“سلسلہ سوال و جواب نمبر-44″
سوال_ کیا اللہ کے علاوہ کسی اور کی قسم کھانا جائز ہے؟ قرآن و حدیث سے واضح کریں.!
Published Date:5_04_2018
جواب..!
الحمدللہ..!!
*غیر اللہ کی قسم کھانا حرام ہے،قسم صرف اور صرف رب ذوالجلال کے اسماء و صفات کی کھانی چاہیے،جیسے اللہ کی قسم ، رب کعبہ کی قسم ، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے ، مجھے پیدا کرنے والے یا رزق دینے والے رب کی قسم وغیرہ،*
*بعض علماء قرآن کی قسم کو بھی جائز کہتے، کہ یہ بھی اللہ کا کلام اور صفت ہے، لیکن بہتر ہے کہ اللہ کی ہی قسم اٹھائی جائے،*
*اور کسی مسلمان کیلئے جائز نہیں کہ وہ اللہ اور اس کے اسماءو صفات کے علاوہ کسی چیز کی قسم کھائے ، چاہے وہ چیز کتنی ہی باعث تعظیم و متبرک کیوں نہ ہو ، جیسے،*
*کلمہ کی قسم ، کعبہ کی قسم ، رسول کی قسم ،پیر و مرشد کی قسم ، والدین کی قسم ، (دهرتى (زمين) اوروطن كی قسم، ایمان کی قسم یا سَر کی قسم یا جان کی قسم وغیرہ وغیرہ ،اس طرح کی تمام قسمیں ناجائز ہیں*
*کیونکہ اللہ اور اسکے رسول نے غیر اللہ کی قسم کھانے سے منع فرمایا ہے اور غیر اللہ کی قسم کھانا شرک ہے*
📚صحیح بخاری
کتاب: قسموں اور نذروں کا بیان
باب: اپنے باپوں کی قسم نہ کھاؤ
حدیث نمبر: 6646
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَدْرَكَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ وَهُوَ يَسِيرُ فِي رَكْبٍ، يَحْلِفُ بِأَبِيهِ، فَقَالَ: أَلَا إِنَّ اللَّهَ يَنْهَاكُمْ أَنْ تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ، مَنْ كَانَ حَالِفًا فَلْيَحْلِفْ بِاللَّهِ، أَوْ لِيَصْمُتْ.
ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے مالک نے، ان سے نافع نے، ان سے عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ عمر بن خطاب ؓ کے پاس آئے تو وہ سواروں کی ایک جماعت کے ساتھ چل رہے تھے اور اپنے باپ کی قسم کھا رہے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ خبردار تحقیق اللہ تعالیٰ نے تمہیں باپ دادوں کی قسم کھانے سے منع کیا ہے، جسے قسم کھانی ہے اسے (بشرط صدق) چاہیے کہ اللہ ہی کی قسم کھائے ورنہ چپ رہے
📚سنن ابوداؤد
کتاب: قسم کھانے اور نذر (منت) ماننے کا بیان
باب: باپ داداکی قسم کھانے کی ممانعت
حدیث نمبر: 3251
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، قَالَ: سَمِعْتُ الْحَسَنَ بْنَ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، قَالَ: سَمِعَابْنُ عُمَرَ رَجُلًا يَحْلِفُ لَا وَالْكَعْبَةِ، فَقَالَ لَهُ ابْنُ عُمَرَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: مَنْ حَلَفَ بِغَيْرِ اللَّهِ فَقَدْ أَشْرَكَ.
ترجمہ:
سعد بن عبیدہ کہتے ہیں عبداللہ بن عمر ؓ نے ایک شخص کو کعبہ کی قسم کھاتے ہوئے سنا تو ابن عمر ؓ نے اس سے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جس نے اللہ کے سوا کسی اور کے نام کی قسم کھائی تو اس نے شرک کیا ۔
تخریج دارالدعوہ:
سنن الترمذی/الأیمان ٨ (١٥٣٥)،
(تحفة الأشراف: ٧٠٤٥)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٢/٣٤، ٥٨، ٦٠، ٦٩، ٨٦، ١٢٥) (صحیح )
سنن ترمذی میں یہ حدیث ان الفاظ ساتھ ہے کہ،
📚جامع ترمذی
کتاب: نذر اور قسموں کا بیان
باب: غیر اللہ کی قسم کھانا حرام ہے۔
حدیث نمبر: 1535
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ سَمِعَ رَجُلًا يَقُولُ: لَا، وَالْكَعْبَةِ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: لَا يُحْلَفُ بِغَيْرِ اللَّهِ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَنْ حَلَفَ بِغَيْرِ اللَّهِ فَقَدْ كَفَرَ أَوْ أَشْرَكَ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَفُسِّرَ هَذَا الْحَدِيثُ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، أَنَّ قَوْلَهُ: فَقَدْ كَفَرَ أَوْ أَشْرَكَ ، عَلَى التَّغْلِيظِ وَالْحُجَّةُ، فِي ذَلِكَ حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَمِعَ عُمَرَ يَقُولُ: وَأَبِي وَأَبِي، فَقَالَ: أَلَا إِنَّ اللَّهَ يَنْهَاكُمْ أَنْ تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ ، وَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: مَنْ قَالَ فِي حَلِفِهِ وَاللَّاتِ وَالْعُزَّى، فَلْيَقُلْ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا مِثْلُ مَا رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: إِنَّ الرِّيَاءَ شِرْكٌ، وَقَدْ فَسَّرَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ هَذِهِ الْآيَةَ: فَمَنْ كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلا صَالِحًا سورة الكهف آية 110 قَالَ: لَا يُرَائِي.
ترجمہ:
سعد بن عبیدہ سے روایت ہے کہ ابن عمر ؓ نے ایک آدمی کو کہتے سنا: ایسا نہیں قسم ہے کعبہ کی، تو اس سے کہا: غیر اللہ کی قسم نہ کھائی جائے، کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے: جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی اس نے کفر کیا یا شرک کیا ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
١ – یہ حدیث حسن ہے،
٢ – اس حدیث کی تفسیر بعض اہل علم کے نزدیک یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کا فرمان «فقد کفر أو أشرك» تنبیہ و تغلیظ کے طور پر ہے، اس کی دلیل ابن عمر ؓ کی حدیث ہے، نبی اکرم ﷺ نے عمر کو کہتے سنا: میرے باپ کی قسم، میرے باپ کی قسم! تو آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ باپ، دادا کی قسم کھانے سے منع فرماتا ہے ، نیز ابوہریرہ ؓ کی (روایت) کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس نے لات اور عزیٰ کی قسم کھائی وہ «لا إله إلا الله» کہے،
امام ترمذی کہتے ہیں:
٣ – یہ نبی اکرم ﷺ کے اس فرمان کی طرح ہے بیشک ریاکاری، شرک ہے،
تخریج دارالدعوہ:
سنن ابی داود/ الأیمان ٥ (٣٢٥١)،
(تحفة الأشراف: ٧٠٤٥)، و مسند احمد ٢/٨٧، ١٢٥) (صحیح )
قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (2561)، الصحيحة (2042)
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 1535
📚سنن ابوداؤد
کتاب: قسم کھانے اور نذر (منت) ماننے کا بیان
باب: غیر اللہ کی قسم کھانے کا بیان
حدیث نمبر: 3248
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا عَوْفٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ، وَلَا بِأُمَّهَاتِكُمْ، وَلَا بِالْأَنْدَادِ، وَلَا تَحْلِفُوا إِلَّا بِاللَّهِ، وَلَا تَحْلِفُوا بِاللَّهِ إِلَّا وَأَنْتُمْ صَادِقُونَ.
ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم اپنے باپ دادا کی قسم نہ کھاؤ، نہ اپنی ماؤں کی قسم کھانا، اور نہ ان کی قسم کھانا جنہیں لوگ اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں، تم صرف اللہ کی قسم کھانا، اور اللہ کی بھی قسم اسی وقت کھاؤ جب تم سچے ہو ۔
تخریج دارالدعوہ:
سنن النسائی/الأیمان ٥ (٣٨٠٠)، (تحفة الأشراف: ١٤٤٨٣) (صحیح )
📙ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں،
کہ غیر اللہ کی قسم کھانے کو شرک اس لیے قرار دیا گیا ہے کیونکہ قسم کھانے والا اللہ کے علاوہ جس کی قسم کھاتا ہے گویا وہ اس کی تعظیم کر رہا ہے جو رب کی تعظیم کے مشابہہ ہوتی ہے اور اللہ کی تعظیم کے مشابہہ کسی مخلوق چیز کی تعظیم نہیں ہو سکتی ، لہٰذا غیر اللہ کی قسم کھانا شرک ہے ،
ابن قدامہ مزید فرماتے ہیں کہ جو شخص غیر اللہ کی قسم کھالے اسے چاہیے کہ وہ ” لا الہ الا اللہ “ کہے ، یعنی شرک سے توبہ کرتے ہوئے اپنے مسلمان ہونے کا اقرار کرے ۔
(المغنی،جلد، 13)
📙حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”اہل علم کہتے ہیں کہ کسی چیز کی قسم اٹھانا اس کی تعظیم اور عظمت کا اقرار ہے اور حقیقی عظمت صرف اللہ کے لئے ہے، اس لئے غیراللہ کی قسم کھانے سے منع کیا گیا ہے۔”
(فتح الباری :ج351/11 ص)
📙امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
جو شخص غیر اللہ کی قسم کھائے اسے چاہیے کہ وہ استغفراللہ کہے
( اپنے اس کبیرہ گناہ پر اللہ رب العزت سے معافی طلب کرے ) ۔
یعنی اگر کوئی اللہ کے علاوہ کسی اور کی قسم کھا لیتا ہے تو اسکو اپنی قسم ختم کر کے توبہ و استغفار کرنا چاہیے،
📙علامہ ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس مسئلے میں علمائے امت کا اجماع ہے:
📙شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”غیر اللہ کی قسم اٹھانا شرک (حرام)ہے۔
📙سیدناابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ اگر میں اللہ تعالیٰ کے نام کی جھوٹی قسم اٹھالوں تو یہ غیر اللہ کے نام کی سچی قسم سے بہتر ہے۔” شیخ موصوف فرماتے ہیں:”سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے کلام کا یہ مطلب ہے کہ توحید کی نیکی سچ بولنے کی نیکی سے بڑھ کر ہے جیسا کہ جھوٹ بولنے کا گناہ شرک کے گناہ سے نہایت کم ہے۔”
(مجمع الزوائد 4/177۔حدیث 6899)
(والمصنف لا بن ابی شیبہ 3/81حدیث 12279)
(الفتاوی الکبری، الاختیارات العلمیۃ، الایمان 5/552)
__________&________
📙فضیلتہ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ قسم کھانے کے بارے
فرماتے ہیں کہ:
کسی چیز کی قسم کھانا اس بات کی دلیل ہے کہ قسم کھانے والے کے نزدیک اس چیز کی خاص عظمت ہے جس کی قسم کھائی جا رہی ہے، لہٰذا کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے کسی اسم یا صفات میں سے کسی صفت کے بغیر قسم کھائے، مثلاً: قسم کھانی یوں کھانی چاہیے کہ ’’اللہ کی قسم! ایسا میں ضرور کروں گا، رب کعبہ کی قسم! میں یہکام ضرور کروں گا، اللہ کی عزت کی قسم! میں یہ معاملہ ضرور کروں گا۔‘‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی دیگر صفات کے ساتھ قسم کھائی جا سکتی ہے۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اللہ تعالیٰ کا کلام اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور وہ یعنی کلام باری تعالیٰ، اللہ تعالیٰ کی بیک وقت ذاتی فعلی صفت ہے۔ اپنے اصل کے اعتبار سے کلام کی صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک اس صفت سے ہمیشہ موصوف رہی اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے موصوف رہے گی کیونکہ کلام تو کمال ہے اور اس اعتبار سے یہ اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفات میں سے ہے، کیونکہ وہ ہمیشہ سے متکلم رہا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے متکلم رہے گا اور جس کا وہ ارادہ فرمائے اسے کرتا رہے گا اور اپنی مستقل حیثیت کے اعتبار سے کلام اللہ تعالیٰ کی فعلی صفات میں سے ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب یہ مصحف کلام اللہ پر مشتمل ہے اور کلام اللہ، اللہ تعالیٰ کی صفت ہے تو پھر قرآن مجید کی قسم کھانا جائز ہے، مثلاً: انسان یہ کہے کہ قرآن مجید کی قسم! اور اس سے اس کا مقصود کلام اللہ کی قسم کھانا ہو اس بارے میں فقہائے حنابلہ سے نصاصراحت موجود ہے کہ ایسی قسم کھانا جائز ہے۔ تاہم افضل یہ ہے کہ انسان ایسی قسم کھائے جس سے سامعین تشویش میں مبتلا نہ ہوں، مثلاً: اس طرح قسم کھائے کہ اللہ کی قسم! رب کعبہ کی قسم! اس ذات پاک کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یا اس طرح کی دوسری قسمیں کھائے جن کے سننے سے عام لوگوں کو کوئی اجنبیت محسوس نہیں ہوتی اور وہ تشویش میں مبتلا نہیں ہوتے، اورلوگوں سے ایسے انداز میں ہی گفتگو کرنا زیادہ بہتر ہے جو عرفا عام ہو اور جس سے انہیں اطمینان قلب نصیب ہوتا ہو۔ جب یہ بات طے ہوگئی کہ قسم اللہ تعالیٰ اور اس کے اسماء وصفات ہی کی کھائی جاتی ہے تو پھر کسی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ غیر اللہ کی قسم کھائے۔ نبی یا جبرئیل یا کعبہ یا مخلوقات میں سے کسی چیز کی بھی قسم کھانا جائز نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ لہٰذا اگر کوئی شخص کسی کو نبی کی یا نبی کی زندگی کی یا کسی اور انسان کی زندگی کی قسم کھاتے ہوئے سنے، تو اسے چاہیے کہ وہ اسے اس حرکت سے منع کرے اور اسے یہ بتائے کہ اس کی قسم کھانا حرام ہے، جائز نہیں، اسے حکمت اور نرمی وشفقت کے ساتھ یہ بات سمجھا دے۔ مقصود اس کی خیر خواہی اور اسے اس حرام کام سے دور رکھنا ہو۔ بعض لوگوں کی عادت یہ ہے کہ جب انہیں نیکی کے کسی کام کا حکم دیا جائے اور برائی سے منع کیا جائے تو وہ غیرت میں مبتلا اور ناراض ہو جاتے ہیں، ان کا چہرہ سرخ ہو جاتا ہے اور رگیں پھول جاتی ہیں۔ ایسا شخص بسا اوقات یہ بھی محسوس کرتا ہے کہ اسے محض انتقام کے طور پر منع کیا جا رہا ہے، لہٰذا اس کے دل میں شیطان غلط باتیں ڈال کر انہیں بھڑکانے کی کوشش کرتاہے۔ اگر لوگوں سے ان کے مراتب کے مطابق سلوک کیا جائے اور انہیں اللہ تعالیٰ کے دین کی طرف حکمت اور محبت وشفقت سے دعوت دی جائے تو اس بات کا قوی امکان پایا جاتا ہے کہ وہ آپ کی بات کو توجہ سے سن کر اسے قبول کر لیں۔۔۔۔۔۔ نبی مکرم اور صحابہ کرام کیطرح ہمیں بھی چاہیے کہ بندگان الٰہی کو اللہ کے دین کی دعوت دیتے وقت اسی اسوۂ حسنہ کو پیش نظر رکھیں اور دعوت دین کے لیے ایسے اسلوب کو اختیار کریں جس سے حق بات لوگوں کے دلوں میں اثر کر جائے اور انہیں حق قبول کرنے اور اپنی اصلاح کرنے کی توفیق میسر آجائے۔ واللّٰہ الموفق
(فتاویٰ ارکان اسلام، ص150،151)
((( واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب )))
📚سوال_قسم کھانے کےبارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ کن صورتوں میں قسم کھانا درست ہے؟ جھوٹی قسم کا اور قسم توڑنے کا کفارہ کیا ہے؟
((د یکھیں سلسلہ نمبر-168 ))
📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 📑
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765
آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/
آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/