1,049

سوال_كيا بيوى پر خاوند اور اپنے سسرال والوں کی خدمت كرنا واجب ہے ؟ قرآن و حدیث سے وضاحت کریں…!

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-255″
سوال_كيا بيوى پر خاوند اور اپنے سسرال والوں کی خدمت كرنا واجب ہے ؟ قرآن و حدیث سے وضاحت کریں…!

Published Date-22-6-2019

جواب:
الحمدللہ:

*یہ وہ سوال ہے جو ہمارے ہاں کچھ دیندار طبقے سے اور زیادہ تر پڑھی لکھی ،ماڈرن اور ذرا اونچے طبقہ سے تعلق رکھنے والی لڑکیاں کرتی ہیں، وہ یہ سمجھتی ہیں کہ بیوی کے لیے شوہر کی خدمت کرنا واجب نہیں اور وہ روٹی پکا کر اور کپڑے دھو کر دینے کو شوہر پر احسان سمجھتی ہیں۔۔جسکا نتیجہ اختلافات اور لڑائی جھگڑے سے ہوتا ہوا بالآخر طلاق یا خلع کی صورت میں ہی نکلتا ہے*

یہ بات ٹھیک ہے کہ بيوى پر خاوند كى خدمت كے واجب ہونے ميں فقھاء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، جمہور علماء كرام اسے واجب قرار نہيں ديتے، ليكن بعض اہل علم اسے واجب كہتے ہيں،

مگر میں کہتا ہوں کہ فقھاء کے واجب یا غیر واجب اقوال دیکھنے سے پہلے ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور کا جائزہ لیتے ہیں آیا انکے ہاں بھی ایسا کوئی سوال اٹھایا جاتا تھا یا نہیں،جو خواتین دنیا کی عظیم عورتیں تھیں وہ گھر کے ،اپنے شوہروں کے کام کاج کرتی تھیں یا نہیں….!؟

سب سے پہلی بات کہ شریعت بیوی کو اپنے شوہر کی اطاعت کا حکم دیتی ہے اور اس پر بیسیوں احادیث موجود ہیں( جو اختصار کی وجہ سے یہاں ذکر نہیں کر سکتے) اور شوہر کی حد درجہ اطاعت میں یہ بات بھی شامل ہے کہ خاتون اس کی خدمت گزار بیوی بن کر رہے۔

شادی کے بعد مرد یہ چاہتا ہے کہ اس کی بیوی اس کی خدمت گزار بن جائے ۔ اس کے کھانے پینے ، سونے جاگنے ، اٹھنے کا شیڈول اس کی بیوی کے پاس ہو۔ باوقت اسے لباس ملے، وقت پرکھانا اس کے سامنے حاضر ہو، ظاہر ہے جو بیوی خدمت گزار ی کا جذبہ لے کر اس کے گھر آئی ہو وہ مرتے دم تک اس کے ساتھ رہے گی، اس کے بغیر خاوند کا ایک دن گزارنا بھی مشکل ہو جائے گا اور یہی ایک عورت کی کامیابی ہے کہ اس کا خاوند اس کے بغیر ایک دن بھی گزارنے سے عاجز ہو جائے اور یہ درجہ خدمت گزاری کے بغیر نہیں مل سکتا،

*نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں بھی یہی روٹین تھی کہ امہات المومنین اور صحابیات اپنے اپنے شوہروں کے کام کاج اور انکی خدمت کیا کرتی تھیں*

📚منافقین نے جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر بدکاری کی جھوٹی تہمت لگائی تو بریرہ رضی اللہ عنہا ( جو ان کی خادمہ تھیں ) نے کہا کہ میں کوئی ایسی چیز نہیں جانتی جس سے ان (عائشہ رض) پر عیب لگایا جا سکے۔ ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ وہ نو عمر لڑکی ہیں کہ آٹا گوندھتی اور پھر جا کے سو رہتی ہے اور (پڑوسیوں) کی بکری آ کر اسے کھا لیتی ہے،
(صحیح بخاری حدیث نمبر-2637)

📚عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف کی حالت میں مسجد سے اپنا سر میری طرف بڑھا دیتے تو میں اسے دھو دیتی اور کنگھی کر دیتی، اس وقت میں اپنے حجرے ہی میں ہوتی، اور حائضہ ہوتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں ہوتے،
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر-1778)
(صحیح بخاری حدیث نمبر-2028)

*اوپر👆 ذکر کردہ دونوں احادیث سے پتا چلا کہ امہات المومنین گھر کے کام کاج اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کیا کرتی تھیں*

📚جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سے پوچھا کہ تو نے شادی بھی کر لی ہے؟ تو میں نے عرض کی جی ہاں!
دریافت فرمایا کسی کنواری لڑکی سے کی ہے یا بیوہ سے؟
میں نے عرض کیا کہ میں نے تو ایک بیوہ سے کر لی ہے۔ فرمایا، کسی کنواری لڑکی سے کیوں نہ کی کہ تم اس کے ساتھ کھیلتے اور وہ بھی تمہارے ساتھ کھیلتی۔ ( جابر بھی کنوارے تھے ) میں نے عرض کیا کہ میری کئی بہنیں ہیں۔ ( اور میری ماں کا انتقال ہو چکا ہے ) اس لیے میں نے یہی پسند کیا کہ ایسی عورت سے شادی کروں، جو انہیں جمع رکھے۔ ان کے کنگھا کرے اور ان کی نگرانی کرے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا اب تم گھر پہنچ کر خیر و عافیت کے ساتھ خوب مزے اڑانا،
(صحیح بخاری حدیث نمبر-2097)

*اس 👆 حدیث سے پتا چلا کہ شادی کا ایک مقصد گھر کے کام کاج اور خدمت کروانا بھی ہوتا ہے، اگر بیوی کے ذمے خدمت نا ہوتی تو صحابی ایسی نیت نا کرتے اور اگر کرتے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منع فرما دیتے کہ بیوی خدمت کے لیے نہیں ہوتی۔۔۔مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جابر رض کو کچھ بھی نہیں کہا*

📚جابر رض بیان کرتے ہیں کہ غزوہ خندق کے دن (بھوک شدت کی وجہ سے ) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیٹ سے پتھر بندھا ہوا تھا۔۔۔۔۔ ( میں نے گھر آ کر ) اپنی بیوی سے کہا کہ آج میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ( فاقوں کی وجہ سے ) اس حالت میں دیکھا کہ صبر نہ ہو سکا۔ کیا تمہارے پاس ( کھانے کی ) کوئی چیز ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ہاں کچھ جَو ہیں اور ایک بکری کا بچہ۔ میں نے بکری کے بچہ کو ذبح کیا اور میری بیوی نے جَو پیسے۔ پھر گوشت کو ہم نے چولہے پر ہانڈی میں رکھا اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آٹا گوندھا جا چکا تھا اور گوشت چولہے پر پکنے کے قریب تھا۔۔۔۔میں آنے آپکو چند ساتھیوں ساتھ کھانے کی دعوت دی اور بتایا کہ کھانا اتنا سا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو بہت ہے۔۔۔۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی بیوی سے کہہ دو کہ چولھے سے ہانڈی نہ اتاریں اور نہ تنور سے روٹی نکالیں میں ابھی آ رہا ہوں۔۔۔خیر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزے سے وہ تھوڑا کھانا سب صحابہ نے کھایا اور آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( جابر رضی اللہ عنہ کی بیوی سے ) فرمایا کہ اب یہ کھانا تم خود کھاؤ اور لوگوں کے یہاں ہدیہ میں بھیجو کیونکہ لوگ آج کل فاقہ میں مبتلا ہیں۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر-4101)

📚سہل رضی اللہ عنی کہتے ہیں کہ ہم جمعہ کے دن خوش ہوا کرتے تھے۔ میں نے عرض کی کس لیے؟ فرمایا کہ ہماری ایک بڑھیا تھیں جو مقام بضاعہ جایا کرتی تھیں۔ ابن سلمہ نے کہا کہ بضاعہ مدینہ منورہ کا کھجور کا ایک باغ تھا۔ پھر وہ وہاں سے چقندر لایا کرتی تھیں اور اسے ہانڈی میں ڈالتی تھیں اور جَو کے کچھ دانے پیس کر ( اس میں ملاتی تھیں ) جب ہم جمعہ کی نماز پڑھ کر واپس ہوتے تو انہیں سلام کرنے آتے اور وہ یہ چقندر کی جڑ میں آٹا ملی ہوئی دعوت ہمارے سامنے رکھتی تھیں ہم اس وجہ سے جمعہ کے دن خوش ہوا کرتے تھے اور قیلولہ یا دوپہر کا کھانا ہم جمعہ کے بعد کرتے تھے۔
صحیح بخاری حدیث نمبر-6248)

*ان 👆حادیث سے بھی یہ بات ثابت ہوئی کہ صحابہ کرام کے دور میں بھی کھانے پکانے کا اہتمام گھر کی عورتیں ہی کرتی تھیں*

📚صحيح بخارى اور مسلم ميں مروى ہے كہ فاطمہ رضى اللہ تعالى عنہا کے ہاتھ چکی پیس پیس کر خراب ہو گئے اور وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے چكى پيس كر ہاتھ خراب ہونے كى شكايت كرنے آئيں ليكن نبى كريم صلى اللہ عليہ كو گھر ميں نہ پايا، اور انہوں نے اس كا عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے ذكر كيا، جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم گھر تشريف لائے تو عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا نے انہيں فاطمہ كے آنے كا بتايا.
على رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں:
ہم اپنے بستر ميں ليٹ چكے تھے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم تشريف لائے ہم نے اٹھنا چاہا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
اپنى جگہ ہى رہو، آپ ہمارے درميان آ كر بيٹھ گئے حتى كہ ميں نے آپ صلى اللہ عليہ وسلم كے پاؤں كى ٹھنڈك اپنے پيٹ پر محسوس كى رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” جس چيز كا تم نے مطالبہ كيا ہے كيا ميں تمہيں اس سے بھى بہتر چيز نہ بتاؤں ؟
جب تم اپنے بستر پر آؤ تو 33 بارسبحان اللہ اور 33بار الحمد للہ اور 33 بار اللہ اكبر كہو تو يہ تمہارے ليے خادم سے بھى بہتر ہے.
(صحیح بخاری حدیث نمبر-3113)
(صحیح مسلم حدیث نمبر-2727)

*اس👆 حدیث میں غور کریں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لاڈلی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاتھ خراب ہو گئے گھر کے کام کر کر کے ،مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ علی رض اپنے کام خود کریں فاطمہ کی ذمہ داری نہیں۔۔۔۔*

*امہات المؤمنین اور صحابیات اپنے شوہروں کی خدمت گزاری کا کس قدر جذبہ رکھتی تھیں، یہ آخری حدیث ملاحظہ فرمائیں*

📚 حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بہن حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کا درج ذیل بیان قابل غور ہے،
وہ فرماتی ہیں کہ ”زبیر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے شادی کی تو ان کے پاس ایک اونٹ اور ان کے گھوڑے کے سوا روئے زمین پر کوئی مال، کوئی غلام، کوئی چیز نہیں تھی۔ میں ہی ان کا گھوڑا چراتی، پانی پلاتی، ان کا ڈول سیتی اور آٹا گوندھتی۔ میں اچھی طرح روٹی نہیں پکا سکتی تھی۔ انصار کی کچھ لڑکیاں میری روٹی پکا جاتی تھیں۔ یہ بڑی سچی اور باوفا عورتیں تھیں۔ زبیر رضی اللہ عنہ کی وہ زمین جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دی تھی، اس سے میں اپنے سر پر کھجور کی گٹھلیاں گھر لایا کرتی تھی۔ یہ زمین میرے گھر سے دو میل دور تھی۔ ایک روز میں آ رہی تھی اور گٹھلیاں میرے سر پر تھیں اور راستے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات بھی ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کہتی ہیں اس کے بعد میرے والد ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک غلام میرے پاس بھیج دیا وہ گھوڑے کا سب کام کرنے لگا اور میں بےفکر ہو گئی گویا والد ماجد ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ( غلام بھیج کر ) مجھ کو آزاد کر دیا۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر-5224)
(صحیح مسلم: حدیث نمبر-2182)
(مسند احمد حدیث نمبر-26937)

*اس 👆 حدیث پر غور کریں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سالی اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیٹی اپنے شوہر کے کتنے کام کر رہی ہے مگر نا تو اس نے یہ کہا کہ مجھ پر خدمت واجب نہیں اور نا ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر کوئی اعتراض کیا اور نا ہی زبیر رض کو ڈانٹا کہ کیوں خدمت کروا رہے بیوی سے۔۔۔۔ بلکہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی یہ سب دیکھ کر چپ رہے ۔۔اور جب گنجائش بنی تو اپنی بیٹی کے لیے غلام بھیج دیا مگر اپنے داماد سے یہ نہیں کہا کہ میری بیٹی سے کام کیوں کروا رہے ہو۔۔*

