640

سوال_قیامت کے دن لوگوں کو انکے باپ کے نام سے پکارا جائے گا یا ماں کے نام سے؟ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ ماں کے نام سے پکارا جائے گا اسکی حقیقت کیا یے؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-292″
سوال_قیامت کے دن لوگوں کو انکے باپ کے نام سے پکارا جائے گا یا ماں کے نام سے؟
اکثر لوگ کہتے ہیں کہ ماں کے نام سے پکارا جائے گا اسکی حقیقت کیا یے؟

Published Date: 3-10-2019

جواب:
الحمدللہ:

*یہ بات عوام میں کافی مشہور ہوگئی ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو انکی ماں کے نام سے پکارا جائے گا،جبکہ حقیقت اسکے برعکس ہے، قرآن و حدیث کے دلائل سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو انکے باپ نام سے ہی پکارا جائے گا*

اس مسئلہ کو سمجھنے کے لئے یہ پہلے دیکھنا پڑے گا کہ آدمی دنیا میں کس سے پکارا جاتا تھا؟چنانچہ یہ بات بدیہی ہے کہ دنیا میں لوگ باپ کے نام سے ہی پکارے جاتے ہیں ، رجسٹر پر ، فائل میں ، سرٹیفیکیٹ میں بلکہ ہر طرح کے معاملات اور دنیا کے تمام تر مشاغل میں باپ کا نام استعمال کیا جاتا ہے اور یہ حکم قرآن کا بھی ہے،

📚القرآن – سورۃ نمبر 33 الأحزاب
آیت نمبر 5
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اُدۡعُوۡهُمۡ لِاٰبَآئِهِمۡ هُوَ اَقۡسَطُ عِنۡدَ اللّٰهِ‌ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ تَعۡلَمُوۡۤا اٰبَآءَهُمۡ فَاِخۡوَانُكُمۡ فِى الدِّيۡنِ وَمَوَالِيۡكُمۡ‌ؕ وَ لَيۡسَ عَلَيۡكُمۡ جُنَاحٌ فِيۡمَاۤ اَخۡطَاۡ تُمۡ بِهٖۙ وَلٰكِنۡ مَّا تَعَمَّدَتۡ قُلُوۡبُكُمۡ‌ ؕ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوۡرًا رَّحِيۡمًا ۞
ترجمہ:
انھیں ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو، یہ اللہ کے ہاں زیادہ انصاف کی بات ہے، پھر اگر تم ان کے باپ نہ جانو تو وہ دین میں تمہارے بھائی اور تمہارے دوست ہیں اور تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں جس میں تم نے خطا کی اور لیکن جو تمہارے دلوں نے ارادے سے کیا اور اللہ ہمیشہ بےحد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔

اور حدیث پاک میں بھی غیر باپ کی طرف نسبت کرنے والوں پہ جنت کی حرمت بتلائی گئی ہے،

📚فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
مَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ غَيْرُ أَبِيهِ، فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامٌ ”
ترجمہ : نبی ﷺ نے فرمایا جس نے اپنے باپ کے علاوہ کسی کی طرف اپنے اپ کو منسوب کیا جب کہ وہ جانتا ھو کہ اس کا باپ نہیں ھے اس پر جنت حرام ہے
(صحیح بخاری حدیث نمبر-6766)

📚اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
لَا تَرْغَبُوا عَنْ آبَائِكُمْ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ أَبِيهِ فَهُوَ كُفْرٌ : اپنے آباء و اجداد سے اعراض نہ کرو! جس نے اپنے باپ کے علاوہ کس دوسرے کی طرف نسبت کی اس نے کفر کیا۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر-6786)

*پتا یہ چلا کہ دنیامیں لوگ والد کی نام سے پکارے جاتے تھے تو یہی حکم وفات کے بعد بھی باقی رہے گا یعنی وفات کے بعد بھی ہر جگہ والد کے نام سے ہی پکارا جائے گا*

چنانچہ اس کے صریح دلائل بھی ہیں،

پہلی دلیل :

📚عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ الْغَادِرَ يُرْفَعُ لَهُ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُقَالُ هَذِهِ غَدْرَةُ فُلَانِ بْنِ فُلَانٍ،
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کہ نبی ﷺ نے فرمایاقیامت کے دن دغا باز کی سرین پر جھنڈا لگایا جائے گا جس پر لکھا ہوگا کہ اس نے فلاں بن فلاں سے غدر کیا تھا۔
(صحیح البخاری,کتاب الادب،حدیث نمبر-6177)

📚امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر باب قائم کیا ہے،
صحيح البخاري | كِتَابٌ : الْأَدَبُ | بَابُ مَا يُدْعَى النَّاسُ بِآبَائِهِمْ.
اس بات کا بیان کہ قیامت کے دن لوگوں کو انکے باپ کے نام سے پکارا جائے گا،

امام بخاری رحمہ اللہ کے اس باب باندھنے سے معلوم ہوا کہ وہ بھی اسی بات کہ قائل تھے کہ قیامت کے دن باپ کے نام سے پکارا جائے گا،

📒اسی طرح اس حدیث کی شرح میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابن بطال کا قول نقل کیا ہے کہ،
وقال ابن بطال: في هذا الحديث رد لقول من زعم أنهم لا يدعون يوم القيامة إلا بأمهاتهم سترا على آبائهم.
ابن بطال کہتے ہیں کہ اس حدیث میں ان لوگوں کے قول کا رد ہے جنکا گمان ہے کہ قیامت کے دن باپوں کی بجائے صرف ماؤں کے نام سے پکارا جائے گا،
(فتح الباری شرح صحیح البخاری)

دوسری دلیل :
📚 نبی اکرم ﷺ نے فرمایا
إِنَّكُمْ تُدْعَوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِأَسْمَائِكُمْ وَأَسْمَاءِ آبَائِكُمْ، فَأَحْسِنُوا أَسْمَاءَكُمْ ”
کہ تم لوگ قیامت کے دن اپنے اور اپنے باپوں کے نام سے پکارے جاؤ گے تو اپنا نام اچھا رکھو
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-4948)

اگرچہ اس روایت کی سند میں انقطاع ہے مگر بہت سے محدثین کرام نے اس حدیث کی سند کو جید کہا ہے،( واللہ اعلم )

(صحيح ابن حبان 5818 أخرجه في صحيحه )
(النووي المجموع 8/436إسناده جيد)
(ابن القيم تحفة المودود 103إسناده جيد)
(المنذری، الترغيب والترهيب 3/112 [إسناده صحيح أو حسن أو ما قاربهما]

______&________

امام ابن قیم رحمہ اللہ کی وضاحت:

📒قال ابن القيم رحمه الله،
الفصل العاشر في بيان أن الخلق يدعون يوم القيامة بآبائهم لا بأمهاتهم . هذا الصواب الذي دلت عليه السنة الصحيحة الصريحة ، ونص عليه الأئمة كالبخاري وغيره فقال في صحيحه : باب يدعى الناس يوم القيامة بآبائهم لا بأمهاتهم ، ثم ساق في الباب حديث ابن عمر قال قال رسول الله : ( إذا جمع الله الأولين والآخرين يوم القيامة يرفع الله لكل غادر لواء يوم القيامة فيقال هذه غدرة فلان بن فلان ).
وفي سنن أبي داود [4948] بإسناد جيد عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( إِنَّكُمْ تُدْعَوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِأَسْمَائِكُمْ وَأَسْمَاءِ آبَائِكُمْ فَأَحْسِنُوا أَسْمَاءَكُمْ )
امام ابن قیم رحمہ اللہ کی اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن مخلوق کو انکے باپوں کے نام سے پکارا جائے گا ،اور ماؤں کے نام نہیں سے نہیں پکارا جائے گا، اور اس پر سنت میں صریح دلائل موجود ہیں،۔۔۔۔آگے وہ بخاری کی روائیت ذکر کرتے ہیں! اور پھر ابو داؤد کی روایت لکھتے ہیں کہ اسکی سند جید ہے۔۔۔!
(“تحفة المودود بأحكام المولود”ص147)

__________&_________

📚سعودی فتاویٰ کمیٹی سے سوال کیا گیا:

السؤال-27556
هل صحيح أن الله يوم القيامة يدعو الناس بأسمائهم وأسماء أمهاتهم( فلان ابن فلانة ) وما الرد على من يقول ذلك ؟….وهل هناك دليل شرعي ؟
کیا یہ بات صحیح ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو انکے اور انکی ماؤں کے نام سے پکارا جائے گا….؟ اور اسکا کیا رد ہے جو اس طرح کی بات کہی جاتی ہے اور کیا اس پر شرعی دلیل ہے؟

نص الجواب:
الحمد لله:

القول بأن الناس يدعون يوم القيامة بأسماء أمهاتهم ، خطأ مخالف لما ثبت في السنة الصحيحة الدالة على أنهم ينسبون لآبائهم،
فزعم بعض الناس أنهم يدعون بأمهاتهم ، واحتجوا في ذلك بحديث لا يصح ، وهو في معجم الطبراني من حديث أبي أمامة عن النبي صلى الله عليه وسلم : ( إذا مات أحد من إخوانكم فسويتم التراب على قبره فليقم أحدكم على رأس قبره ثم ليقل يا فلان بن فلانة فإنه يسمعه ولا يجيبه ثم يقول يا فلان بن فلانة فإنه يقول أرشدنا يرحمك الله ) الحديث ، وفيه : فقال رجل يا رسول الله فإن لم يعرف اسم أمه ؟ قال فلينسبه إلى أمه حواء يا فلان ابن حواء )
[ قال الهيثمي (3/163) : في إسناده جماعة لم أعرفهم . انتهى . وقال في كشف الخفاء (2/375) : وضعفه ابن الصلاح ثم النووي وابن القيم والعراقي والحافظ ابن حجر في بعض تصانيفه وآخرون ]
قالوا : وأيضا فالرجل قد لا يكون نسبه ثابتا من أبيه كالمنفي باللعان وولد الزنى فكيف يدعى بأبيه ؟
والجواب : أما الحديث فضعيف باتفاق أهل العلم بالحديث ، وأما من انقطع نسبه من جهة أبيه فإنه يدعى بما يدعى به في الدنيا ، فالعبد يُدعى في الآخرة بما يدعى به في الدنيا من أب أو أم والله أعلم ” انتهى،

تنبيه : قد حمل بعضهم قول الله عز وجل : ( يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ ) الإسراء/ 71على هذا القول الضعيف [ انظر القرطبي 10/257] .
قال الزمخشري : ” ومن بدع التفاسير : أن الإمام جمع أم ، وأن الناس يدعون يوم القيامة بأمهاتهم ، وأن الحكمة في الدعاء بالأمهات دون الآباء : رعاية حق عيسى عليه السلام ، وإظهار شرف الحسن والحسين ، وأن لا يفتضح أولاد الزنا !! وليت شعري أيهما أبدع : أصحة لفظه ، أم بهاء حكمته !!؟ ” انتهى [ الكشاف 2/682]
(https://islamqa.info/ar/answers/87556)

ترجمہ:
اس سب کا خلاصہ یہ ہے کہ سعودی فتاویٰ کمیٹی نے جواب دیا کہ قیامت کے دن لوگوں کو انکے باپ کے نام سے پکارا جائے گا ، اور اس پر سنت سے دلائل موجود ہیں اور یہ کہنا کہ ماں کے نام سے پکارا جائے گا ایک غلطی ہے،اور بعض لوگ جو طبرانی کی ایک حدیث سے دلیل پکڑتے ہیں کہ لوگوں کو قیامت کے دن ماں کے نام سے پکارا جائے گا۔ وہ حدیث ضعیف ہے،

حدیث ملاحظہ فرمائیں:

🚫الناس یوم القیامة بامھاتھم سترا من اللہ عز وجل علیھم
(الآلی المصنوعۃ للسیوطی : ۴۴۹/۲ نقلہ عن الطبرانی)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ :
“بے شک اللہ تعالیٰ لوگوں کو قیامت کے دن اُن کی ماؤں (کے نام) سے پکارے گا تاکہ اس کے بندوں کی پردہ پوشی رہے،
اس حدیث کو شیخ البانی نے موضوع اور باطل قرار دیا ہے،
(الألباني السلسلة الضعيفة333،موضوع)
(ابن حجر،فتح الباري لابن حجر 10/579) إسناده ضعيف جدا)
(أخرجه ابن عدي في «الكامل في الضعفاء» (1/343)
(وابن الجوزي في «الموضوعات»3/248)

🚫اور بعض لوگ قرآن کی ایک آیت سے بھی قیامت کے دن ماں کے نام سے پکارے جانے کی دلیل پکڑتے ہیں،وہ آئیت یہ ہے:

📚القرآن – سورۃ نمبر 17 الإسراء
آیت نمبر 71
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

يَوۡمَ نَدۡعُوۡا كُلَّ اُنَاسٍۢ بِاِمَامِهِمۡ‌ۚ فَمَنۡ اُوۡتِىَ كِتٰبَهٗ بِيَمِيۡنِهٖ فَاُولٰۤئِكَ يَقۡرَءُوۡنَ كِتٰبَهُمۡ وَلَا يُظۡلَمُوۡنَ فَتِيۡلًا ۞
ترجمہ:
جس دن ہم سب لوگوں کو ان کے امام کے ساتھ بلائیں گے، پھر جسے اس کی کتاب اس کے دائیں ہاتھ میں دی گئی تو یہ لوگ اپنی کتاب پڑھیں گے اور ان پر کھجور کی گٹھلی کے دھاگے برابر (بھی) ظلم نہ ہوگا

کچھ لوگ یہاں لفظ “امامھم” سے مراد ماں لیتے ہیں جو کہ غلط ہے، جبکہ امام سے مراد پیشوا ،رہبر و رہنما مراد ہے یہاں،
________&_______

*مذکورہ باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ لوگوں کو قیامت کے دن بھی باپ کے نام سے پکارا جائے گا جیساکہ دنیا میں پکارا جاتا تھا، جو لوگ اس کے خلاف بات کرتے ہیں ان کے پاس کوئی صحیح اور ٹھوس دلیل نہیں ہے*

(( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))

📚کیا شادی کے بعد لڑکی کا سر نیم بدلا جا سکتا ہے؟ یعنی بیوی شوہر کا نام اپنے نام ساتھ لگا سکتی ہے؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ حرام ہے؟
(دیکھیں تفصیلی سلسلہ نمبر-103)

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦ سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 📑
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں