1,962

سوال_قربانی کرنے کے کتنے دن ہیں؟ کچھ لوگ چار دن کہتے ہیں اور کچھ تین دن؟ اور قربانی کے لیے افضل دن کونسا ہے؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-72”
سوال_قربانی کرنے کے کتنے دن ہیں؟ کچھ لوگ چار دن کہتے ہیں اور کچھ تین دن؟ اور قربانی کے لیے افضل دن کونسا ہے؟

Published Date:18-8-2018

جواب.!!
الحمدللہ…!

*قربانی کے دن تین ہیں یا چار اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے،کیونکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک قول اور کچھ دوسرے آثار سے تین دن قربانی کا ذکر ملتا ہے،*

*مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحیح احادیث، صحابہ کرام ،تابعین اور سلف صالحین کے صحیح اقوال اور خود حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دوسرے قول سے بھی قربانی کے چار دن ثابت ہیں*

*جس میں ایک دن دس ذوالحجہ کا اور تین دن ایام تشریق کے ہیں،لہذا جانور ذبح کرنے کے لیے قربانی کے چار دن ثابت ہیں*

دلائل ملاحظہ فرمائیں!!

🌷عن أَنسٍ ، قَالَ: نَهَى ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌عَنْ صَوْم سِتَّةِ أَيَّامٍ مِنَ السَّنَةِ: ثَلَاثَةَ أَيَّامِ التَّشْرِيق ، وَيَوْمَ الْفِطْرِ ، وَيَوْم الْأَضْحَى ، وَيَوْمَ الْجُمُعَة ، مُخْتَصَّةً مِنَ الْأَيَّام
انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سال میں چھ دن روزہ ركھنے سے منع فرمایا: تین دن ایامِ تشریق كے، ایک عیدالفطر كا دن، ایک عیدالاضحی كا دن اور خاص كیا ہوا جمعہ كا دن
(صحيح الجامع ،حدیث نمبر-6961)
(أخرجه الطيالسي في المسند_2219)
(سلسلہ الصحیحہ،حدیث نمبر-2398)

*یعنی عید الفطر اور عید الاضحی کے علاوہ تین دن ایام تشریق ہیں*

*دوسری حدیث*
🌷[عن أنس بن مالك:] نهى رسولُ اللهِ ﷺ عن صومِ أيامِ التشريقِ الثلاثةِ بعد يومِ النحرِ
الطحاوي (٣٢١ هـ)، شرح معاني الآثار
2ج/ ص245 • صحيح)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوم النحر(دس ذوالحجہ ) کے بعد ایام تشریق کے تین دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے،

*اس صحیح حدیث ثابت ہوا کہ ایام تشریق سے مراد دس ذوالحجہ کے بعد والے تین دن یعنی گیارہ،بارہ اور تیرہ ذوالحجہ ہیں*

🌷نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
“يوم عرفة ويوم النحر وأيام التشريق عيدنا أهل الإسلام، وهي أيام أكل وشرب”
عرفہ کا دن، قربانی کا دن،اور ایام تشریق کے ایام ہماری عید ہیں اور یہ کهانے پینے کے ایام ہیں
(سنن ابو داود،حدیث نمبر-2419) صحیح
(سنن نسائي،حدیث نمبر-3007)
(سنن ترمذي،حدیث نمبر-773) صحیح
و قال الترمذی: حديث حسن صحيح)

*ان احادیث میں عید کے دن کو ایام تشریق سے الگ کیا گیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ ایام تشریق عید کے بعد سے تیرہ تاریخ تک ہے*

*یعنی اوپر ذکر کردہ تمام احادیث سے ثابت ہوا کہ ایام تشریق کے دن عید کے دنوں کے علاوہ ہیں، اور گیارہ اور بارہ اور تیرہ ذوالحجہ کے دن ایام تشریق کہلاتے ہیں*

*اب یہ حدیث پڑھیں!!!*

🌷[عن جبير بن مطعم:] كُلُّ عَرَفَةَ مَوْقِفٌ، وارفعوا عن عُرَنَةَ، وكُلُّ مزدلِفَةَ موقِفٌ، وارفعوا عن بطنِ مُحَسِّرٍ، وكلُّ فجاجِ مِنًى منحرٌ، وكلُّ أيامِ التشريقِ ذبحٌ
سیدنا جبیر بن مطعم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سارا میدانِ عرفات وقوف کی جگہ ہے، البتہ تم وادیٔ عرنہ سے ہٹ کر رہو، اسی طرح سارامزدلفہ جائے وقوف ہے اور تم وادیٔ محسر سے دور رہو اورمنیٰ کے تمام راستے قربانی کی جگہ ہیں،
اور تشریق کے تمام ایام قربانی کے دن ہیں،
(مسند احمد-حدیث نمںر-16751)
(صحیح ابن حبان ،حدیث نمبر-3854)
(صحيح الجامع ،حدیث نمبر-4537)صحيح
(الهيثمي (٨٠٧ هـ) مجمع الزوائد 27ص/4ج • رجاله ثقات)

*دوسری جگہ یہ حدیث اس طرح سے ہے*
🌷 عَنْ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنِ النَّبِيِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((کُلُّ أَیَّامِ التَّشْرِیْقِ ذَبْحٌ۔))
سیدنا جبیر بن مطعم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سارے ایام تشریق ذبح کے دن ہیں
(مسند احمد،حدیث نمبر-16752)
( السلسلة الصحيحة_٬2476)
[سنن الدارقطنی،_4756)
(سنن الکبری للبیھقي،_10226)

*اوپر والی احادیث میں واضح ہے کہ ایام تشریق، گیارہ بارہ اور تیرہ ذوالحجہ ہیں،*
*اور نیچے والی احادیث میں واضح ہے کہ یوم النحر یعنی دس ذوالحجہ اور ایام تشریق کے تین دن،یہ سب قربانی کے دن ہیں*

🌷حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا:
عید الاضحی کے دن کے بعد تین دن قربانی ہوتی ہے
(احکام القران للطحاوی۲۰۶/۲ ح۱۵۷۷ و سندہ صحیح)

🌷عطا(بن ابی رباح) نے کہا: ایام تشریق کے آخر تک (قربانی ہے)۔
(احکام القران۲۰۶/۲ح۱۵۷۸ وسندہ حسن)

🌷عمر بن عبد العزیز نے فرمایا:الاضحی یوم النحر و ثلاثۃ ایام بعدہ۔
قربانی عید کے دن اور اس کے بعد تین دن ہے۔(سنن الکبری للبیہقی ۲۹۷/۹ و سندہ حسن)

🌷سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ’’الأيام المعلومات: يوم النحر، وثلاثة أيام بعده‘‘
(ایام معلومات سے مراد یوم النحر اور اس کے بعد کے تین ایام ہیں)
(رواه ابن حاتم في تفسيره _8/2489)

🌷زاد المعاد ميں امام ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى كا قول ہے: ايام نحر ( يعنى قربانى كے ايام ) يو النحر ( يعنى عيد والا دن ) اور اس كے بعد تين يوم ہيں”

اہل بصرہ كے امام حسن، اور اہل مكہ كے امام عطاء بن ابى رباح، اور اہل شام كے امام الاوزاعى رحمہم اللہ اور فقھاء كے امام امام شافعى رحمہ اللہ كا مسلك يہى ہے، اور ابن منذر رحمہ اللہ نے بھى اسے ہى اختيار كيا ہے، اور اس ليے كہ تين ايام اس ليے كہ يہ منى اور رمى جمرات كے ساتھ خاص ہيں، اور يہى ايام تشريق ہيں، اور ان كے روزے ركھنا منع ہے، چنانچہ يہ ان احكام ميں ايك جيسے بھائى ہيں، تو پھر بغير كسى نص اور اجماع كے ذبح كرنے كے جواز ميں فرق كيسے كيا جا سكتا ہے.
اور دو مختلف وجوہات سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے مروى ہے كہ آپ نے فرمايا:
” منى سارے كا سارا نحر كرنے كے ليے جگہ ہے،
اور سارے كے سارے ايام تشريق ذبح كرنے كے دن ہيں ” انتہى.
اس حديث كو علامہ البانى رحمہ اللہ نے السلسلۃ الصحيحۃ حديث نمبر ( 2476 ) ميں صحيح كہا ہے.
(ديكھيں: زاد المعاد ( 2ج /ص 319 )

🌷فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ قربانی کے دنوں کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ،

قربانی کا وقت ایامِ تشریق کے آخری دن کا سورج غروب ہونے پر ختم ہوجاتا ہے،
جوکہ ذوالحج کی تیرہویں (13) تاریخ بنتی ہے۔ چناچہ ذبح کے چار دن ہیں:
یوم العید، گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں تاریخ اور راتوں کے اعتبار سے تین راتیں: گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں کی رات۔
یہی اہل علم کے اقوال میں سےراجح قول ہے۔
اور سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی دو روایتوں میں سے ایک کے مطابق وہ بھی اسی کے قائل ہیں۔
امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہی مذہب اہل بصرہ کے امام حسن بصری کا ہے، اہل شام کے امام الاوزاعی کا ہے اور فقہاء اہل حدیث کے امام الشافعی کا ہے، اور اسے ہی ابن المنذر رحمۃ اللہ علیہم نے اختیار فرمایا ہے۔

میں (ابن عثیمین) یہ کہتا ہوں: اسے ہی شیخ الاسلام تقی الدین بن تیمیہ رحمہ اللہ نے اختیار فرمایا ہے اور ظاہرا امام ابن القیم رحمہ اللہ کی بھی یہی ترجیح ہے
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’كُلُّ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ ذَبْحٌ‘‘
(تمام ایام تشریق ذبح کے ایام ہیں)۔
(رواه أحمد (4/82) والبيهقي (9/256)،
وابن حبان (9/166) اور شیخ البانی السلسلة الصحيحة2476 میں فرماتے ہیں: ’’لا ينزل عن درجة الحسن بالشواهد)

اور اس میں اگرچہ انقطاع کی علت ہے لیکن اس کی تائید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے ہوتی ہے کہ:

’’أَيَّامُ التَّشْرِيقِ أَيَّامُ أَكْلٍ، وَشُرْبٍ، وَذِكْرِ اللَّهِ‘‘ اسے مسلم نے روایت فرمایا ہے،
(ایام تشریق کھانے پینے اور ذکر اللہ کے ایام ہیں،
(رواه مسلم، كتاب الصيام/ باب تحريم صوم أيام التشريق، رقم (1141)۔

پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام ایام کو ایک ہی باب میں رکھا ہے کہ یہ سب ایامِ ذکر اللہ ہیں۔ چوپایوں پر ذکر میں ذکر ِمطلق اور مقید دونوں شامل ہیں۔ کیونکہ یہ ایام تمام احکام میں مشترک ہیں سوائے جس میں محل نزاع پایا جاتا ہے۔ یہ سب کے سب ایامِ منیٰ ہیں، ایام ِرمی جمار ہیں، ایامِ ذکر اللہ ہیں اور ان میں روزہ رکھنا حرام ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ اس میں سے ذبح کو خارج کردیا جائے اور اسے یعنی قربانی کو محض ابتدائی دو ایام تک مخصوص کردیا جائے؟

مزید لکھتے ہیں کہ!!

“قربانی کا وقت يوم النحر والے دن نماز عيد كے بعد سے ليكر ايام تشريق كے آخرى دن كا سورج غروب ہونے تك ہے اور يہ آخرى دن تيرہ ذوالجہ كا ہوگا، تو اس طرح قربانى كرنے كے ايام چار ہيں، عيد والا دن، اور تين يوم اس كے بعد والے، چنانچہ جس شخص نے بھى نماز عيد سے فارغ ہونے سے قبل ہى قربانى كر لى، يا پھر تيرہ ذوالحجہ كے غروب آفتاب كے بعد ذبح كى تو اس كى قربانى صحيح نہيں ہوگى ….

ليكن اگر اس كے ليے ايام تشريق سے تاخير ميں كوئى عذر پيش آ جائے، مثلا اس كى كوتاہى كے بغير قربانى كا جانور بھاگ جائے اور وہ وقت ختم ہونے كے بعد اسے ملے، يا پھر اس نے كسى شخص كو قربانى كرنے كا وكيل بنايا تو وكيل قربانى كرنا ہى بھول گيا حتى كہ وقت نكل جائے، تو عذر اور نماز بھول جانے يا سوئے رہنے والے شخص پر قياس كرتے ہوئے كہ جب اسے ياد آئے يا پھر بيدار ہو تو نماز ادا كر لے اس قياس كى بنا پر وقت نكل جانے كے بعد قربانى كرنے ميں كوئى حرج نہيں.

اور ان چار ايام ميں دن يا رات كے كسى بھى وقت قربانى كرنى جائز ہے، ليكن دن كے وقت قربانى كرنا زيادہ بہتر اور افضل ہے، اور ان ايام ميں سے بھى عيد والے روز دونوں خطبوں كے بعد قربانى كرنا زيادہ افضل ہے، اور ہر پہلا دن دوسرے دن سے افضل ہے، كيونكہ ايسا كرنے ميں نيكى اور بھلائى اور خير ميں جلدى كرنا ہے ”
انتہى مختصرا

(کتاب أحكام الاضحية والزكاة ، الفصل الثاني في وقت الأضحية)
___&&___________________

*قربانی کے لیے افضل دن*

*یوں تو ان چاروں دن میں قربانی کرنا جائز ہے لیکن یاد رہے قربانی کے لیے افضل دن یوم النحر یعنی دس ذوالحجہ ہی ہے اور پھر اس سے اگلا دن یعنی گیارہ ذوالحجہ کیونکہ یہ اللہ کے ہاں عظیم دن ہیں*

🌷نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تبارک و تعالیٰ کے نزدیک سب سے عظیم دن یوم النحر (دس ذوالحجہ) ہے پھر یوم القر (گیارہ ذوالحجہ ) ہے،
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر-1765) صحیح
(السيوطي الجامع الصغير 1174 •صحيح) (الألباني إرواء الغليل_7ج/ص19 إسناده رجاله كلهم ثقاتا لألباني)
(صحيح الجامع،حدیث نمبر_ 1064 • صحيح)
(ابن خزيمة,حدیث نمبر_2917)

*اور اس لیے بھی کہ،*

🌷رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہےکہ:
«مَا مِنْ أَيَّامٍ العَمَلُ الصَّالِحُ فِيهِنَّ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ الأَيَّامِ العَشْرِ» ’’ دوسرے دنوں کی نیکی ان دس دنوں کی نیکی سے زیادہ اللہ کو محبوب نہیں۔
(سنن الترمذي_757)
تو جب یوم نحر یعنی دسویں ذوالحج کو قربانی کی جائے گی تو وہ ذوالحجہ کے ان دس دنوں میں شامل ہونے کی وجہ سے اللہ کو زیادہ محبوب ہوگی۔

🌷شیخ صالح المنجد رحمہ اللہ سے اس بارے سوال کیا گیا تو انکا جواب تھا…

قربانى كرنے كا وقت عيد الاضحى كى نماز كے بعد شروع ہوتا اور تيرہ ذوالحجہ كے دن غروب آفتاب كے وقت ختم ہوتا ہے، يعنى قربانى ذبح كرنے كے ليے چار يوم ہيں، ايك دن عيد والا اور تين اس كے بعد.
ليكن افضل يہ ہے كہ نماز عيد كے بعد قربانى جلد كى جائے،
جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا عمل تھا، اور پھر عيد والے دن وہ سب سے پہلے اپنى قربانى كا گوشت كھائے.

مسند احمد ميں بريدہ رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث مروى ہے كہ:
” رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم عيد الفطر كے روز كچھ كھا كر نماز عيد كے ليے جاتے، اور عيد الاضحى كے روز نماز عيد كے بعد آ كر اپنى قربانى كے گوشت ميں سے كھاتے ”
مسند احمد حديث نمبر ( 22475 ).
زيلعى رحمہ اللہ نے نصب الرايۃ ميں ابن قطان سے نقل كيا ہے كہ يہ حديث صحيح ہے.
ديكھيں: نصب الرايۃ ( 2 / 221 )

(Islamqa.info_ سوال نمبر-36651)

(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )

🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہمارا فیسبک پیج وزٹ کریں۔۔.
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں