8,024

سوال-اسلام میں اورل سیکس کا کیا حکم ہے؟اگر کوئی یہ کام کر لیتا ہے تو اسکا کفارہ کیا ہے؟

سلسلہ سوال و جواب نمبر _140″
سوال-اسلام میں اورل سیکس کا کیا حکم ہے؟اگر کوئی یہ کام کر لیتا ہے تو اسکا کفارہ کیا ہے؟

Published Date:10-11-2018

جواب۔!!
الحمدللہ:

*میاں بیوی کا اورل سیکس یعنی منہ کے ذریعہ جنسی عمل سر انجام دینا یا اعضاء تناسل (شرم گاہ) کو منہ میں لے کر چوسنا اور چاٹنا اورل سیکس کہلاتا ہے،انگریز پلید کی دیکھا دیکھی آج مسلمانوں میں بھی یہ گھٹیا اور رذیل عادت مقبول ہو گئی ہے،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ قیامت کے قریب مسلمان یہود و نصارٰی کی اس طرح پیروی کریں گے کہ اگر وہ گوہ کی بل میں داخل ہوں گے تو مسلمان بھی انکے پیچھے جائیں گے، آج وہ حدیث مجھے بہت یاد آ رہی ہے،کہ دین اسلام نے ہمیں گندگی اور گمراہی سے نکالا اور پاکیزگی اور طہارت کا حکم دیا ہے، اور آج مسلمان پھر سے طہارت کو چھوڑ کر گندگی اور غلاظت میں جا رہے ہیں، جبکہ ہمارا دین اسلام بہت صاف اور پاکیزگی والا ہے*

اورل سیکس کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ، اور ایسا کرنا شریعت اسلامیہ میں جائز نہیں ہے !
کیونکہ اللہ رب العالمین نے قرآن مجید فرقان حمید میں بیویوں کو مردوں کے لیے کھیتی قرار دیا ہے اور انہیں اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے کا حکم دیا ہے ۔ کہ وہ بیویوں اور مملوکہ لونڈیوں کے علاوہ اپنی شرمگاہ کو کہیں استعمال نا کریں ۔ اور پھر جماع کرنے کے ہمہ قسم طریقوں کو جائز و روا رکھا بشرطیکہ صرف اور صرف اس شرمگاہ کے راستہ سے جماع کیا جائے جس سے بچہ پیدا ہوتا ہے،
اور منہ میں جماع کرنا یا دبر میں یا کسی اور راستہ میں جماع کرنے کو ناجائز قرار دیا گیا ہے،

اسی بارہ میں سنن ابی داود میں ایک مفصل حدیث بھی موجود ہے :
🌷سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بات سمجھی ہے کہ انصاری لوگ بت پرست تھے اور یہودی اہل کتاب تھے اور انصاری لوگ یہودیوں کو علم میں اپنے سے افضل سمجھتے تھے لہذا انصاری صحابہ بہت سے کاموں میں یہودیوں کی پیروی کرتے تھے ۔ اور اہل کتاب کے ہاں یہ بات رائج تھی کہ وہ عورتوں کے ساتھ صرف ایک ہی طریقہ سے جماع کرتے تھے اور اس سے عورت زیادہ چھپی رہتی تھی، اور انصاریوں نے بھی ان ہی سے یہ بات اخذ کی تھی اور جو قریشی لوگ تھے وہ عورتوں سے کھل کر جماع کرتے اور آگے سے پیچھے سے اور چت لٹا کر جماع کرتے تھے، تو جب مہاجرین مدینہ میں آئے تو ان میں سے ایک مہاجر آدمی نے انصاری عورت سے شادی کر لی تو وہ اپنے طریقے سے اس کے ساتھ جماع کرنا چاہتا تھا لیکن اسکی بیوی اس بات کا انکار کرتی تھی اور کہتی کہ ہم صرف ایک ہی انداز سے جماع کے قائل ہیں لہذا وہی طریقہ اپناؤ یا مجھ سے دور رہو ۔ حتى کہ انکا معاملہ طول پکڑ گیا اور نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم تک جا پہنچا تو اللہ تعالى نے یہ آیت نازل فرمائی: ” نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ ” تمہاری بیویاں تمہاری کھیتی ہیں لہذا تم جس طریقے سے چاہو ان سے جماع کرو ۔ یعنی خواہ آگے سے خواہ پیچھے سے خواہ لٹا کر یعنی اولاد والی جگہ سے،
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر-2164)

*اس حدیث میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جماع کرنے کے تمام تر طریقے جائز و درست ہیں بشرطیکہ جماع وہاں سے کیا جائے جہاں سے اولاد کا حصول ممکن ہوتا ہے ۔کیونکہ وہی کھیتی کی جگہ ہے،جس سے اولاد حاصل ہوتی ہے،دبر یعنی پاخانہ یا اور کوئی جگہ کھیتی کی نہیں ہو سکتی، اور وہ صرف ایک ہی جماع کا راستہ یعنی فرج کا راستہ،لہذا دیگر تمام تر جماع کے راستے غیر شرعی ہیں ان سے اجتناب کیا جائے،*

*اس حدیث سے یہ بات بھی سمجھنے والی ہے کہ ایک عورت ہو کر اس صحابیہ نے جب تک صاحب شریعت سے فتویٰ نا لے لیا اطنے شوہر کو جائز طریقے سے بھی صحبت نہیں کرنے دی، لہذا میری ان تمام خواتین سے گزارش ہے کہ جنکو شوہر گھٹیا رذیل کام پر مجبور کریں تو وہ اس حدیث کو ذہن میں رکھیں اور انکو منع کریں ،کیونکہ شریعت حرام یا برائی کے کاموں میں اطاعت کا حکم نہیں دیتی*

*اورل سیکس کے بارے میں مزید شرعی حکم جاننے سے قبل چند شرعی اصولوں کو سامنے رکھیں*

🌷دین اسلام طہارت وپاکیزگی کا درس دیتا ہے نجاست و گندگی سے دور رہنے کو لازم قرار دیتا ہے۔
اللہ تعالى کا فرمان ہے،
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَالرُّجۡزَ فَاهۡجُرۡ
اور گندی کو چھوڑ دو
[المدّثر : 5]

🌷 نیز فرمایا :
یقینا اللہ تعالى بہت زیادہ توبہ کرنے والوں اور پاکیزہ رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ [البقرة : 222]

🌷دین اسلام ذی شان کاموں کا حکم دیتا اور گھٹیا اور رذیل کاموں سے منع کرتا ہے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ان اللہ کریم یحب الکرم ومعالی الاخلاق ویبغض سفسافھا
یقینا اللہ تعالى باعزت ہے اور عزت ‘ اور اخلاق عالیہ کو پسند فرماتا ہے اور گھٹیا عادتوں کو ناپسند فرماتا ہے۔
(مستدرک حاکم: 152)
*اور شرمگاہ کو منہ میں ڈالنا گھٹیا اور رذیل کام ہی ہے جس سے شریعت منع کرتی ہے*

🌷 ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی رات کو سو کر اٹھے تو اپنا ہاتھ برتن میں نہ ڈالے جب تک کہ اسے تین بار دھو نہ لے، کیونکہ اسے نہیں معلوم کہ رات میں اس کا ہاتھ کہاں کہاں رہا ہے،
(صحیح بخاری،حدیث نمبر- 162)
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر_ 103)
*جو پاکیزہ شریعت ہمیں برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے تین بار ہاتھ دھونے کا حکم دیتی کہ کہیں رات کو ہاتھ شرمگاہ کو نہ لگ گیا ہو، اس پاک شریعت میں شرمگاہ کو منہ میں ڈالنا کیسے جائز ہو سکتا؟*

🌷دین اسلام نے قضائے حاجت کے وقت دائیاں ہاتھ شرمگاہ کو لگانا منع کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
«لَا يُمْسِكَنَّ أَحَدُكُمْ ذَكَرَهُ بِيَمِينِهِ وَهُوَ يَبُولُ، وَلَا يَتَمَسَّحْ مِنَ الْخَلَاءِ بِيَمِينِهِ، وَلَا يَتَنَفَّسْ فِي الْإِنَاءِ» تم میں سے کوئی بھی پیشاب کرتے ہوئے اپنا آلہ تناسل دائیں ہاتھ سے نہ پکڑے, اور نہ ہی دائیں ہاتھ سے استنجاء کرے, اور نہ ہی برتن میں سانس لے۔ (صحیح مسلم: 267)
چونکہ دائیاں ہاتھ کھانے پینے اور ذی شان کاموں کے لیے استعمال ہوتا ہے اس لیے دائیں ہاتھ کو ایسے رذیل کاموں میں استعمال کرنے سے شریعت نے منع فرما دیا،

🌷ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
«كَانَتْ يَدُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْيُمْنَى لِطُهُورِهِ وَطَعَامِهِ، وَكَانَتْ يَدُهُ الْيُسْرَى لِخَلَائِهِ، وَمَا كَانَ مِنْ أَذًى»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دائیاں ہاتھ وضوء اور کھانا کھانے (جیسے امور) کے لیے ہوتا تھا اور آپ کا بائیاں ہاتھ قضائے حاجت اور گندگی والے امور کے لیے۔ (سنن أبی داود: 33)
*غور فرمائیں کہ جب دائیاں ہاتھ جس کے ذریعہ انسان کھانا اپنے منہ کی طرف بڑھاتا ہے اسے ہی گندگی والے کاموں, شرمگاہ کو چھونے وغیرہ سے روک دیا گیا ہے تو منہ کو شرمگاہ کے اوپر لگانا یا عضوتناسل کو منہ میں ڈالنا یا عورت کی شرمگاہ کو زبان سے چاٹنا کیونکر جائز ہو سکتا ہے؟ بلکہ یہ تو بطریق اولى حرام ٹھہرے گا*

🌷[عن سمرة بن جندب و علي بن أبي طالب:] طيِّبُوا أفواهَكُم بالسواكِ، فإِنَّها طُرُقُ القرآنِ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،اپنے مونہوں کو مسواک سے پاکیزہ رکھو،بے شک یہ قرآن کے راستے ہیں،
(الألباني صحيح الجامع ،3939 صحيح)
*یعنی منہ کو پاک صاف رکھنے کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ قرآن جیسی پاک کلام اس منہ سے ہوکر دل میں اترتی ہے*

🌷سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے مسواک کا حکم دیتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمانِ گرامی بیان کیا کہ جب کوئی بندہ مسواک کر کے نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو ایک فرشتہ اس کے پیچھے قرآن سننے کے لیے کھڑا ہو جاتا ہے۔قرآنِ پاک کی محبت اس فرشتے کو مسلسل نمازی کے قریب لاتی رہتی ہے ،حتیٰ کہ وہ اپنا منہ اس کے منہ پر رکھ دیتا ہے۔پھر نمازی کے منہ سے قرآنِ کریم کا جوبھی لفظ نکلتا ہے ،وہ فرشتے کے پیٹ میں چلا جاتا ہے ۔لہٰذا تم اپنے منہ صاف رکھا کرو،
[كتاب الزهد للامام عبدالله بن المبارك :435/1، ح : 1225، و سندهٔ حسن]
(الألباني، صحيح الترغيب ٢١٥ • حسن)
*اگر اسی منہ سے شرم گاہ وغیرہ کو چھوا جائے تو کیا فرشتے منہ لگائیں گے*

🌷اسلام حلال اور پاکیزہ اشیاء کو کھانے کا حکم دیتا ہے اور خبیث کو حرام کرتا اور اس سے اجتناب کرنے کا حکم دیتا ہے۔
ا للہ تعالى کا فرمان ہے:
اے لوگو! زمین میں جو حلال اور پاکیزہ ہے اس میں سے کھاؤ اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو‘ یقینا وہ تمہارا واضح دشمن ہے۔ [البقرة : 168]
*شرمگاہ کو چوسنے چاٹنے سے یقیناََ منی،مذی مرد و عورت دونوں کے منہ میں جاتی یا جا سکتی اور پھر زبان کے ذریعے پیٹ میں جاتی اور یہ حرام چیز کو کھانے میں آتا ہے*

🌷دین اسلام میں جن چیزوں کو حرام کیا گیا ہے انکے قریب جانے سے بھی منع کر دیا گیا ہے اور ایسے امور جنکا حلال ہونا واضح نہیں ہے ان سے بھی دور رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے ‘ اور ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ امور ہیں‘ جنہیں بہت زیادہ لوگ نہیں جانتے ۔ تو جو ان مشتبہ امور سے بچ گیا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا۔ اور جو شبہات میں داخل ہوگیا اسکی مثال اس چرواہے کی سی ہے جو اپنی بکریوں کو ممنوعہ علاقہ کے قریب قریب چراتا ہے ‘ ہوسکتا ہے کہ اسکی بکریاں اس ممنوعہ علاقہ میں داخل ہو جائیں۔ خبردار! ہر حکومت کے کچھ ممنوعہ علاقے ہوتے ہیں اور اللہ تعالى کے ممنوعہ علاقے اسکے حرام کردہ امور ہیں۔
(صحیح البخاری: 52 )
صحیح مسلم(1599) میں یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ ہے : اور جو مشتبہ کاموں میں پڑ گیا ‘ وہ حرام میں داخل ہوگیا۔ یعنی مشتبہ امور سے بچنا بھی فرض ہے اور ان کاموں میں پڑنا حرام ہے،

🌷 ضرر رساں اور نقصان دہ اشیاء کو شریعت نے حرام کیا ہے ۔
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: نہ نقصان اٹھانا ہے اور نہ ہی نقصان پہنچاناہے۔
(سنن ابن ماجه : 2340)

🌷جو کام مؤمن کے دل میں کھٹک جائے وہ گناہ ہے۔ اللہ رب العالمین کا فرمان ہے: اور لیکن اللہ تعالى نے ایمان کو تمہارے لیے محبوب بنایا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں مزین فرما دیا ہے ‘ اور کفر ‘فسق‘ اور نافرمانی کو تمہارے لیے ناپسندیدہ بنا دیا ہے۔ (جن کے دلوں کی یہ کیفیت ہو) وہی لوگ نیکوکار ہیں۔
[الحجرات : 7]

🌷رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ذی شان ہے: نیکی اچھا اخلاق ہے‘ اور گناہ وہ ہے جو تیرے سینے میں کھٹک جائے‘ اورلوگوں کے اس پر مطلع ہونے کو تو ناپسند کرے۔
(صحیح مسلم: 2553)
———————__________

قرآن وحدیث کے ان بنیادی اصولوں کو سمجھ لینے کے بعد اورل سیکس کی حرمت نکھر کر سامنے آ جاتی ہے۔ کیونکہ مذی مرد کی ہو یا عورت کی ناپاک ہی ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اسے دھونے اور صاف کرنے کا حکم دیا ہے ۔اور بحالت شہوت مرد کے ذکر سے بھی اور عورت کی فرج یعنی شرم گاہ سے بھی نکلنے والی رطوبت مذی کہلاتی ہے جو کہ نجس بھی ہے اور حرام بھی۔ ا گر کوئی مرد اپنی بیوی کی شرمگاہ چوستا یا چاٹتا یا اسے منہ لگاتا ہے تو اسکا منہ اس نجاست سے نہیں بچ سکتا۔ اسی طرح اگر کوئی عورت اپنے شوہر کے ذکر (آلہ تناسل) کو منہ میں داخل کرے اور چوسے اور جنسی عمل کروائےتو وہ بھی غلبہ شہوت کی بناء پر نکلنے والی مرد کی مذی سے نہیں بچ سکتی بلکہ وہ مذی انکے منہ میں داخل ہوکر لعاب کے ساتھ شامل ہو جاتی ہے اور بسا اوقات لعاب نگلنے کی صورت میں معدہ تک بھی جا پہنچتی ہے۔ اور یہ نہایت ہی گھٹیا اور رذیل حرکت ہے۔
جبکہ شریعت اسلامیہ نجاست سے دور رہنے کا حکم دیتی‘ نجس اور خبیث کو حرام قرار دے کر اسے کھانے پینے سے منع کرتی ‘ اور گھٹیا عادتوں سے بچنے کا حکم کرتی ہے۔ کوئی بھی مرد اس بات کا انکار نہیں کرسکتا کہ اسکے ذکر سے مذی نہیں نکلتی کیونکہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ہر مرد مذی خارج کرتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ کسی کی مذی زیادہ خارج ہوتی ہے اور کسی کی کم‘ بہر دو صورت اورل سیکس کی حرمت ہی ثابت ہوتی ہے‘ کیونکہ اگر مرد کی مذی بہت ہی کم بھی نکلتی ہو تب بھی جس وقت ذکر اسکی بیوی کے منہ میں داخل ہوگا کوئی یقینی بات نہیں کہ مذی نہ نکلے ‘ بلکہ غالب گمان یہی ہے کہ مذی نکلے گی۔ اورشبہات میں پڑنے کو بھی شریعت نے حرام قرار دیا ہے۔ اور بسا اوقات غلبہ شہوت کی بناء پر میاں صاحب اپنی بیوی کے منہ میں ہی منی نکال دیتے (ڈسچارج ہو جاتے) ہیں جو کہ اس سے بھی قبیح عمل ہے۔
شریعت گندگی کو دور پھینکنے کا حکم کرتی ہے جبکہ اورل سیکس کرنے والے گندگی کو منہ میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جدید میڈیکل سائنس بھی اس بات کو ثابت کر چکی ہے کہ اورل سیکس کے نتیجہ میں منہ کا سرطان (کینسر) پیدا کرنے والا وائرس (HPV) کا سبب بنتا ہے۔ جبکہ شریعت اسلامیہ مضر صحت امور و اشیاء سے منع کرتی اور انہیں حرام قرار دیتی ہے۔ اور اسی طرح اورل سیکس ایسی برائی ہے کہ کسی مؤمن کا دل اس پر مطمئن نہیں ہوتا‘ اور یہ اسکے دل میں کھٹکتا رہتا ہے۔ جوکہ اس عمل کے گناہ ہونے کی ایک واضح دلیل ہے-
ان تمام تر دلائل کی رو سے اورل سیکس کی حرمت (یعنی حرام ہونا) ہی ثابت ہوتی ہے۔

*کفارہ*
*اگر کسی نے جانے انجانے میں ایسا کوئی عمل کر لیا ہے تو وہ بس توبہ کرے اور اللہ سے معافی مانگے،لیکن اسکا کوئی کفارہ وغیرہ نہیں ہے*

*ہم اللہ کے شکر گزار ہیں کہ اس نے ہمیں دین اسلام جیسا صاف ستھرا پاکیزہ دین عطا کیا اور دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو ہدایت دیں اور سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق دیں،آمین*

(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )

🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

2 تبصرے “سوال-اسلام میں اورل سیکس کا کیا حکم ہے؟اگر کوئی یہ کام کر لیتا ہے تو اسکا کفارہ کیا ہے؟

اپنا تبصرہ بھیجیں