2,010

سوال: کیا محرم کے مہینے میں منگنی/شادی کرنا اور بیوی سے جماع کرنا حرام یا مکروہ ہے؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-83”
سوال: کیا محرم کے مہینے میں منگنی/شادی کرنا اور بیوی سے جماع کرنا حرام یا مکروہ ہے؟

Published Date: 16-9-2018

جواب!!

الحمد للہ:

اسلامی سال کے پہلے مہینے محرم الحرام کو سال کے بارہ مہینوں میں خاص طرح کا امتیاز حاصل ہے،
🌷صحیح بخاری میں ایک حدیث مبارکہ ہے،
جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع کے موقع پر ایک طویل اور نہایت ہی قیمتی نصائح پر مشتمل خطبہ ارشاد فرمایا، اس میں یہ بات بھی تھی: ”(اس وقت) زمانہ اسی رفتار اور ہیئت پر آ چکا ہے، جس دن اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان کو پیدا فرمایا تھا، ایک سال بارہ مہینے کا ہوتا ہے ، ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں، جن میں سے تین مہینے یعنی: ذوالقعدہ ذوالحج اور محرم الحرام تو مسلسل ہیں۔ اور ایک ”رجب“ کا مہینہ ہے جو جمادی الاخری اور شعبان کے درمیان آتا ہے
(صحیح بخاری، رقم الحدیث: 4662)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مختلف فرمان کے مطابق اس ماہ مبارک میں کیے جانے والے اعمال کا اجر بنسبت دیگر ایام یا مہینوں کے زیادہ ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مہینے میں روزے رکھنے کے بارے میں ارشاد فرمایا:
🌷 ”رمضان المبارک کے بعد افضل ترین روزے اللہ تعالیٰ کے یہاں محرم الحرام کے روزے ہیں“۔ (صحیح مسلم، رقم الحدیث: 1163)

علماء کرام فرماتے ہیں کہ اس مہینے میں فضیلت محض روزے رکھنے کی ہی نہیں ہے؛ بلکہ اس ماہ کا ہر نیک عمل بہ نسبت دوسرے مہینوں کے بہت بڑھا ہوا ہے؛ چنانچہ اعمال میں سے ایک بڑا اور اہم عمل نکاح کا بھی ہے،معاشرے میں ماہِ محرم الحرام سے متعلق کچھ ایسا تصور اور رجحان عام ہو چکا ہے کہ اس مہینے میں نکاح نہیں کرنا چاہیے حالانکہ شریعت کا مزاج اور احکام اس کی صریح نفی کرتے ہیں۔

”عمل ِ نکاح“ چاہے کسی مہینے میں ہو، یہ اپنی اصل کے اعتبار سے مباح ہے، اور مباح کام کا ناجائز ہونا کسی واضح ممانعت سے ہوتا ہے؛ لیکن اس مہینے میں ، یا اس کے علاوہ کسی اور بھی مہینے میں شریعت کی طرف سے کسی قسم کی کوئی ممانعت نہیں ملتی، نہ کتاب وسنت میں، نہ اجماع امت سے اور نہ ہی قیاس وغیرہ سے؛ چنانچہ جب ایسا ہے تو اس مہینے کا نکاح اپنی اصل (مباح ہونے )کے اعتبار سے جائز ہی رہے گا۔

بلکہ اس سے آگے بڑھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ فقہائے کرام کا اس بات پر کہ ( محرم یا اس کے علاوہ کسی بھی مہینے میں نکاح کرناجائزہے )
کم از کم اجماعِ سکوتی ہے۔

*کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین وتبع تابعین اور متقدمین یا متاخرین فقہاء میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے، جو اس ماہ مبارک میں شادی، بیاہ وغیرہ کو ناجائز قرار دیتا ہو*

لہٰذا اگر کوئی اس کو منع بھی کرتا ہے تو اس کا منع کرنا بغیر دلیل کے ہو گا اور کسی بھی درجہ قابل اعتبار نہیں ہو گا۔

*اس ماہ میں نکاح سے منع کرنے کی بنیاد کیا ہے ؟*

چنانچہ تتبع سے عقلاً اس کی بنیاد اس مہینے کا منحوس ہونا ہو سکتی ہے،
یا غم والا مہینہ ہونا(جس کی بناء پر سوگ کو لازم سمجھا جاتا ہے؟
اور سوگ والے دنوں یا مہینوں میں شادی کو جائز نہیں سمجھا جاتا)۔؟؟

*ذیل میں ہر دو امر کا جائزہ لیا جاتا ہے*

1_ کیا ماہ محرم نحوست والا مہینہ ہے؟
مزاج شریعت سے معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی اس مہینے کی نحوست کا قائل نہیں ہو سکتا؛ کیونکہ شریعت محمدیہ علی صاحبہا الف الف صلوات سے بہت پہلے سے ہی اس مہینے کا معزز ومکرم اور صاحب شرف ہونا مشہور ومعروف چلا آ رہا ہے۔ چنانچہ اتنا سب کچھ ہوتے ہوئے اس مہینہ کو نحوست والا قرار دینا ممکن ہی نہیں، لہٰذا اس بنا پر تو اس مہینے میں نکاح سے روکنا عقلا بھی درست نہیں ہے۔

2_ کیا ماہ محرم غم والا مہینہ ہے؟
اس مہینے میں شادی سے روکنے والے اگر اس بنیاد پر شادی سے روکتے ہیں کہ یہ غم اور سوگ کا مہینہ ہے لہٰذا اس مہینے میں خوشی نہیں منانی چاہیے، کیوں؟
اس لیے کہ اس مہینے میں نواسہٴ رسول حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے خاندان کے چھوٹوں اور بڑوں کو ظالمانہ طور پر نہایت بیدردی سے شہید کر دیا گیاتھا، ان کے ساتھ اظہار ہمدردی کے لیے غم منانا، سوگ کرنا اور ہر خوشی والے کام سے گریز کرنا ضروری ہے،

تو یہ احکامات دینیہ سے ناواقفیت کی علامت ہے؛
اس لیے کہ ”شہادت“ جیسی نعمتِ بے بہا کسی بھی طور پر غم کی چیز نہیں ہے،
یہ تو سعادت چیز ہے۔
یہاں سوچنا تو یہ ہے کہ ہمیں اس بارے میں شریعت کی طرف سے کیا راہ نمائی ملتی ہے؟

تعلیماتِ نبویہ سے تو یہ سبق ملتا ہے کہ شہادت کا حصول تو بے انتہا سعادت کی بات ہے۔

🌷حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کا شوق شہادت یہی وجہ تھی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ مستقل حصولِ شہادت کی دعا مانگا کرتے تھے،
(صحیح البخاری، کتاب فضائل مدینہ، باب کراہیة النبي صلی اللہ علیہ وسلم أن تعری المدینة، رقم الحدیث: 1890)

🌷حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا شوق شہادت حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جنہیں بارگاہِ رسالت سے سیف اللہ کا خطاب ملا تھا، وہ ساری زندگی شہادت کے حصول کی تڑپ لیے ہوئے قتال فی سبیل اللہ میں مصروف رہے؛ لیکن اللہ کی شان انھیں شہادت نہ مل سکی، تو جب ان کی وفات کا وقت آیا تو پھوٹ پھوٹ کے رو پڑے کہ میں آج بستر پر پڑا ہوا اونٹ کے مرنے کی طرح اپنی موت کا منتظر ہوں۔
(البدایہ والنھایہ، سنة احدی وعشرین، ذکر من توفی احدی وعشرین: ۷/۱۱۴، مکتبة المعارف، بیروت)

جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شوق شہادت شہادت تو ایسی عظیم سعادت اور دولت ہے، جس کی تمنا خود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے کی اور امت کو بھی اس کی ترغیب دی،

🌷 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے،
جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں چاہتا ہوں کہ میں اللہ کے راستے میں جہاد کروں، پھر شہید کر دیا جاوٴں، (پھر مجھے زندہ کر دیا جائے) پھر میں اللہ کے راستے میں جہاد کروں اور شہید کر دیا جاوٴں،(پھر مجھے زندہ کر دیا جائے) پھر میں اللہ کے راستے میں جہاد کروں اورپھر شہید کر دیا جاوٴں“۔
(صحیح بخاری،حدیث نمبر-36)
(صحیح مسلم، کتاب الامارة، باب: فضل الجھاد والخروج في سبیل اللہ، رقم الحدیث: 1876)

الغرض یہاں تو صرف یہ دکھلانا مقصود ہے کہ شہادت تو ایسی نعمت ہے، جس کے حصول کی شدت سے تمنا کی جاتی تھی، یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس پر افسوس اور غم منایا جائے، اگر اس عمل کو صحیح تسلیم کر لیا جائے توپھر غور کر لیا جائے کہ پورے سال کا ایسا کون سا مہینہ یا دن ہے ؟
جس میں کسی نہ کسی صحابیِ رسول کی شہادت نہ ہوئی ہو، کتب تاریخ اور سیر کو دیکھ لیا جائے،

ہر دن میں کسی نہ کسی کی شہادت مل جائے گی، مثلاً:

صفر: ۳ ھ میں مقام رجیع میں ۸/ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو شہید کیا گیا۔

صفر: ۴ ھ میں بئر معونہ کے واقعے میں کئی اصحاب صفہ کو شہید کیا گیا۔

صفر: ۵۲ ھ میں حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا۔

ربیع الاول: ۱۸ ھ میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا۔

ربیع الاول: ۲۰ ھ میں ام الموٴمنین حضرت زینب بن جحش رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا۔

ربیع الثانی: ۲۱ ھ میں مقام نہاوند میں ایرانی کفار سے لڑائی کے لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دو لاکھ ایرانیوں کے مقابلے کے لیے چالیس ہزار مسلمانوں کی فوج بھیجی جس میں تقریبا تین ہزار مسلمان شہید ہوئے اور کفار کے تقریبا ًایک لاکھ افراد واصل جہنم ہوئے، اور مسلمانوں کو فتح ہوئی۔

ربیع الثانی: ۲۱ ھ میں مشہور صحابی رسول حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا۔

ربیع الثانی: ۵۰ ھ میں حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا۔

جمادی الاولی: ۸ ھ میں حضرت سراقہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی۔
اور اسی سال ، اسی مہینے میں حضرت عبادہ بن قیس رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی۔

جمادی الاولی: ۸ ھ میں ہی غزوہ موتہ ہوا، جس میں کئی جلیل القدر اصحاب رسول رضی اللہ عنہم شہید ہوئے۔

جمادی الاخری: ۴ھ میں حضرت ابو سلمہ عبد اللہ بن عبد الاسد رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا۔

جمادی الاخری: ۱۳ ھ میں صحابی رسول حضرت ابو کبشہ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔

جمادی الاخری: ۲۱ ھ میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔

جمادی الاخری: ۵۰ ھ میں حضرت عبدالرحمن بن سمرہ کی وفات ہوئی۔

رجب المرجب:۱۵ھ میں حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔

رجب المرجب: ۲۰ھ میں حضرت اُسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔

رجب المرجب:۴۵ھ میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔

شعبان : ۹ ھ میں بنت ِ رسول حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا

۔شعبان :۵۰ھ میں حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کاانتقال ہوا۔

شعبان : ۹۳ھ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔

رمضان: ۱۰ نبوی میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی۔

رمضان:۲ھ میں بنت رسول حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی۔

رمضان:۱۱ھ میں بنت رسول حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا۔

رمضان:۳۲ھ میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا۔

شوال: ۳ھ میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی۔

شوال: ۳۸ھ میں حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔

ذوالقعدہ: ۶۲ھ میں مشہور تابعی حضرت مسلمہ بن مخلد رحمہ اللہ کا انتقال ہوا۔

ذوالقعدہ: ۱۰۶ھ میں حضرت سالم بن عبد اللہ بن عمر بن خطاب کا انتقال ہوا۔

ذو الحجہ: ۵ ھ میں حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔

ذو الحجہ: ۶ھ میں حضرت ام رومان رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا۔

ذو الحجہ: ۱۲ھ میں حضرت ابو العاص رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔

اور صحابہ کرام میں سے عظیم صحابہ خلفائے راشدین اور خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
اس پوری تاریخ کا مقتضی تو یہ ہے کہ ان میں سے ہر دن کو اظہارِ غم اور افسوس بنایا جائے۔ اور شادی وغیرہ ہر خوشی اور اظہار خوشی سے گریز کیا جائے؛ لیکن ظاہر ہے کہ کوئی بھی ذی شعور اس کو تسلیم نہیں کر سکتا۔

نیز! اس بات کو بھی دیکھا جائے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں بھی تو کئی عظیم اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب شخصیات کو شہادت ملی؛ لیکن کیا ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کی شہادت کے دن کو بطور یادگار کے منایا؟

نہیں ؛بالکل نہیں،

تو پھر کیا ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ غم محسوس کرنے والے ہیں؟

اور اگر کوئی شیعہ حضرات کی طرح اس مہینے میں شادی کی ممانعت کیلئے دلیل حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کو بنائے ، تو اسے کہا جائے گا:

*بلا شک و شبہ حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا دن تاریخ اسلامی میں بہت ہی تاریک دن ہے، لیکن اس عظیم سانحے کی وجہ سے شادی یا منگنی کو حرام کر دینے کی ضرورت نہیں ہے،کیونکہ ہماری شریعت میں سالانہ برسی وغیرہ کے موقعوں پرغم تازہ کرنے اور سوگ منانےکی اجازت نہیں ہےاور نہ ہی یہ کہ ان دنوں میں خوشی کا اظہار کرنا منع ہے۔*
*اگر اس بات پر وہ اتفاق نہ کریں تو ہمیں یہ پوچھنے کا حق بنتا ہے کہ : کیا جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے وہ دن امت کیلئے سب سے غمگین دن نہیں ہے؟*

*تو پھر مکمل ماہِ ربیع الاول میں شادی کرنا منع کیوں نہیں کرتے؟یا اس ماہ میں شادی بیاہ کی حرمت یا کراہت صحابہ کرام سے منقول کیوں نہیں ہے؟*

*یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آل و اولاد اور انکے بعد آنے والے علمائے کرام سے منقول کیوں نہیں ہے؟*

اگر ہمارا یہی حال رہا کہ جس دن بھی کوئی اسلامی شخصیت یا اہل بیت کا کوئی فرد فوت ہویا اسے شہید کیا گیا ہو، ہم ہر سال اس غم کو تازہ کرنے لگ جائیں، تو ہمارے لئے خوشی اور مسرت کا کوئی دن باقی نہیں رہے گا، اور لوگوں کو ناقابل برداشت حد تک مشقت اٹھانی پڑے گی۔

یقیناً دین میں نت نئے احکام ایجاد کرنا اسلام مخالف لوگوں کا کام ہے، اور یہ لوگ اللہ تعالی کی طرف سے مکمل کر دیے جانے والے دین میں بھی کمی کوتاہی نکالنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔

خدارا ۔۔۔۔!

ہم اپنے اعمال کا جائزہ لیں اور اس قسم کی گمراہ کن رسومات سے بچنے کی مکمل کوشش کریں۔ شرعاًسوگ کرنے کا حکم شرعاً سوگ کرنے کی اجازت صرف چند صورتوں میں ہے ،

کہ کسی قریبی رشتے دار کی وفات پر صرف تین دن کے لیے۔ اور شوہر کی وفات پر بیوی کے لیے ڑ ماہ دس دن عدت سمیت،

۔ اور سوگ کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس عرصہ میں زیب وزینت اور بناوٴ سنگار نہ کرے، زینت کی کسی بھی صورت کو اختیار نہ کرے، مثلا: خوش بو لگانا، سرمہ لگانا، مہندی لگانا اور رنگ برنگے خوشنما کپڑے وغیرہ پہننا، اس کے علاوہ کوئی صورت اپنانا،
مثلاً: اظہارِ غم کے لیے سیاہ لباس پہننا یا بلند آواز سے آہ وبکا جائز نہیں۔!

تو پھر محرم الحرام کے شروع ہوتے ہی سوگ اور ماتم کے نام پر پورے ملک و ملت کو عملی طور پر یرغمال بنا لینا کیا معنی رکھتا ہے؟؟!!

*محرم الحرام میں شادی نا کرنا اور سوگ کرنا ،یہ دونوں عمل اوپر ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق بے اصل اور دین کے نام پر دین میں زیادتی ہے، جس کا ترک لازم ہے*

لہٰذا جب سوگ جائز نہیں ہے تو پھر شرعاً اس مہینے میں شادی نہ کرنے کی وجہ یہ بھی نہیں بن سکتی۔

🌷بلکہ کچھ مؤرخین نے تو علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی بنت رسول فاطمہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی صحیح ترین تاریخ جو بتلائی ہے وہ ہجرت کے تیسرے سال کی ابتدا ہے،

🌷جیسے کہ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“بیہقی نے ابو عبد اللہ بن مندہ کی کتاب: “المعرفہ” میں ذکر کیا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے شادی ہجرت سے ایک سال بعد کی، اور رخصتی مزید ایک سال بعد ہوئی، چنانچہ اس طرح سے رخصتی کا سال ہجرت کے تیسرے سال کی ابتدا بنتا ہے” انتہی
” البداية والنهاية ” (3/419)
اس بارے میں دیگر اقوال بھی ہیں،
لیکن ابن عساکر اور طبری رحمہما اللہ نے محرم الحرام کے مہینے میں نکاح ہونے کی روایت کو ترجیح دی ہے،
لیکن اسے بیان کرنے کا ہمارا مقصد یہ ہے کہ محرم میں شادی کو کسی بھی عالم دین نے برا نہیں جانا، بلکہ جو اس ماہ میں شادی کریگا اس کیلئے امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ اور آپ کی زوجہ محترمہ فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عملی نمونہ اور قدوہ حسنہ موجود ہے،

*محرم الحرام کے دنوں میں فیس بک اور واٹس ایپ وغیرہ سوشل میڈیا پر ایک میسیج بہت زیادہ گردش کرتا ہے، جس میں حضرت علی رضہ اللہ عنہ کے علاوہ،*
*حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے نکاح بھی محرم میں بتایا جاتا ہے مگر یہ بات درست نہیں اور نا ہی کسی صحیح قول سے ثابت ہے،لہذا اس صحیح بات کے لیے بھی غیر مصدقہ دلیل دینا درست نہیں!!*

*تو پتا چلا کہ محرم کے مہینے میں یا کسی اور مہینے میں نکاح کرنا حرام نہیں ہے اور اس ماہ میں بیوی سے جماع کرنا بھی گناہ یا مکروہ نہیں ہے*

*لہذا میں تمام مسلمان بھائیوں/ بہنوں سے گزارش کروں گا کہ اپنی شادیاں زیادہ تر محرم الحرام کے مہینے میں رکھا کریں تا کہ لوگوں میں سے یہ رسم بد ختم ہو سکے*

(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)

اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر دیں،

🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہمارا فیسبک پیج لائیک ضرور کریں۔۔.
آپ کوئی بھی سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کر سکتے ہیں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

5 تبصرے “سوال: کیا محرم کے مہینے میں منگنی/شادی کرنا اور بیوی سے جماع کرنا حرام یا مکروہ ہے؟

  1. جی شکریہ آپ نے بہت ساری باتوں کا علم ہم تک پہنچایا اللہ ربّ العزت آپ کے علم میں اور اضافہ فرمائے آمین یارب العالمین

  2. السلام علیکم سر کیا محرم الحرام میں خصوصاً نو دس محرم کو بیوی کیساتھ ہمبستری کرنا اسلام کی رو سے کیسا ہے

  3. اسلام وعلیکم
    گزارش عرض یہ ہے کہ آج سے چند سال پہلے میں نے اپنی بیٹی کی شادی محرم الحرام کے مہینے میں کی تھی ۔جس کی وجہ سے خاندان اور دیگر لوگوں نے بہت باتیں بنائی تھیں مگر میں نے کسی کی پرواہ نہیں کی ۔کیونکہ میں مسجد کہ ایک امام صاحب سے بھی معلوم کر چکا تھا انہوں نے کہا شریعت کہ مطابق سال کہ کسی بھی مہینے میں شادی کرسکتے ہیں اس کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔ جبکہ آج بھی کبھی کبھار لوگ باتیں بناتے ہیں اس کہ ایک وجہ اور بھی ہے کہ میں اور میری فیملی اب بغیر کسی شرعی پردے والی شادی میں شریک نہیں ہوتے ہیں۔اور الحمدللہ آج میری بیٹی کہ دو بچے ایک لڑکا اور ایک لڑکی ہے۔ اور وہ اپنے سسرال میں خوش ہے۔
    بحر حال آج آپ کا یہ بیان سن کر دل کو بہت زیادہ سکون ملا ہے جس میں آپ نے محرم کہ مہینے میں شادی کہ ساتھ سال کے بارہ مہینوں کی بھی تفصیل بھی دے دی ۔
    اللّٰہ سے دعا ہے کہ اللّٰہ آپ کو خیرو عافیت کہ ساتھ صحت وتندرستی دے اور اس کارخیرمیں اجر وثواب عطا فرمائے ۔ آمین
    آپکا دعاگو= ندیم احمد

اپنا تبصرہ بھیجیں