3,030

سوال_میں علم کا شہر اور علی اسکا دروازہ ہے، کیا یہ حدیث صحیح ہے؟ مکمل تخریج بیان کریں؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-135”
سوال_میں علم کا شہر اور علی اسکا دروازہ ہے، کیا یہ حدیث صحیح ہے؟ مکمل تخریج بیان کریں؟

Published Date:5-11-2018

جواب!!
الحمدللہ!!!

*اس معنی و مفہوم کی مشہور تین روایات ہیں، اور تینوں روایات ہی صحیح نہیں، تفصیل ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔!!*

*پہلی روایت*
(علم کا شہر،اس کی دیواریں اور دروازہ)

🌷 سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أنامدینةالعلم، وأبوبکر و عمر و عثمان سورھا، وعلي بابھا، فمن أراد العلم، فلیأت الباب
” میں علم کا شہر ہوں، ابوبکر، عمر اور عثمان اس کی دیواریں ہیں، علی اس کا دروازہ ہیں۔ اب جو علم حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، وہ دروازے سے آئے۔ “
(تاریخ دمشق لابن عساکر: ۳۲۱/۴۵، اللّآلي المصنوعة للسیوطی: ۳۰۸، ۳۰۷/۱)

موضوع(من گھڑت): یہ باطل (جھوٹی) روایت ہے، کیونکہ:

۱: اس کا راوی حسن بن تمیم بن تمام مجہول ہے، نیز اس کا سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے سماع بھی مطلوب ہے۔

۲:دوسرے راوی ابو القاسم عمر بن محمد بن حسین کرخی کی بھی توثیق درکار ہے۔

* اس روایت کے بارے میں حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“منکر جدا إسنادا ومتنا”
اس روایت کی سند اور متن دونوں سخت منکر ہیں۔
(تاریخ دمشق لابن عساکر: ۳۲۱/۴۵)

*دوسری روایت*
(علم کا شہر،اس کی بنیاد،دیواریں، چھت اور دروازہ)

🌷نبی اکرم ﷺ کی طرف یہ روایت بھی منسوب ہے :
أنا مدینة العلم، وأبوبکر أساسھا، وعمر حیطانھا، وعثمان سقفھا، وعلي بابھا

” میں علم کا شہر ہوں، ابوبکر اس کی بنیاد ، عمر اس کی چاردیواری، عثمان اس کی چھت اور علی اس کا دروازہ ہیں۔“
(تاریخ دمشق لابن عساکر: ۲۰/۹)

موضوع(من گھڑت): یہ روایت سفید جھوٹ ہے۔ اس کو گھڑنے والا ”اسماعیل بن علی بن مثنی استرا بادی“ہے۔

امام سخاوي رحمه الله (المتوفى902)نے کہا:
وأورد صاحب الفردوس وتبعه ابنه المذكور بلا إسناد عن ابن مسعود رفعه: أنا مدينة العلم، وأبو بكر أساسها، وعمر حيطانها، وعثمان سقفها، وعلي بابها
[المقاصد الحسنة ص: 170]۔
یعنی صاحب فردوس اور ان کے بیٹے نے بغیرکسی سند کے اس روایت کاتذکرہ کیاہے۔
اور اس کی سند دوسری کسی بھی کتاب میں نہیں ملتی لہٰذا یہ روایت بے سند وباطل ہے۔

*تیسری روایت*
(میں علم کا شہر ہوں اور علی اسکا درواہ):

یہ حدیث عوام الناس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل کے حوالے سے کافی مشہور و معروف ہے۔ حدیث کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
انا مدینۃ العلم و علی بابھا
”میں علم کا شہر ہوں اور علی (رضی اللہ عنه) اس کا دروازہ ہیں“

لیکن یہ روایت ضعیف ہے، یعنی اصول محدثین کی رو سے پایۂ صحت کو نہیں پہنچتی۔ اس روایت کی تحقیق اور ائمہ دین کی رائے پڑھئے:

🌷سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أنا مدینة العلم، و علي بابھا، فمن أراد العلم؛ فلیأت باب المدینة
”میں علم کا شہر ہوں اور علی (رضی اللہ عنہ) اس کا دروازہ ہیں۔ لہٰذا جو علم حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، وہ شہر کے دروازے سے آئے۔“
(مناقب علي لابن المغازلي: ۱۲۹، تاریخ دمشق لابن عساکر: ۳۷۸/۴۲)

ضعیف: یہ روایت ضعیف ہے، اس کی سند کئی وجوہ سے مخدوش ہے، کیونکہ اس میں؛

۱:شریک بن عبد اللہ قاضی کی ”تدلیس“ ہے۔

۲: سلمہ بن کُہیل نے صنابحی سے نہیں سنا۔

۳: سوید بن سعید حدثانی کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”یہ تدلیس کے ساتھ موصوف ہے، امام دارقطنی اور امام اسماعیلی وغیرہما نے اسے مدلس کہا ہے، نابینا ہونے کے سبب عمر کے آخری حصہ میں حافظہ میں بھی تغیر آگیا تھا، اسی وجہ سے ضعیف قرار پایا۔
(طبقات المدلّسین: ۱۲۰)

*اس روایت کے بارے میں ائمہ دین کی رائے*👇👇👇

میں علم کا شہر ہوں، اور علی اس کا دروازہ عوام الناس میں رسول اکرم ﷺ کے فرمانِ گرامی سے مشہور ہے، مگر حقیقت میں ایسا نہیں، کیونکہ اصولِ محدثین کے مطابق یہ روایت پایۂ صحت کو نہیں پہنچتی۔

اس روایت کے بارے میں ائمہ متقدمین کے اقوال درج ذیل ہیں:

1- امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وھو حدیث لیس له أصل
”اس حدیث کی کوئی اصل نہیں۔“
(الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم:۹۹/۶، وسندہ صحیح)

نوٹ: امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ سے اس حدیث کو صحیح کہنا بھی ثابت ہے۔ (تاریخ بغداد للخطیب:۳۱۵/۱۲، طبعۃ بشّار، وسندہ صحیح)
ہوسکتا ہے کہ یہ فیصلہ پہلے کا ہو اور کسی راوی کی صحیح حالت ظاہر ہوجانے کے بعد یہ رائے بدل گئی ہو۔
واللہ أعلم بالصواب!

2_ امام ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وحدیث أبي معاویة عن الأعمش، عن مجاھد، عن ابن عباس: ”أنا مدینة الحکمة، وعلي بابھا“ کم من خلق قد افتضحوا فیه۔

”ابو معاویہ سے بیان کی گئی عن الأعمش، عن مجاھد، عن ابن عباس کی سند سے یہ حدیث کہ میں حکمت کا شہر ہوں، علی اس کا دروازہ ہے۔ کتنے ہی اہل علم ہیں، جو اس میں عیب لگاتے ہیں۔“ (سؤالات البرذعی: ۷۵۳/۲)

3_ امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ نے اسے ”منکر“ قرار دیا ہے۔
(الجرح والتعدیل لابن أبی حاتم: ۲۲/۸)

4_ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ھذا حدیث غریب منکر” یہ حدیث غریب منکر ہے۔“ (سنن الترمذي: ۳۷۲۳)

5_ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ھذا خبر لا أصل له عن النبي صلی اللہ علیه وسلم۔
یہ روایت نبی کریم ﷺ سے ثابت نہیں ہے۔ (المجروحین: ۹۴/۲)

6_ امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: الحدیث مضطرب، غیر ثابت
”یہ حدیث مضطرب اور غیر ثابت ہے۔“
(العلل: ۲۴۷/۳، ح:۳۸۶)

7_امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ولا یصح في ھذا المتن حدیث
”اس مفہوم کی کوئی حدیث ثابت نہیں ہے۔”
(الضعفاء الکبیر : ۱۵۰/۳)

8_ امام ابو جعفر مطین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: لم یرو ھذا الحدیث عن أبي معاویة من الثقات أحد، رواہ أبو الصلت، فکذبوہ۔
”اس روایت کو ابو معاویہ سے کسی ایک ثقہ راوی نے بھی بیان نہیں کیا۔ صرف ابو صلت ہروی نے بیان کیا ہے اور اسے محدثین کرام نے جھوٹا قرار دیا ہے۔“
(تاریخ بغداد للخطیب: ۱۷۲/۷)

9_ امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ھذا حدیث منکر موضوع ۔
”یہ حدیث منکر و من گھڑت ہے۔“
(الکامل في ضعفاء الرجال: ۱۹۲/۱)

10_ حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: و کل ھذہ الروایات غیر محفوظة
”اس مفہوم کی تمام روایات منکر ہیں۔“
(تاریخ دمشق: ۳۸۰/۴۲)

11_حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اسے من گھڑت قرار دیا ہے۔
(الموضوعات: ۵۳۳/۱)

12_ حافظ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: فحدیث باطل”یہ جھوٹی حدیث ہے۔“
(تھذیب الأسماء واللغات: ۴۹۰/۱)

13_ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: والحدیث موضوع، راواہ الأعمش ”یہ حدیث من گھڑت ہے، اسے اعمش نے بیان کیا ہے۔“
(تاریخ الاسلام للذھبی: ۱۱۹۱/۵، بتحقیق بشار عواد معروف)

14_ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اسے خود ساختہ قرار دیا ہے۔ (منھاج السنۃ:۵۱۵/۷، أحادیث القصاص، ص:۶۲، مجموع الفتاویٰ:۱۲۳/۱۸)

15_ علامہ ابن طاہر رحمہ اللہ نے بھی اسے من گھڑت قرار دیا ہے۔
(تخریج أحادیث الاحیاء للعراقی:۱۸۳۰)

16_ علامہ عبد الرحمٰن معلّمی رحمہ اللہ نے بھی موضوع کہا ہے۔
(حاشیۃ الفوائد الجموعۃللشوکانی، ص: ۳۴۹)

صرف امام حاکم رحمہ اللہ نے اسے ”صحیح الاسناد“ کہا ہے۔ ان جمہور ائمہ متقدمین و متأخرین کی ”تضعیف“ کے مقابلے میں امام حاکم رحمہ اللہ کی تصحیح ناقابل التفات ہے، کیونکہ وہ متساہل تھے۔ یہ بات اہل علم پر بخوبی عیاں ہے۔

بعض متأخرین اہل علم، مثلاً؛
حافظ علائی (النقد الصحیح بما اعترض من أحادیث المصابیح، ص: ۵۵)،
حافظ ابن حجر (اللّآلی المصنوعۃ للسیوطی: ۳۳۴/۱)،
حافظ سخاوی (المقاصد الحسنۃ: ۱۸۹)
اور علامہ شوکانی (الفوائد المجموعۃ، ص:۳۴۹) کااس حدیثِ مناقب علی رضی اللہ کو ”حسن“ قرار دینا صحیح نہیں ہے،

*سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے فضائل کسی ضعیف اور جھوٹی روایت کے محتاج نہیں،سیدنا علی رضی اللہ عنہ دامادِ رسول، خلیفۂ چہارم اور شیر خدا ہیں۔ زبان نبوت سے انہیں بہت سے فضائل و مناقب نصیب ہوئے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں جو بات رسولِ اکرمﷺ سے باسند صحیح ہم تک پہنچ گئی ہے، ان کی حقیقی فضیلت و منقبت وہی ہے*

*من گھڑت، منکر اور ضعیف روایات پر مبنی پلندے کسی بھی طرح فضائل و مناقب کا درجہ نہیں پا سکتے*

*سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت و منقبت ہمارے سر آنکھوں پر، لیکن جھوٹی اور ضعیف سندوں سے مروی روایات کو فضیلت قرار دینا قطعاً صحیح نہیں*

*صحیح احادیث مبارکہ سے ثابت فضائل ومناقب کی روشنی میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شخصیت اتنی واضح ہے کہ انہیں ایسی روایات کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی، جن کو محدثین کرام نے قبول نہیں کیا*

*اللہ تعالیٰ ہمیں حق کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین!*

(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )

🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں