849

سوال_کیا عورت کے لیے چہرے کا پردہ لازمی ہے؟ کچھ لوگ کہتے ہیں عورت چہرے کا پردہ نہیں کرے گی؟ قرآن و سنت سے رہنمائی فرمائیں..!!

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-180″
سوال_کیا عورت کے لیے چہرے کا پردہ لازمی ہے؟ کچھ لوگ کہتے ہیں عورت چہرے کا پردہ نہیں کرے گی؟ قرآن و سنت سے رہنمائی فرمائیں..!!

Published Date: 3-1-2018

جواب..:
الحمدللہ..!

*عورت کے لیے چہرے کا پردہ لازم ہے اور اس پر قرآن و سنت میں بہت سے دلائل موجود ہیں،جب کہ اس کے برعکس کچھ لوگوں نے جانے انجانے میں چہرے کے پردے کو غیر ضروری قرار دے کر امت کو گمراہی کی طرف دکھیل دیا ہے جسکی وجہ سے آج امت مسلمہ میں کئی خواتین چہرے کے پردے کو واجب نہیں سمجھتیں اور کئی نے تو اس فتویٰ سے ناجائز فائیدہ اٹھا کر پردے کو بالکل ترک کر دیا ہے آج ہم ان شاءاللہ اس مسئلہ کو قرآن و حدیث اور سے ثابت کریں گے کہ عورت کے لیے چہرے کا پردہ بھی واجب ہے*

*قرآن کریم سے پہلی دلیل*

اللہ پاک قرآن میں فرماتے ہیں!!

🌹بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَقُلْ لِّـلۡمُؤۡمِنٰتِ يَغۡضُضۡنَ مِنۡ اَبۡصَارِهِنَّ وَيَحۡفَظۡنَ فُرُوۡجَهُنَّ وَلَا يُبۡدِيۡنَ زِيۡنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنۡهَا‌ وَلۡيَـضۡرِبۡنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُيُوۡبِهِنَّ‌ۖ وَلَا يُبۡدِيۡنَ زِيۡنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوۡلَتِهِنَّ اَوۡ اٰبَآٮِٕهِنَّ اَوۡ اٰبَآءِ بُعُوۡلَتِهِنَّ اَوۡ اَبۡنَآٮِٕهِنَّ اَوۡ اَبۡنَآءِ بُعُوۡلَتِهِنَّ اَوۡ اِخۡوَانِهِنَّ اَوۡ بَنِىۡۤ اِخۡوَانِهِنَّ اَوۡ بَنِىۡۤ اَخَوٰتِهِنَّ اَوۡ نِسَآٮِٕهِنَّ اَوۡ مَا مَلَـكَتۡ اَيۡمَانُهُنَّ اَوِ التّٰبِعِيۡنَ غَيۡرِ اُولِى الۡاِرۡبَةِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفۡلِ الَّذِيۡنَ لَمۡ يَظۡهَرُوۡا عَلٰى عَوۡرٰتِ النِّسَآءِ‌ۖ وَلَا يَضۡرِبۡنَ بِاَرۡجُلِهِنَّ لِيُـعۡلَمَ مَا يُخۡفِيۡنَ مِنۡ زِيۡنَتِهِنَّ‌ ؕ وَتُوۡبُوۡۤا اِلَى اللّٰهِ جَمِيۡعًا اَيُّهَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ
ترجمہ:
اور آپ مومن عورتوں كو كہہ ديجئے كہ وہ بھى اپنى نگاہيں نيچى ركھيں اور اپنى شرمگاہوں كى حفاظت كريں، اور اپنى زينت كو ظاہر نہ كريں، سوائے اسكے جو ظاہر ہے، اوراپنے گريبانوں پر اپنى اوڑھنياں ڈالے رہيں، اور اپنى آرائش كو كسى كے سامنے ظاہر نہ كريں، سوائے اپنے خاوندوں كے، يا اپنے والد كے، يا اپنے سسر كے، يا اپنے بيٹوں كے، يا اپنے خاوند كے بيٹوں كے، يا اپنے بھائيوں كے، يا اپنے بھتيجوں كے، يا اپنے بھانجوں كے، يا اپنے ميل جول كى عورتوں كے، يا غلاموں كے، يا ايسے نوكر چاكر مردوں كے جو شہوت والے نہ ہوں، يا ايسے بچوں كے جو عورتوں كے پردے كى باتوں سے مطلع نہيں، اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار كر نہ چليں كہ انكى پوشيدہ زينت معلوم ہو جائے،
اے مسلمانو! تم سب كے سب اللہ كى جانب توبہ كرو، تا كہ تم نجات پا جاؤ
(سورہ النور،آئیت نمبر-31)

تفسیر_
وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا :
چونکہ مردوں کے لیے عورتوں سے بڑا فتنہ کوئی نہیں، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَا تَرَکْتُ بَعْدِيْ فِتْنَۃً أَضَرَّ عَلَی الرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ )
[ بخاري، النکاح، باب ما یتقي من شؤم المرأۃ۔۔ : ٥٠٩٦، عن أسامۃ بن زید ]
” میں نے اپنے بعد مردوں پر کوئی فتنہ عورتوں سے زیادہ نقصان پہنچانے والا نہیں چھوڑا۔ “ اس لیے اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو نگاہیں نیچی رکھنے کے علاوہ اپنی زینت چھپانے کا بھی حکم دیا، چناچہ فرمایا کہ مومن عورتوں سے کہہ دے کہ (ان کے ایمان کا تقاضا ہے کہ) اپنی کچھ نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر جو اس میں سے ظاہر ہوجائے۔

زینت کا معنی جمال اور حسن ہے۔ یہ دو قسم کی ہے، ایک فطری حسن و جمال اور دوسری جو بناؤ سنگار، زیبائش و آرائش اور زیور وغیرہ سے حاصل ہوتی ہے۔
لباس بھی زینت ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
(خُذُوْا زِيْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ )
[ الأعراف : ٣١ ]
” ہر نماز کے وقت اپنی زینت لے لو۔

“ اس میں زینت کا معنی لباس ہی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا حکم یہ ہے کہ عورتیں اپنی کوئی زینت ظاہر نہ کریں مگر جو خود ظاہر ہوجائے، یعنی انھیں اپنے بدن اور اس کے بناؤ سنگھار میں سے کوئی چیز ظاہر کرنا جائز نہیں مگر وہ کپڑے جنھیں چھپایا جا ہی نہیں سکتا، یا وہ زینت جو کسی کام یا حرکت کی وجہ سے بےاختیار ظاہر ہوجائے۔
” الصحیح المسبور من التفسیر بالمأثور “ میں ہے : ”
🌹طبری نے صحیح اسانید کے ساتھ عبداللہ بن مسعود (رض) سے بیان کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا :
”(وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ ) قَالَ ھِيَ الثِّیَابُ “ یعنی اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے کہ ” وہ اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر جو اس میں سے ظاہر ہوجائے “ اس سے مراد کپڑے ہیں۔ “ حاکم نے اسے روایت کیا اور اسے صحیح کہا ہے اور ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔
(مستدرک حاکم : ٢؍٣٩٧، ح : ٣٤٩٩) اور طبرانی (٩١١٦) نے بھی اسے روایت کیا ہے۔ ہیثمی نے مجمع الزوائد (٧؍٨٢) میں فرمایا : ” طبرانی نے اسے کئی اسانید کے ساتھ مطول اور مختصر روایت کیا ہے، جن میں سے ایک سند کے راوی صحیحین (بخاری و مسلم) کے راوی ہیں۔ “

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ” اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا “ سے مراد چہرہ اور ہتھیلیاں ہیں، بلکہ انھوں نے اس کے ساتھ بالیاں، کنگن، انگوٹھی، سرمہ اور منہدی بھی شامل کردی ہے اور یہ کہا ہے کہ عورتوں کا چہرہ اور ہتھیلیاں مع زیور و آرائش وہ زینت ہے جو عورتوں کے لیے اپنوں اور بیگانوں سب کے سامنے ظاہر کرنا جائز ہے۔ یہ لوگ دلیل کے طور پر ابن عباس (رض) کا قول پیش کرتے ہیں کہ ” اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا “ سے مراد چہرہ اور ہتھیلیاں ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ یہ لوگ نہ ابن عباس (رض) کا قول پورا پیش کرتے ہیں اور نہ پردے کے متعلق ان کے دوسرے اقوال پیش نظر رکھتے ہیں

*چہرے کے پردے کے متعلق ابن عباس (رض) کا موقف طبری نے مشہور حسن سند (علی بن ابی طلحہ عن ابن عباس) کے ساتھ بیان کیا ہے، لطف یہ ہے کہ ” اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا “ کی تفسیر جو چہرے کے پردے کے منکر ابن عباس (رض) سے نا مکمل بیان کرتے ہیں، وہ بھی اسی سند کے ساتھ مروی ہے۔*

🌹 ابن عباس (رض) نے اللہ تعالیٰ کے فرمان : (يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۭ وَكَان اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا ) [ الأحزاب : ٥٩ ]
(اے نبی ! اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دے کہ وہ اپنی چادروں کا کچھ حصہ اپنے آپ پر لٹکا لیا کریں۔ یہ زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچانی جائیں تو انھیں تکلیف نہ پہنچائی جائے اور اللہ ہمیشہ سے بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے) کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا :
( أَمَرَ اللّٰہُ نِسَاءَ الْمُؤْمِنِیْنَ إِذَا خَرَجْنَ مِنْ بُیُوْتِھِنَّ فِيْ حَاجَۃٍ أَنْ یُّغَطِّیْنَ وُجُوْھَھُنَّ مِنْ فَوْقِ رُءُ وْسِھِنَّ بالْجَلَابِیْبِ وَ یُبْدِیْنَ عَیْنًا وَاحِدَۃً )
[ طبري : ٢٨٨٨٠]”
اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ کسی کام کے لیے گھروں سے باہر نکلیں تو اپنے چہروں کو اپنے سروں کے اوپر سے بڑی چادروں کے ساتھ ڈھانپ لیں اور ایک آنکھ کھلی رکھیں۔ “ ایسا شخص جو گھر سے باہر نکلتے ہوئے مومن عورتوں کے لیے صرف ایک آنکھ کھلی رکھنے کو اللہ کا حکم قرار دیتا ہے وہ عورتوں کے لیے چہرے اور ہاتھوں کو اپنوں اور بیگانوں کے سامنے کھلا رکھنے کی اجازت کیسے دے سکتا ہے ؟

حقیقت یہ ہے کہ ابن مسعود اور ابن عباس (رض) کے موقف میں کوئی اختلاف نہیں۔ عبداللہ بن مسعود نے ” اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا “ کی تفسیر اجنبیوں کے اعتبار سے فرمائی ہے اور ابن عباس (رض) نے ” اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا “ کی تفسیر اپنے لوگوں کے اعتبار سے فرمائی ہے۔

ابن مسعود (رض) کا مطلب یہ ہے کہ اجنبیوں کے سامنے ظاہری کپڑوں کے سوا کوئی زینت ظاہر نہ کریں

اور ابن عباس (رض) کا مطلب یہ ہے کہ ” زینت ظاہرہ “ (چہرہ اور ہاتھ) خاوند کے علاوہ اپنے محرموں کے سامنے بھی ظاہر کرسکتی ہیں، جس میں سرمہ، منہدی، بالیاں، کنگن، ہار سب کچھ شامل ہے۔

ان محرموں کا بیان آگے فرما دیا :
(وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَاۗىِٕهِنَّ اَوْ اٰبَاۗءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَاۗىِٕهِنَّ اَوْ اَبْنَاۗءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِيْٓ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِيْٓ اَخَوٰتِهِنَّ اَوْ نِسَاۗىِٕهِنَّ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُنَّ )
[ النور : ٣١ ]
البتہ زینت باطنہ (پیٹ، سینہ، ران اور مخفی حصے) صرف خاوند کے سامنے ظاہر کرسکتی ہیں۔

اب آپ ابن عباس (رض) کی ” اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا “ کی مکمل تفسیر پڑھیں، جس کا صرف شروع کا حصہ بیان کیا جاتا ہے۔

🌹طبری نے (علی بن ابی طلحہ عن ابن عباس سے) حسن سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ آیت : (وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ) کے متعلق ابن عباس (رض) نے فرمایا : ( وَالزِّیْنَۃُ الظَّاھِرَۃُ : الْوَجْہُ وَ کُحْلُ الْعَیْنِ وَ خِضَابُ الْکَفِّ وَ الْخَاتَمُ ، فَھٰذِہِ تَظْھَرُ فِيْ بَیْتِھَا لِمَنْ دَخَلَ مِنَ النَّاسِ عَلَیْھَا ) [ طبري : ٢٦١٧٠ ]”
زینت ظاہرہ سے مراد چہرہ، آنکھ کا سرمہ، ہتھیلی کی منہدی اور انگوٹھی ہے، چناچہ وہ یہ چیزیں اپنے گھر میں ان لوگوں کے سامنے ظاہر کرسکتی ہے جو اس کے پاس اندر آتے ہیں۔ “ ابن عباس (رض) پر اس سے بڑا ظلم کیا ہوگا کہ وہ یہ زینت گھر کے اندر اپنے لوگوں کے سامنے ظاہر کرنے کی بات کر رہے ہیں اور یہ حضرات سرمہ و منہدی، گلے کے ہار اور کنگن اور انگوٹھی سمیت چہرے اور ہتھیلیوں کو اپنوں اور بیگانوں سب کے سامنے کھلا رکھنے کو ابن عباس (رض) کا قول قرار دے رہے ہیں،

(تفسیر القرآن,سورہ النور آئیت نمبر-31)

*اس آيت سے عورت كے پردہ كے وجوب كى دلالت درج ذيل باتیں کرتی ہیں:*

ا ـ *پہلی بات*
اللہ سبحانہ و تعالى نے مومن عورتوں كو اپنى عفت و عصمت كى حفاظت كا حكم ديا ہے، اور عفت و عصمت كى حفاظت كا حكم ايسا معاملہ ہے جو اس كے وسيلہ كى حفاظت كے ساتھ ہوگا، اور كسى بھى عاقل شخص كو اس ميں شک نہيں كہ اس كے وسائل ميں چہرہ ڈھانپنا بھى شامل ہے، كيونكہ چہرہ ننگا ركھنا عورت كو ديكھنے، اور اس كے حسن و جمال ميں غور و فكر كرنے اور اس سے لذت حاصل كرنے كا سبب ہے، جس كے نتيجہ ميں وہاں تک پہنچنے كى كوشش اور رابطہ كيا جائيگا.

🌹اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” آنكھيں زنا كرتى ہيں، اور ان كا زنا ديكھنا ہے.،پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:” اور شرمگاہ اس كى تصديق كرتى ہے، يا پھر تكذيب كر ديتى ہے ”
(صحيح بخارى حديث نمبر_6612 )
(صحيح مسلم حديث نمبر_ 2657 )

تو جب چہرہ كا ڈھانپنا عفت و عصمت اور شرمگاہ كى حفاظت كے وسائل ميں سے ہے تو پھر ا سكا بھى حكم ہے، كيونكہ وسائل كو بھى مقاصد كے احكام حاصل ہيں.

٢_*دوسری بات*
اور اس آئیت میں جو اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور وہ اپنى اوڑھنياں اپنے گريبانوں پر اوڑھ كر ركھيں،

گريبان سر ڈالنے والا سوراخ ہے، اور الخمار اس چادر كو كہتے ہيں جس سے وہ اپنا سر ڈھانپتى ہے، تو جب عورت كو يہ حكم ہے كہ وہ اپنى اوڑھنى اپنے گريبان پر اوڑھيں تو عورت كو اپنا چہرہ چھپانے كا بھى حكم ہے، كيونكہ يا تو يہ اس سے لازم ہے، يا پھر قياس كے ساتھ، كيونكہ جب حلقوم اور سينہ چھپانے كا حكم ہے تو بالاولى چہرہ ڈھانپنے كا حكم ہے، كيونكہ يہ تو حسن و خوبصورتى اور جمال اور پرفتن جگہ ہے.

٣_*تیسری بات*
اللہ سبحانہ و تعالى نے ظاہرى زينت كے علاوں باقى سب زيبائش اور بناؤ سنگھار كو مطلقا ظاہر كرنے سے منع كيا ہے، اور ظاہرى زينت مثلا ظاہرى كپڑوں كا ظاہر ہونا تو ضرورى ہے،
اسى ليے اللہ تعالى نے ” الا ما ظھر منھا ” كے الفاظ بولے ہيں، اور يہ نہيں فرمايا:
” الا ما اظھر منھا ”

🌹بعض سلف مثلا ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنھما، اور ابن سيرين وغيرہ نے اللہ پاک کے اس قول” الا ما ظھر منھا ” كى تفسير چادر اور كپڑے، اور كپڑوں كے نيچى طرف سے ( يعنى اعضاء كے كنارے ) جو ظاہر ہوں كى ہے، پھر اللہ تعالى نے انہيں زينت ظاہر كرنے سے دوبارہ منع كيا ہے، ليكن جن كو اس سے استثنى كيا ہے ان كے سامنے ظاہر كر سكتى ہے، تو اس سے پتہ چلا كہ دوسرى زينت پہلى زينت كے علاوہ ہے، تو پہلى زينت سے مراد ظاہرى زينت ہے جو ہر ايک كے ليے ظاہر ہو گى جس كا چھپانا ممكن نہيں، اور دوسرى زينت سے مراد باطنى زينت ہے ( اور اس ميں چہرہ بھى ہے ) اور اگر يہ زينت ہر ايک كے سامنے ظاہر كرنى جائز ہوتى تو پھر پہلى زينت كو عام كرنے اور دوسرى كو استثنى كرنے ميں كوئى فائدہ معلوم نہيں ہوتا.

٤_ *چوتھی بات*
اللہ سبحانہ و تعالى نے اس آئیت میں
غير اولى الاربۃ مردوں كے سامنے زينت ظاہر كرنے كى رخصت دى ہے، اور غير اولى الاربہ وہ خادم ہيں جنہيں كوئى شہوت نہيں، اور وہ بچے ہيں جو شہوت كو نہيں پہنچے، اور نہ ہى عورتوں كى پردہ والى اشياء كى اطلاع ركھتے ہيں، ان الفاظ سے بھی عورت کے چہرہ چھپانا کا حکم صاف ملتا ہے کہ اگر ظاہری زینت کسی سے چھپانا ضروری نا ہوتا تو اللہ پاک ان دو طرح کے لوگوں کو خاص کیوں کرتے؟ کہ صرف غیر شہوت والے خادم اور بچوں سے ظاہری زینت نا بھی چھپائیں تو کوئی حرج نہیں،

*تو يہ بات دو چيزوں پر دلالت كرتی ہے*

1 – ان دو طرح کے مردوں كے علاوہ باطنى زينت كسى اور اجنبى اور غير محرم كے سامنے ظاہر كرنى جائز نہيں.

2 – حكم كى علت اور مدار عورت سے فتنہ اور اس سے تعلق پيدا ہونے كے خوف اور خدشہ پر مبنى ہے، کہ اور بلاشک و شبہ چہرہ حسن و جمال كا منبع اور پرفتن جگہ ہے، تو اس كا چھپانا واجب ہوا، تا كہ شہوت والے مرد اس سے فتنہ ميں نہ پڑيں،

٥_ *پانچویں بات*
اس آئیت میں اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان:
اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار كر نہ چليں كہ انكى پوشيدہ زينت معلوم ہو جائے

يعنى عورت اپنے پاؤں زمين پر مت مارے كہ جو اس نے خفيہ پازيب اور پاؤں ميں زيور پہن ركھا ہے ا نكى جھنكار سنائى دے، چنانچہ جب پازيب وغيرہ كى آواز سن كر مرد كے فتنہ ميں پڑنے كے خوف سے عورت كو زمين پر پاؤں مارنے سے منع كيا گيا ہے تو پھر چہرہ ننگا ركھنا كيسا ہوگا؟
ان دونوں ميں سے فتنہ كے اعتبار سے كونسى چيز بڑى ہے آيا عورت كے پازيب كى آواز جس كے متعلق يہ پتہ نہيں كہ وہ كيسى اور كتنى خوبصورت ہے، اور نہ ہى يہ علم ہے كہ آيا وہ نوجوان ہے يا بوڑھى ؟ اور نہ ہى يہ معلوم ہے كہ آيا وہ بدصورت ہے يا كہ خوبصورت ؟
يا كہ خوبصورتى و جمال اور نوجوانى سے بھرپور چہرے كو ديكھنا، اور پرفتن حسن و جمال كا نظارہ كرنا جو اس كى جانب ديكھنے كى دعوت دے رہا ہو ؟
ہر انسان جسے عورتوں ميں تھوڑى بھى خواہش ہے وہ يہ جانے كہ دونوں فتنوں ميں سے كونسا بڑا ہے، اور كون چھپانے اور مخفى ركھنے كا زيادہ حق ركھتا ہے؟
تو اسکو معلوم ہو جائے گا کہ سب سے سے بڑا فتنہ چہرہ ہی ہے جسے چھپانا واجب ہے،
_______&________

*قرآن کریم سے دوسرى دليل*

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
🌹بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَالۡـقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَآءِ الّٰتِىۡ لَا يَرۡجُوۡنَ نِكَاحًا فَلَيۡسَ عَلَيۡهِنَّ جُنَاحٌ اَنۡ يَّضَعۡنَ ثِيَابَهُنَّ غَيۡرَ مُتَبَـرِّجٰتٍ ۭ بِزِيۡنَةٍ‌ ؕ وَاَنۡ يَّسۡتَعۡفِفۡنَ خَيۡرٌ لَّهُنَّ‌ ؕ وَاللّٰهُ سَمِيۡعٌ عَلِيۡمٌ
ترجمہ:
اور عورتوں میں سے بیٹھ رہنے والیاں، جو نکاح کی امید نہیں رکھتیں سو ان پر کوئی گناہ نہیں کہ اپنے کپڑے اتار دیں، جب کہ وہ کسی قسم کی زینت ظاہر کرنے والی نہ ہوں اور یہ بات کہ (اس سے بھی) بچیں ان کے لیے زیادہ اچھی ہے اور اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے،
(سورہ النور،آئیت نمبر_60)

اس آئیت میں وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاۗءِ الّٰتِيْ لَا يَرْجُوْنَ نِكَاحًا ۔۔ :
بچوں کو بالغ ہونے کے بعد اجازت طلب کرنے کی پابندی کے ذکر کے بعد عورتوں کے سن یاس کو پہنچنے کے بعد ان کے لیے پردے کی پابندی میں تخفیف کا حکم بیان فرمایا۔ ، یعنی وہ عورتیں جو بڑی عمر کو پہنچ جائیں، انھیں نکاح کی رغبت نہ رہے، نہ دوسروں کو ان سے نکاح کی دلچسپی رہے، ان کے لیے رعایت ہے کہ وہ غیر محرم مردوں سے پردہ نہ کریں تو ان پر گناہ نہیں، بشرطیکہ وہ اپنی زینت کا اظہار کرنے والی نہ ہوں۔

*اس آیت سے معلوم ہوا کہ وہ عورتیں جن کے حسن و جمال میں مردوں کے لیے کشش باقی ہو، انھیں پردہ اتارنا جائز نہیں*

🌹طبری نے معتبر سند کے ساتھ علی بن ابی طلحہ کا قول نقل فرمایا ہے :
” آیت ” وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاۗءِ الّٰتِيْ لَا يَرْجُوْنَ نِكَاحًا “ کا مطلب یہ ہے کہ ایسی عورت پر گناہ نہیں کہ گھر میں قمیص اور دوپٹے کے ساتھ رہے اور بڑی چادر اتار دے، جب تک وہ زینت ظاہر نہ کرے، جسے ظاہر کرنا اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے۔ “
(طبری : ٢٦٤٠٩)
🌹 شاہ عبد القادر (رحمہ اللہ) لکھتے ہیں : ” یعنی بوڑھی عورتیں گھر میں تھوڑے کپڑوں میں رہیں تو درست ہے اور پورا پردہ رکھیں تو اور بہتر ہے۔ “ گھر سے باہر بھی اگر وہ برقع یا بڑی چادر نہ لیں تو حرج نہیں، بشرطیکہ وہ کسی قسم کی زینت کا اظہار نہ کر رہی ہوں۔۔

*اس آیت سے بھی چہرے کے پردے کا استدلال ہے*

*پہلی بات*
کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالى نے بڑى عمر كى بوڑھى عورتوں سے ايک شرط كے ساتھ گناہ كى نفى كى ہے جو زيادہ عمر ہو جانے كى بنا پر مردوں كى رغبت نہ ركھتے ہوئے نكاح كى خواہش نہيں ركھتيں، كہ اس سے انكى غرض بےپردگى اور زيب و زينت نہ ہو.
اور ان بوڑھى عورتوں كے ساتھ حكم كى تخصيص اس بات كى دليل ہے كہ نوجوان لڑكياں جو نكاح كرنا چاہتی ہيں وہ اس ميں مخالفت حكم ركھتى ہيں، اور اگر چادر اتارنے كا حكم سب كو عام ہوتا تو پھر ان بوڑھى عورتوں كى تخصيص كرنے كا كوئى فائدہ نہ تھا.

*دوسری بات*
اور اللہ تعالى کا کہنا:
بشرطيكہ وہ اپنا بناؤ سنگھار ظاہر كرنے والياں نہ ہوں ،
اس سے نكاح كى خواہش كرنے والى نوجوان لڑكى كے پردہ كرنے كے وجوب پر ايک اور دليل ملتى ہے كہ اس كے ليے غالب يہ ہے كہ جب وہ اپنا چہرہ ننگا كريگى تو وہ اپنا سنگھار اور خوبصورتى و جمال ظاہر كرنا چاہتى ہے، اور اپنى جانب مردوں كو متوجہ كرنا چاہتى ہے تا كہ وہ اس كى طرف ديكھيں، اور جو انکے علاوہ بوڑھی عورتیں ہیں جن کو یہ خواہش نہیں وہ اس حکم میں شامل نہیں ہیں، یعنی وہ چہرہ کھول سکتی ہیں،

_____&______

*قرآن سے تيسرى دليل:*
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

🌹بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
يٰۤـاَيُّهَا النَّبِىُّ قُلْ لِّاَزۡوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَآءِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ يُدۡنِيۡنَ عَلَيۡهِنَّ مِنۡ جَلَابِيۡبِهِنَّ ؕ ذٰ لِكَ اَدۡنٰٓى اَنۡ يُّعۡرَفۡنَ فَلَا يُؤۡذَيۡنَ ؕ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوۡرًا رَّحِيۡمًا
ترجمہ:
اے نبی ! اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دے کہ وہ اپنی چادروں کا کچھ حصہ اپنے آپ پر لٹکا لیا کریں۔ یہ زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچانی جائیں تو انھیں تکلیف نہ پہنچائی جائے اور اللہ ہمیشہ سے بےحد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
(سورہ الاحزاب،آئیت نمبر-59)
تفسیر:
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ ۔۔ : مسلمانوں کو ایذا دینے والوں کے لیے وعید کے بیان کے بعد مسلم عورتوں کو ایذا سے بچنے کے لیے پردے کی تاکید فرمائی۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹیاں ایک سے زیادہ تھیں۔ بعض لوگ فاطمہ (رض) کے علاوہ دوسری بیٹیوں کو آپ کی بیٹیاں تسلیم نہیں کرتے۔ ان کے کہنے کے مطابق نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹیوں سے مراد امت کی عورتیں ہیں، مگر یہ بات درست نہیں، کیونکہ آیت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں اور آپ کی بیٹیوں کے بعد مومنوں کی عورتوں کا الگ ذکر فرمایا ہے۔ ۔ ” وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِيْنَ “ میں مومنوں کی بیویوں کے علاوہ ان سے تعلق رکھنے والی تمام عورتیں، مثلاً ان کی مائیں، بہنیں، بیٹیاں، بھتیجیاں اور بھانجیاں وغیرہ سب شامل ہیں۔
” جَلَابِیْبُ “ ” جِلْبَابٌ“ کی جمع ہے، بڑی چادر جو جسم کو ڈھانپ لے۔ ” من “ کا لفظ تبعیض کے لیے ہے، یعنی اپنی چادروں کا کچھ حصہ۔ ” يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ “ ، ” أَدْنٰی یُدْنِيْ “ کا معنی قریب کرنا ہے، ” علیھن “ کے لفظ سے اس میں لٹکانے کا مفہوم پیدا ہوگیا۔ عرب کی عورتیں تمام جاہل معاشروں کی طرح سب لوگوں کے سامنے کھلے منہ پھرتی تھیں، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
” اے نبی ! اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں اور ایمان والوں کی عورتوں سے کہہ دے کہ اپنی چادروں کا کچھ حصہ اپنے آپ پر لٹکا لیا کریں۔ “
اس لٹکانے سے مراد کیا ہے ؟

🌹 طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ترجمان القرآن عبداللہ بن عباس (رض) سے نقل فرمایا :
” أَمَرَ اللّٰہُ نِسَاءَ الْمُؤْمِنِیْنَ إِذَا خَرَجْنَ مِنْ بُیُوْتِہِنَّ فِیْ حَاجَۃٍ أَنْ یُغَطِّیْنَ وُجُوْہَہُنَّ مِنْ فَوْقِ رُؤُوْسِہِنَّ بالْجَلاَبِیْبِ ، وَ یُبْدِیْنَ عَیْنًا وَاحِدَۃً “ [ طبري : ٢٨٨٨٠ ]
” اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی عورتوں کو حکم دیا کہ جب وہ کسی ضرورت کے لیے گھر سے نکلیں تو اپنے چہرے کو اپنے سروں کے اوپر سے پڑی چادروں کے ساتھ ڈھانپ لیں اور ایک آنکھ کھلی رکھیں۔،

🌹“ ام سلمہ (رض) نے فرمایا :
( لَمَّا نَزَلَتْ : (يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ ۭ ) خَرَجَ نِسَاءُ الْأَنْصَارِ کَأَنَّ عَلٰی رُءُ وْسِہِنَّ الْغِرْبَانَ مِنَ الْأَکْسِیَۃِ )
” جب یہ آیت ” يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ ۭ“ نازل ہوئی تو انصار کی عورتیں اس طرح نکلیں جیسے ان کے سروں پر (سیاہ) چادروں کی وجہ سے کوے ہوں۔ “
(سنن أبو داوٗد، اللباس، باب في قول اللّٰہ تعالیٰ : ( یدنین علیھن من جلا بیبھن : 4101، قال الألباني صحیح )

ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ :
یہاں ایک سوال ہے کہ اگر اپنے آپ پر چادروں کا کچھ حصہ اس طرح لٹکایا جائے کہ صرف ایک آنکھ کھلی رہے، چہرہ نظر ہی نہ آئے تو اس طرح تو عورت کی پہچان ہو ہی نہیں سکتی، پھر یہ فرمانے کا کیا مطلب ہے کہ ” یہ زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچانی جائیں تو انھیں تکلیف نہ پہنچائی جائے۔ ؟؟
تو جواب اس کا یہ ہے کہ پہچانی جائیں سے یہ مراد نہیں کہ یہ فلاں عورت ہے، بلکہ مراد یہ ہے کہ پردہ کرنے کی وجہ سے ان کی پہچان ہوجائے کہ یہ شریف اور باحیا عورتیں ہیں، پھر کوئی انھیں چھیڑنے کی جرأت نہیں کرے گا، نہ کسی کے دل میں انھیں اپنی طرف مائل کرنے کا لالچ پیدا ہو سکے گا۔ اس کے برعکس بےپردہ عورت کی کیا پہچان ہوسکتی ہے کہ وہ شریف ہے یا بازار میں پیش ہونے والا سامان، جسے کوئی بھی حاصل کرسکتا ہے۔ پردہ اتارنے کے بعد اسے ایذا سے محفوظ رہنے کے بجائے فاسق و فاجر لوگوں کی چھیڑ چھاڑ، زبردستی اور بعض اوقات اغوا کا منتظر رہنا چاہیے۔
3 بعض لوگ کہتے ہیں کہ چہرے کا پردہ نہیں، مگر یہ آیت ان کا رد کرتی ہے،۔
(سورہ الاحزاب آئیت نمبر_ 59
تفسیر القرآن )

معلوم ہوا کہ اس آئیت کی تفسیر میں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ: ” اللہ تعالى نے مومن كى عورتوں كو يہ حكم ديا كہ جب وہ اپنے گھروں سے ضرورت كے ليے باہر نكليں تو اوڑھنيوں كے ساتھ اپنے چہروں كو اپنے سروں كے اوپر سے ڈھانپ ليں، اور اپنى ايك آنكھ ظاہر ركھيں ”

*اور جليل القدر صحابى كى یہ تفسير چہرے کے پردے پر بہٹ بڑی حجت ہے، بلكہ بعض علماء كرام تو كہتے ہيں كہ:*

يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم تک مرفوع حديث كے حكم ميں ہے.
اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كا يہ قول كہ:
” وہ اپنى ايک آنكھ ظاہر كريں ” صرف ضرورت كى بنا پر اس كى رخصت دى گئى ہے، تا كہ وہ راستہ ديكھ سكيں، ليكن اگر ضرورت نہ ہو تو پھر اسے بھى ظاہر كرنا صحيح نہيں.
اور جلباب اس چادر كو كہتے ہيں جو دوپٹے كے اوپر ہوتى ہے، اور عبايا كے طور پر استعمال كى جاتى ہے.
_______&_________

*قرآن سے چوتھى دليل*

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
🌹بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
لَا جُنَاحَ عَلَيۡهِنَّ فِىۡۤ اٰبَآٮِٕهِنَّ وَلَاۤ اَبۡنَآٮِٕهِنَّ وَلَاۤ اِخۡوَانِهِنَّ وَلَاۤ اَبۡنَآءِ اِخۡوَانِهِنَّ وَلَاۤ اَبۡنَآءِ اَخَوٰتِهِنَّ وَلَا نِسَآٮِٕهِنَّ وَلَا مَا مَلَـكَتۡ اَيۡمَانُهُنَّ ۚ وَاتَّقِيۡنَ اللّٰهَ ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ شَهِيۡدًا‏
ترجمہ:
ان (عورتوں) پر کوئی گناہ نہیں اپنے باپوں (کے سامنے آنے) میں اور نہ اپنے بیٹوں کے اور نہ اپنے بھائیوں کے اور نہ اپنے بھتیجوں کے اور نہ اپنے بھانجوں کے اور نہ اپنی عورتوں کے اور نہ ان (کے سامنے آنے) میں جن کے مالک ان کے دائیں ہاتھ ہیں اور (اے عورتو ! ) اللہ سے ڈرو، بیشک اللہ ہمیشہ سے ہر چیز پر پوری طرح شاہد ہے۔
(سورہ الاحزاب آئیت نمبر-55)

اس آئیت کی تفسیر میں ابن كثير رحمہ اللہ كہتے ہيں:
جب اللہ تعالى نے عورتوں كو اجنبى اور غير محرم مردوں سے پردہ كا حكم ديا تو بيان كيا كہ ان قريبى رشتہ دار مردوں سے پردہ كرنا واجب نہيں،
جيسا كہ سورۃ النور ميں بھى انہيں استثناء كرتے ہوئے اللہ تعالى نےفرمايا ہے:
اور وہ اپنى زينت اور بناؤ سنگھار ظاہر مت كريں، مگر اپنے خاوندوں كے ليے ۔۔۔الخ

*اس میں بھی دلیل ہے کہ عورت غیر محرم سے پردہ کرے گی اور چہرہ چھپائے گی،کیونکہ اگر غیر محرم سے پردہ اور چہرہ چھپانا ضروری نا ہوتا تو ان محرم رشتوں کو خاص بیان کر کے ان سے پردہ نا کرنے کی رخصت نا دی جاتی*

*مختصر قرآنی دلائل کے بعد اب ہم احادیث سے چہرے کے پردے کے وجوب پر دلائل ذکر کرتے ہیں*

*پہلی دلیل*
🌹نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
جب تم ميں سے كوئى شخص بھى كسى عورت كو شادى كا پيغام بھيجے اور اس سے منگنى كرنا چاہے تو اس كے ليے اسے ديكھنے ميں كوئى گناہ نہيں، اگر وہ اسے منگنى كى غرض سے ديكھنا چاہتا ہو، چاہے وہ عورت كى لاعلمى ميں ہى اسے ديكھ لے ”
(اسے مسند احمد، ج4 ص244 نے روايت كيا ہے، مجمع الزوائد كے مؤلف كہتے ہيں: اس كے رجال صحيح كے رجال ہيں.
(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر-1864)

*اس سے وجہ دلالت:*
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے منگنى كرنے والے شخص سے گناہ كى نفى كى ہے، خاص كر اس شرط كے ساتھ كہ وہ اسے منگنى كى غرض سے ديكھے، جو اس كى دليل ہے كہ منگنى كے بغير ہر اجنبى عورت كو ديكھنے والا شخص ہر حالت ميں گناہ گار ہوگا، اور اسى طرح جب شادى كا پيغام بھيجنے والا شخص منگنى كرنے كى غرض كے بغير ہى لڑكى كو ديكھے تو بھى اسے گناہ ہوگا، مثلا كوئى شخص لذت اور فائدہ حاصل كرنے كے ليے ديكھے.

اور اگر يہ كہا جائے كہ: حديث ميں تو اس كا بيان ہى نہيں كہ وہ كيا چيز ديكھے، ہو سكتا ہے اس سے مراد سينہ اور گلا ہو ؟

اسكا جواب يہ ہے كہ:
ہر كوئى جانتا ہے كہ شادى كا پيغام دينے والے شخص كا مقصد خوبصورتى حاصل كرنا ہے، اور سارى خوبصورى چہرے ميں ہى ہوتى ہے، اور اس كے علاوہ جو كچھ ہے وہ چہرے كى خوبصورتى كے تابع ہے، ا سكا غالبا قصد ہى نہيں كيا جاتا، تو شادى كا پيغام دينے والا صرف عورت كے چہرہ كو ديكھےگا، كيونكہ بلا شك خوبصورتى چاہنے والے كے ليے فى ذاتہ يہى مقصود ہے.

*حدیث سے دوسرى دليل:*

🌹نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب عورتوں کو عید کے لیے نکلنے کا حکم دیا تو انھوں نے کہا :
( یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! إِحْدَانَا لَیْسَ لَھَا جِلْبَابٌ، قَالَ لِتُلْبِسْھَا صَاحِبَتُھَا مِنْ جِلْبَابِھَا )
(صحیح بخاري، الصلاۃ، باب وجوب الصلاۃ في الثیاب : حدیث نمبر- 351)
(صحیح مسلم حدیث نمبر-890)
یا رسول اللہ ! ہم میں سے کسی کے پاس بڑی چادر نہیں ہوتی ؟ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اس کی بہن اسے پہننے کے لیے کوئی اپنی بڑی چادر دے دے۔ “

اگر پردہ فرض نہ ہوتا تو ان کے سوال کا جواب تھا کہ دوپٹا ہی کافی ہے، بڑی چادر کی ضرورت نہیں۔
تو يہ حديث اس كى دليل ہے كہ صحابہ كرام كى عورتوں ميں عادت تھى كہ وہ چادر اور اوڑھنى كے بغير باہر نہيں نكلتى تھيں، اور چادر نہ ہونے كى حالت ميں ان كے ليے باہر نكلنا ممكن نہ تھا، اور بڑی چادر اور اوڑھنى اوڑھنے كے حكم ميں يہ دليل پائى جاتى ہے كہ چہرے کا پردہ كرنا لازمى ہے،

*حدیث سے تيسرى دليل:*

🌹 صحیح بخاری میں حضرت عائشہ (رض) کی لمبی حدیث ہے، جس میں وہ فرماتی ہیں کہ جب میں قافلہ سے پیچھے رہ گئی۔۔۔۔۔۔تو صفوان بن معطل (رض) لشکر کے پیچھے تھے، وہ صبح کے وقت جب اس جگہ پہنچے جہاں میں لیٹی ہوئی تھی، تو اس نے ایک سویا ہوا انسان دیکھا، پھر جب وہ میرے پاس آئے، تو اس نے مجھے پہچان لیا، کیونکہ وہ حجاب کا حکم نازل ہونے سے پہلے مجھے دیکھ چکے تھے، اور انا للّٰہ وان الیہ راجعون پڑھنے لگے جس سے میں جاگ گئی۔۔۔۔۔ تو میں نے اپنی بڑی چادر کے ساتھ اپنا چہرہ ڈھانپ لیا۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر_4141/،2661)

یہ حدیث صاف دلیل ہے کہ اگر حجاب کا حکم نازل ہونے سے پہلے انھوں نے ام المومنین کو نہ دیکھا ہوتا تو وہ کبھی نہ پہچان سکتے، کیونکہ حجاب کا حکم نازل ہونے کے بعد انھیں دیکھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا،

*حدیث سے چوتھى دليل:*

🌹ابن عمر رضى اللہ تعالى بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” جس نے بھى تكبر كے ساتھ كپڑا كھينچا اللہ تعالى روز قيامت اس كى جانب ديكھے گا بھى نہيں ”
یہ سن کر ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا كہنے لگيں:
تو پھر عورتيں اپنى لٹكتى ہوئى چادروں كا كيا كريں ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” وہ ايك بالشت تك اسے ٹخنوں سے نيچے لٹكا كر ركھيں ”
وہ كہنے لگيں:
” پھر تو ان كے پاؤں ننگے ہو جايا كرينگے ”
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” تو پھر وہ ايک ہاتھ نيچے لٹكا ليا كريں، اور اس سے زيادہ نا لٹکائیں،
(جامع ترمذى حديث نمبر ( 1731 )
(سنن نسائى حديث نمبر ( 5336 )
سنن ابو داود حديث نمبر ( 4117 )
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 3580 )
علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ترمذى ميں اس حديث كو صحيح قرار ديا ہے.

تواس حديث ميں عورت كے پاؤں ڈھانپنے كے وجوب كى دليل پائى جاتى ہے، اور اس كى دليل ہے كہ يہ چيز صحابہ كرام كى عورتوں ميں معلوم تھى، اور پھر بلا شک و شبہ پاؤں تو چہرے اور ہاتھ سے كم فتنہ و خرابى كے باعث ہيں، تو كم چيز كى تنبيہ اس سے بڑى چيز پر تنبيہ ہے، اور بڑی چیز اس كے حكم ميں اولى اور افضل ہے.
اور پھر شرعى حكمت اسكا انكار كرتى ہے كہ كم فتنہ اور خرابى كى باعث چيز كا تو پردہ ہو، اور اسے چھپايا اور ڈھانپا جائے، اور جو اس سے فتنہ و خرابى ميں بڑى اور زيادہ ہو اسے ننگا ركھنے كى اجازت دى جائے، يہ ايک ايسی متضاد بات ہے جو اللہ كى حكمت و شرع كے خلاف ہے، کہ وہ پاؤں کو چھپانے کو کا حکم تو دے اور چہرہ کھلا رکھنے کی اجازت دے

*حدیث سے پانچويں دليل:*

🌹عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:
” ہمارے پاس سے قافلہ سوار گزرتے اور ہم رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ احرام كى حالت ميں تھيں، تو جب وہ ہمارے برابر آتے تو ہم ميں سے عورتيں اپنى چادر اپنے سر سے اپنے چہرہ پر لٹكا ديتى، اور جب وہ ہم سے آگے نكل جاتے تو ہم چہرہ ننگا كر ديتيں ”
سنن ابو داود حديث نمبر ( 1833)
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2935 )
ابن خزيمہ نے ( 4 / 203 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے،
عبد المحسن العباد نے ابوداؤد کی شرح میں فرمایا : ” اس حدیث میں ایک راوی پر کلام کیا گیا ہے، اسی لیے البانی (رض) نے اسے ضعیف ابی داؤد میں ذکر کیا ہے، لیکن انھوں نے ” مشکوٰۃ “ میں اسے ” حسن “ کہا ہے اور ” حجاب المرأۃ المسلمۃ “ میں بھی حسن کہا ہے اور اسماء (رض) سے ایک صحیح سند کے ساتھ اس کا شاہد بھی ہے، چناچہ یہ حدیث اپنے شواہد کی وجہ سے صحیح ہے۔ “

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كا کہنا کہ
” جب وہ ہمارے برابر آتے ”
اس سے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى مراد قافلہ سوار ہيں,
اور يہ کہنا کہ
” ہم ميں سے عورتيں اپنے چہرے پر اپنى اوڑھنى لٹكا ليتى ”
يہ چہرے كہ پردہ كے واجب ہونے كى دليل ہے، كيونكہ احرام كى حالت ميں عورت كے ليے اپنا چہرہ ننگا ركھنا مشروع ہے، لیکن اسکے باوجود بھی جب کسی غیر محرم کے دیکھنے کا خدشہ ہوتا تو وہ چہرے پر چادر لٹکا لیتیں، اگر چہرے کا پردہ واجب نا ہوتا تو احرام کے دوران چہرہ چھپانے کی کیا ضرورت تھی؟

*حدیث سے چھٹی دلیل*

🌹 عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:” اللہ تعالى پہلى مہاجر عورتوں پر رحمت كرے جب اللہ تعالى نے يہ آيت نازل فرمائى: اور وہ اپنى چادريں اپنے گريبانوں پر لٹكا ليا كریں
تو انہوں نے اپنى چادريں دو حصوں ميں پھاڑ كر تقسيم كر ليں اور انہيں اپنے اوپر اوڑھ ليا ”
( صحیح بخاری حدیث نمبر-4759)
(سنن ابو داود حديث نمبر ( 4102 )

🌹حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کی شرح میں كہتےہيں:
اور اختمرن كا معنى يہ ہے كہ:
انہوں نے اپنے چہرے ڈھانپ ليے.
(ديكھيں: فتح البارى _8ج / ص490 )

*حدیث سے ساتویں دلیل*

🌹 عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” عورت ( سارى ) پردہ اور ستر ہے،
جب وہ نكلتى ہے تو شيطان اسے جھانكتا اور اس كا استقبال كرتا ہے ”
(سنن ترمذى حديث نمبر _1173 )
علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى حديث نمبر ( 936 ) ميں اسے صحيح كہا ہے،

*يہ سب قرآن و سنت میں سے چہرے کے پردے کے وجوب کے دلائل تھے،*

___________&________

*چہرے کے پردے پر سلف صالحین اور مفتیان کرام کے فتاویٰ جات*

🌹امام احمد رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” ظاہرى زينت كپڑے ہيں، اور ان كا كہنا ہے: عورت كى ہر چيز حتى كہ اس كا ناخن بھى ستر ميں شامل ہوتا ہے، اور حديث ميں آيا ہے كہ:
” عورت پردہ اور ستر ہے ”
اور يہ عورت كے سارے جسم كو عام ہے، اور اس ليے بھى كہ نماز ميں ہاتھوں كا چھپانا مكروہ نہيں، تو يہ بھى پاؤں كى طرح ستر ميں شامل ہوئے اور قياس ا سكا متقاضى تھا كہ اگر نماز ميں ننگا ركھنے كى ضرورت نہ ہو تو چہرہ بھى پردہ اور ستر ميں شامل ہے، ہاتھوں كے برخلاف.
ديكھيں: شرح العمدۃ ( 4 / 267 – 268 )

🌹امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں،

اور صحيح حديث ميں ثابت ہے كہ احرام كى حالت ميں عورت كو نقاب اور دستانے پہننا منع ہيں، اور يہ اس كى دليل ہے كہ جو عورتيں حالت احرام ميں نہ ہوتيں ان ميں نقاب اور دستانے پہننا معروف تھا، اور يہ چہرے اور ہاتھوں كا پردہ كرنے كا متقاضى ہے.

(ديكھيں: مجموع الفتاوى 15 / 371 – 372 )

🌹شیخ صالح المنجد رحمہ اللہ کہتے ہیں:

صحيح يہى ہے كہ عورت كو چہرہ اور ہاتھوں سميت اپنا سارا بدن پردہ ميں چھپانا چاہيے، بلكہ امام احمد رحمہ اللہ كى رائے تو يہ ہے كہ عورت كا ناخن بھى ستر ميں شامل ہے، اور امام مالك كا بھى يہى قول ہے ـ شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں ـ

…. امام احمد كا ظاہر مسلك يہى ہے كہ عورت كا سارا بدن ہى ستر ہے حتى كہ اس كا ناخن بھى، اور امام مالك رحمہ اللہ كا قول بھى يہى ہے.

(ديكھيں: مجموع الفتاوى الكبرى
( 22 / 110 )

🌹شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

” شرعى پردہ وہ ہے جو عورت كے ان اعضاء كو چھپائے جن كا اظہار كرنا حرام ہے، يعنى: جس كا چھپانا عورت كے ليے واجب ہے اسے چھپائے، اور اس ميں اولى اور سب سے پہلے چہرہ چھپانا ہے، كيونكہ يہى پرفتن اور رغبت كا مقام ہے.

عورت پر واجب ہے كہ وہ غير محرم مردوں سے اپنا چہرہ چھپائے… اس سے يہ علم ہوا كہ پردہ ميں سب سے اولى چيز چہرے كا پردہ ہے، اور كتاب و سنت اور صحابہ كرام اور آئمہ كرام كے اقوال ميں بھى اس كے دلائل موجود ہيں، جو عورت كے ليے غير محرم سے اپنا سارا جسم چھپانے كے وجوب پر دلالت كرتے ہيں ”

ديكھيں: فتاوى المراۃ المسلمۃ ( 1 / 391 – 392 )

🌹اور شيخ صالح الفوزان حفظہ اللہ كہتے ہيں:

” صحيح جس پر دلائل دلالت كرتے ہيں وہ يہى ہے كہ:

عورت كا چہرہ پردہ اور ستر ميں شامل ہے، اور عورت كے ليے چہرے كا پردہ كرنا واجب ہے، بلكہ عورت كے جسم ميں يہ سب سے زيادہ پرفتن مقام ہے؛ كيونكہ نظريں تو اكثر چہرے كى جانب ہى متوجہ ہوتى ہيں، اس ليے عورت ميں چہرہ سب سے زيادہ ستر والى جگہ ہے، اور اس كے ساتھ ساتھ شرعى دلائل بھى چہرے كے پردہ كرنے كے دلائل موجود ہيں.

ان دلائل ميں اللہ سبحانہ و تعالى كا درج ذيل فرمان بھى شامل ہے:

اور آپ مومن عورتوں كو كہہ ديجئے كہ وہ بھى اپنى نگاہيں نيچى ركھيں اور اپنى شرمگاہوں كى حفاظت كريں، اور اپنى زينت كو ظاہر نہ كريں، سوائے اسكے جو ظاہر ہے، اوراپنے گريبانوں پر اپنى اوڑھنياں ڈالے رہيں، اور اپنى آرائش كو كسى كے سامنے ظاہر نہ كريں، سوائے اپنے خاوندوں كے، يا اپنے والد كے، يا اپنے سسر كے، يا اپنے بيٹوں كے، يا اپنے خاوند كے بيٹوں كے، يا اپنے بھائيوں كے، يا اپنے بھتيجوں كے، يا اپنے بھانجوں كے، يا اپنے ميل جول كى عورتوں كے، يا غلاموں كے، يا ايسے نوكر چاكر مردوں كے جو شہوت والے نہ ہوں، يا ايسے بچوں كے جو عورتوں كے پردے كى باتوں سے مطلع نہيں، اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار كر نہ چليں كہ انكى پوشيدہ زينت معلوم ہو جائے، اے مسلمانو! تم سب كے سب اللہ كى جانب توبہ كرو، تا كہ تم نجات پا جاؤ النور ( 31 ).

اس آيت ميں بيان ہوا ہے كہ اوڑھنى كو اپنے گريبانوں پر لٹكا كر ركھيں، جس سے چہرہ ڈھانپنا لازم آتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!

چنانچہ احرام والى عورت اور غير احرام والى دونوں پر غير محرم اور اجنبى مردوں كى موجودگى ميں اپنا چہرہ ڈھانپنا واجب ہے؛ كيونكہ چہرہ ہى خوبصورتى و جمال كا مركز ہے، اور مردوں كے ديكھنے كى جگہ ہے…

(ديكھيں: فتاوى المراۃ المسلمۃ
( 1 / 396 – 397 )

🌹اور شيخ صالح الفوزان حفظہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:

” نقاب با برقع كے ساتھ جس ميں صرف آنكھوں كے ليے دو سوراخ ہوں چہرہ ڈھانپنے ميں كوئى حرج نہيں؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں بھى يہ چيز معروف تھے، اور صرف ضرورت كى بنا پر ايسا ہے، اور اگر صرف دونوں آنكھوں كے علاوہ كچھ ظاہر نہ ہو تو اس ميں كوئى حرج نہيں، خاص كر جب عورت كا اپنے معاشرہ ميں يہ برقع اور نقاب پہننا عادت ہو ”

ديكھيں: فتاوى المراۃ المسلمۃ ( 1 / 399 ).

_________&_______

اور آخری بات یہ ہے کہ:::

کہ شریعت نے ہمیشہ خرابیوں سے دور رہنے کا حکم دیا ہے اور جب ہم غير محرم اور اجنبى مردوں كے سامنے بے پردگى، اور عورت كا چہرہ ننگا ركھنے پر غور و فكر اور تامل كرتے ہيں تو ہم يہ اس كے نتيجہ ميں بہت سارى خرابياں ديكھتے ہيں، اور اگر يہ فرض بھى كر ليا جائے كہ اس ميں كوئى مصلحت پائى جاتى ہے، تو يہ ان خرابيوں كے مقابلہ ميں بہت ہى چھوٹى ہے.

بےپردگى كى خرابياں درج ذيل ہيں:

1 – فتنہ: اس ليے كہ عورت اپنے آپ كو ايسے فعل كے ساتھ فتنہ ميں ڈالتى ہے جو اس كے چہرہ كو خوبصورت اور بنا سنوار كر پيش كرتا ہے، اور اسے پرفتن بنا كر دوسروں كے سامنے لاتا ہے، اور يہ چيز شر و برائى اور فساد كے سب سے بڑے اسباب ميں سے ہے.

2 – عورت سے شرم و حياء ہى ختم ہو جاتى ہے، جو كہ ايمان كا حصہ ہے، اور پھر يہ شرم و حياء عورت كى فطرت كا تقاضا بھى تھا، عورت شرم و حياء ميں ضرب المثل تھى، اسى ليے كہا جاتا ہے:
اپنے پردہ ميں رہنے والى كنوارى عورت سے بھى زيادہ شرم والا ”
اور عورت سے شرم و حياء كا ختم ہو جانا اس كے ايمان ميں نقص كى نشانى ہے، اور جس فطرت پر وہ پيدا ہوئى ہے اس سے نكلنے كى علامت ہے.

3 – اس سے مرد بھى فتنہ كا شكار ہو جاتا ہے، اور خاص كر جب عورت خوبصورت، اور حسن و جمال والى ہو، اور وہ ہنسى مذاق اور اٹھكيلياں بھى كرتى ہو، جيسا كہ بہت سارى بےپردہ عورتيں مٹل مٹک كر چلتى اور كرتى ہيں، اور پھر شيطان تو انسان ميں اس طرح سرايت كرتا ہے جس طرح جسم ميں خون ہوتا ہے.

4 – مردوں كے ساتھ عورت كا اختلاط اور ميل جول:
كيونكہ جب عورت اپنے آپ كو چہرہ ننگا ركھنے اور بےپردہ گھومنے پھرنے ميں مردوں كے برابر سمجھےگى تو اس سے شرم و حياء كہا ملے گى اور نہ ہى وہ مردوں كے ساتھ دھكم پيل كرنے ميں شرمائيگى.
اور اس چيز ميں بہت زيادہ خرابى و فتنہ ہے،

🌹 امام ترمذى نے حمزہ بن ابو اسيد انصارى عن ابيہ كے طريق سے حديث روايت كي ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ ان كے باپ نے بيان كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم مسجد سے نكلے تو راہ ميں مرد عورتوں كے ساتھ مل گئے تو ،

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عورتوں كو فرمايا:
” تم ذرا پيچھے ہٹ جاؤ بعد ميں آنا، كيونكہ تمہيں راہ كے درميان چلنے كا حق نہيں، تم راستے كى كناروں كى طرف ہو كر چلا كر، تو عورت بالكل ديوار كے ساتھ ہو كر چلتى حتى كہ ديوار كے ساتھ چپک كر چلنے كى وجہ سے اس كے كپڑے ديوار كے ساتھ اٹک جاتے ”
(سنن ابو جديث نمبر _ 5272 )
علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح ابو داؤد ميں حسن قرار ديا ہے.
___________&_________

*لہذا ان تمام دلائل سے ثابت ہوا کہ عورت کے لیے چہرے کا پردہ بھی لازم ہے اور جو لوگ چہرے کے پردے کے منکر ہیں انکے پاس ایک بھی روایت ایسی نہیں جو دلیل بن سکے *

دعا ہے کہ اللہ پاک صحیح معنوں میں دین اسلام کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین

((واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)))

🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں