1,122

سوال- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا اور علی (رض) کے والد ابو طالب کی موت ایمان کی حالت میں ہوئی یا کفر پر؟ قرآن و حدیث سے وضاحت کریں!!

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-202”
سوال- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا اور علی (رض) کے والد ابو طالب کی موت ایمان کی حالت میں ہوئی یا کفر پر؟ قرآن و حدیث سے وضاحت کریں!!

Published Date:2-2-2019

جواب:
الحمدللہ:

*نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے والد ابو طالب کے دل میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبی محبت تھی، انہوں نے ہر طرح سے ہر موڑ پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سپورٹ کیا، لیکن اس سب کے باوجود بھی اللہ پاک نے انکو ہدایت نہیں دی، نا ہی انہوں نے کلمہ پڑھا اور انکے بارے میں صحیح روایات سے یہ بات ثابت ہے کہ انکا خاتمہ کفر پر ہوا تھا*

اللہ پاک قرآن میں فرماتے ہیں!

📚أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنَّكَ لَا تَهۡدِىۡ مَنۡ اَحۡبَبۡتَ وَلٰـكِنَّ اللّٰهَ يَهۡدِىۡ مَنۡ يَّشَآءُ‌ؕ وَهُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُهۡتَدِيۡنَ
ترجمہ:
بیشک تو ہدایت نہیں دیتا جسے تو دوست رکھے اور لیکن اللہ ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو زیادہ جاننے والا ہے۔

تفسیر:
ارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام لوگوں کے بیحد خیر خواہ تھے اور ان کے ایمان لانے کی شدید خواہش رکھتے تھے۔ خصوصاً آپ کے دل میں اپنے قرابت داروں کے متعلق صلہ رحمی کے جذبے کی وجہ سے یہ خواہش اور بھی زیادہ تھی۔ اس مقام پر اہل کتاب کے ان لوگوں کا ذکر آیا جو کتاب اللہ کی تلاوت سنتے ہی ایمان لے آئے، تو قدرتی طور پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طبیعت کا اس بات سے متاثر ہونا لازمی تھا کہ نسبتاً دور والے ایمان لانے میں بازی لے گئے اور میرے قرابت دار حتیٰ کہ عزیز چچا ابو طالب اس نعمت سے محروم رہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی کہ اس معاملے میں آپ کی دعوت یا خیر خواہی میں کوئی کمی نہیں، بلکہ بات یہ ہے کہ ہدایت آپ کے اختیار میں نہیں، اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور وہی زیادہ جانتا ہے کہ ہدایت پانے والے کون ہیں، اہل کتاب ہیں یا عرب، اقارب ہیں یا دور کے رشتہ دار۔ (بقاعی) کسی اور کو علم ہی نہیں کہ ہدایت کسے دینی ہے، تو وہ ہدایت کیا دے گا ؟

*تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ یہ آیت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا ابو طالب کے بارے میں اتری*

📚 سعید بن مسیب کے والد بیان کرتے ہیں :جب ابو طالب کی وفات کا وقت آیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے پاس آئے اور اس کے پاس ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ کو پایا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اے چچا ! تو ” لا الٰہ الا اللہ “ کہہ دے، یہ ایسا کلمہ ہے جس کے ذریعے سے میں تیرے لیے اللہ کے پاس جھگڑا کروں گا۔ “ تو ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا : ” کیا تو عبدالمطلب کی ملت سے بےرغبتی کرتا ہے۔ “ چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے سامنے یہی بات پیش کرتے رہے اور وہ دونوں اپنی وہی بات دہراتے رہے، حتیٰ کہ ابوطالب نے ان سے آخری بات جو کی وہ یہ تھی : ” عبد المطلب کی ملت پر (مر رہا ہوں) ۔ “ اور اس نے ” لا الٰہ الا اللہ “ کہنے سے انکار کردیا۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ کی قسم ! میں ہر صورت تیرے لیے استغفار کروں گا، جب تک مجھے منع نہ کردیا گیا۔ “ تو اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی : (مَا كَان للنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِيْنَ وَلَوْ كَانُوْٓا اُولِيْ قُرْبٰى) [ التوبۃ : ١١٣ ] ” اس نبی اور ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے، کبھی جائز نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا کریں، خواہ وہ قرابت دار ہوں۔ “ اور اللہ عزوجل نے ابوطالب کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کر کے فرمایا : (اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ) ” بیشک تو ہدایت نہیں دیتا جسے تو دوست رکھے اور لیکن اللہ ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے۔ “
(صحیح بخاری حدیث نمبر-4772)

*بعض لوگوں کو اصرار ہے کہ ابوطالب اسلام پر فوت ہوا*

ان کا کہنا یہ ہے کہ عبدالمطلب ملت ابراہیم پر تھے اور ” عَلٰی مِلَّۃِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ “ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ” میں ملت ابراہیم پر فوت ہو رہا ہوں “ لہٰذا وہ مسلمان تھا۔ مگر حدیث کے الفاظ ” اور اس نے لا الٰہ الا اللہ کہنے سے انکار کردیا “ کے بعد اس تاویل کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی،

ابو طالب کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بے حد محبت تھی، اس نے ہر طرح سے آپ کی حفاظت اور آپ کا دفاع کیا، مگر اس کی محبت طبعی یعنی قرابت اور نسب کی وجہ سے تھی، ایمانی محبت نہ تھی، اس لیے ہدایت نصیب نہ ہوسکی،

اگرچہ یہ آیت ابوطالب کے بارے میں اتری مگر اصولی طور پر اس کا حکم عام ہے اور اس میں ہر وہ شخص شامل ہے جس کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خواہش تھی کہ وہ ایمان لے آئے، مگر اس نے کفر پر مرنے کو ترجیح دی۔ مزید دیکھیے سورة توبہ (١١٣)

یہاں فرمایا : (اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ )
اور دوسری جگہ فرمایا : (وَاِنَّكَ لَـــتَهْدِيْٓ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ )
[سورہ الشورٰی : 52 ]”
اور بلاشبہ تو یقیناً سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ “ پہلی آیت میں ہدایت سے مراد منزل مقصود پر پہنچا دینا ہے۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کا کام ہے، یہ کسی اور کا کام نہیں۔ دوسری آیت میں ہدایت سے مراد راستہ دکھانا ہے، یہ کام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی سر انجام دیتے تھے۔

(تفسیر القرآن الکریم – سورۃ نمبر 28 القصص – آیت نمبر 56)

📚 سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، بیان کرتے ہیں: “رسول اللہ ﷺ نے اپنے چچا (ابو طالب) سے کہا: آپ لا اٰلہ الا اللہ کہہ دیں۔ میں قیامت کے روز اس کلمے کی وجہ سے آپ کے حق میں گواہی دوں گا۔ اُنہوں نے جواب دیا: اگر مجھے قریش طعنہ نہ دیتے کہ موت کی گھبراہٹ نے اسے آمادہ کردیا ہے تو میں یہ کلمہ پڑھ کر آپ کی آنکھیں ٹھنڈی کردیتا۔
اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی: ﴿یقینا جسے آپ چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے، البتہ جسے اللہ چاہے ہدایت عطا فرمادیتا ہے۔(سورہ القصص: 56)
(صحیح مسلم: حدیث نمبر- 25)

📚سیدنا عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے کہا تھا: “اے اللہ کے رسول !
کیا آپ نے ابو طالب کو کوئی فائدہ دیا؟
وہ تو آپ کا دفاع کیا کرتے تھے اور آپ کے لیے دوسروں سے غصے ہوجایا کرتے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں ! (میں نے انہیں فائدہ پہنچایا ہے) وہ اب بالائی طبقے میں ہیں۔ اگر میں نہ ہوتا تو وہ جہنم کے نچلے حصے میں ہوتے۔”
(صحیح البخاری:حدیث نمبر-3883)
( صحیح مسلم: حدیث نمبر- 209)

📚سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: “انہوں نے نبیٔ اکرم ﷺ کو سنا۔ آپ کے پاس آپ کے چچا (ابو طالب) کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا: شاید کہ اُن کو میری سفارش قیامت کے دن فائدہ دے اور اُن کو جہنم کے بالائی طبقے میں رکھا جائے جہاں عذاب صرف ٹخنوں تک ہو اور جس سے (صرف) اُن کا دماغ کھولے گا۔”
(صحیح البخاری:حدیث نمبر_ 3885)
(صحیح مسلم: حدیث نمبر-209)

📚سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”جہنمیوں میں سے سب سے ہلکے عذاب والے شخص ابو طالب ہوں گے۔ وہ آگ کے دو جوتے پہنے ہوں گے جن کی وجہ سے اُن کا دماغ کھول رہا ہوگا۔”
(صحیح مسلم:حدیث نمبر_212)

📚خلیفہ راشد سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنه بیان کرتے ہیں: “جب میرے والد فوت ہوئے تو میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: آپ کے چچا فوت ہوگئے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جاکر دفنا دیں۔ میں نے عرض کی: یقینا وہ مشرک ہونے کی حالت میں فوت ہوئے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جائیں اور انہیں دفنا دیں، لیکن جب تک میرے پاس واپس نہ آئیں کوئی نیا کام نہ کریں۔ میں نے ایسا کیا، پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے مجھے غسل کرنے کا حکم فرمایا۔”
(مسند الطیالسی: ص ۱۹،ح۱۲۰ وسندہ حسن متصل)

📚ایک روایت کے الفاظ ہیں:
“سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ کا بوڑھا گمراہ چچا مر گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جاؤ اور اپنے باپ کو گاڑ کر آؤ، اور میرے پاس واپس آنے تک بیچ میں اور کچھ نہ کرنا ، تو میں گیا، اور انہیں مٹی میں دفنا کر آپ کے پاس آ گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے غسل کرنے کا حکم دیا تو میں نے غسل کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے دعا فرمائی۔ ۔”
(سنن ابی داؤد: 3214)
( سنن النسائی: حدیث نمبر-2008)
واللفظ له، و سندہ حسن)
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ (کما في الاصابة لابن حجر: ۱۱۴/۷)
اور امام ابن جارود رحمہما اللہ (۵۵۰) نے “صحیح” قرار دیا ہے۔

*یہ حدیث نص قطعی ہے کہ ابو طالب مسلمان نہیں تھے۔ اس پر نبیٔ اکرم ﷺ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نمازِ جنازہ تک نہیں پڑھی*

📚سیدنا اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کا انتہائی واضح بیان ملاحظہ ہو: “عقیل اور طالب دونوں ابو طالب کے وارث بنے تھے، لیکن (ابو طالب کے بیٹے) سیدنا جعفر اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما نے اُن کی وراثت سے کچھ بھی نہیں لیا کیونکہ وہ دونوں مسلمان تھے جبکہ عقیل اور طالب دونوں کافر تھے۔ ” اسی بنیاد پر عمر بن خطاب رضی فرمایا کرتے تھے کہ مسلمان کافر کا وارث نہیں بنتا،
(صحیح البخاری: حدیث نمبر_1588)
صحیح مسلم: 1614 مختصراً)

*یہ روایت بھی بیّن دلیل ہے کہ ابو طالب کفر کی حالت میں فوت ہوگئے تھے۔ اسی لیے عقیل اور طالب کے برعکس سیدنا جعفر اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما اُن کے وارث نہیں بنے*

📚 کیونکہ نبیٔ اکرم ﷺ کا فرمانِ عالیشان ہے: “نہ مسلمان کافر کا وارث بن سکتا ہے نہ کافر مسلمان کا۔”
(صحیح البخاری: 6764)
( صحیح مسلم: 1614)

*ابو طالب کے ایمان لائے بغیر فوت ہونے پر رسول اللہ ﷺ کو بہت صدمہ ہوا تھا۔ وہ یقیناً پوری زندگی اسلام دوست رہے۔ اسلام اور پیغمبر اسلام کے لیے وہ ہمیشہ اپنے دل میں ایک نرم گوشہ رکھتے رہے لیکن اللہ کی مرضی کہ وہ اسلام کی دولت سے سرفراز نہ ہو پائے۔ اس لیے ہم اُن کے لیے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھنے کے باوجود دُعاگو نہیں ہوسکتے*

📚حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ ابو طالب کے کفر پر فوت ہونے کا ذکر نے کے بعد لکھتے ہیں: “اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں مشرکین کے لیے استغفار کرنے سے منع نہ فرمایا ہوتا تو ہم ابو طالب کیلئے استغفار کرتے اور اُن کیلئے رحم کی دُعا بھی کرتے!”
(سیرۃ الرسول لابن کثیر: ۱۳۲/۲)

*ان تمام احادیث سے یہ بات ثابت ہوئی کہ ابو طالب کفر کی حالت مین مرا تھا*
_______&________

*ایک ضعیف روایت کی تحقیق*

🚫سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
“جب ابو طالب نے اپنے( ایمان کے) بارے میں رسول اللہ ﷺ کی حرص دیکھی تو کہا: اے بھتیجے ! اللہ کی قسم، اگر مجھے اپنے بعد آپ اور آپ کے بھائیوں پر طعن و تشنیع کا خطرہ نہ ہوتا، نیز قریش یہ نہ سمجھتے کہ میں نے موت کے ڈر سے یہ کلمہ پڑھا ہے تو میں کلمہ پڑھ لیتا۔ میں صرف آپ کو خوش کرنے کیلئے ایسا کروں گا۔ پھر جب ابو طالب کی موت کا وقت آیا تو عباس نے ان کو ہونٹ ہلاتے ہوئے دیکھا۔ انہوں نے اپنا کان لگایا اور (رسول اللہ ﷺ سے ) کہا: اےبھتیجے ! یقیناً میرے بھائی نے وہ بات کہہ دی ہے جس کے کہنے کا آپ نے اُنہیں حکم دیا تھا۔”
(السیرۃ لابن ھشام: ۴۱۷/۱، ۴۱۸،)
( المغازي لیونس بن بکیر: ص ۲۳۸)
(دلائل النبوۃ للبیھقي: ۳۴۶/۲)

*سخت ضعیف:*
یہ روایت سخت”ضعیف” ہے

کیونکہ:
📚 حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: “اس حدیث کی سند کا ایک راوی نا معلوم ہے۔ اس کے برعکس صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو طالب کفر کی حالت میں فوت ہوئے۔”
(تاریخ ابن عساکر: ۳۳/۶۶)

📚حافظ بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
” ھٰذا إسنادمنقطع ۔۔۔۔”الخ ،
یہ سند منقطع ہے۔۔۔۔۔
(تاریخ الاسلام: ۱۵۱/۲)

📚حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“إن في السند مبھما لا یعرف حاله، وھو قول عن بعض أھله، وھذا إبھام في الاسم و الحال، و مثله یتوقف فیه لو انفرد…….. و الخبر عندي ما صح لضعف في سندہ”
اس کی سند میں ایک مبہم راوی ہے، جس کے حالات معلوم نہیں ہوسکے، نیز یہ اُس کے بعض اہل کی بات ہے جو کہ نام اور حالات دونوں میں ابہام ہے۔ اس جیسے راوی کی روایت اگر منفرد ہو تو اس میں توقف کیا جاتا
ہے۔۔۔ میرے نزدیک یہ روایت سند کے ضعیف ہونے کی بنا پر صحیح نہیں۔ (البدایة و النھایة لابن کثیر: ۱۲۳/۳ ۔ ۱۲۵)

📚حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: “بسند فیه لم یسم…… و ھذا الحدیث لو کان طریقه صحیحا لعارضه ھذا الحدیث الذی ھو أصح منه فضلا عن أنه لا یصح.”
یہ روایت ایسی سند کے ساتھ مروی ہے جس میں ایک راوی کا نام ہی بیان نہیں کیا گیا…. اس حدیث کی سند اگر صحیح بھی ہو تو یہ اپنے سے زیادہ صحیح حدیث کے معارض ہے۔ اس کا صحیح نہ ہونا مستزاد ہے۔
(فتح الباری لابن حجر: ۱۸۴/۷)

📚علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: “في سند ھذا الحدیث مبھم لا یعرف حاله، وھذا إبھام في الاسم و الحال، و مثله یتوقف فیه لو انفرد.”
اس حدیث کی سند میں ایک مبہم راوی ہے جس کے حالات معلوم نہیں ہوسکے۔ نام اور حالات دونوں مجہول ہیں۔ اس جیسے راوی کی روایت اگر منفرد ہو تو اس میں توقف کیا جاتا ہے۔
(شرح ابي داؤد للعیني الحنفي: ۱۷۲/۶)

*ایک شبہ کا ازالہ*
اسی طرح کچھ لوگ کہتےہیں کہ ابو طالب نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح پڑھایا تھا لہذا وہ مسلمان تھا،
پہلی تو یہ بات کسی مستند روایت سے ثابت نہیں اور اگر ثابت بھی ہے تو یہ اسلام سے پہلے کا نکاح تھا، اور اس وقت کے رائج طریقے سے پڑھا گیا اس سے ابو طالب کے مسلمان ہونے یا نا ہونے کا کوئی تعلق ہی نہیں بنتا،کیونکہ جب انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت پر کلمہ ہی نہیں پڑھا تو انکے مسلمان ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا…!!!
_____&________

*اللہ پاک صحیح معنوں میں دین اسلام کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائیں آمین*

(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )

🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں