصَ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ أُنَاسٌ یُّصَلُّونَ بِصَلَاتِہٖ ۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اپنے حجرہ میں نماز ادا فرماتے۔حجرے کی دیوار چھوٹی تھی، صحابہ کرام نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سراپہ مبارکہ کو دیکھا اور کھڑے ہوکر آپ کی اقتدا کرنے لگے۔‘‘
(صحیح البخاری، حدیث نمبر-729)
📚صالح مولی توأمہ کہتے ہیں :
صَلَّیْتُ مَعَ أَبِي ھُرَیْرَۃَ فَوْقَ الْمَسْجِدِ بِصِلَاۃِ الْإِمَامِ، وَھُوَ أَسْفَلُ ۔
’’میں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد کی چھت پر امام کی اقتدا میں نماز پڑھی،حالانکہ امام نیچے تھا۔‘‘
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 222/2، وسندہٗ حسنٌ)
📚سعید بن مسلم کہتے ہیں :
رَأَیْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ صَلّٰی فَوْقَ ظَہْرِ الْمَسْجِدِ صَلَاۃَ الْمَغْرِبِ، وَمَعَہٗ رَجُلٌ آخَرُ، یَعْنِي وَیَأْتَمُّ بِالْإِمَامِ ۔
’’میں نے سالم بن عبد اللہ رحمہ اللہ کو دیکھا کہ انہوں نے ایک شخص کے ساتھ مسجد کی چھت پر مغرب کی نماز، امام کی اقتدا میں پڑھی۔‘‘
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 222/2، وسندہٗ صحیحٌ)
📚منصور بن معتمر بیان کرتے ہیں :
کَانَ إِلٰی جَنْبِ مَسْجِدِنَا سَطْحٌ، عَنْ یَّمِینِ الْمَسْجِدِ، أَسْفَلُ مِنَ الْإِمَامِ، فَکَانَ قَوْمٌ ہَارِبِینَ فِي إِمَارَۃِ الْحَجَّاجِ، وَبَیْنَہُمْ وَبَیْنَ الْمَسْجِدِ حَائِطٌ طَوِیلٌ یُّصَلُّونَ عَلٰی ذٰلِکَ السَّطْحِ، وَیَأْتَمُّونَ بِالْإِمَامِ، فَذَکَرْتُہٗ لِإِبْرَاہِیمَ، فَرَآہُ حَسَنًا ۔
’’ہماری مسجد کی دائیں جانب ایک جگہ تھی،جو امام کی جگہ کی نسبت نیچی تھی۔ کچھ لوگ حجاج کے دور میں بھاگے ہوئے تھے،ان کے اور مسجد کے درمیان ایک لمبی دیوار حائل تھی۔وہ اس امام کی اقتدا میں اس جگہ نماز ادا کرتے تھے۔میں نے امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے اس بارے میں پوچھا تو انہوں نے اسے درست خیال کیا۔‘‘
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 222/2، وسندہٗ صحیحٌ)
📚عبد اللہ بن عون بیان کرتے ہیں :
سُئِلَ مُحَمَّدٌ عَنِ الرَّجُلِ یَکُونُ عَلٰی ظَہْرِ بَیْتٍ، یُصَلِّي بِصَلَاۃِ الْإِمَامِ فِي رَمَضَانَ؟ فَقَالَ : لَا أَعْلَمُ بِہٖ بَأْسًا، إِلَّا أَنْ یَّکُونَ بَیْنَ یَدَيِ الْإِمَامِ ۔
’’امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو رمضان المبارک میں کسی گھر کی چھت پر امام کی اقتدا میں نماز پڑھے۔انہوں نے فرمایا : میں اس میں کوئی حرج خیال نہیں کرتا،الا یہ کہ وہ امام سے آگے ہو۔‘‘
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 222/2، وسندہٗ صحیحٌ)
📚ہشام بن عروہ بیان کرتے ہیں :
إِنَّ عُرْوَۃَ کَانَ یُصَلِّي بِصَلَاۃِ الْإِمَامِ، وَہُوَ فِي دَارِ حُمَیْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْحَارِثِ، وَبَیْنَہُمَا وَبَیْنَ الْمَسْجِدِ طَرِیقٌ ۔
’’عروہ بن زبیر تابعی رحمہ اللہ نماز کی اقتدا میں حمید بن عبد الرحمن بن حارث کے گھر میں نماز ادا کرتے،حالانکہ ان کے اور مسجد کے درمیان ایک راستہ تھا۔‘‘
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 222/2، وسندہٗ صحیحٌ)
_______&____________
📒اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ:
عورتوں كا ان مساجد ميں نماز ادا كرنے كا حكم كيا ہے جس ميں انہيں نہ تو مقتدى نظر آتے ہوں، اور نہ ہى امام دكھائى دے، بلكہ صرف انہيں نماز كى آواز آتى ہو ؟
📚جواب۔۔۔!
عورت اور مرد كے ليے بھى مسجد ميں نماز باجماعت ادا كرنى جائز ہے چاہے وہ امام اور مقتديوں كو نہ بھى ديكھ رہا ہو، ليكن يہ اس صورت ميں ہے جبكہ امام كى اقتدا كرنا ممكن ہو، اس ليے اگر مسجد ميں عورتوں والى جگہ امام كى آواز پہنچ رہى ہو اور عورتوں كے ليے امام كى اقتدا كرنا ممكن ہو تو امام كے ساتھ ان كى نماز ادا كرنا جائز ہے؛ كيونكہ جگہ ايك ہى ہے، اور امام كى اقتدا بھى ممكن ہے، چاہے وہ لاؤڈ سپيكر كے ذريعہ ہى ہو، يا پھر سپيكر كے بغير امام كى آواز آ رہى ہو، يا امام كى جانب سے انہيں آواز پہنچائى جارہى ہو، اگر انہيں امام اور مقتدى نہ بھى نظر آئيں تو نماز ميں نقصان اور ضرر نہيں بلكہ بعض علماء كرام نے تو امام يا مقتديوں كو ديكھنے كى شرط اس كے ليے ركھى ہے جو مسجد سے باہر نماز ادا كر رہا ہو.
كيونكہ فقھاء كا كہنا ہے كہ:
اگر مسجد سے باہر نماز ادا كرنے والا شخص امام يا مقتديوں كو ديكھ رہا ہو تو اس كى نماز صحيح ہے، ليكن ميرے نزديك راجح قول يہ ہے كہ اگر مسجد ميں نماز ادا كرنے كے ليے جگہ ہو تو مسجد سے باہر نماز ادا كرنے والے كى نماز صحيح نہيں، چاہے وہ امام يا مقتديوں كو ديكھ بھى رہا ہو.
يہ اس ليے كہ جماعت كا مقصد يہ ہے كہ افعال اور جگہ ميں اتفاف ہو ليكن اگر مسجد بھر چكى ہو اور باہر نماز ادا كرنے والا شخص امام كى اقتدا ميں نماز ادا كر رہا ہو اور امام كى متابعت كرنا ممكن ہو تو راجح يہى ہے كہ امام كى اقتدا اور متابعت كرنا جائز ہے، چاہے امام نظر آرہا ہو يا نظر نہ آئے، ليكن صفيں ملى ہوئى ہوں” انتہى
(ماخوذ از: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين 15 / 213 )
_______&________
*نماز میں مقتدیوں کا امام سے آگے کھڑا ہونا درست نہیں،لیکن اگر مجبوری ہو کہ امام کے پیچھے کوئی جگہ نا ہو تو آگے کھڑے ہو سکتے ہیں*
📒سعودی فتاویٰ کمیٹی سے سوال کیا گیا کہ كيا نماز تراويح كى ادائيگى كے ليے مسجد سے آگے عورتوں كے ليے جگہ مخصوص كى جا سكتى ہے ( يعنى نماز والى جگہ امام سے آگے ہو اور مسجد كى ديوار كا فاصلہ ہو ) اس كے علاوہ عورتوں كے ليے نماز كى جگہ نہيں ہے ؟
📚جواب از سعودی فتاویٰ کمیٹی!
نماز باجماعت ميں اصل يہ ہے كہ مقتدى امام كے پيچھے ہوں، امام سے آگے نماز ادا كرنے والے مقتدى كے بارہ ميں علماء كرام كا اختلاف ہے، اس ميں صحيح قول يہى ہے كہ كسى عذر ہونے كى حالت ميں جائز ہے،
📒شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
كيا مسجد ميں امام كے آگے يا پيچھے آڑ ہونے كى صورت ميں نماز ہو جاتى ہے يا نہيں ؟
شيخ الاسلام كا جواب تھا:
” امام كے آگے مقتدى كا نماز ادا كرنے ميں تين قول ہيں:
پہلا قول:
مطلقا صحيح ہے، اگرچہ اس كى كراہت كا بھى كہا گيا ہے، امام مالك كا مشہور قول يہى ہے اور امام شافعى رحمہ اللہ كا قديم قول بھى يہى ہے.
دوسرا قول:
مطلقا صحيح نہيں، جيسا كہ امام ابو حنيفہ، امام شافعى، امام احمد كا مشہور مذہب ہے.
تيسرا قول:
عذر كى صورت ميں جائز ہے، بغير عذر صحيح نہيں، امام احمد وغيرہ كے مسلك ميں ايك قول يہى ہے، اور يہى قول راجح اور اعدل ہے؛ كيونكہ امام كے آگے نہ ہونا زيادہ سے زيادہ يہى ہے كہ يہ نمازباجماعت كے واجبات ميں سے ہو گا، اور سب واجبات عذر كى صورت ميں ساقط ہو جاتے ہيں.
اور اگر اصل نماز ميں واجب ہے، تو نماز باجماعت ميں بالاولى ساقط ہو گا؛ اسى ليے نماز ميں قيام، قرآت اور لباس، اور طہارت وغيرہ سے عاجز ہونے كى بنا پر نمازى سے ساقط ہو جاتى ہے۔۔۔۔۔۔انتہی!
يہان مقصود يہ ہے كہ:
حسب الامكان امام کے پیچھے کھڑے ہو کر امام کی اقتداء کی جائيگى، ليكن اگر مقتدى كے ليے امام كے آگے كھڑا ہونے كے علاوہ اس كى اقتدا كرنا ممكن نہ ہو تو زيادہ سے زيادہ يہ ہے كہ اس نے جماعت كى بنا پر پيچھے كھڑا ہونا ترك كيا ہے، اور يہ كسى دوسرے سے خفيف اور كم ہے.
اسى طرح صف كے پيچھے اكيلے كھڑے ہو كر نماز ادا كرنے سے منع كيا گيا ہے، ليكن اگر اس كے ساتھ كھڑا ہونے والا كوئى نہ ہو، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو وہ اكيلا ہى صف ميں نماز ادا كر لے اور جماعت نہ چھوڑے.
جيسے كوئى عورت اگر كسى دوسرى عورت كو نہ پائے تو اكيلى ہى صف كے پيچھے كھڑى ہو جائے، اس ميں آئمہ كا اتفاق ہے، صف بنانے كا حكم تو حسب الامكان ہے نہ كہ صف بنانے سے عاجز ہونے كى صورت ميں،
(ديكھيں: فتاوى الكبرى 2 / 331 – 333 )
📒شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے دريافت كيا گيا:
كيا امام سے آگے كھڑا ہونا جائز ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
” صحيح يہ ہے كہ امام كا آگے كھڑا ہونا واجب ہے، كسى كے ليے بھى اپنے امام سے آگے كھڑا ہونا جائز نہيں، كيونكہ كلمہ ” امام ” كا معنى يہ ہے كہ وہ آگے ہو، يعنى وہ قدوہ ہو، اور اس كى جگہ مقتديوں سے آگے ہے، چنانچہ كسى بھى مقتدى كے ليے امام كے آگے كھڑے ہور كر نماز ادا كرنا جائز نہيں.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم بھى صحابہ كرام سے آگے كھڑے ہوا كرتے تھے، لہذا اس بنا پر جو لوگ امام سے آگے بڑھ كر نماز ادا كرتے ہيں ان كى كوئى نماز نہيں، ان كے ليے نماز لوٹانا واجب ہے، ليكن بعض اہل نے اس سے ضرورت اور حاجت كے وقت استثنى كيا ہے، مثلا مسجد تنگ ہو، اور اس كا ارد گرد لوگوں كے ليے كافى نہ ہو تو لوگ اس كے دائيں بائيں اور آگے اور پيچھے ضرورت كى بنا پر نماز ادا كريں ” انتہى
( مجموع فتاوى ابن عثيمين 13 / 44 )
اس بنا پر آپ لوگ عورتوں كے ليے نماز كى جگہ پيچھے بنانے كى كوشش كريں، اور اگر جگہ نہ ملے اور امام كے آگے كے علاوہ كہيں اور ممكن نہ ہو تو ان شاء اللہ اس ميں كوئى حرج نہيں،
( https://islamqa.info/ar/answers/65685/ )
_________&___________
*بعض وہ ضعیف روایات جنکی بنا پر چھت یا تہہ خانے وغیرہ میں امام کی اقتداء سے منع کیا جاتا ہے،انکا جائزہ پیش خدمت ہے*
بعض لوگوں نے اللہ رب العالمین کی گرفت سے بے خوف وخطر ہو کر یہ روایت گھڑ لی :
🚫’مَنْ کَانَ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ الْإِمَامِ طَرِیقٌ أَوْ نَھْرٌ أَوْ صَفٌّ مِّنْ نِّسَائٍ؛ فَلَیْسَ ھُوَ مَع الْإِمَامِ‘ ۔
’’جس کے اور امام کے درمیان راستہ،نہر یا عورتوں کی صف حائل ہو،وہ امام کی اقتدا میں نہیں۔‘‘
(المبسوط للسرخسي : 184/1، 193،
( بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع للکاساني : 240/1، )
(البنایۃ شرح الھدایۃ للعنیي : 353/2،)
( المحیط البرھاني فی الفقہ النعماني : 421/1)
یہ روایت موضوع من گھڑت ہے، اسکی کوئی اصل نہیں،
🚫سیدناعقبہ بن عمرو،ابو مسعود انصاری، بدری رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے :
نَھٰی رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یَّقُومَ الْإِمَامُ فَوْقَ شَيْئٍ، وَالنَّاسَ خَلْفَہٗ ۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ کوئی امام کسی بلند چیز پر کھڑا ہو،اس حال میں لوگ (نیچے)اس کی اقتدا کر رہے ہوں۔
‘‘(سنن الدارقطني : 1882)
اس کی سند سلیمان بن مہران اعمش اور ابراہیم بن یزید نخعی کی ’’تدلیس‘‘کی وجہ سے ’’ضعیف‘‘ہے۔
🚫عیسیٰ بن ابو عزہ،امام شعبی رحمہ اللہ کے بارے میں کہتے ہیں :
سَأَلْتُہٗ عَنِ الْمَرْأَۃِ تَأْتَمُّ بِالْإِمَامِ وَبَیْنَہُمَا طَرِیقٌ، فَقَالَ : لَیْسَ ذَلِکَ لَہَا ۔
’’میں نے ان سے عورت کے بارے میں پوچھا کہ اس کے اور امام کے درمیان میں راستہ حائل ہو۔انہوں نے فرمایا : اس کے لیے ایسی صورت میں اقتدا کرنا جائز نہیں۔‘‘
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 222/2، وسندہٗ صحیحٌ)
امام شعبی رحمہ اللہ کا یہ قول صحیح حدیث اور سلف صالحین کے فہم کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابل قبول ہے۔
🚫سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے یہ قول منسوب ہے :
إِذَا کَانَ بَیْنَہٗ وَبَیْنَ الْإِمَامِ طَرِیقٌ، أَوْ نَھْرٌ، أَوْ حَائِطٌ؛ فَلَیْسَ مَعَہٗ ۔
’’جب نمازی اور امام کے درمیان راستہ،نہر یا دیوار حائل ہو،تو وہ امام کی اقتدا میں نہیں ہے۔‘
‘(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 222/2)
اس کی سند ’’ضعیف‘‘ہے،کیوں کہ :
1نعیم بن ابو ہند کا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے سماع و لقا نہیں ہے۔
2حفص بن غیاث راوی ’’مدلس‘‘ہے۔
3لیث بن ابو سلیم جمہور محدثین کے نزدیک ’’ضعیف،سیء الحفظ‘‘ہے
🚫مصنف عبد الرزاق(4880)والی سند میں نعیم بن ابو ہند اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان ’’انقطاع‘‘ کے ساتھ ساتھ سلیمان بن طرخان تیمی اور امام عبد الرزاق کی ’’تدلیس‘‘ہے۔
🚫امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کے بارے میں ہے :
إِنَّہٗ کَانَ یَکْرَہُ أَنْ یُّصَلِّيَ بِصَلَاۃِ الْإِمَامِ، إِذَا کَانَ بَیْنَہُمَا طَرِیقٌ، أَوْ نِسَائٌ ۔
’’وہ امام کی اقتدا میں نماز پڑھنے کو اس وقت مکروہ سمجھتے تھے جب نمازی اور امام کے درمیان راستہ یا عورتیں ہوتیں۔‘‘
(مصنّف ابن أبي شیبۃ : 222/2)
اس کی سند سفیان ثوری اور اعمش کی ’’تدلیس‘‘کی وجہ سے ’’ضعیف‘‘ہے۔
🚫مصنف عبد الرزاق(4882)والی سند میں ابن مجالد اور اس کا باپ مجالدکون ہے؟ ان کی تعیین و توثیق درکار ہے۔نیز امام عبد الرزاق ’’مدلس‘‘ہیں،سماع کی تصریح نہیں کی۔
🚫قاضی ابو یوسف کی ’’الآثار‘‘(322)کی سند جھوٹی ہے۔یوسف بن ابو یوسف کی توثیق نہیں مل سکی۔صاحب ِکتاب قاضی ابو یوسف جمہور محدثین کے نزدیک ’’ضعیف‘‘ہیں اور ان کے استاذ نعمان بن ثابت باتفاقِ محدثین ’’ضعیف ومتروک‘‘ہیں۔مزید یہ کہ حماد بن ابو سلیمان راوی ’’مختلط‘‘بھی ہیں۔نعمان بن ثابت صاحب نے ان سے اختلاط کے بعد روایت لی ہے،
🚫محمد بن حسن شیبانی کی ’’الآثار‘‘(115) والی سند کا بھی یہی حال ہے۔محمد بن حسن شیبانی ’’متروک وکذاب‘‘ہے۔اس کے استاذ بھی باتفاقِ محدثین ’’ضعیف ومتروک‘‘ہیں۔حماد بن ابو سلیمان کا ’’اختلاط‘‘بھی ہے۔
*یہ تمام دلائل ضعیف، موضوع ہیں اور صحیح احادیث کے خلاف بھی ہیں، لہٰذا صحیح بات یہی ہے کہ دیوار کے پیچھے، چھت پر یا تہہ خانہ وغیرہ میں امام کی اقتداء جائز ہے، جیسا کہ اوپر صحیح دلائل سے یہ بات ہم ثابت کر چکے ہیں*
__________&&&____________
(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)
📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 📑
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765
آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/
آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/
I am Abdur Rahman
India WB