“سلسلہ سوال و جواب نمبر-200″
سوال_كيا ميت پر رونا گناہ ہے؟ اور کیا گھر والوں کے آنسو بہانے سے ميت كو عذاب ہوتا ہے؟ نیز اس عذاب سے کیا مراد ہے؟ قرآن و حدیث سے وضاحت کریں!
Published Date: 31-1-2019
جواب:
الحمد للہ:
*كئى ايک احاديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ ميت كے اہل و عيال كا ميت پر ، رونے اور آہ بكا كرنے سے ميت كو عذاب ہوتا ہے لیکن اس رونے سے مراد فطرتی آنسو بہانا نہیں بلکہ نوحہ اور واویلا کرنا ہے،جبکہ نوحہ کے بغیر رونے میں کوئی حرج نہیں*
📚ان احاديث ميں سے ايک حديث امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے اپنى صحيح ميں
ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما
سے بيان كى ہے:
وہ بيان كرتے ہيں كہ ام المومنين حفصہ رضى اللہ تعالى عنہا عمر رضى اللہ تعالى عنہا پر روئيں تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ كہنے ميرى پيارى بيٹى صبر كرو اور رونے سے رک جاؤ! كيا تمہيں علم نہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ نے فرمايا ہے:
” ميت پر اس كے اہل و عيال كے رونے كى بنا پر ميت كو عذاب ہوتا ہے”
(صحيح مسلم، حديث نمبر_927)
📚ابن عمر رض بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،
میت کو اس کے گھر والوں کے نوحہ و ماتم کی وجہ سے بھی عذاب ہوتا ہے۔
عمر رضی اللہ عنہ میت پر ماتم کرنے پر ڈنڈے سے مارتے ‘ پتھر پھینکتے اور رونے والوں کے منہ میں مٹی جھونک دیتے۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر-1304)
📚عمر بن خطاب رضی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میت کو اس کے گھر والوں کے اس پر رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے“۔
*امام ترمذی کہتے ہیں:*
اہل علم کی ایک جماعت نے میت پر رونے کو مکروہ ( تحریمی ) قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میت کو اس پر رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے۔ اور وہ اسی حدیث کی طرف گئے ہیں،
اور ابن مبارک کہتے ہیں: مجھے امید ہے کہ اگر وہ ( میت ) اپنی زندگی میں لوگوں کو اس سے روکتا رہا ہو تو اس پر اس میں سے کچھ نہیں ہو گا۔
(سنن ترمذی حدیث نمبر-1002)
*اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے يہ بھى ثابت ہے كہ كئى ايک حادثات ميں ميت كے پاس آپ صلى اللہ عليہ وسلم روئے، اس ميں سے آپ صلى اللہ عليہ وسلم كا اپنے بيٹے ابراہيم رضى اللہ عنہ كى موت پر رونا بھى شامل ہے*
📚جيسا كہ بخارى اور مسلم كى انس رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كردہ حديث ميں ہے
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ابوسیف لوہار کے یہاں گئے۔ یہ ابراہیم ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے رضی اللہ عنہ ) کو دودھ پلانے والی انا کے خاوند تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابراہیم رضی اللہ عنہ کو گود میں لیا اور پیار کیا اور سونگھا۔ پھر اس کے بعد ہم ان کے یہاں پھر گئے۔ دیکھا کہ اس وقت ابراہیم رضی اللہ عنہ دم توڑ رہے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئیں۔ تو عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ بول پڑے کہ یا رسول اللہ! اور آپ بھی لوگوں کی طرح بے صبری کرنے لگے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ ابن عوف! یہ بے صبری نہیں یہ تو رحمت ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ روئے اور فرمایا۔ آنکھوں سے آنسو جاری ہیں اور دل غم سے نڈھال ہے پر زبان سے ہم کہیں گے وہی جو ہمارے پروردگار کو پسند ہے اور اے ابراہیم ! ہم تمہاری جدائی سے غمگین ہیں
(صحيح بخاری حدیث نمبر-1303)
📚سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کسی مرض میں مبتلا ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیادت کے لیے عبدالرحمٰن بن عوف ‘ سعد بن ابی وقاص اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم کے ساتھ ان کے یہاں تشریف لے گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر گئے تو تیمار داروں کے ہجوم میں انہیں پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا وفات ہو گئی؟ لوگوں نے کہا نہیں یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( ان کے مرض کی شدت کو دیکھ کر ) رو پڑے۔ لوگوں نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو روتے ہوئے دیکھا تو وہ سب بھی رونے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سنو! اللہ تعالیٰ آنکھوں سے آنسو نکلنے پر بھی عذاب نہیں کرے گا اور نہ دل کے غم پر۔ ہاں اس کا عذاب اس کی وجہ سے ہوتا ہے ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبان کی طرف اشارہ کیا ( اور اگر اس زبان سے اچھی بات نکلے تو ) یہ اس کی رحمت کا بھی باعث بنتی ہے
(صحیح بخاری حدیث نمبر-1304)
📚انس رضى اللہ تعالى عنہ ہى بيان كرتے ہيں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیٹی ( ام کلثوم رضی اللہ عنہا ) کے جنازہ میں حاضر تھے۔ ( وہ عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں۔ جن کا 5 ھ میں انتقال ہوا ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قبر پر بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئی تھیں.
(صحيح بخارى حديث نمبر 1285)
📚اسامہ بن زيد رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے نواسے كى وفات كے وقت رو رہے تھے،
(صحيح بخارى حديث نمبر _1284 )
(صحيح مسلم حديث نمبر ( 923 )
📚نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زید نے جھنڈا سنبھالا لیکن وہ شہید ہو گئے۔ پھر جعفر نے سنبھالا اور وہ بھی شہید ہو گئے۔ پھر عبداللہ بن رواحہ نے سنبھالا اور وہ بھی شہید ہو گئے۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں آنسو بہ رہے تھے۔ ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ) اور پھر خالد بن ولید نے خود اپنے طور پر جھنڈا اٹھا لیا اور ان کو فتح حاصل ہوئی۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر-1246)
*اگر يہ كہا جائے كہ ہم ميت پر رونے سے منع كرنےوالى احاديث اور دوسرى ميت پر رونے كى اجازت دينےوالى احاديث ميں تطبيق كس طرح دے سكتے ہيں؟*
تو اس كا جواب يہ ہے كہ:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ مندرجہ ذيل حديث ميں بيان كرديا ہے:
📚بخارى اور مسلم رحمہما اللہ تعالى اسامہ بن زيد رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے ايک نواسے پر رونے لگے تو سعد بن عبادہ رضى اللہ تعالى نے عرض كي اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم يہ كيا؟
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” يہ رحمت اور نرم دلى ہے جسے اللہ تعالى نے اپنے بندوں كے دلوں ميں ركھا ہے، اور اللہ تعالى بھى اپنے رحم كرنے والے بندوں پر رحم فرماتا ہے”
(صحيح بخارى حديث نمبر _7377) (صحيح مسلم حديث نمبر_ 923)
📚امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اس حديث كا معنى يہ ہے كہ سعد رضى اللہ تعالى كا خيال تھا كہ رونے كى سارى قسميں حرام ہيں، اور آنسوبہانا بھى حرام ہے، اور انہوں نے گمان كيا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم بھول گئے ہيں تو انہيں ياد دلايا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں بتايا كہ صرف رونا اور آنسو بہانا حرام اور مكروہ نہيں، بلكہ يہ تو رحمت اور فضيلت ہے، بلكہ حرام تو نوحہ كرنا اور بين كرنا ہے، اور وہ رونا جو بين اور نوحہ كے ساتھ ملا ہوا ہو حرام ہے.
جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” يقينا اللہ تعالى آنكھ سے آنسو بہنے پر عذاب نہيں ديتا، اور نہ ہى دل كے غمگين ہونے پر، بلكہ عذاب يا رحم تو اس كے ساتھ ہوتا ہے، اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى زبان كى طرف اشارہ كيا”(بخاری)
📚اور شيخ الاسلام ابن تيميۃ رحمہ اللہ تعالى سے ميت پر ماں اور بھائيوں كے رونے كے متعلق دريافت كيا گيا كہ آيا اس ميں ميت پركچھ حرج اور گناہ ہے؟
تو ان كا جواب تھا:
( آنكھوں سے آنسو جارى ہونا، اور دل كا غمگين ہو جانے ميں تو كوئى گناہ اور معصيت نہيں، ليكن نوحہ اور آہ بكا كرنا اور كپڑے پھاڑنا منع ہے ) اھـ
(مجموع فتاوى ابن تيميۃ( 24 / 380 )
*اور رہا مسئلہ ميت پر رونے كا چاہےكچھ مدت گزرنے كے بعد ہى كيوں نہ ہو، تو اس ميں ايک شرط كے ساتھ كوئی حرج نہيں، كہ اس رونے ميں نہ تو نوحہ اور واويلا شامل ہو اور نہ ہى اونچى آواز كے ساتھ ميت پر رويا جائے، اور نہ ہى اللہ تعالى كى تقدير پر ناراضگى كا اظہار كيا جائے*
📚امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے وہ كہتے ہيں: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى والدہ كى قبر كى زيارت كى تو رونے لگے، اور آپنے ارد گرد لوگوں كو بھى رلا ديا، اور فرمانےلگے:
” ميں نے اپنے رب سے والدہ كى استغفار كے ليے اجازت طلب كى تو مجھے اجازت نہ دى گئى، اورميں نے اس كى قبر كى زيارت كرنے كى اجازت طلب كى تو مجھے اجازت دےدى گئى، لھذا قبروں كى زيارت كيا كرو، كيونكہ يہ موت ياد دلاتى ہيں”
(صحيح مسلم حديث نمبر ( 976)
*لہذا ان تمام احادیث سے یہ بات سمجھ آئی کہ میت یا قبر پر آنسو بہانے یا رونے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ قدرتی چیز ہے انسان کو رونا آ جاتا ہے،ہاں البتہ اونچی آواز میں بین کرنا یا نوحے کرنا جائز نہیں*
______&_______
*یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ميت كا كيا گناہ ہے كہ كسى دوسرے كے فعل یعنی رونے وغیرہ كى سزا ميت كو دى جاتى ہے؟*
اس كے متعلق نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح احاديث ملتى ہيں کہ میت کو رونے والوں کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے، اور يہ كسى دوسرے كے گناہ كى ميت كو سزا نہیں جیسا کہ ہم تفصیل میں پڑھتے ہیں آگے چل کر ان شاءاللہ !!
*اوپر صحیح احادیث میں ہم نے پڑھا کہ میت پر نوحہ کرنے کی وجہ سے میت کو عذاب دیا جاتا ہے،*
جبکہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا نے اس بات كا انكار كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ احاديث فرمائى ہوں، كيونكہ ان كا خيال تھا كہ ان احاديث كا
درج ذيل فرمان بارى تعالى سے تعارض ہے:
📚فرمان بارى تعالى ہے:
اور كوئى بھى كسى دوسرے كا بوجھ ( گناہ ) نہيں اٹھائيگا
(سورہ الانعام،آئیت نمبر- 164)
ذيل ميں اس كے متعلق وارد شدہ بعض احاديث اور ان كا وہ صحيح معنى جو اس آيت كے ساتھ معارض نہيں، وہ بيان كيا جاتا ہے، اور ام المومنين عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كے اعتراض كا علما كى طرف سے جواب بھى پيش خدمت ہے.
*رونے سے میت کو عذاب ہونے والی روایت سے حضرت عائشہ صدیقہ رض کا انکار اور اسکا جواب*
📚ابن مليكہ بيان كرتے ہيں كہ عثمان رضى اللہ تعالى عنہ كى بيٹى مكہ ميں فوت ہو گئى اور ہم اس كى نماز جنازہ ميں شركت كے ليے گئے، اور وہاں ابن عباس اور ابن عمر رضى اللہ عنہم بھى موجود تھے اور ميں ان دونوں كے درميان بيٹھا ہوا تھا كہ گھر سے آواز آنے لگى تو ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے عمرو بن عثمان كو كہا:
كيا تم رونے سے منع نہيں كرتے ؟
كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” يقينا ميت كو اس كے گھر والوں كے رونے كى بنا پر عذاب ديا جاتا ہے ”
تو ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما نے كہا: عمر رضى اللہ تعالى عنہ بھى يہ بات كہا كرتے تھے، پھر انہوں نے بيان كيا كہ: ….. جب عمر رضى اللہ تعالى عنہ كو خنجر سے زخمى كيا گيا تو صہيب روتے ہوئے ان كے پاس آئے اور وہ يہ كلمات كہہ رہے تھے: ہائے ميرے بھائى، ہائے ميرے دوست! تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ اسے كہنے لگے: اے صہيب كيا تم مجھ پر روہ رہے ہو اور حالانكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” يقينا ميت كو اس كے گھر والوں كے رونے سے عذاب ديا جاتا ہے ”
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
جب عمر رضى اللہ تعالى عنہ وفات پا گئے تو ميں نے اس كا عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے ذكر كيا تو وہ فرمانے لگيں:
اللہ تعالى عمر رضى اللہ عنہ پر رحم فرمائے، اللہ كى قسم رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ بيان نہيں فرمايا كہ:
” يقينا مومن كو اس كے گھر والوں كے رونے كى وجہ سے عذاب ديا جاتا ہے ”
ليكن رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” يقينا اللہ تعالى كافر كو اس كے گھر والوں كے رونے كى بنا پر زيادہ عذاب ديتا ہے ”
اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہ نے كہا: آپ كے ليے قرآن كافى ہے:
اور كوئى بھى كسى دوسرے شخص كا بوجھ ( گناہ ) نہيں اٹھائيگا .
ابن ابى مليكہ كہتے ہيں:
اللہ كى قسم ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے كچھ بھى نہ كہا.
اور ابن ابى مليكہ كہتے ہيں: مجھ سے قاسم بن محمد نے بيان كيا جب عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كو عمر اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كے قول كى خبر ہوئى تو وہ كہنے لگيں:
” تم لوگ مجھے ان دونوں سے حديث بيان كر رہے ہو جو دونوں جھوٹے نہيں، اور نہ ہى جھٹلائے جاتے ہيں، ليكن سننے ميں غلطى ہو سكتى ہے ”
(صحيح بخارى1286٫1287٫1288)
( صحيح مسلم 927٫928،929 )
📚حافظ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
قولہ: ( ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے كچھ بھى نہ كہا )
ان كا سكوت اقرار پر دلالت نہيں كرتا، ہو سكتا ہے انہوں نے وہاں جدال اور بحث كرنى ناپسند كى ہو.
*رونے پر میت کو عذاب ملنے والی احادیث کو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے تين صحابى عمر، ابن عمر، اور موسیٰ اشعری رضى اللہ تعالى عنہم بيان كرتے ہيں، جو کہ واضح اور صحیح روایات ہیں اور ان احاديث ميں ميت كے گھر والوں كے رونے كى بنا ميت كو عذاب ديے جانے كا بيان ہوا ہے*
رہا مسئلہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كا ان احاديث كو تسليم نہ كرنا اور انہيں رد كرنا تو يہ ان كا اجتھاد ہے، كيونكہ ان كا خيال تھا كہ عمر اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كو وہم ہوا اور غلطى ہوئى ہے، اور يہ احاديث درج ذيل فرمان بارى تعالى كے معارض ہيں:
اور كوئى بھى كسى دوسرے كا بوجھ ( گناہ ) نہيں اٹھائيگا
(سورہ الانعام_ 164 )
📚قرطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كا انكار كرنا اور راوى پر غلطى اور بھولنے كا حكم لگانا، يا يہ كہ اس نے كلام كا بعض حصہ سنا ہے اور باقى حصہ نہيں سنا، يہ بعيد ہے، كيونكہ صحابہ كرام ميں سے اس معنى كو روايت كرنے والے بہت ہيں، اور وہ بالجزم روايت كرتے ہيں، تو اس كى نفى كوئى وجہ اور گنجائش نہيں، اور پھر اس كو صحيح چيز پر محمول كرنا بھى ممكن ہے ” انتہى.
اور اگر يہ كہا جائے كہ: عائشہ رضى اللہ تعالى نے قسم اٹھا كر حلفا يہ كيسے كہہ ديا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ نہيں فرمايا، حالانكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ سے اس كا ثبوت بھى ملتا ہے ؟
اس كا جواب يہ ہے كہ:
انہوں نے اپنے غالب گمان كى بنا پر قسم اٹھائى اور ان كا يہ گمان تھا كہ عمر اور عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كو وہم ہوا ہے، اور ظن غالب كى بنا پر حلف اٹھانا جائز ہے، امام نووى رحمہ اللہ كا قول بھی اس جيسا ہى ہے،
ان احاديث اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا نے جس آيت ” اور كوئى بھى كسى دوسرے كا بوجھ ( گناہ ) نہيں اٹھائيگا ” سے استدلال كيا ہے
ان كے درميان جمع اور تطبيق اس طرح ہو سكتى ہے كہ:
ان دونوں كے درميان تعارض ہے ہى نہيں،
*حديث كى توجيہ اور آيت كے ساتھ عدم تعارض كے متعلق علماء كرام کے طریقے مختلف ہیں، اور اس ميں ان كے كئى ايک طريقے ہيں:*
*پہلا طريقہ:*
📚امام بخارى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اگر تو ميت كى سنت اور طريقہ ہو اور اس نے اپنى زندگى ميں رونے كا اقرار كيا تو اس بنا پر اسے عذاب ہو گا، اور اگر اس كا يہ طريقہ اور سنت نہ تھى تو پھر اسے عذاب نہيں ہوگا، كيونكہ امام بخارى رحمہ اللہ نے باب باندھتے ہوئے كہا ہے:
” نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فرمان: ” ميت كو اس كے گھر والے كے رونے كى بنا پر عذاب ديا جاتا ہے ” جبكہ اس كى سنت يعنى اس كے طريقہ اور عادت ميں نوحہ كرنا شامل ہو كے متعلق باب ”
📚حافظ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” تو اس طرح معنى يہ ہوا كہ: گھر والوں كے رونے سے عذاب اس وقت ہو گا جب ميت ايسا كرنے پر راضى ہو، وہ اس طرح كہ زندگى ميں اس كا يہى طريقہ تھا الخ اور اسى ليے مصنف كا كہنا ہے ” اور اگر اس كا طريقہ نہ ہو تو ” يعنى جس كو اس كا شعور بھى نہ ہو كہ وہ اس كے ساتھ ايسا كرينگے، يا اس نے اپنا فرض پورا كرتے ہوئے انہيں ايسا كرنے سے منع بھى كيا تھا، تو كسى دوسرے كے فعل كى بنا پر اس شخص كا مواخذہ نہيں ہو گا.
📚اور اسى بنا پر ابن مبارك رحمہ اللہ كا كہنا ہے:
جب وہ اپنى زندگى ميں انہيں ايسا كرنے سے منع كرتا رہا، اور اس كى وفات كے بعد اس كے گھر والوں نے اس ميں سے كچھ كر ليا تو ميت پر كوئى وبال نہيں ہوگا ” انتہى.
*دوسرا طريقہ:*
📚امام نووى رحمہ اللہ نے اسے جمہور علماء كى طرف منسوب كيا اور اسے صحيح كہا ہے، كہ اس حديث كو اس شخص پر محمول كيا جائيگا جس نے موت كے بعد رونے اور نوحہ كرنے كى وصيت كى ہو، اور اس كى وصيت پر عمل كرتے ہوئے اس كے اہل و عيال ايسا كريں، تو اس ميت كو گھر والوں كے رونے اور نوحہ كرنے كى بنا پر عذاب ديا جائيگا، كيونكہ اس كا سبب وہ خود ہے، اور يہ اس كى جانب منسوب ہے، ليكن جس ميت كے گھر والے اس كى وصيت كے بغير ہى روئيں اور نوحہ كريں تو اس بنا پر اسے عذاب نہيں ديا جائيگا كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
📚اور كوئى بھى شخص كسى دوسرے كا بوجھ ( گناہ ) نہيں اٹھائيگا
جمہور علماء كا كہنا ہے:
عرب كى عادت ميں شامل تھا كہ وہ وصيت كرتے كہ مرنے كے بعد اس پر نوحہ كيا جائے اور رويا جائے،
عربى شاعر طرفہ بن عبد كا اسى كے متعلق قول ہے:
جب ميں مر جاؤں تو تم مجھ پر اس طرح نوحہ كرنا اور رونا جس كا ميں اہل ہوں، اور اے معبد كى بيٹى تم مجھ پر اپنا گريبان چاك كرنا.
ان كا كہنا ہے:
تو اس طرح يہ مطلق حديث نكل جائيگى اور اسے ان كى عادت پر محمول كيا جائيگا.
*تيسرا طريقہ:*
يہ حدیث اس شخص پر محمول ہوگى جس نے رونے اور نوحہ كرنے كى وصيت كى ہو، يا پھر نوحہ نہ كرنے اور نہ رونے كى كوئى وصيت نہ كى ہو.
جس شخص نے ان دونوں كاموں كو ترك كرنے كى وصيت كى ہو تو اسے ان دونوں عملوں كى بنا پر عذاب اس ليے نہيں ديا جائيگا كہ اس كا اس ميں كوئى دخل ہى نہيں، اور نہ ہى اس نے اس ميں كوئى كوتاہى كى ہے، اس قول كا ماحاصل يہ ہوا كہ: ان دونوں كاموں كو ترك كرنے كى وصيت كرنا واجب ہے، اور جس نے بھى ان دونوں كاموں سے سستى برتى اور نہ روكا اسے عذاب ديا جائيگا، داود اور ايك گروہ كا قول يہى ہے.
*چوتھا طريقہ:*
ايك گروہ كا كہنا ہے: ان احاديث كا معنى يہ ہے كہ: وہ لوگ ميت پر نوحہ كرتے اور مرثيہ خوانى كرتے ہوئے اپنے گمان ميں اس كے اوصاف اور محاسن بيان كرتے جو شريعت اسلاميہ ميں قبيح شمائل اور اوصاف شمار ہوتے ہيں جن كى بنا پر انہيں عذاب ديا جاتا ہے.
تو ” اس كے گھر والوں كے رونے كى بنا پر اسے عذاب ديا جاتا ہے ” كا معنى يہ ہوا: يعنى جس كے ساتھ اس كے اہل و عيال روتے تھے اس كى نظير كے ساتھ.
ابن حزم رحمہ اللہ اور ايك گروہ كا اختيار يہى ہے.
تو وہ لوگ اس ميت نے اپنى رياست اور سردارى ميں جو ظلم و ستم كيا ہوتا اس كو خوبياں سمجھ كر ميت پر روتے، اور اس شجاعت پر بين كرتے جو اس نے غير اللہ كے ليے صرف كى تھى، اور اس جود و سخاوت كو بيان كرتے جو اس نے حق ميں خرچ نہيں كى بلكہ ناحق جگہ ميں صرف كى، تو اس كے اہل و عيال اس فخريہ كاموں پر روتے اور اسے ان كى بنا پر عذاب سے دوچار ہونا پڑتا.
*پانچواں طريقہ:*
تعذيب يعنى عذاب دينے كا معنى يہ ہے كہ: اہل و عيال كے اس پر رونے كى بنا پر فرشتے اس كى توبيخ كرتے ہيں، جيسا كہ ابن ماجہ كى درج ذيل روايت ميں بيان ہوا ہے:
📚اسيد بن ابو اسيد موسى بن ابو موسى اشعرى سے بيان كرتے ہيں اور موسى اپنى باپ ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” زندہ كے رونے سے ميت كو عذاب ديا جاتا ہے، جب زندہ كہتے ہيں ہائے ميرے بازو، ہائے ميرے پہنانے والے، ہائے ميرى مدد كرنے والے، ہائے ميرے پہاڑ، اور اس طرح كے جملے تو اسے شدت سے كھينچ كر كہا جاتا ہے تو اس طرح تھا ؟ تو ايسا تھا ؟ ”
اسيد رحمہ اللہ كہتے ہيں:
ميں نے كہا: سبحان اللہ !
اللہ تعالى تو يہ فرماتا ہے:
اور كوئى بھى كسى دوسرے كا بوجھ ( گناہ ) نہيں اٹھائےگا .
تو وہ كہنے لگے: تيرے ليے افسوس !
ميں تجھے بتا رہا ہوں كہ مجھے ابو موسى رضى اللہ تعالى عنہ نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے حديث بيان كى ہے، تو كيا تيرے خيال ميں ابو موسى رضى اللہ تعالى عنہ نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ذمہ جھوٹ باندھا ہے ؟!
يا تو يہ سمجھتا ہے كہ ميں نے ابو موسى رضى اللہ تعالى عنہ پر جھوٹ بولا ہے ؟ !
(سنن ابن ماجہ حديث نمبر _1594 )
علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح ابن ماجہ ميں حسن قرار ديا ہے.
📚اور سنن ترمذى كى روايت ميں درج ذيل الفاظ ہيں:
” كوئى بھى ميت فوت ہوتى ہے تو اس پر رونے والا شخص روتا ہوا يہ كہتا ہے ہائے ميرے پہاڑ، ہائے ميرے سردار، يا اس طرح كى كوئى اور كلام تو اس پر دو فرشتے مقرر كر ديے جاتے ہيں جو اسے دھكے ديتے اور مارتے اور كہتے ہيں كيا تو اس طرح كا تھا ؟ ”
(سنن ترمذى حديث نمبر_1003 )
علامہ البانىر حمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
📚اس حديث كا شاہد صحيح بخارى ميں بھى ملتا ہے، نعمان بن بشير رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں:
” عبد اللہ بن رواحہ رضى اللہ تعالى عنہ پر بے ہوشى طارى ہوئى تو ان كى بہن نے رونا شروع كر ديا اور كہنے لگى: ہائے ميرے پہاڑ اور اسى طرح اس نے كئى اور بھى صفات شمار كي اور جب انہيں ہوش آيا تو وہ كہنے لگے: تو نے جو كچھ بھى كہا تو مجھے يہ كہا گيا كيا تو اس طرح كا تھا ؟! اور جب وہ فوت ہوئے تو پھر ان كى بہن ان پر نہيں روئى ”
*چھٹا طريقہ:*
تعذيب يعنى ميت كو عذاب دينے كا معنى يہ ہے كہ ميت كے گھر والوں كى طرف سے نوحہ وغيرہ كرنے پر ميت كو تكليف ہوتى ہے، متقدمين ميں سے يہ ابن ابى جعفر كا اختيار ہے، اور قاضى عياض رحمہ اللہ نے اسے راجح كہا ہے، اور شيخ الاسلام ابن تيميہ اور متاخرين كى ايك جماعت نے اس كى نصرت و تائيد كى ہے.
اور اس كا شاہد انہوں نے قيلہ بنت مخرمہ كى حديث كو بيان كيا ہے
📚 كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے اپنے بيٹے پر رونے سے منع كرتے ہوئے فرمايا تھا:
” كيا تم پر غلبہ پا ليا جاتا ہے كہ تم ميں كوئى ايك اپنے ساتھى كے ساتھ دنيا ميں اچھا اور بہتر سلوك كرے، اور جب وہ مر جائے تو انا للہ و انا اليہ راجعون پڑھے، اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں محمد صلى اللہ عليہ وسلم كى جان ہے تم ميں سے كوئى ايك روتا ہے تو اپنے ساتھى پر آنسو بہاتا ہے، تو اے اللہ كے بندو اپنے فوت شدگان كو عذاب سے دوچار مت كرو ”
(حافظ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اس كى سند حسن ہے، اور ھيثمى نے اس كے رجال كو ثقات كہا ہے)
اس حديث كے متعلق جو اقوال كہے گئے ہيں ان ميں سے يہ آخرى قول سب سے بہتر اور اولى ہے.
___________&_______
📚شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
كيا ميت كے گھر والوں كے رونے سے ميت كو اذيت و تكليف ہوتى ہے ؟
شيخ الاسلام رحمہ اللہ كا جواب تھا:
اس مسئلہ ميں علماء سلف اور خلف ميں نزاع اور اختلاف چلا آ رہا ہے:
اور صحيح يہ ہے كہ:
ميت پر رونے سے ميت كو اذيت و تكليف ہوتى ہے، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح احاديث ميں ثابت ہے….. پھر ان ميں سے بعض احاديث ذكر كرنے كے بعد كہا ہے:
سلف اور خلف ميں سے كئى گروہوں نے اس كا انكار كيا ہے، اور ان كا يہ اعتقاد ہے كہ يہ كسى دوسرے كے گناہ كى بنا پر انسان كو عذاب سے دوچار ہونے كے باب ميں سے اور درج ذيل فرمان بارى تعالى كے بھى مخالف ہے:
اور كوئى جان كسى دوسرے كا بوجھ ( گناہ ) نہيں اٹھائيگى .
پھر ان صحيح احاديث كى توجيہ ميں كئى ايك طريقے ہيں ان ميں سے كچھ تو وہ جنہوں نے احاديث كے راويوں مثلا عمر بن خطاب وغيرہ كو غلطى لگنے كا كہتے ہيں، يہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا اور امام شافعى رحمہ اللہ وغيرہ كا طريقہ ہے.
اور كچھ وہ ہيں جنہوں نے اسے اس پر محمول كيا ہے كہ جو شخص ايسا كرنے كى وصيت كريگا تو اسے اس وصيت كى بنا پر عذاب ہوگا، يہ ايك گروہ مثلا المزنى وغيرہ كا قول ہے.
اور اس ميں كچھ وہ بھى ہيں جنہوں نے اسے اس پر محمول كيا ہے كہ جب ان كى يہ عادت ميں شامل ہو تو اس منكر كام سے منع نہ كرنے كى بنا پر ميت كو عذاب ہوگا كيونكہ اس نے نہى عن المنكر كا كام نہيں كيا، يہ ايك گروہ كا اختيار جن ميں ميرے دادا ابو البركات شامل ہيں.
اور يہ سب اقوال بہت ہى زيادہ ضعيف ہيں، اور اس كے مقابلہ ميں احاديث صحيح اور صريح ہيں جنہيں عمر بن خطاب اور ان كے بيٹے عبد اللہ بن عمر اور ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہم وغيرہ جيسے صحابى روايت كرنے والے ہيں، جن كى روايت كو رد نہيں كيا جا سكتا.
اور جن لوگوں نے ان احاديث كو اس كے مقتضا پر ركھا اور اقرار كيا ہے ان ميں سے بعض كا گمان ہے كہ يہ كسى دوسرے كے گناہ كى بنا پر سزا كے باب ميں سے ہے، اور يقينا اللہ تعالى جو چاہتا ہے كرتا اور جو چاہے حكم كرتا ہے، ان كا اعتقاد ہے كہ اللہ تعالى كسى دوسرے كے گناہ كى بنا پر اسے سزا دےگا…
حالانكہ اللہ تعالى تو كسى شخص كو بھى آخرت ميں كسى دوسرے كى بنا پر عذاب نہيں ديگا، بلكہ اس كے اپنے گناہوں كى سزا ہے ملےگى.
اور كوئى جان بھى كسى دوسرى كا بوجھ ( گناہ ) نہيں اٹھائيگى .
اور رہا مسئلہ ميت پر اس كے اہل و عيال كے رونے سے ميت كو عذاب دينے كا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ نہيں فرمايا كہ:
” ميت كو اس كے اہل وعيال كے اس ميت پر رونے كى سزا دى جائيگى ”
بلكہ يہ فرمايا كہ:
” اسے عذاب ديا جاتا ”
اور عذاب عقاب اور سزا سے بھى عام ہے، كيونكہ عذاب الم اور تكليف ہے، اور جس كسى كو بھى كسى سبب كى بنا پر الم اور تكليف پہنچے تو وہ اس كے ليے اس سبب كى سزا نہيں، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” سفر عذاب كا ايك ٹكڑا ہے، وہ تم ميں ايك كو اس كے كھانے اور پينے سے روك ديتا ہے ”
تو يہاں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سفر كو عذاب قرار ديا ہے اور يہ كسى گناہ كى سزا نہيں، اور پھر انسان كو كئى مكروہ اور ناپسنديدہ امور جسے وہ محسوس كرتا ہے مثلا ہولناك آواز، اور گندى اور خبيث روحيں اور قبيح وگندى تصاوير كى بنا پر عذاب اور تكليف سے دوچار ہوتا ہے، اسے اس آواز كو سن كر تكليف ہوتى ہے، اور اسے سونگھ كر تكليف ہوتى ہے، اور كسى چيز كو ديكھ كر تكليف ہوتى ہے، اور يہ سب اس كے عمل نہيں جس پر اسے سزا ہو، تو پھر وہ يہ كيسے انكار كرتا ہے كہ ميت كو نوحہ كرنے سے تكليف ہوتى ہے، اور اگر نوحہ اس كا عمل بھى نہ ہو تو بھى اسے تكليف اور سزا ہو گى ؟
اور ہر نوحہ كرنے والے پر ہم حكم نہيں لگا سكتے كہ اسے اس كى بنا پر عذاب ہوگا:
پھر شيخ الاسلام رحمہ اللہ كہتے ہيں:
پھر نوحہ كرنا عذاب ہونے كا سبب ہے، اور بعض اوقاب حكم اس كے معارض سبب كى بنا پر ختم ہو جاتا ہے، تو ہو سكتا ہے ميت ميں ايسى قوت تكريم ہو جو اس سے اس تكليف اور عذاب كو دور كر دے.
اور مومن كو اس كے اہل و عيال كے رونے كى بنا پر جو عذاب اور تكليف ہوتى ہے وہ من جملہ ان تكليفوں اور سختيوں ميں شامل ہے جس كى بنا پر مومن كے گناہ جھڑتے ہيں اور اللہ تعالى اس كى بنا پر اس كے گناہ ختم كر ديتا ہے.
ليكن كافر شخص كو تو اس كى بنا پر اور بھى زيادہ عذاب ہوتا ہے، تو اس طرح اس كے ليے الم و تكليف اور سزا دونوں اكٹھى كر دي جاتى ہيں، اور اس كے گھر والوں كے رونے پر اس كو عذاب اور تكليف لامحالہ ہونى ہے.
پھر شيخ الاسلام كہتے ہيں:
اور مومن شخص كو جو كچھ دنيا اور برزخ اور روز قيامت جو تكليف ہوتى ہے يہى عذاب ہے، يقينا اس سے اللہ تعالى اس كے گناہ معاف كريگا جيسا كہ صحيح بخارى اور صحيح مسلم كى درج ذيل حديث سے ثابت ہوتا ہے:
📚نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” مومن شخص كو جو بھى تكليف آتى ہے، اور جو غم و حزن آتا ہے اور اذيت ملتى ہے حتى كہ جو كانٹا اسے لگتا ہے اس كے ساتھ اللہ تعالى اس كے گناہ معاف كرتا ہے ” (انتہى مختصرا)
تفصیل کے لیے ديكھيں:
(مجموع فتاوى الكبرى _34 / 364 )
————-&—————–
📚سعودی عظیم مفتی شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے درج ذيل فرمان كا معنى كيا ہے ؟
” يقينا ميت كو اس كے گھر والوں كے رونے سے عذاب ہوتا ہے ”
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
” اس كا معنى يہ ہے كہ:
جب ميت كے اہل و عيال ميت پر روتے ہيں تو اسے اس كا علم ہوتا اور اس سے اسے تكليف ہوتى ہے، اس كا معنى يہ نہيں كہ اللہ تعالى ميت كو اس كى سزا ديتا ہے، كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
كوئى بھى جان كسى دوسرى جان كا بوجھ ( گناہ ) نہيں اٹھائيگى .
عذاب سے يہ لازم نہيں آتا كہ اسے سزا ہوتى ہے، كيا آپ ديكھتے نہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے:
” سفر عذاب كا ايك ٹكڑا ہے ”
حالانكہ سفر كوئى سزا نہيں، ليكن اس سے انسان كو تكليف ہوتى ہے اور تھك جاتا ہے، تو اسى طرح جب ميت كے اہل و عيال ميت پر روتے ہيں اسے اس سے تكليف ہوتى ہے اور وہ تھك جاتا ہے، اگرچہ يہ اللہ تعالى كى جانب سے اسے سزا نہيں ہے.
حديث كى يہ شرح واضح اور صريح ہے، اور اس پر كوئى اشكال وارد نہيں ہو سكتا، اور نہ ہى اس شرح ميں يہ ضرورت ہے كہ كہا جائے كہ يہ اس شخص كے متعلق ہے جو نوحہ كرنے كى وصيت كرے، يا پھر اس شخص كے متعلق ہے جن كى عادت نوحہ كرنا ہو، اور وہ مرتے وقت انہيں نوحہ كرنے سے منع نہ كرے، بلكہ ہم تو يہ كہتے ہيں:
انسان كو كسى چيز كے ساتھ عذاب ہوتا ہے ليكن اسے اس سے كوئى ضرر بھى نہيں پہنچتا ” انتہى.
ديكھيں:
(مجموع فتاوى ابن عثيمين _17 / 408 )
اس بارے مزيد تفصيل كے ليے آپ فتح البارى ( 3 / 180 – 185 ) كا بھى مطالعہ كر سکتے ہیں،
*اللہ پاک صحیح معنوں میں دین اسلام کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائیں آمین*
(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )
🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765
آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/
آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2
اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
جناب محترم اگر آپ کا واٹس ایپ گروپ ہے تو مجھے ایڈ کر لے
جزاک اللہ خیرا
00923426460470
طاہر احمد