اوپر ذکر کردہ چند احادیث اور ان جیسی سیکنڑوں احادیث میں یہی بات ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں بھی خواتین گھر کے کام کاج اور شوہر کی خدمت کرتی تھیں اور یقیناً یہی اللہ پاک کا بنایا ہوا دستور زندگی ہے کہ مرد گھر کے باہر کام کرتے ہیں، پیسہ کماتے ہیں تا کہ بیوی بچوں پر خرچ کر سکیں اور اناج لا سکیں اور بیوی گھر میں رہ کر شوہر کی خدمت کرے، کھانا پکائے ،بچوں کی دیکھ بھال وغیرہ کرے،

*اب آتے ہیں فقھاء کے فتاویٰ جات کی طرف*

📚سعودی فتاویٰ ویب سائٹ پر یہ بات درج ہے کہ!

بیوی کے ذمے خدمت لازم ہونے كى تاكيد اس بات سے بھى ہوتى ہے كہ اگر معاشرے ميں بيوى اپنے خاوند كى خدمت كرتى ہو اور لوگوں ميں عادت اور رواج ہو اور شادى ميں خدمت نہ كرنے كى شرط نہ لگائى گئى ہو تو بيوى كو خدمت كرنا ہوگى، كيونكہ اس كا اسى طرح شادى قبول كرنے كا معنى يہ ہے كہ وہ خدمت كرنا بھى قبول كر رہى ہے، اگر قبول نہ كرتى تو شادى ميں شرط ركھتى، اس ليے كہ عرف اور عادت و رواج شرط لگانے كے مترادف ہے.

اہل علم كى ايك جماعت نے بيوى كے ليے خاوند كى خدمت كرنا واجب بيان كرنے كے ساتھ اس كے دلائل بھى ذكر كيے ہيں.

📚شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” بيوى پر اپنے خاوند كى اچھے طريقہ سے مثل بمثل خدمت واجب ہے، اور يہ حالات كے مطابق مختلف ہوگى، لہذا ايك ديہاتى عورت كى خدمت شہرى عورت كى طرح نہيں، اور طاقتور عورت كى خدمت كمزور عورت جيسى نہيں، ہمارے اصحاب ميں سے ابو بكر بن ابى شيبہ اور جوزجانى نے يہى كہا ہے ” انتہى
الاختيارات ( 352 )

📚 اور ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” فصل: عورت كا اپنے خاوند كى خدمت كرنے كے بارہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا حكم:
ابن حبيب ” الواضحہ ” ميں كہتے ہيں:
جب على اور فاطمہ رضى اللہ تعالى عنہما نے خدمت كے بارہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس شكايت كى تو رسول كريم صلى اللہ نے ان كے درميان يہ فيصلہ كيا كہ فاطمہ باطنى گھر كے كام كاج كرے اور على ظاہرى باہر والے كام كرے.
پھر ابن حبيب كہتے ہيں: باطنى خدمت يہ ہے كہ: آٹا گوندھنا، اور روٹى پكانا، صفائى كرنا پانى وغيرہ لانا اور گھر كا سارا كام كاج كرنا.
اس ميں فقھاء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے سلف اور خلف رحمہ اللہ ميں سے ايك گروہ گھر كى مصلحت والے كام كاج واجب قرار ديتے ہيں،
ابو ثور كا كہنا ہے: بيوى اپنے خاوند كى ہر چيز ميں خدمت كريگى،
خدمت واجب كہنے والوں نے دليل اس سے لى ہے كہ يہى عادت اور معروف ہے جنہيں اللہ نے مخاطب كيا ،

رہى عورت كہ وہ آرام كرے اور اس كا خاوند گھر كى صفائى كرتا پھرے اور خدمت كرے آٹا پيس كر گوندھے اور كپڑے دھوئے اور گھر كے سارے كام كرتا پھرے يہ تو ايك برا كام ہے.

📚اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان تو يہ ہے: اور ان عورتوں كو بھى ويسے ہى حقوق حاصل ہيں جس طرح ان كے حقوق ہيں اچھے طريقہ كے ساتھ
(سورہ البقرۃ_ 228 )

📚اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے: مرد عورتوں پر نگران ہيں
(سورہ النساء_34)

اور جب عورت اپنے خاوند كى خدمت نہ كرے، بلكہ خاوند اپنى بيوى كا خادم ہو اور وہ خدمت كرے تو كيا يہ اس خاوند كى اپنى بيوى پر نگرانى و حكمرانى رہے گی؟

اور يہ بھى كہ مہر تو عورت كى شرمگاہ اور اس سے استمتاع كے حصول كے مقابلہ ميں ہے، اور خاوند و بيوى ميں سے ہر ايك دوسرے سے اپنى حاجت و ضرورت پورى كرتا ہے اور اللہ تعالى نے بيوى كا نان و نفقہ اور اس كى رہائش اور لباس وغيرہ تو استمتاع اور خدمت اور جو خاوندوں كى عادت ہے كے مقابلہ ميں واجب كيا ہے.

اور يہ بھى كہ مطلق معاہدے اور عقد تو عادات كے مطابق ہوتے ہيں اور انہيں عادات پر محمول كيا جاتا ہے، اور عرف اور رواج تو يہى ہے كہ عورت اپنے خاوند كى خدمت كرتى اور گھر كے كام كاج كرتى ہے.

ان كا يہ كہنا كہ فاطمہ اور اسماء رضى اللہ تعالى عنہما كى خدمت تو احسان و نيكى اور نفلى طور پر تھى، اس كا رد يہ ہے كہ فاطمہ رضى اللہ تعالى عنہا خدمت كى بنا پر تكليف اٹھاتى تھيں، تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے على رضى اللہ تعالى عنہ كو يہ نہيں فرمايا كہ خدمت كرنا اس پر لازم نہيں بلكہ خدمت تو تمہيں كرنى چاہيے.
اور جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسماء رضى اللہ تعالى عنہا كو سر پر چارا اٹھائے ہوئے ديكھا تو آپ نے يہ نہيں فرمايا كہ: اس پر خدمت كرنا فرض نہيں، اور يہ ظلم ہے، بلكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس خدمت كو صحيح قرار ديا، اور سب صحابہ كرام نے بھى اپنى بيويوں سے خدمت كرانا صحيح قرار ديا، حالانكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو علم تھا كہ كچھ اسے ناپسند بھى كرتى ہيں اور كچھ رضامند بھى ہيں، اس ميں كوئى شك و شبہ والى بات ہى نہيں ہے.

اور كسى گھٹيا اور شريف اور اسى طرح مالدار اور فقير و محتاج ميں فرق كرنا صحيح نہيں، ديكھيں سب سے شان و شرف و الى عورت اپنے خاوند كى خدمت كر رہى ہے، اور وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس خدمت كى شكايت لے كر حاصل ہوتى ہے ليكن نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كى شكايت نہيں سنى.

📚اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حديث ميں عورت كو قيدى كا نام ديتے ہوئے فرمايا:
” تم عورتوں كے متعلق اللہ كا تقوى اختيار كرو، يقينا وہ عورتيں تمہارے پاس قيدى ہيں ”

العانى: قيدى كو كہا جاتا ے، اور قيدى كا رتبہ يہى ہے كہ وہ جس كى قيد ميں ہے اس كى خدمت كرے، اور اس ميں بھى كوئى شك و شبہ نہيں كہ نكاح قيد اور غلامى كى ايك قسم ہے، جيسا كہ سلف رحمہ اللہ نے كہا ہے: نكاح غلامى ہے اس ليے تمہيں يہ ديكھنا ہوگا كہ وہ اپنى عزيزہ لڑكى كو كس كى غلامى اور قيد ميں دے رہا ہے، منصف شخص كے ليے مسلك ميں راجح قول مخفى نہيں رہا، اور دليل كے اعتبار سے كيا قوى ہے وہ بھى واضح ہوچكا ہے ” انتہى
ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 186 )

📚الموسوعۃ الفقھيۃ الكويتيۃ ميں درج ہے:
” فقھاء كرام كا اس ميں كوئى اختلاف نہيں كہ بيوى كے ليے اپنے خاوند كى گھر ميں خدمت كرنا جائز ہے، چاہے وہ ان عورتوں ميں شامل ہوتى ہو جو اپنى خدمت خود كرتى ہوں يا نہ كرنے والى ميں شامل ہوتى ہو، ليكن خدمت واجب ہونے ميں فقھاء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے،

جمہور علماء كرام جن ميں شافعيہ حنابلہ اور بعض مالكيہ شامل ہيں كے ہاں بيوى پر اپنے خاوند كى خدمت كرنا واجب نہيں، ليكن اس كے ليے بہتر يہى ہے كہ وہ عادت اور رواج كے مطابق خدمت كرے.

احناف كے ہاں بيوى پر خاوند كى خدمت كرنا واجب ہے كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فاطمہ اور على رضى اللہ تعالى عنہما كے مابين كام تقسيم كرتے ہوئے گھريلو كام كى ذمہ دارى فاطمہ رضى اللہ تعالى عنہا پر اور باہر كے اعمال على رضى اللہ تعالى عنہ پر ڈالى تھى.

اس ليے احناف كے ہاں بيوى كے ليے خاوند كى خدمت كرنے كى اجرت حاصل كرنا جائز نہيں ہے.

ليكن جمہور مالكى حضرات اور ابو ثور اور ابو بكر بن ابى شيبہ اور ابو اسحاق جوزجانى كہتے ہيں كہ بيوى كو گھريلو كام رواج اور عادت كے مطابق كرنا لازم ہيں، كيونكہ فاطمہ اور على رضى اللہ تعالى عنہما كے مابين نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے گھريلو كام كاج تقسيم كر ديے تھے، كہ فاطمہ گھر كے اندر والے اور على باہر كے كام سرانجام ديں گے.

اور اس ليے بھى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

” اگر ميں كسى شخص كو كسى دوسرے كے ليے سجدہ كرنے كا حكم ديتا تو عورت كو حكم ديتا كہ وہ اپنے خاوند كو سجدہ كرے، اور اگر آدمى اپنى بيوى كو جبل احمر سے جبل اسود تك جائے، اور جبل اسود سے جبل احمر تك جائے تواسے ايسا كرنا ہوگا ”

جوزجانى كہتے ہيں:
يہاں جو اطاعت ہے و ہ ايسى چيز ميں ہے جس كا كوئى خاوند كو فائدہ نہيں ليكن اگر خاوند كى معاش كا مسئلہ ہو تو پھر وہاں اطاعت كيسے نہ ہوگى.

اور اس ليے بھى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنى بيويوں كو اپنى خدمت كرنے كا حكم ديتے ہوئے فرمايا كرتے تھے:
” عائشہ مجھے كھانا كھلاؤ، عائشہ مجھے ذرا چھرى پكڑاؤ اور اسے پتھر پر تيز كر دو ”
امام طبرى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” ہر وہ عورت جو گھر ميں روٹى پكا سكتى ہو يا آٹا پيس سكتى ہو اور رواج ہو كہ وہ عورت گھر ميں يہ كام خود كرے تو خاوند پر يہ كام لازم نہيں ہونگے ” انتہى
(ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ_ 19 / 44 )

📚موسوعۃ ميں يہ بھى درج ہے:
” مالكيہ كا مسلك مزيد وضاحت سے بيان كرتے ہيں:
” .. ليكن اگر وہ امير ترين گھرانے سے تعلق ركھتى ہو تو اس پر خدمت واجب نہيں، اور اگر خاوند فقير الحال ہو تو خدمت كريگى ” انتہى
(الموسوعۃ الفقھيۃ الكويتيۃ ( 30/ 126 )

📚 اور الشرح الممتع ميں شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” صحيح يہى ہے كہ بيوى پر اپنے خاوند كى بہتر اور اچھے طريقہ سے خدمت كرنے كو لازم كيا جائيگا ” انتہى
ديكھيں: الشرح الممتع ( 12 / 441 )

📚شيخ ابن جبرين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
كيا بيوى پر اپنے خاوند كے ليے كھانا پكانا واجب ہے ؟
اور اگر وہ نہيں پكاتى تو كيا نافرمان كہلائيگى ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
” مسلمانوں ميں ابھى تك يہى عرف اور رواج ہے كہ بيوى اپنے خاوند كى عادت كے مطابق خدمت كرتى ہے، اس كے ليے كھانا پكاتى اور اس كے كپڑے دھوتى اور گھر كے برتن وغيرہ صاف كرتى اور گھر كى صفائى بھى كرتى ہے، اور ہر وہ كام جو اس كے مناسب ہو انجام ديتى ہے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور سے آج تك يہى عرف اور رواج چل رہا ہے اس كا كوئى انكار نہيں كرتا، ليكن بيوى كو ايسا كام كرنے كى مكلف نہيں كرنا چاہيے جس ميں اس كے ليے مشقت ہو وہ اس كے ليے مشكل ہو، بلكہ عادت اور قدرت و استطاعت كے مطابق ہونا چاہيے، اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے ” انتہى
( ديكھيں: فتاوى العلماء فى عشرۃ النساء ( 20 )

اس سے يہ راجح ہوا كہ عادت اور عرف كے مطابق خاوند كى خدمت كرنا واجب ہے، اور عورت كو گھريلو كام كاج كرنا ہوگا، اسى طرح خاوند گھر كے باہر كے كام جس ميں كمائى وغيرہ شامل ہے سرانجام دےگا.

اور جو شخص جمہور علماء كرام كے قول خدمت واجب نہ ہونے كو ليتا ہے اسے ہم يہ كہيں گے كہ جمہور علماء كرام تو بيوى كے بيمار ہونے پر خاوند كو علاج كرانا بھى واجب نہيں كہتے كيونكہ ان كا كہنا ہے يہ بنيادى اور اساسى ضرورت نہيں، يا پھر نفقہ تو نفع كے مقابلہ ميں ہے، اور علاج معالجہ تو اصل جسم كى حفاظت كے ليے ہے.
ليكن جو يہ ديكھے كہ اس دور ميں تو علاج معالجہ اساسى اور بينادى ضرورت بن چكى ہے اس كے ليے يہى واضح ہوگا كہ بيوى كا علاج معالجہ كرانا واجب ہے.

اور يہ سوچا جائے كہ اگر بيوى نے گھر كے كام كاج نہيں كرنے تو اور كون كريگا ؟
كيونكہ خاوند تو سارا دن كمائى ميں مشغول رہتا ہے، اور اكثر لوگ گھر ميں ملازمہ ركھنے اور اس كى اجرت برداشت كرنے كى استطاعت نہيں ركھتے.
اور اگر عورتيں خاوند كى خدمت نہ كريں اور گھريلو كام كاج سے انكار كر ديں تو مرد ان سے شادى كرنے سے ہى اعراض كرنے لگيں گے، يا پھر وہ عقد نكاح ميں خدمت كى شرط ركھيں گے تا كہ كوئى اشكال ہى نہ رہے،

*شوہر کے والدین کی خدمت بیوی پر واجب نہیں*

📚شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
يہ جائز نہيں ہے كہ خاوند اپنے والدين كى خدمت پر بيوى كو مجبور كرے، اور اگر بيوى اپنى ساس اور سسر كى خدمت نہيں كرتى تو خاوند كو ناراض ہونے كا حق نہيں ہے.
اسے اس سلسلہ ميں اللہ سےڈرنا اور اللہ كا تقوى اختيار كرنا، وہ اس ميں اپنى طاقت اور قوت كا مظاہرہ نہ كرے كيونكہ اللہ تعالى اس سے بھى زيادہ طاقت ركھتا ہے، اور وہ بہت ہى بلند و بالا ہے.

اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اگر بيوياں تمہارى اطاعت كرنے لگيں تو پھر تم ان پر كوئى راہ تلاش مت كرتے پھرو، يقينا اللہ تعالى بہت ہى بلند و بالا ہے انتہى

(ماخوذ از: فتاوى نور على الدرب)

یعنی ساس اور سسر اور شوہر کے باقی گھر والوں کی خدمت کرنا بیوی پر واجب تو نہیں لیکن اگر وہ حتی الوسع ان کے ساتھ حسن سلوک اور احسان کرتے ہوئے اور اپنے خاوند کوخوش کرنے کے لیے انکی خدمت اور دیکھ بھال کرتی ہے تو یہ اس کے لیے بہتر اور اچھا ہے ، اللہ تعالی ان شاءاللہ اس کا اجر عظيم عطا فرمائیں گے، اور پھر اس وجہ سے بیوی اپنے خاوند اور اس کے گھروالوں کے سامنےدنیا میں بھی ایک مقام حاصل کر سکے گی ، اور ان شاء اللہ آخرت میں بھی اس کے درجات بلند ہوں گے، اور اگر بیوی کا سسرال والوں سے اچھا برتاؤ نہیں ہو گا تو وہ کبھی اپنے شوہر کو خوش نہیں رکھ پائے گی،

*آخر پر ایک نصیحت*

خرابی دراصل تب پیدا ہوتی ہے جب فریقین (زوجین) میں سے ہر کوئی اپنے حقوق کا تقاضا کرے کہ میرے تو فلاں فلاں حقوق ہیں جو مجھے اسلام نے دئیے ہیں، جو مدِ مقابل مجھے ادا نہیں کر رہا۔

*سوال یہ ہے کہ کیا صرف ہر انسان کے حقوق ہی ہیں اسلام میں؟*

*کسی کا کوئی فرض، کوئی ذمہ داری نہیں؟*

حقوق کا یہ جھگڑا ہمیں مغرب نے سکھایا ہے۔ اس سے کبھی اصلاح نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ ہر ایک کی نظر اپنے فوائد پر ہوتی ہے جو وہ دین کے نام پر کشید کرنا چاہتا ہے، ویسے وہ دین پر کتنا عمل کرتا ہے، اس کی کسی کو پرواہ نہیں ہوتی۔ ممکن ہے کہ ایک طرف وہ سود کھاتا ہو یعنی اللہ ورسول سے جنگ کرتا ہو اور دوسری طرف اپنے حقوق کا مطالبہ کر رہا ہو جو اسلام نے اسے دئیے ہیں۔

شوہر کو بیوی سے شکوہ ہے کہ اسلام نے تو مجھے اتنے حقوق دئیے ہیں کہ اگر کسی کو سجدہ جائز ہوتا تو وہ شوہر کو جائز ہوتا۔
دوسری طرف بیوی کو شوہر سے شکوہ ہے کہ اسلام کا حکم ہے کہ تم میں بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں کیلئے بہترین ہے، اور نبی کریمﷺ گھر میں گھر کے کاموں میں اپنی بیوی کا حصّہ بٹاتے رہتے تھے۔ وغیرو غیرہ

حکمرانوں کو یہ شکوہ ہے کہ عوام دل سے ہماری اطاعت نہیں کرتے حالانکہ ہماری اطاعت تو رسول کی اطاعت ہے اور رسول کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے۔
دوسری طرف عوام کو شکوہ ہے کہ حکمران ہمارے حقوق کا دھیان کیوں نہیں رکھتے اور جو حکمران عوام کے حقوق کا دھیان نہ رکھے اس پر جنّت حرام ہوجاتی ہے۔
وعلیٰ ہذا القیاس!

اسلام فرائض پر زور دیتا ہے، ہر شخص اپنے فرائض پر نظر رکھے، ان کو اللہ کی عبادت سمجھ کر ادا کرے، اسلام ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ قیامت کے دن ہر ایک سے اس کے فرائض کے متعلق حساب وکتاب ہوگا۔ جب یہ سوچ پیدا ہو جائے تو سب کے حقوق بدرجۂ اتمّ پورے ہوتے رہیں گے۔

📚نبی کریمﷺ کا فرمان ہے
أَلَا كُلُّكُمْ رَاعٍ، وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، فَالْأَمِيرُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ، وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ، وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ، وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ بَعْلِهَا وَوَلَدِهِ، وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْهُمْ، وَالْعَبْدُ رَاعٍ عَلَى مَالِ سَيِّدِهِ، وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُ، أَلَا فَكُلُّكُمْ رَاعٍ، وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ “.
کہ خبردار تم سب ذمہ دار ہو، اور ہر اک سے اس کی ذمہ داری کے بارے میں سوال کیا جائے گا، حکمران لوگوں پر ذمہ دار ہوتا ہے، اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ آدمی اپنے گھر والوں کا ذمہ دار ہوتا ہے، اس سے ان کے متعلق سوال ہوگا۔ عورت شوہر کے گھر اور اس کے بچوں کی ذمہ داری ہوتی ہے، اس سے ان کے متعلق پوچھا جائے گا۔ غلام اپنے آقا کے مال پر ذمہ دار ہوتا ہے، اور اس سے اس کے متعلق پوچھ گچھ ہوگی۔ خبردار! تم سب ذمہ دار ہو، اور ہر ایک سے اس کی ذمہ داریوں (فرائض) کے سوال ہوگا
(صحیح مسلم حدیث نمبر-1829)
(صحیح بخاری حدیث نمبر-2409)

*لہذا شوہر کو چاہیے کہ اللہ کے احکامات پر عمل پیرا ہو کر ہر لحاظ سے بیوی کا خیال رکھے اور بلاوجہ اس پر غیر ضروری بوجھ نا ڈالے جو وہ برداشت نا کر سکے اور بیوی کو چاہیے کہ اللہ کی رضا کے لیے حالات کے پیش نظر شوہر کا خیال رکھے اسکی خوب خدمت کرے تا کہ وہ اللہ کے ہاں بھی سرخرو ہو جائے اور شوہر کے ہاں بھی*

اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں!

(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))

🌹اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں