“سلسلہ سوال و جواب نمبر-173”
سوال_کسی مسلمان کے لیے کرسمس کی پارٹیوں میں جانا،مبارکباد دینا اور کیک وغیرہ کاٹنا کیسا ہے؟
Published Date: 24-12-2018
جواب۔۔۔!
الحمدللہ۔۔۔!!
کرسمس(Christmas) الفاظ کرائسٹ (Christ) اور ماس (Mass)کا مرکب ہے۔ کرائسٹ(Christ)مسیح کو کہتے ہیں اور ماس (Mass) اجتماع ، اکٹھا ہونا ہے یعنی مسیح کے لیے اکٹھا ہونا، اس کا مفہوم یہ ہوا:
مسیحی اجتماع یا یومِ میلاد مسیح (یعنی عیسی علیہ السلام کی پیدائش کا دن)
*کرسمس کا دن 25 دسمبر کیوں:*
25 دسمبرکا دن دنیا بھر کی عیسائی اقوام میں حضرت عیسیٰ کا یومِ پیدائش ‘عید میلاد المسیح’ یعنی کرسمس کے نام سے انتہائی تزک و احتشام سے منایا جاتا ہے، لیکن خوش قسمتی سے عیسائیوں میں کچھ حقیقت پسند مکاتبِ فکر تاحال موجود ہیں جو یہ تسلیم کرتے ہیں کہ 25 دسمبر حضرت مسیح علیہ السلام کی
ولادت کا دن نہیں بلکہ دیگر بت پرست اقوام سے لی گئی بدعت ہے۔ فقط یہی نہیں بلکہ تاریخِ کلیسا میں کرسمس کی تاریخ کبھی ایک سی نہیں رهی کیونکہ جنابِ عیسیٰ علیہ السلام کا یومِ پیدائش کسی بھی ذریعے سے قطعیت سے معلوم نہیں۔
بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یومِ پیدائش بالکل نامعلوم ہے اور یومِ پیدائش کے متعلق فقط اندازے و تخمینے لگائے جاتے ہیں،کوئی مستند دلیل نہیں ملتی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام 25؍ دسمبر کو پیدا ہوئے تھے بلکہ حقیقت اسکے برعکس ہے، قرآن اور اناجیل میں عیسیٰ کی پیدائش کے معلوم واقعات کی روشنی میں یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ آپ کی ولادت موسم گرما میں ہوئی،اس کے با وجود حضرت عیسیٰ عیہ السلام کا یومِ پیدائش 25؍دسمبر کو مقررکیا گیا ۔کیونکہ ابتدائی عیسائیت کو تحفظ دینے والے مشرک اہلِ روم اپنے سورج دیوتا کا جنم دن 25؍دسمبر کو ہی منایا کرتے تھے اور مصر کے فرعون اپنی مشہور دیوی آئیسز(Isis) کے بیٹے ہورس (Horus) دیوتا کا جنم دن بھی 25 دسمبر کو منایا کرتے تھے۔
عید کے طور پر 25 دسمبر کو منانے کا رواج تاریخ میں سب سے پہلے ہمیں بابل کی تہذیب سے ملتا ہے کیونکہ اہلِ بابل 25؍دسمبر کو شہر کے بانی نمرود بادشاہ کی سالگرہ منایاکرتے تھے۔
جبکہ کسی شخصیّت کے جنم دن کو تہوار کے طور پر منانا یا خود اپنی سالگرہ منانا نمرود، فرعون اور مشرک اقوام کا طریقہ ہے اور صرف اسلام نہیں بلکہ بائبل کی تعلیم کے مطابق بھی ایسے تہوار منانا جائز نہیں
*کرسمس منانا یا کرسمس کی مبارک باد دینا یا انکی پارٹیوں میں جانا حرام ہے، یہاں ہم قرآن و احادیث اور سلف صالحین کی رو سے کچھ دلائل پیش کرتے ہیں..!!*
اس بات کا لوگ شعور نہیں رکھتے کہ جب ہم کسی کو کرسمس کی مبارک دیتے ہیں تو ہم اس بات سے اتفاق کر رہے ہوتے ہیں کہ حضرت عیسی علیه السلام 25 دسمبر کو پیدا ہوئے, اور ہم اس بات سے بھی اتفاق کر رہے ہوتے ہیں کہ الله نے بیٹا جنا،کیونکہ عیسائیوں کے عقیدے کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام اللہ کا بیٹا ہے نعوذ باللہ..! جبکہ اس بات کا اقرار کفر و شرک تک پہنچا دیتا ہے
(((“سبحان الله عما یشرکون”.)))
الله پاک ہے اس سے جو یہ شرک کرتے ہیں
سورتہ اخلاص اللہ کی وحدانیت کا مکمل ثبوت..
🌹القرآن:
کہہ دو الله ایک ہے.
الله بےنیاز ہے،نہیں جنا اس نے (کسی کو) اور نہ ہی وہ (خود) جنا گیا،اور اس کا کوئی بھی ہمسر نہیں ہے.
(سورۃ الاخلاص آیت 1-4)
دوسری جگہ پر اللہ فرماتے ہیں۔۔!
🌹قریب ہے کے اس (بات) سے آسمان پھٹ پڑے اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ گر کر ریزہ ریزہ ہو جائیں،کہ دعوی کیا انہوں نے رحمان کے لیے اولاد کا(یعنی الله نے بیٹا پیدا کیا نعوذبالله)
رحمان کے لائق نہیں کے وہ اولاد بنائے(پیدا کرے یا رکھے)
(سورۃ مریم آیت٬ 90-91-92)
ایک اور مقام پر قرآن میں فرمایا
🌹وہی آسمانوں اور زمین کا موجد ہے، اس کی اولاد کس طرح ہو سکتی ہے جب کہ اس کی کوئی بیوی نہیں ہے، اور اسی نے ہر چیز کو پیدا کیا، اور وہی ہر چیز کو جاننے والا ہے.
(سورۃ الانعام٬آیت_101)
🌹اور یہودیوں نے کہا عزیر (علیه السلام) الله كا بيٹا ہے اور کہا نصاری (عیسائیوں) نے مسیح (عليه السلام) الله کا بیٹا ہے، یہ ان کے مونہوں کی بات ہے، (یوں) وہ ان لوگوں کی بات کی مشابہت کرتے ہیں جنہوں نے ان سے پہلے کفر کیا، الله ان كو ہلاک کرے، کہاں وہ پھیرے (بہکتے) جاتے ہیں. انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں اور مسیح ابن مریم (علیھم السلام) کو (اپنا) رب بنا لیا الله کو چھوڑ کر، حالانکہ وہ حکم نہیں دیے گئے تھے مگر یہ کہ وہ (صرف) ایک معبود کی عبادت کریں، اس کے سوائے کوئی معبود نہیں، وہ پاک ہے اس سے جو وہ شریک ٹھہراتے ہیں.
(سورۃ التوبة،آئیت نمبر-30,31)
🌹رسول الله صلی الله عليه وسلم نے فرمایا:
الله تعالی فرماتا ہے کہ ابن آدم (علیه السلام) نے مجھے گالی دی اور اس کے لیے مناسب نہ تھا کہ وہ مجھے گالی دیتا. اس کا مجھے گالی دینا یہ ہے کہ کہتا ہے کہ الله نے اپنا بیٹا بنایا ہے حالانکہ میں ایک ہوں بےنیاز ہوں نہ میری کوئی اولاد ہے اور نہ میں کسی کی اولاد ہوں اور نہ کوئی میرے برابر کا ہے.
(صحیح بخاری٬ حدیث نمبر_ 4974 )
اللہ پاک فرماتے ہیں:
🌹اے ایمان والو کافروں کو دوست نہ بناؤ،
(سورہ نساء،آئیت نمبر_144)
اور فرمایا
🌹 گناہ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو،
(سورہ المائدہ،آئیت نمبر-2)
🌹فرمان نبویﷺ،
جس نے کسی قوم کی مشابہت کی وہ انہیںمیں سے ہو گا،
(سنن ابو داؤد، حدیث نمبر-4031)
🌹رسول اللّٰہ ﷺ
نے بیسیوں مرتبہ مختلف معاملات ِزندگی کے متعلق فرمایا :
«خالفوا المشركين
”مشرکین کی مخالفت کرو ۔”
(صحيح بخاری: 5892)
(صحیح مسلم:259)
🌹فرمایا
«خالفوا المجوس»
مجوسیوں کی مخالفت کرو۔”
(صحیح مسلم: 260)
ایک اور جگہ فرمایا
🌹«خالفوا اليهود والنصارى»
”یہود اور نصاریٰ کی مخالفت کرو۔”
( سنن ابی داؤد: 652؛)
(صحیح ابن حبان: 2183)
*صحابہ کرام اور فقہائے اسلام کے فرامین عید کرسمس کے حوالے سے*
🌹سیدنا عمر فاروق(رضی الله تعالیٰ عنه)نے فرمایا:
الله كے دشمنوں سے انکے تہوار میں اجتناب کرو.غیر مسلموں کے تہوار کے دن انکی عبادت گاہوں میں داخل نہ ہو،
کیونکہ ان پر الله کی ناراضگی نازل ہوتی ہے.
(سنن بيهقی9ج/ص 392_18862)
🌹حضرت عبداللّٰہ بن عمرو رضی اللہ عنھما نے فرمایا:
” غیر مسلموں کی سر زمین میں رہنے والا مسلمان ان کے نوروز(New Year) اور ان کی عید کو ان کی طرح منائے اور اسی رویّے پر اس کی موت ہو تو قیامت کے دن وہ ان غیر مسلموں کے ساتھ ہی اُٹھایا جائے گا۔”
( سنن الکبریٰ للبیہقی: حدیث 18863 اسنادہ صحیح ؛ )
( اقتضاء الصراط المستقیم از علامہ ابن تیمیہ :1؍200)
🌹امام احمد بن حنبل رحمته اللہ سے پوچھا گیا:
“جس شخص کی بیوی عیسائی ہو تو کیا اپنی بیوی کو عیسائیوں کی عید یا چرچ میں جانے کی اجازت دے سکتا ہے ؟
آپ نے فرمایا:
وہ اسے اجازت نہ دے کیونکہ الله نے گناہ کے کاموں میں تعاون نہ کرنے کا حکم دیا ہے۔”
( المغنی لابن قدامہ:9؍364 ؛الشرح الکبیر علیٰ متن المقنع:10؍625)
🌹مختلف شافعی فقہارحمہم اللہ کا کہنا ہے کہ:
“جو کفار کی عید میں شامل ہو، اسے سزا دی جائے۔”
(الاقناع:2؍526؛مغنی المحتاج:5؍526)
🌹معروف شافعی فقیہ ابوالقاسم ہبۃاللّٰہ بن حسن بن منصورطبری رحمته اللہ کہتے ہیں:
”مسلمانوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ یہود و نصاریٰ کی عیدوں میں شرکت کریں کیونکہ وہ برائی اور جھوٹ پر مبنی ہیں۔ اور جب اہلِ ایمان اہلِ کفر کے ایسے تہوار میں شرکت کرتے ہیں تو کفر کے اس تہوار کو پسند کرنے والے اور اس سے متاثر ہونے والے کی طرح ہی ہیں۔اور ہم ڈرتے ہیں کہ کہیں ان اہل ایمان پر الله کا عذاب نہ نازل ہو جائے کیونکہ جب الله کا عذاب آتا ہے تو نیک و بد سب اس کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔”
( احکام اہل الذمۃ:3؍1249)
🌹امام مالک کے شاگردِ رشید مشہور مالکی فقیہ عبدالرحمٰن بن القاسم رحمته اللہ سے سوال کیا گیا کہ:
“کیا ان کشتیوں میں سوار ہونا جائز ہے جن میں عیسائی اپنی عیدوں کے دن سوار ہوتے ہیں۔تو آپ رحمته اللہ نے اس وجہ سے اسے مکروہ جانا کہ کہیں ان پر الله کا عذاب نہ اُتر آئے کیونکہ ایسے مواقع پر وہ مل کر شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔”
( المدخل لابن الحاج:2؍47)
🌹احناف کے مشہور فقیہ ابو حفص کبیر رحمته اللہ نے فرمایا:
اگر کوئی شخص پچاس سال الله کی عبادت کرے پھر مشرکین کی عید آئے تو وہ اس دن کی تعظیم کرتے ہوئے کسی مشرک کو ایک انڈہ ہی تحفہ دے دے تو اس نے کفر کیا اور اس کے اعمال ضائع ہو گئے۔”
(البحرالرقائق شرح کنز الدقائق: 8؍555؛الدر المختار: 6؍754)
🌹نامور فقیہ امام ابو الحسن آمدی رحمته اللہ کا بھی فتویٰ ہے کہ:
“یہود و نصاریٰ کی عیدوں میں شامل ہونا جائز نہیں۔”
(احکام اہل الذمہ ازامام ابن قیم:3؍1249)
🌹امام ابن قیم رحمته اللہ نے فرمایا:
”کافروں کے خاص دینی شعار کے موقع پر اُنہیں مبارک باد پیش کرنا بالاتفاق حرام ہے۔
(احکام اہل الذمۃ:1؍205)
🌹امام ابنِ تیمیہ نے اس مسئلہ میں فرمایا:
”موسم سرما میں دسمبر کی 24تاریخ کو لوگ بہت سے کام کرتے ہیں۔عیسائیوں کے خیال میں یہ دن حضرت عیسیٰ کی پیدائش کا دن ہے۔اس میں جتنے بھی کام کئے جاتے ہیں مثلاًآگ روشن کرنا، خاص قسم کے کھانے تیار کرنا اور موم بتیاں وغیرہ جلانا سب کے سب مکروہ کام ہیں۔اس دن کو عید سمجھنا عیسائیوں کا عقیدہ ہے ۔اسلام میں اس کی کوئی اصلیت نہیں اورعیسائیوں کی اس عید میں شامل ہونا جائز نہیں ۔”
(اقتضاء الصراط المستقیم : 1؍478)
🌹سعودی عرب کے عظیم مفتی شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے جب اس عید کرسمس کے بارے سوال کیا گیا کہ کفار کو انکی عیدوں کی مبارک دینا کیسا ہے ؟
تو انکا جواب تھا کہ:
جواب کا متن:
سب علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کرسمس یا کفار کے دیگر مذہبی تہواروں پر مبارکباد دینا حرام ہے،
جیسے کہ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ” أحكام أهل الذمة ” میں نقل کیا ہے،
آپ کہتے ہیں:
“کفریہ شعائر پر تہنیت دینا حرام ہے، اور اس پر سب کا اتفاق ہے، مثال کے طور پر انکے تہواروں اور روزوں کے بارے میں مبارکباد دیتے ہوئے کہنا: “آپکو عید مبارک ہو” یا کہنا “اس عید پر آپ خوش رہیں” وغیرہ، اس طرح کی مبارکباددینے سے کہنے والا کفر سے تو بچ جاتا ہے لیکن یہ کام حرام ضرور ہے، بالکل اسی طرح حرام ہے جیسے صلیب کو سجدہ کرنے پر اُسے مبارکباد دی جائے، بلکہ یہ اللہ کے ہاں شراب نوشی ، قتل اور زنا وغیرہ سے بھی بڑا گناہ ہے، بہت سے ایسے لوگ جن کے ہاں دین کی کوئی وقعت ہی نہیں ہے ان کے ہاں اس قسم کے واقعات رونما ہوتے ہیں، اور انہیں احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ کتنا برا کام کر رہا ہے، چنانچہ جس شخص نے بھی کسی کو گناہ، بدعت، یا کفریہ کام پر مبارکباد دی وہ یقینا اللہ کی ناراضگی مول لے رہا ہے” ابن قیم رحمہ اللہ کی گفتگو مکمل ہوئی۔
چنانچہ کفار کو انکے مذہبی تہواروں میں مبارکبا د دینا حرام ہے، اور حرمت کی شدت ابن قیم رحمہ اللہ نے ذکر کردی ہے، -حرام اس لئے ہے کہ- اس میں انکے کفریہ اعمال کا اقرار شامل ہے، اور کفار کیلئے اس عمل پر اظہار رضا مندی بھی ، اگرچہ مبارکباد دینے والا اس کفریہ کام کو اپنے لئے جائز نہیں سمجھتا ، لیکن پھر بھی ایک مسلمان کیلئے حرام ہے کہ وہ کفریہ شعائر پر اظہار رضا مندی کرے یا کسی کو ان کاموں پر مبارکباد دے، کیونکہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں کیلئے اس عمل کو قطعی طور پر پسند نہیں کیا، جیسے کہ
🌹فرمانِ باری تعالی ہے:
إن تكفروا فإن الله غني عنكم ولا يرضى لعباده الكفر وإن تشكروا يرضه لكم
ترجمہ:اگر تم کفر کرو تو بیشک اللہ تعالی تمہارا محتاج نہیں، اور (حقیقت یہ ہے کہ)وہ اپنے بندوں کیلئے کفر پسند نہیں کرتا، اور اگر تم اسکا شکر ادا کرو تو یہ تمہارے لئے اس کے ہاں پسندیدہ عمل ہے۔
🌹اسی طرح فرمایا:
اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام ديناً
ترجمہ:
آج میں نے تمہارے لئے دین کو مکمل کردیا ، اور تم پر اپنی نعمتیں مکمل کردیں، اور تمہارئے لئے اسلام کو بطورِ دین پسند کر لیا۔
لہذا کفار کو مبارکباد دینا حرام ہے، چاہے کوئی آپکا ملازمت کا ساتھی ہو یا کوئی اور ۔
اور اگر وہ ہمیں اپنے تہواروں پر مبارکباد دیں تو ہم اسکا جواب نہیں دینگے، کیونکہ یہ ہمارے تہوار نہیں ہیں، اور اس لئے بھی کہ ان تہواروں کو اللہ تعالی پسند نہیں کرتا، کیونکہ یا تو یہ تہوار ان کے مذہب میں خود ساختہ ہیں یا پھر انکے دین میں تو شامل ہیں لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ساری مخلوق کیلئے نازل ہونے والے اسلام نے انکی حیثیت کو منسوخ کردیا ہے،
اور اسی بارے میں اللہ پاک نے فرمایا:
🌹 ومن يبتغ غير الإسلام ديناً فلن يقبل منه وهو في الآخرة من الخاسرين
ترجمہ:اور جو شخص بھی اسلام کے علاوہ کوئی دین تلاش کریگا ؛ اسے کسی صورت میں قبول نہیں کیا جائے گا، اور وہ آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہوگا۔
چنانچہ ایک مسلمان کیلئے اس قسم کی تقاریب پر انکی دعوت قبول کرنا حرام ہے، کیونکہ انکی تقریب میں شامل ہونا اُنہیں مبارکباد دینے سے بھی بڑا گناہ ہے۔
اسی طرح مسلمانوں کیلئے یہ بھی حرام ہے کہ وہ ان تہواروں پر کفار سے مشابہت کرتے ہوئے تقاریب کا اہتمام کریں، یا تحائف کا تبادلہ کریں، یا مٹھائیاں تقسیم کریں، یا کھانے کی ڈشیں بنائیں، یا عام تعطیل کا اہتمام کریں، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جو جس قوم کی مشابہت اختیار کریگا وہ اُنہی میں سے ہے)
🌹شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی کتاب( اقتضاء الصراط المستقيم، مخالفة أصحاب الجحيم ) میں کہتے ہیں:
“کفار کے چند ایک تہواروں میں ہی مشابہت اختیار کرنے کی وجہ سے اُنکے باطل پر ہوتے ہوئے بھی دلوں میں مسرت کی لہر دوڑ جاتی ہے،اور بسا اوقات ہوسکتا ہے کہ اسکی وجہ سے انکے دل میں فرصت سے فائدہ اٹھانے اور کمزور ایمان لوگوں کو پھسلانے کا موقع مل جائے” انتہی
مذکورہ بالا کاموں میں سے جس نے بھی کوئی کام کیاوہ گناہ گار ہے، چاہے اس نے مجاملت کرتے ہوئے، یا دلی محبت کی وجہ سے ، یا حیاء کرتے ہوئے یا کسی بھی سبب سے کیا ہو، اسکے گناہ گار ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس نے دین الہی کے بارے میں بلاوجہ نرمی سے کام لیا ہے، جو کہ کفار کیلئے نفسیاتی قوت اور دینی فخر کا باعث بنا ہے۔
اور اللہ تعالی سے دعا ہے کہ مسلمانوں کی اپنے دین کی وجہ سے عزت افزائی فرمائے، اور انہیں اس پر ثابت قدم رہنے کی توفیق دے، اور انہیں اپنے دشمنوں پر غلبہ عطا فرمائے، بیشک وہ طاقتور اور غالب ہے،
( مجموع فتاوى ورسائل شيخ ابن عثيمين 3/369 )
*ان تمام قرآنی آیات، احادیث مبارکہ اور فقہائے کرام کے فتاویٰ جات سے پتہ چلا کہ اللہ پاک ایک ہے، اسکا کوئی شریک نہیں نہ اسکا کوئی بیٹا ہے،جو لوگ عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا مانتے ہیں انکی پارٹیوں میں جانا یا انکو مبارک دینا انکے کفر و شرک میں انکی مدد کرنے اور انکا حوصلہ بڑھانے کے برابر ہے، جو کظ سرا سر حرام ہے،جبکہ اللہ نے گناہ کے کاموں میں کسی کی مدد کرنے سے منع فرمایا ہے،
اور جو مسلمان یہود و نصارٰی کی مشابہت کرتے ہوئے کرسمس وغیرہ منائے گا یا کیک کاٹے گا وہ انہیں میں سے ہو گا چاہے وہ انکو خوش کرنے کے لیے دل سے نا کر رہا ہو،
*ہائے امت مسمہ کاالمیہ۔۔۔!!!*
بڑے افسوس کا مقام ہے کہ اکثر مسلمان عوام الناس اور ان کی رہنمائی کرنے والے کچھ عاقبت نااندیش علما نہ صرف غیر مسلموں کے ایسے تہواروں میں شرکت کرتے بلکہ ان کی تعریف بھی کرتے ہیں۔
اُنہیں الله سے ڈرنا چاہیئے اور الله کے ان دشمنوں کو خوش نہیں کرنا چاہیئے۔
اللہ کا فرمان ہے:
🌹وہ لوگ چاہتے ہیں کہ تم نرمی ختیار کرو تو وہ بھی نرم ہو جائیں۔
(سورۃ القلم:-9)
اور الله کا فرمان بھی ہے:
🌹تم سے نہ تو یہودی کبھی خوش ہوں گے اور نہ عیسائی یہاں تک کہ اُن کے مذہب کی پیروی اختیار کر لو
(سورۃ البقرہ:120)
🌹رسول اللّٰہ ﷺ نے سچ فرمایا:
*م لوگ پہلی اُمتوں کے طریقوں کی قدم بقدم پیروی کرو گے یہاں تک کہ اگر وہ لوگ کسی گوہ کے بِل میں داخل ہوں تو تم بھی اس میں داخل ہو گے۔
(صحیح بخاری: 3456)
ہمارے معاشرے میں رائج قبر پرستی، پیر پرستی، اکابر پرستی اور رنگارنگ پوجا پاٹ اور بدعات مثلاً ہندوؤں کی رسومات عرس، میلے وغیرہ ان تمام باتوں کی دلیل قرآن و سنت سے نہیں ملتی اور نہ ہی آثارصحابہ کرام و اہل بیت عظام رضی اللہ عنہم سے ان کی کوئی دلیل ملتی ہے بلکہ یہ بدعات تو سراسر یہود و نصاریٰ کی اندھا دھند نقالی کا ہی کرشمہ ہیں۔ ان میں اکثر مسلمان لیڈر دینی وسیاسی اور سماجی راہ نما جوشرکت کرتے ہیں یہ اپنے ووٹ بینک کیلئے یا اپنا قد و کاٹھ ان میں اونچا کرنے کیلئے یا اپنے آپ کو معتدل ثابت کرنے کیلئے ہی کرتے کوئی بھی انہیں صحیح اسلام کی دعوت دینے کیلئے نہیں جاتا۔۔۔
الا ماشااللہ دوچند۔
*شریعت اسلام میں اقلیتوں کے حقوق ہیں، کہ جو کافر لڑائی نا کریں ان است اچھا سلوک کریں،ان اقلیتوں کی مدد کریں، انکو کھانا کھلائیں، انکو دعوت دیں، ان پر جبر نہ کریں۔۔!!*
*مگر نافرمانی اور گناہ میں انکی مدد کرنا اور انکی حوصلہ افزائی کرنا جائز نہیں*
*یہاں ایک بات یہ بھی قابل ذکر ہے کیا کبھی کسی عیسائی،یہودی نے مسلمانوں کی عیدوں،تہواروں میں شمولیت کی؟
کیا کسی عیسائی نے روزہ رکھا؟ کسی کافر ملک نے مسلمانوں کو خوش کرنے کے لیے ہماری عیدوں کے دن سرکاری طور پر تقریبات منائی؟؟*
*اور اس سب کے باوجود جو مسلمان اقلیتوں کو خوش کرنے کے لیے کیک کاٹتے ہیں، انکو مبارک باد دیتے ہیں، پارٹیوں میں جاتے ہیں تا کہ عیسائی خوش ہوں ان سے،
تو وہ حکمران اور علماء کرام ایسا کریں کہ اس کرسمس پر ایک دن کے لیے عیسائی بن جائیں،آخر دنیا کو تو دکھانا ہے نا کہ ہم اقلیتوں سے پیار کرتے ہیں؟ ہم بھلے عام زندگی میں انہیں چوڑھے کہتے ہوں*
افسوس…..!!!!
تجھ پر اے مسلماں!!
کہ دنیا کی عارضی تعریفوں اور نام و سٹیٹس کے لیے تم نے رب کے احکامات تک کو پس پشت ڈال دیا،
*اللہ سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں صحیح معنوں میں دین اسلام پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے، آمین یا رب العالمین*
واللہ تعالی اعلم باالصواب
🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765
آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/
آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2
جزاکم اللہ خیرا