“سلسلہ سوال و جواب نمبر-30″
سوال_کیا بچوں کے عقیقہ میں بڑا جانور گائے یا اونٹ وغیرہ ذبح کر سکتے ہیں۔۔۔؟ اور قربانی کے جانور میں بچوں کے عقیقہ کا حصہ رکھنا کیسا ہے؟
Published Date:17-02-2018
جواب۔۔۔۔!
الحمدللہ۔۔۔۔!!
*بچوں کے عقیقہ میں بڑا جانور یعنی گائے اونٹ یا بھینس وغیرہ ذبح کرنا سنت سے ثابت نہیں،بلکہ سنت یہ ہے کہ لڑکا ہو تو دو جانیں یعنی دو بکریاں اور لڑکی ہو تو ایک جان یعنی ایک بکری عقیقہ کی مد میں ذبح کرنی چاہیے*
📚لوگ حفصہ بنت عبدالرحمٰن کے پاس گئے اور
فَسَأَلُوهَا عَنِ الْعَقِيقَةِ، فَأَخْبَرَتْهُمْ أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهُمْ عَنِ الْغُلَامِ شَاتَانِ مُكَافِئَتَانِ ، وَعَنِ الْجَارِيَةِ شَاةٌ.
ان سے عقیقہ کے بارے میں پوچھا ،
تو انہوں نے بیان کیا کہ ( ان کی پھوپھی ) ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا نے ان کو بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ لڑکے کی طرف سے دو بکریاں ایک جیسی اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری عقیقہ کریں،
(سنن ترمذی،حدیث نمبر_1513)
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر_3163)
(صحیح ابن حبان،حدیث نمبر_5310)
📚أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ ثَابِتِ بْنِ سِبَاعٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ أُمَّ كُرْزٍ أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا سَأَلَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْعَقِيقَةِ، فَقَالَ : ” عَنِ الْغُلَامِ شَاتَانِ، وَعَنِ الْأُنْثَى وَاحِدَةٌ، لَا يَضُرُّكُمْ ذُكْرَانًا كُنَّ أَمْ إِنَاثًا ”
ام کرز رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ،
انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیقہ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: ”لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ذبح کی جائے گی، وہ جانور نر یا ہو مادہ اس میں تمہارے لیے کوئی حرج نہیں“
(سنن ترمذی،حدیث نمبر_1516)
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر_2834,2835)
(سنن نسائی،حدیث نمبر_4220)
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر_3162)
(صحیح ابن حبان،حدیث نمبر_5312)
📚 عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیقہ کے سلسلے میں پوچھا گیا کہ جب ایک شخص کے ہاں اولاد پیدا ہو تو کیا کرے؟
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَنْسُكَ عَنْ وَلَدِهِ فَلْيَنْسُكْ عَنْهُ عَنِ الْغُلَامِ شَاتَانِ مُكَافَأَتَانِ، وَعَنِ الْجَارِيَةِ شَاةٌ “. قَالَ دَاوُدُ : سَأَلْتُ زَيْدَ بْنَ أَسْلَمَ عَنِ الْمُكَافَأَتَانِ، قَالَ : الشَّاتَانِ الْمُشَبَّهَتَانِ تُذْبَحَانِ جَمِيعًا.
جو اپنی اولاد کی طرف سے قربانی کرنا چاہے تو لڑکے کی طرف سے ایک ہی عمر کی دو بکریاں کرے، اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری کرے،
داود بن قیس کہتے ہیں:
میں نے زید بن اسلم سے «مكافئتان» کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: دو مشابہ بکریاں جو ایک ساتھ ذبح کی جائیں،،
(سنن نسائی،حدیث نمبر_4212)
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر_2842)
📚 عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں،
عَقَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا بِكَبْشَيْنِ كَبْشَيْنِ.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کی طرف سے عقیقہ میں دو دو دنبے ذبح کیے،
(سنن نسائی،حدیث نمبر_4238)
📚عبدالرحمن بن ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ہاں بچے کی پیدائش ہوئی تو عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا گیا کہ اس (اپنے بھتیجے) کی طرف سے اونٹوں کا عقیقہ کریں تو عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا،
اللہ کی پناہ،
بلکہ وہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (عقیقہ میں) دو بکریاں ایک جیسی کرو،
(سنن الکبری للبیہقی،کتاب الضحایا،
ج9/ص507_حدیث نمبر_19280)
(أرواء الغليل،ص4/390ج)
📚عطاء كہتے ہیں كہ ایک عورت نے عائشہ رضی اللہ عنہا كے پاس كہا : اگر فلاں كی بیوی كے ہاں ولادت ہوگی، توہم اس كی طرف سے اونٹ نحر كریں گے ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے كہاِ: نہیں بلکہ سنت یہ ہے كہ بچے كی طرف سے دوبكریاں اور بچی كی طرف سے ایک بكری ذبح كی جائے۔
(سلسلة الصحیحہ،حدیث نمبر_2720)
*ان تمام احادیث سے یہ بات صاف سمجھ آتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عقیقے میں بکری اور دنبے ذبح کرنے کا حکم دیا،اور حدیث میں “شاة” کا لفظ بولا گیا اور “شاة” کا لفظ بھیڑ،بکری پر ہی بولا جاتا ہے، اگر اونٹ وغیرہ میں عقیقہ ہو سکتا تو عائشہ رضی اللہ عنہا، اللہ کی پناہ نا مانگتی۔۔!! لہٰذا بچوں کے عقیقہ میں صرف بھیڑ ،بکری یا دنبہ کی نسل سے جانور ذبح کریں،اور خرگوش،مرغی، گائے،بیل یا اونٹ وغیرہ سے عقیقہ کرنا خلاف سنت عمل ہے،*
________&________
*قربانی کے جانور میں عقیقہ کا حصہ رکھنا*
📚شیخ صالح المنجد رحمہ اللہ سے اس بارے سوال کیا گیا کہ کیا قربانی کے جانور میں عقیقہ کا حصہ رکھ سکتے ہیں؟
تو انکا جواب تھا کہ
عقیقے میں شراکت داری جائز نہیں ہے؛ کیونکہ عقیقے میں شراکت کا ذکر کہیں نہیں ملتا، عید کی قربانی کے متعلق شراکت کا ذکر ملتا ہے،
ویسے بھی عقیقہ پیدا ہونے والے بچے کی طرف سے فدیہ ہوتا ہے ، اس لیے جس طرح بچہ ایک مکمل جان ہے اسی طرح فدیہ میں ذبح کیا جانے والا جانور بھی مکمل ہونا چاہیے۔۔انتہی!
(ویب سائٹ اسلام سوال جواب_ نمبر-223916)
📚شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے یہی سوال پوچھا گیا تو آپکا جواب تھا کہ،
“اونٹ یا گائے سات افراد کی طرف سے قربانی کیلیے کافی ہوتے ہیں، لیکن اس میں عقیقہ کو مستثنیٰ رکھا جائے گا؛ کیونکہ عقیقے میں مکمل ایک اونٹ ہونا ضروری ہے، لیکن پھر بھی عقیقے میں چھوٹا جانور [بکرا، بکری] ذبح کرنا افضل ہے؛ کیونکہ عقیقے میں بچے کی جان کا فدیہ دینا ہوتا ہے اور فدیہ مکمل جانور سے ہی ممکن ہے ، لہذا پوری جان کے بدلے میں پورا جانور ذبح کیا جائے گا۔
اگر ہم یہ کہیں کہ : اونٹ کی سات افراد کی جانب سے قربانی ہوتی ہے ، لہذا عقیقے میں اونٹ ذبح کرنے سے سات افراد کا فدیہ ہو جائے گا؟! [اہل علم کہتے ہیں] کہ عقیقے میں مکمل جانور کا ہونا ضروری ہے اس لیے ساتواں حصہ عقیقے کیلیے صحیح نہیں ہو گا۔
مثال کے طور پر ایک کسی شخص کی سات بیٹیاں ہوں اور سب کی طرف سے عقیقہ کرنا باقی ہو تو وہ شخص ساتوں بیٹیوں کی جانب سے عقیقے کے طور پر ایک اونٹ ذبح کر دیتا ہے تو یہ کفایت نہیں کر ے گا،
لیکن کیا اگر اس طرح ساتوں بیٹیوں کا عقیقہ نہیں ہوا ، تو کیا ایک بیٹی کا عقیقہ ہو جائے گا ؟
یا ہم یہ کہیں کہ یہ عبادت شرعی طریقے پر نہیں کی گئی اس لیے یہ گوشت والا جانور شمار ہو گا اور ہر ایک کی طرف سے جانور ذبح کیا جائے گا؟
دوسرا موقف زیادہ بہتر لگتا ہے،
یعنی کہ ہم کہیں گے کہ: اس طرح کسی ایک لڑکی کی طرف سے بھی عقیقہ نہیں ہو گا؛ کیونکہ اس کا طریقہ کار شرعی طریقے کے مطابق نہیں تھا، اس لیے اس شخص کو ہر بیٹی کی طرف سے ایک بکری ذبح کرنا ہو گی، اور ذبح شدہ یہ اونٹ اس کی ملکیت ہی رہے گا اب وہ اسے جو چاہے کرے اس لیے وہ اس کا گوشت فروخت کر سکتا ہے؛ کیونکہ یہ بطور عقیقہ ذبح نہیں ہوا” انتہی
اس بنا پر خلاصہ یہ ہے کہ:
آپ کوایک جانور قربانی اور عقیقے کی مشترکہ نیت سے ذبح کرنا کفایت نہیں کرے گا، اس لیے عقیقے کیلیے الگ بکری ذبح کریں یہ افضل ہے۔
(الشرح الممتع على زاد المستقنع (7 / 428)
📚شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ الشرح الممتع على زاد المستقنع (7 / 424) میں کہتے ہیں:
“عقیقے میں بکری ذبح کرنا مکمل اونٹ ذبح کرنے سے بہتر ہے؛ کیونکہ عقیقہ کرتے ہوئے احادیث میں صرف بکری کا ذکر ہی ملتا ہے، ا س لیے عقیقے میں بکری ذبح کرنا ہی افضل ہو گا” انتہی
*ان تمام دلائل سے ثابت ہوا کہ قربانی کے جانور میں عقیقہ کا حصہ ڈالنا درست نہیں*
((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))
📚عقیقہ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
فرض ہے یا سنت؟
(دیکھیں سلسلہ نمبر-271)
📚بچے کیطرف سے عقیقہ کس دن کرنا چاہیے؟کیا ساتویں دن عقیقہ کرنا ضروری ہے یا پہلے اور بعد میں بھی کیا جا سکتا ہے؟ نیز کیا بڑی عمر میں اپنا عقیقہ خود کر سکتے؟
(دیکھیں سلسلہ نمبر-310)
📚قربانی کے حوالے سے باقی مسائل پڑھنے کے لیے دیکھیں
( سلسلہ نمبر- 59 سے 78 تک)
📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 📑
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765
آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/
آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/
جزاكم الله خيرا بارك الله فيكم
جزاكم الله وبركاته خيرا بارك الله فيكم