754

سوال_ نماز میں سجدہ کے لیے جھکتے ہوئے پہلے ہاتھ زمین پر رکھنے چاہییں یا گھٹنے؟ صحیح احادیث سے وضاحت کریں..!!!

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-266”
سوال_ نماز میں سجدہ کے لیے جھکتے ہوئے پہلے ہاتھ زمین پر رکھنے چاہییں یا گھٹنے؟ صحیح احادیث سے وضاحت کریں..!!!

Published Date: 14-7-2019

جواب:
الحمدللہ:

*شریعت نے ہر معاملے میں انسانی فطرت کے مطابق احکامات جاری کیے ہیں، جس میں انسان کی آسانی اور بھلائی کو مد نظر رکھا گیا ہے، آپ دیکھ لیں کہ چھوٹا /کمزور بچہ زمین پر بیٹھتے اور کھڑے ہوتے ہوئے ہاتھوں کی ٹیک لگا کر ہی کھڑا ہو پاتا ہے، اور پھر جب انسان بوڑھا ،کمزور ہو جاتا ہے تب بھی ہاتھوں کی ٹیک لگا کر ہی اٹھتا بیٹھتا ہے،جوانی میں بھی اگر کسی کا جسم ذرا بھاری ہے تو وہ ہاتھوں سے پہلے گھٹنے لگا کر نہیں بیٹھ سکتا، اگر کوشش کرے گا بھی تو ہڈیاں تڑوائے گا،اور اس طرح بیٹھنا یقیناً ایک مشقت والا عمل ہے،*

*اسی لیے شریعت نے نماز کے اندر سجدہ کے لیے جھکتے ہوئے پہلے ہاتھ اور پھر گھٹنے رکھنے کا حکم دیا ہے*

دلائل ملاحظہ فرمائیں۔۔۔!!

*دلیل نمبر_1*

📚سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( إِذَا سَجَدَ أَحَدُكُمْ فَلَا يَبْرُكْ كَمَا يَبْرُكُ الْبَعِيرُ، وَلْيَضَعْ يَدَيْهِ قَبْلَ رُكْبَتَيْهِ “)
“جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو اس طرح نہ بیٹھے جس طرح اونٹ بیٹھتا ہے ۔ اسے چاہیے کہ اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں سے پہلے رکھے۔”
(مسند امام احمد :2/381 _ح-8955)
( سنن ابي داود حدیث نمبر : 840)
(سنن النسائي : 1091، وسندہٗ صحیح)

*حدیث کی سند..!* 👇

حافظ نووی رحمہ اللہ
(شرح المھذب : 3/421) ،
حافظ ابنِ سیّد الناس اور علامہ زرقانی نے (شرح المواھب : 7/320 میں) اس کی سند کو “جیّد” قرار دیا ہے،

اس کے راوی عبد العزیز بن محمد الدراوردی المدنی رحمہ اللہ کو علامہ زیلعی حنفی اورجمہور محدثین کرام نے ثقہ و صدوق قرار دیا ہے،
یہ صحیح مسلم کے راوی ہیں ۔

ان کو امام مالک
(الجرح والتعدیل لابن ابي حاتم : 5/395، وسندہٗ صحیح)،
امام عجلی(تاریخ العجلي : 1016)
، امام یحییٰ بن معین (تاریخ عثمان بن سعید الدارمي : 389)،
امام علی بن مدینی(سوالات محمد بن عثمان بن شیبۃ : 160)
وغیرہم نے ثقہ قرار دیا ہے اور کسی امام نے ان کو واضح طور پر “ضعیف” نہیں کہا،

*پہلا اعتراض*

اسکے باوجود بعض نے بلا وجہ ان پر اعتراض کیا ہے کہ جی انکی ملاقات ثابت نہیں ہوئی،
حالانکہ اس حدیث کے راوی محمد بن عبد اللہ بن حسن (ثقہ) کا ابو الزناد عبد اللہ بن ذکوان سے سماع و لقاء ممکن ہے ۔
ابو الزناد کی وفات 130 ہجری
(طبقات الخلیفۃ : ص259)
اور ایک روایت کے مطابق 131 ہجری
(التاریخ الصغیر للبخاري : 2/27)میں ہوئی جبکہ محمد بن عبد اللہ باتفاق 145 ہجری میں فوت ہوئے ۔ معلوم ہوا کہ یہ دونوں معاصر ہیں اور دونوں مدنی ہیں، لہٰذا ان کی آپس میں ملاقات ممکن ہے ۔

*اس حدیث پر دوسرا اعتراض*

کچھ کا اعتراض ہے کہ راویوں سے اس جگہ قلب ، یعنی عبارت کی تقدیم و تاخیر ہو گئی ہے۔ اصل میں ولیضع رکبتیہ قبل یدیہ (اُسے چاہیے کہ اپنے ہاتھوں سے پہلے اپنے گھٹنے رکھے)تھا ،غلطی سے ولیضع یدیہ قبل رکبتیہ (اُسے چاہیے کہ اپنے گھٹنوں سے پہلے اپنے دونوں ہاتھ رکھے)سے بدل گیا،

اعتراض کا جواب :
یہ دعویٰ بلا دلیل ہے جو کہ ناقابل مسموع ہے،
اس بارے میں
📚ملا علی قاری حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وقول ابن القیّم أنّ حدیث أبي ھریرۃ انقلب متنہ علی روایہ فیہ نظر، إذ لو فتح ھذا الباب لم یبق اعتماد علی روایۃ راو مع کونھا صحیحۃ .
“علامہ ابن القیم رحمہ اللہ کا یہ کہنا محلِ نظر ہے کہ سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کا متن راویوں سے بدل گیا ہے ، کیونکہ اگر یہ دروازہ کھول دیا جائے تو کسی راوی کی کسی بھی صحیح روایت پر اعتماد نہیں رہے گا ۔”
(مرقاۃ المفاتیح : 1/552)

*دوسری دلیل*

📚ایک روایت کے الفاظ ہیں :
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،يَعْمِدُ أَحَدُكُمْ فَيَبْرُكُ فِي صَلَاتِهِ بَرْكَ الْجَمَلِ“
تم میں سے کوئی نماز میں بیٹھنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس طرح بیٹھتا ہے جس طرح اونٹ بیٹھتا ہے؟
(سنن ابي داؤد حدیث نمبر_:841)
(سنن النسائي : 1093)
( سنن الترمذي : 269، )
(مسند الدارمي : 1327، وسندہٗ صحیح)
حافظ نووی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو “جیّد” کہا ہے ۔
(خلاصۃ الاحکام : 1/403)

وضاحت:
حدیث میں لفظ «یعمد» سے پہلے ہمزۂ استفہام مقدر ہے اسی وجہ سے ترجمہ میں”کیا“ کا اضافہ کیا گیا ہے اور یہ استفہام انکاری ہے مطلب یہ ہے کہ اس طرح نہ بیٹھا کرو،

*ایک اشکال اور اس کا ازالہ*

کہ اونٹ کے گھٹنے تو پاؤں میں ہوتے اور آگے والے تو ہاتھ ہوتے ہیں،

📚امام طحاوی حنفی رحمہ اللہ کی کلام سے یہ اشکال دُور ہو جاتا ہے ۔
وہ لکھتے ہیں : إنّ البعير ركبتاه في يديه، وكذلك في سائر البهائم، وبنوا آدم ليسوا كذلك، فقال : لا يبرك على ركبتيه اللتين في رجليه كما يبرك البعير على ركبتيه اللتين في يديه، ولكن يبدأ فيضع أوّلا يديه اللّتين ليس فيهما ركبتان، ثمّ يضع ركبتيه، فيكون ما يفعل في ذلك بخلاف ما يفعل البعير .
“اس میں کوئی شک نہیں کہ اونٹ کے دونوں گھٹنے اس کے دونوں ہاتھوں میں ہوتے ہیں ۔ دیگر چوپاؤں میں بھی معاملہ اسی طرح ہے ۔ انسانوں میں ایسا نہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ نمازی اپنے گھٹنے جو ٹانگوں میں ہیں ، اُن پر نہ بیٹھے جیسے اونٹ اُن گھٹنوں پر بیٹھتا ہے جو اس کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں ۔ انسان کو چاہیے کہ وہ پہلے اپنے ہاتھ رکھے جن میں گھٹنے نہیں ہوتے ، پھر گھٹنے رکھے ۔ اس طرح انسان کا یہ عمل اونٹ کے خلاف ہو جائے گا۔
”(شرح معاني الآثار للطحاوی: 1/254، 255)

📚یہ کہنا کہ اونٹ کے گھٹنے ہاتھوں میں نہیں ہوتے ، یہ لغت میں غیر معروف بات ہے ۔ جبکہ اس کے برعکس کبار ائمہ لغت نے تصریح کر رکھی ہے کہ اونٹ کے گھٹنے اس کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں ۔ اس حوالے سےملاحظہ فرمائیں
(تھذیب اللغۃ للازھري : 10/216،)
(المحکم لابن سیدہ : 7/16،)
( لسان العرب لابن منظور : 1/223،)
( غریب الحدیث للسرقسطي : 2/70،) (المحلّی لابن حزم : 4/124، وغیرہا)

📚علامہ سندھی حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : فإن قيل : كيف شبّه وضع الركبتين قبل اليدين ببروك الجمل مع أنّ الجمل يضع يديه قبل رجليه، قلنا : لأنّ ركبة الإنسان في الرجل، وركبة الدوابّ في اليد، فإذا وضع ركبتيه أوّلا فقد شابه الجمل في البروك، کذا في المفاتیح
“اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ گھٹنوں کو ہاتھوں سے پہلے رکھنے کو اونٹ کے بیٹھنے کے ساتھ تشبیہ کیسے دی گئی ہے جبکہ اونٹ بیٹھتے وقت ٹانگوں سے پہلے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر رکھتا ہے تو ہمارا جواب یہ ہے کہ انسان کا گھٹنا ٹانگ میں ہے جبکہ جانوروں کا ہاتھ میں ۔ جب انسان بیٹھنے سے پہلے گھٹنے رکھے گا تو بیٹھنے میں اونٹ سے مشابہت ہو جائے گی ۔ یہی بات المفاتیح میں ہے۔”
(حاشیۃ السندي علی النسائي : 2/207)

*دلیل نمبر 3*

📚سیّدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں روایت ہے :
أنَّهُ كان يضعُ يدَيْه قبلَ ركبتَيه وقال كان النبيُّ ﷺ يفعلُ ذلكَ
آپ رضی اللہ عنہما اپنے دونوں ہاتھ گھٹنوں سےپہلے رکھتے تھے اور بیان کرتے تھے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کیا کرتے تھے ۔”
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم : 1/226،)
( شرح معاني الآثار للطحاوي : 1/254)
( سنن الدارقطني : 1/343، ح : 1288،)
( السنن الکبرٰی للبیہقي : 2/100، وسندہٗ حسن)
امام ابنِ خزیمہ رحمہ اللہ (627) نے اس حدیث کو “صحیح” کہا ہے اور امام حاکم رحمہ اللہ نے اسے امام مسلم رحمہ اللہ کی شرط پر “صحیح” قرار دیا ہے ۔
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
دیگر محدثین نے بھی اس روائیت کس صحیح کہا ہے،

(شعيب الأرنؤوط (١٤٣٨ هـ)، تخريج زاد المعاد ١/٢٢١ • إسناده صحيح)
(العظيم آبادي (١٣٢٩ هـ)، عون المعبود ٣/٤٣ • إسناده حسن)
(الألباني (١٤٢٠ هـ)، إرواء الغليل ٢/٧٧ • صحيح على شرط مسلم

تنبیہ :
🚫سیّدنا ابنِ عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں یہ روایت بھی ملتی ہے :
إنّہ کان یضع رکبتیہ قبل یدیہ، ویرفع یدیہ إذا رفع قبل رکبتیہ .
“آپ اپنے گھٹنے ہاتھوں سے پہلے زمین پر رکھتے تھے اور جب سجدے سے سر اُٹھاتے تو اپنے ہاتھ گھٹنوں سے پہلے اُٹھا لیتے تھے۔”
(مصنف ابن ابي شیبۃ : 1/262)

تبصرہ :
اس کی سند “ضعیف” ہے ۔ اس میں ابنِ ابی لیلیٰ راوی جمہور محدثین کرام کے نزدیک “ضعیف ” اور کمزور حافظے والا ہے۔

*دلیل نمبر4*

📚 امام حسن بصری رحمہ اللہ سجدے کو جاتے وقت پہلے ہاتھ رکھتے تھے ۔
(مصنف ابن ابي شیبۃ : 1/262، وسندہٗ صحیح)

*دلیل نمبر 5*

📚 معمر بیان کرتے ہیں :
سئل قتادۃ عن الرجل إذا انصبّ من الرکوع یبدأ بیدیہ ؟ فقال : یضع أھون ذلک علیہ .
“امام قتادہ سے سوال کیا گیا کہ جو شخص رکوع (سے کھڑا ہونے)کے بعد سجدے کو جائے ، کیا وہ اپنے ہاتھ پہلے رکھے ؟ فرمایا : ایسا ہی کرے ۔ یہ آسانی والا معاملہ ہے۔ ”
(مصنف ابن ابي شیبۃ : 1/262، وسندہٗ صحیح)

*نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم، عمل مبارک اور سلف صالحین سے یہ ثابت ہوا کہ سجدے کو جاتے وقت پہلے ہاتھ زمین پر رکھنے چاہئیں پھر گھٹنے اور اسی میں آسانی ہے*

____________&_____________

*جو لوگ سجدے کو جاتے وقت پہلے گھٹنے رکھنے کے قائل ہیں، ان کے دلائل کا مختصر، علمی اور تحقیقی جائزہ پیشِ خدمت ہے*

دلیل نمبر 1 :

📚سیّدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
رأیت النبيّ صلّی اللّہ علیہ وسلّم إذا سجد وضع رکبتیہ قبل یدیہ، وإذا نھض رفع یدیہ قبل رکبتیہ .“میں نے نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ۔ آپ جب سجدے کو جاتے تو اپنے ہاتھوں سے پہلے گھٹنوں کو زمین پر رکھتے اور جب سجدےسے اُٹھتے تو گھٹنوں سے پہلے اپنے ہاتھوں کو اُٹھاتے۔”
(سنن ابي داوٗد : 838،)
( سنن النسائي : 1090،)
( سنن الترمذي : 268)
(سنن ابن ماجہ : 883)
اس حدیث کوامام ترمذی رحمہ اللہ نے “حسن” قرار دیا ہےاورامام ابنِ خزیمہ رحمہ اللہ (629) اور امام ابنِ حبان رحمہ اللہ (1909)نے “صحیح” کہا ہے ۔

🚫تبصرہ :
اس کی سند “ضعیف”ہے ۔ اس میں شریک بن عبداللہ القاضی راوی “مُدَلِّس” ہیں اور وہ “عن” کے لفظ سے روایت کر رہے ہیں،

امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی سند کو “ضعیف” قرار دیا ہے۔
(السنن الکبرٰی للبیہقي : 2/100)

📚اس کی ایک متابعت ھمام بن یحییٰ :
حدّثنا محمّد بن جحادۃ عن عبد الجبّار ابن وائل عن أبیہ کی سند سے مروی ہے ۔
(سنن ابي داوٗد : 839)

🚫لیکن یہ سند انقطاع کی وجہ سے “ضعیف”ہے۔ عبد الجبار نےاپنے والد سے سماع نہیں کیا،

📚علامہ نووی رحمہ اللہ اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں : حدیث ضعیف، لأنّ عبد الجبّار بن وائل اتّفق الحفّاظ علی أنّہ لم یسمع من أبیہ شیئا ولم یدرکہ .
“یہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ حفاظ محدثین کا اتفاق ہے کہ عبد الجبار بن وائل نے اپنے والد وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث بھی نہیں سنی نہ اُن کا زمانہ پایا ہے۔”
(المجموع شرح المھذب للنووي : 3/446)

📚دوسری متابعت ھمام :
حدّثنا شقیق : حدّثنی عاصم بن کلیب عن أبیہ کی سند سے مروی ہے ۔
(سنن ابي داوٗد : 839)

🚫اس کی سند میں شقیق ابولیث راوی “مجہول” ہے ۔
اُسے امام طحاوی حنفی
(شرح معاني الآثار : 1/255) ،
حافظ ذہبی (میزان الاعتدال : 2/279)
اور حافظ ابنِ حجر(تقریب التھذیب : 2819)
نے “مجہول” قرار دیا ہے۔
لہٰذا یہ سند بھی “ضعیف” ہے ۔

دلیل نمبر 2 :
📚سیّدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
صلّیت خلف رسول اللّہ صلّی اللّہ علیہ وسلّم، ثمّ سجد، وکان أوّل ما وصل إلی الأرض رکبتاہ
“میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز پڑھی ۔ آپ نے سجدہ کیا تو آپ کے جسم میں سے سب سے پہلے دونوں گھٹنے زمین پر لگے۔”
(السنن الکبرٰی للبیہقي : 2/99)

🚫تبصرہ :
اس کی سندسخت “ضعیف” ہے ۔ محمد بن حجر الحضرمی “ضعیف” راوی ہے ۔ اس کےبارے میں امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : فیہ نظر .
(التاریخ الکبیر للبخاري : 1/69)

1_ امام ابنِ حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یروي عن عمّہ سعید بن عبد الجبّار عن أبیہ وائل بن حجر بنسخۃ منکرۃ ۔۔۔۔ لا یجوز الاحتجاج بہ .
“یہ اپنے چچا سعید بن عبد الجبار کے واسطے سے سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے ایک منکر نسخہ روایت کرتا ہے— اس کی حدیث سے دلیل لینا جائز نہیں۔”(المجروحین : 2/284)

2_ اس میں دوسری علّت یہ ہے کہ عبد الجبار کی والدہ “مجہولہ” ہے ۔
ابنِ ترکمانی حنفی لکھتے ہیں :ھي أم یحیٰی، لم أعرف حالھا ولا اسمھا .
“یہ ام یحییٰ ہے ۔ مجھے اس کے حالات یا اس کے نام کا علم نہیں ہوسکا۔”
(الجوھر النقي : 2/30)

3_تیسری علّت یہ ہے کہ اس کا راوی سعید بن عبد الجبار بھی “ضعیف” ہے۔
(تقریب التھذیب لابن حجر : 2344)

دلیل نمبر 3 :
سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : إذا سجد أحدکم فلیبدأ برکبتیہ قبل یدیہ، ولا یبرک“جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو اُسے چاہیے کہ وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے شروع کرے ۔ اونٹ کی طرح نہ بیٹھے ۔”
(شرح معاني الآثار للطحاوي : 1/255، مصنف ابن ابي شیبۃ : 1/262)

🚫تبصرہ :
یہ روایت موضوع(من گھڑت) ہے ۔ اس کی سند میں عبد اللہ بن سعید المقبری راوی “متروک” ہے ۔
(تقریب التھذیب لابن حجر : 3356)
یہ راوی بالاجماع “ضعیف و متروک” ہے ۔
حافظ نووی (خلاصۃ الاحکام : 1/404)
اور حافظ ابنِ حجر(فتح الباري : 2/291) نے اس حدیث کو “ضعیف” قرار دیا ہے ۔

دلیل نمبر 4 :
📚 سیّدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
کنّا نضع الیدین قبل الرکبتین، فأمرنا بالرکبتین قبل الیدین . “شروع میں ہم ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے رکھا کرتے تھے ، پھر ہمیں گھٹنوں کو ہاتھوں سے پہلے رکھنے کا حکم دے دیا گیا۔”
(صحیح ابن خزیمۃ : 628)

🚫تبصرہ :
اس کی سند سخت ترین “ضعیف”ہے ، کیونکہ :
1_اس کی سند میں ابراہیم بن اسماعیل بن یحییٰ بن سلمہ بن کہیل راوی “ضعیف” ہے ۔ (تقریب التھذیب لابن حجر : 149)
2_ابراہیم کا باپ اسماعیل بن یحییٰ بن سلمہ بن کہیل راوی “متروک” ہے ۔
(تقریب التھذیب لابن حجر : 493)
3_اسماعیل کا باپ یحییٰ بن سلمہ بن کہیل بھی “متروک” ہے ۔
(تقریب التھذیب لابن حجر : 7561)
اس نہایت “ضعیف” روایت کی بنیاد پر منسوخیّت کا دعویٰ بالکل غلط ہے ۔

دلیل نمبر 5 :
📚 سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ۔ آپ سجدے کے لیے اللّہ اکبر کہہ کر جُھکے تو گھٹنے ہاتھوں سے پہلے زمین پر رکھے ۔
(سنن الدارقطني : 1/345، المستدرک للحاکم : 1/266، السنن الکبرٰی للبیہقي : 2/99، المحلّی لابن حزم : 4/129)

🚫تبصرہ :
اس کی سنددرج ذیل وجوہ کی بنا پر “ضعیف” ہے :
1_اس میں العلاء بن اسماعیل العطار راوی “مجہول” ہے ۔
اس کو حافظ ابن القیم
(زاد المعاد : 1/229)،
حافظ ابنِ عبد الہادی
(تنقیح التحقیق : 579)
اور حافظ ابنِ حجر (التلخیص الحبیر : 1/271) نے “مجہول” قرار دیا ہے

۔لہٰذا امام حاکم رحمہ اللہ وغیرہ کا اس حدیث کی سند کو “صحیح” کہنا اور حافظ ذہبی کا ان کی موافقت کرنا تساہل پر مبنی ہے۔

2_اس کی سند میں حفص بن غیاث کی “تدلیس” بھی موجود ہے ۔ سماع کی تصریح ثابت نہیں ہو سکی ۔

3_اس حدیث کو امام ابو حاتم رحمہ اللہ نے “منکر” قرار دیا ہے ۔
(العلل : 1/188)

دلیل نمبر 6 :
📚سیّدنا ابنِ عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں ہے :
إنّہ خرّ بعد رکوعہ علی رکبتیہ کما یخرّ البعیر، وضع رکبتیہ قبل یدیہ .
“آپ رکوع کے بعد (سجدے کے لیے)اپنے گھٹنوں کے بل اس طرح گرے جیسے اونٹ گرتا ہے ۔ آپ نے اپنے گھٹنے ہاتھوں سے پہلے زمین پر رکھے۔”
(شرح معاني الآثار للطحاوي : 1/256)

🚫تبصرہ :
اس کی سند “ضعیف” ہے ۔ اس میں ابراہیم نخعی “مدلس” ہیں جو کہ بصیغۂ عن روایت بیان کر رہے ہیں ۔ سماع کی تصریح ثابت نہیں ہے ۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی ابراہیم نخعی بیان کرتے ہیں کہ آپ ہاتھوں سے پہلے گھٹنے زمین پر رکھتے تھے ۔ (مصنف ابن ابي شیبۃ : 1/262)
اس کی سند “ضعیف” ہے ۔ اس میں سلیمان بن مہران اعمش راوی “مدلس” ہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ ابراہیم نخعی کی روایت سیدناعمر رضی اللہ عنہ سے منقطع ہوتی ہے ۔ امام ابوزرعہ اور امام ابو حاتم الرازی  فرماتے ہیں کہ ابراہیم نخعی کی روایت سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ سے “مرسل” ہوتی ہے۔
(کتاب المراسیل لابن ابي حاتم : 10)

دلیل نمبر 7 :
📚سیّدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہے :
إنّ رکبتیہ کانتا تقعان إلی الأرض قبل یدیہ .“آپ کے دونوں گھٹنے زمین پر ہاتھوں سے پہلے پڑتے تھے ۔”
(شرح معاني الآثار للطحاوي : 1/256)

🚫تبصرہ :
اس کی سند دو وجہ سے “ضعیف”ہے :
ایک تو اس میں حجاج بن ارطاۃ راوی جمہور محدثین کرام کے نزدیک “ضعیف” ہے ۔ دوسرے اس میں ابراہیم نخعی کی “تدلیس” ہے ۔ نیز ان کا سیّدنا ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع بھی ثابت نہیں ۔

دلیل نمبر 8 :
📚ابو اسحاق السبیعی بیان کرتے ہیں کہ سیّدنا ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگرد جب سجدے کے لیے جُھکتے تو ان کے گھٹنے ہاتھوں سے پہلے زمین پر لگتے تھے ۔
(مصنف ابن ابي شیبۃ : 1/263)

🚫تبصرہ :
یہ قول “ضعیف”ہے ، کیونکہ :
1_ابومعاویہ الضریر راوی “مدلس” ہیں ۔
ان کے سماع کی تصریح نہیں ملی ۔
2_حجاج بن ارطاۃ راوی “ضعیف و مدلس” ہے ۔

دلیل نمبر 9 :
📚 مغیرہ بن مقسم بیان کرتے ہیں : سألت ابراھیم عن الرجل یبدأ بیدیہ قبل رکبتیہ إذا سجد، فقال : أو یصنع ذلک إلّا أحمق أو مجنون
“میں نے ابراہیم نخعی سے اس شخص کے بارے میں پوچھا جو سجدہ کرتے وقت پہلے اپنے ہاتھ رکھتا ہے پھر گھٹنے ۔ آپ نے فرمایا :یہ کام تو کوئی احمق یا مجنون ہی کر سکتا ہے۔”
(شرح معاني الآثار للطحاوي : 1/256، وسندہٗ صحیح)

🚫تبصرہ :
امام ابراہیم نخعی کا یہ قول نبی ٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم مبارک اور عمل مبارک ، نیز سیّدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے فعل کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابلِ التفات ہے ۔ ہر ایک کے قول و عمل کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر پیش کیا جائے ۔ اگر موافق ہو تو لے لیا جائے گا ورنہ ترک کر دیا جائے گا ۔ خوب یاد رہے کہ کسی صحابی سے سجدے کو جاتے ہوئے ہاتھوں سے پہلےگھٹنے رکھنا ثابت نہیں ۔ اگرچہ بعض محدثین کرام کی رائے یہ ہے کہ پہلے گھٹنے رکھنے چاہئیں لیکن حدیث ِ مصطفٰے پر عمل کرنا ہی صحیح ہے،
______________&________

سعودی فتاویٰ کمیٹی سے یہ سوال کیا گیا تو انکا جواب یہ تھا کہ،

اہل علم کی سجدے کیلئے جانے کے انداز میں مختلف آراء ہیں،
یعنی: کہ پہلے ہاتھ زمین پر رکھے جائیں یا پہلے گھٹنے رکھے جائیں،

📚چنانچہ اس بارے میں ابو حنیفہ ، شافعی، اور احمد [رحمہم اللہ]کی ایک روایت کے مطابق نمازی اپنے ہاتھ زمین پر رکھنے سے پہلے گھٹنے زمین پر رکھے، بلکہ ترمذی رحمہ اللہ نے اس عمل کو اکثر اہل علم کی طرف منسوب کیا ہے، چنانچہ امام ترمذی اپنی سنن ترمذی: (2/57) میں کہتے ہیں:
“اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، اور ان کا خیال ہے کہ اپنے ہاتھوں سے پہلے گھٹنے زمین پر رکھے، اور جس وقت اٹھے تو ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے اٹھائے،

اس موقف کے قائلین نے وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی روایت کو دلیل بنایا ہے، آپ کہتے ہیں: “میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ سجدہ کرتے تھے اپنے گھٹنے ہاتھوں سے پہلے رکھتے، اور جب کھڑے ہوتے تھے اپنے ہاتھ گھٹنوں سے پہلے اٹھاتے” اس روایت کو ابو داود، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

اور دارقطنی (1/345)اس کے بارے میں کہتے ہیں:
🚫”یہ حدیث شریک سے صرف یزید بن ہارون نے ہی بیان کی ہے، پھر عاصم بن کلیب سے شریک کے علاوہ کوئی اور بیان نہیں کرتا، جبکہ خود شریک قوی راوی نہیں ہے”
بیہقی رحمہ اللہ سنن (2/101)میں کہتے ہیں:
“اس حدیث کی سند ضعیف ہے”
البانی رحمہ اللہ نے اسے مشکاۃ (898) میں، اور ارواء الغلیل: (2/75) میں ضعیف قرار دیا ہے۔
جبکہ دیگر اہل علم جن میں ابن قیم رحمہ اللہ بھی شامل ہیں وہ اپنی کتاب : “زاد المعاد” میں اس حدیث کو صحیح کہتے ہیں۔
اسی طرح جن علمائے کرام نے ہاتھوں سے پہلے گھٹنے رکھنے کا موقف اپنایا ہے، ان میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ، اور انکے شاگرد رشید ابن قیم ، اور موجودہ علمائے کرام میں سے شیخ عبد العزیز بن باز ، اور شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہم اللہ جمیعا ہیں۔

📚جبکہ دوسری طرف مالک، اوزاعی، اور محدثین اس بات کے قائل ہیں کہ ہاتھوں کو قدموں سے پہلے زمین پر رکھنا شرعی عمل ہے، اس کیلئے انہوں نے

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو دلیل بنایا ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو [سجدہ کیلئے]ایسے مت [جھکے جیسے] اونٹ بیٹھتا ہے، بلکہ اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے زمین پر رکھے)
اس حدیث کو احمد: (2/381)،
ابو داود، ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ نووی رحمہ اللہ “المجموع”(3/421) میں کہتے ہیں:
“اس حدیث کو ابو داود اور نسائی نے جید سند کیساتھ روایت کیا ہے”
اس حدیث کے بارے میں البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“یہ سند صحیح ہے، اس سند کے تمام راوی ثقات راوی ہیں اور صحیح مسلم کے ہیں ماسوائے محمد بن عبد اللہ بن حسن کے یہ راوی “نفس الزکیہ” کے لقب سے مشہور ہے، لیکن یہ بھی ثقہ ہیں ”
(ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد)

*لہٰذا قوی دلائل سے ثابت ہو گیا ہے کہ سجدہ کو جاتے وقت پہلے ہاتھ اور بعد میں گھٹنے رکھنے چاہئیں ۔ پہلے گھٹنے رکھنے کے بارے میں جتنی بھی احادیث اور جتنے بھی آثار ہیں ، وہ سارے کے سارے “ضعیف” اور ناقابل عمل ہیں*

اللہ تعالی حق پر عمل کی توفیق عطا فرمائے ! آمین

(( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

🌹اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

2 تبصرے “سوال_ نماز میں سجدہ کے لیے جھکتے ہوئے پہلے ہاتھ زمین پر رکھنے چاہییں یا گھٹنے؟ صحیح احادیث سے وضاحت کریں..!!!

Leave a Reply to محسن شاہ Cancel reply