784

سوال_کیا عصر کے بعد نفلی نماز نہیں پڑھ سکتے..؟؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-40″
سوال_کیا عصر کے بعد نفلی نماز نہیں پڑھ سکتے..؟ قرآن و حدیث سے وضاحت کریں!

Published Date: 26-3-2018
جواب….!
الحمدللہ۔۔۔۔!!

*گزشتہ( سلسلہ نمبر_39) میں ہم نے اس بارے احادیث پڑھیں کہ جن مکروہ اوقات میں نماز پڑھنا ممنوع ہے ان میں فجر اور عصر کی نماز کے بعد کا وقت بھی شامل ہے*

*یہاں اب ہم وضاحت کرتے ہیں کہ عصر کے بعد بالکل نفل نماز نہیں پڑھ سکتے یا کس وقت تک رخصت ہے؟ تو اس بارے سب سے پہلے احادیث مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں،*

📚امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں،
مَا تَرَكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السَّجْدَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ عِنْدِي قَطُّ.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد کی دو رکعات میرے ہاں کبھی ترک نہیں کیں۔
(صحیح بخاری،حدیث نمبر_591)

ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں۔۔!

📚اسود اور مسروق کہتے ہیں کہ انھوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس کہنے پر گواہی دی کہ
مَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْتِينِي فِي يَوْمٍ بَعْدَ الْعَصْرِ إِلَّا صَلَّى رَكْعَتَيْنِ.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی میرے گھر میں عصر کے بعد تشریف لائے تو دو رکعت ضرور پڑھتے۔
(صحیح بخاری،حدیث نمبر_593)
(سنن ابوداؤد،حدیث نمبر_1279)

*جس طرح فجر کے علاوہ باقی نمازوں کے بعد کسی بھی قسم کی نفلی نماز پڑھی جاسکتی ہے بالکل اسی طرح نماز عصر کے بعد بھی جب تک سورج بلند ہو نوافل پڑھے جا سکتے ہیں،عموما جو یہ بات بیان کی جاتی ہے کہ نماز عصر کے بعد کوئی نفلی نماز نہیں تو وہ بالکل غلط ہے, درست بات یہ ہے کہ نماز عصر کے بعد جب سورج غروب ہونے کے لیے جھک جائے اسکے بعد کوئی نفلی نماز نہیں،*

*کیونکہ جب تک سورج بلند اور روشن ہو اس وقت تک نماز پڑھنے کی اجازت نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم نے خود دی ہے*

📚سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ولا تصلوا عند طلوع الشمس ولا عند غروبها، فانها تطلع و تغرب على قرني الشيطان، وصلو ابين ذلك ما شئتم.
”تم سورج کے طلوع اور غروب کے وقت نماز نہ پڑھو کیونکہ وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع اور غروب ہوتا ہے، اس کے درمیان جتنی چاہو نماز پڑھو۔“ 
[مسند ابي يعليٰ : 4612، وسنده حسن]

📚حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ،
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْعَصْرِ إِلَّا وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ.
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے ہاں اگر سورج ابھی بلند ہو تو پڑھی جاسکتی ہے۔۔!!
(سنن ابو داؤد،کتاب الصلاۃ، باب من رخص فیہما إذا کانت الشمس مرتفعۃ، حدیث_ 1274)

اسی طرح ایک اور حدیث میں یہ الفاظ ہیں،

📚علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ،
نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْعَصْرِ، إِلَّا أَنْ تَكُونَ الشَّمْسُ بَيْضَاءَ نَقِيَّةً مُرْتَفِعَةً.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد نماز پڑھنے سے منع فرمایا،  سوائے اسکے کہ سورج سفید، صاف اور بلند ہو۔ (یعنی سورج صاف اور بلند ہو تو پڑھ سکتے ہیں)
(سنن نسائی،کتاب المواقیت، باب عصر کے بعد نماز کی اجازت کا بیان،حدیث نمبر_574)

یعنی ممانعت صرف مکروہ اوقات میں ہے

*اس ضمن میں جتنی بھی مطلق روایات ہیں جن میں عصر کے بعد نماز سے منع کیا گیا  وہ سب کی سب اس روایت کی وجہ سے مقید ہیں،یعنی ممانعت سورج کی بلندی ختم ہونے کے بعد ہے،*

*نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم ہمیشہ گھر جا کر عصر کے بعد دو رکعتیں ادا فرماتے تھے، بلکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا تو ان دو رکعتوں کے بارہ میں نہایت صراحت سے وضاحت فرماتی ہیں*

📚 عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں،
وَالَّذِي ذَهَبَ بِهِ مَا تَرَكَهُمَا حَتَّى لَقِيَ اللَّهَ، وَمَا لَقِيَ اللَّهَ تَعَالَى حَتَّى ثَقُلَ عَنِ الصَّلَاةِ، وَكَانَ يُصَلِّي كَثِيرًا مِنْ صَلَاتِهِ قَاعِدًا – تَعْنِي الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ – وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّيهِمَا وَلَا يُصَلِّيهِمَا فِي الْمَسْجِدِ ؛ مَخَافَةَ أَنْ يُثَقِّلَ عَلَى أُمَّتِهِ، وَكَانَ يُحِبُّ مَا يُخَفِّفُ عَنْهُمْ.
اس ذات کی قسم جس نے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کو وفات دی ہے، آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد دو رکعتیں کبھی نہیں چھوڑیں حتى کہ خالق حقیقی سے جاملے،اور آپ صلى اللہ علیہ وسلم اس وقت تک رفیق اعلى سے نہیں ملے جب تک آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے لیے نماز مشکل نہیں ہوئی اور آپ صلى اللہ علیہ وسلم اکثر بیٹھ کر نماز ادا کرتے تھے (یعنی عصر کے بعد والی دو رکعتیں) اگرچہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم یہ دو رکعتیں( پوری پابندی سے )پڑھتے تھے لیکن مسجد میں نہیں بلکہ گھر میں پڑھتے تھے کیونکہ آپ کو ڈر تھا کہ کہیں (آپکو دیکھ کر صحابہ بھی نا پڑھنے لگ جائیں ) اور پھر امت پر مشقت نہ ہو اور آپ صلى اللہ علیہ وسلم امت کے لیے تخفیف پسند فرماتے تھے۔
(صحیح بخاری،حدیث نمبر_590)

ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس صراحت سے واضح ہوتا ہے کہ بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ان دو رکعتوں کا علم اس لیے نہ ہوا کہ آپ گھر میں پڑھتے تھے۔اور یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم یہ عمل زندگی میں ایک دو بار نہیں بلکہ مستقل کیا ہے حتى کہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے،

اور یاد رہے کہ یہ عمل نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کا خاصہ بھی نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا ہر عمل امت کے لیے عام ہوتا ہے الا کہ خاصہ ہونے کی کوئی دلیل مل جائے ۔ اور ان دو رکعتوں کے خاصہ ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے,،

ایک شبہ کا ازالہ۔۔۔!!

🚫 ایک روایت اس طرح سے ہے کہ،
ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ، ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عصر پڑھی پھر میرے پاس آئے، اور دو رکعتیں پڑھیں،
ہمارے پوچھنے پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،
تم نے مجھ سے عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھنے کے بارے میں پوچھا ہے،
دراصل میرے پاس عبدالقیس کے چند لوگ اپنی قوم کے اسلام کی خبر لے کر آئے تو ان لوگوں نے مجھے باتوں میں مشغول کر لیا اور میں ظہر کے بعد یہ دونوں رکعتیں نہیں پڑھ سکا، یہ وہی دونوں رکعتیں ہیں ،
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر_1273)

*اس حدیث سے ایک بات تو یہ سمجھ آتی ہے کہ ظہر کی سنتیں،نفل  رہ جائیں تو وہ بھی عصر کے بعد پڑھ سکتے ہیں، اور دوسری بات یہ کہ کچھ لوگ کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عصر کے بعد ظہر والی سنتیں پڑھی ہیں، ویسے نفل نہیں پڑھ سکتے،
تو اسکا جواب یہ ہے کہ ظہر کی دوسنتیں تو صرف ایک بار آپ صلى اللہ علیہ وسلم سے قضاء ہوئی ہیں جبکہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد یہ دو رکعتیں ہمیشہ پڑھی ہیں، جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اوپر وضاحت بیان کی، تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دو رکعتیں اور ہیں اور یہ دو رکعتیں اور ہیں*

*جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ  سمیت کئی صحابہ و تابعین بھی عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے،*

📙 عاصم بن ضمرہ کہتے ہیں :
كنا مع على رضى الله عنه فى سفر فصلٰي بنا العصر ركعتين، ثم دخل فسطاطه و أنا أنظر، فصلٰي ركعتين.
”ہم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک سفر میں تھے، آپ رضی اللہ عنہ نے ہمیں عصر کی دو رکعتیں پڑھائیں، پھر اپنے خیمے میں داخل ہو کر دو رکعتیں ادا کیں، میں یہ منظر دیکھ رہا تھا۔“
 [السنن الكبريٰ للبيهقي : 459/2، وسنده حسن]
↰ راوی حدیث سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے خود ان دو رکعتیں کو ادا کیا ہے۔

🚫 سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي فى اثر كل صلاة مكتوبة ركعتين الا الفجر و العصر.
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوائے فجر اور عصر کے ہر فرض نماز کے بعد رکعتیں ادا فرماتے تھے۔“ 
[سنن ابي داود : 1275، )
(الكبري للنسائي : 441، )
(مسند الامام احمد : 124/1)
(صحيح ابن خزيمة : 1195 )
(السنن الكبري للبيهقي : 459/2، وغيرهم]

اس کی سند ”ضعیف“ ہے،
اس میں ابواسحاق السبیعی ”مدلس“ ہیں، جو ”عن“ سے روایت کر رہے ہیں،
اس کی صحت کے مدعی پر سماع کی تصریح لازم ہے۔
——————

📙 ابواسحاق خود کہتے ہیں :
سألت أبا جحيفة عنهما، قال :
ان لم تنفعاك، لم تضراك.
”میں نے ابوجحیفہ سے ان دو رکعتوں کے بارے میں پوچھا : تو انہوں نے فرمایا : اگر یہ تجھے فائدہ نہیں دیں گی، تو نقصان بھی نہیں کریں گی۔“ 
[مصنف ابن ابي شيبه : 353/2،)
( الاوسط لابن المنذر : 393/2، وسنده صحيح]

📙عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھتے،
نیز فرماتے ہیں:
ان الزبیر و عبداللہ بن الزبیر کانا یصلیان بعد العصر رکعتین.
”زبیر اور عبداللہ بن زبیر بھی دونوں عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے۔“ 
[الاوسط لابن المنذر : 394/2، )
(مصنف ابن ابي شيبه : 353/2، وسنده صحيح]
مصنف ابن ابی شیبہ میں سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ کا ذکرنہیں۔

📙طاؤس بن کیسان تابعی کہتے ہیں :
ورخص فى الركعتين بعد العصر.
”سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھنے کی رخصت دی ہے۔“ 
[سنن ابي داود : 1284، )
(السنن الكبريٰ للبيهقي : 476/2، وسنده حسن]

📙امام سعید بن جبیر تابعی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
رأيت عائشة تصلي بعد العصر ركعتين وهى قائمة، وكانت ميمونة تصلي أربعا، وهى قاعدة.
”میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا، وہ عصر کے بعد کھڑے ہو کر دو رکعتیں پڑھتی تھیں اورسیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا بیٹھ کر چار پڑھتی تھی۔“
 [الاوسط لابن المنذر : 394/2، وسنده حسن]

حماد بن سلمہ نے جمہور کے نزدیک عطاء بن سائب سے اختلاط سے پہلے سنا ہے۔

📙 اشعث بن ابی الشعثاء کہتے ہیں :
خرجت مع أبى و عمرو بن ميمون والأسود بن يزيد وأبي وائل، فكانوا يصلون بعد العصر ركعتين.
”میں نے اپنے باپ ابوالشعثاء، عمرو بن میمون، اسود بن یزید اور ابووائل کے ساتھ [سفر میں] نکلا، وہ سب عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے۔“ 
[مصنف ابن ابی شیبہ : 352/2، وسندہ صحیح ]

📙عبداللہ بن عون کہتے ہیں :
رأيت أبا بردة بن أبى موسي يصلي بعد العصر ركعتين.
”میں نے ابوبردہ بن ابی موسیٰ کو عصر کے بعد دورکعتیں پڑھتے دیکھا۔“ 
[مصنف ابن ابي شيبه : 352/2، وسنده صحيح]

📙 ابراہیم بن محمد بن منتشر اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ وہ عصر کے بعد دورکعتیں پڑھتے تھے، ان سے پوچھا : گیا تو فرمایا :
لولم أصلهما الا أني رأيت مسروقا يصليهما، لكان ثقة، ولكني سألت عائشة فقالت : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يدع ركعتين قبل الفجر وركعتين بعد العصر.
”میں انہیں کیوں نہ پڑھوں، میں نے مسروق کو دیکھا ہے کہ وہ دو رکعتیں پڑھتے تھے، وہ ثقہ تھے، لیکن میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا : تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فجر سے پہلے او ر عصر کے بعد دو رکعتیں نہیں چھوڑتے تھے۔“ 
[مصنف ابن ابي شيبه : 352/2، وسنده صحيح]

🚫دوسرا اعتراض

اگر کوئی یہ کہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عادت مبارکہ تھی کہ ایک کام جب شروع کرتے تو اس میں ہمیشگی اور دوام کو ملحوظ رکھتے تھے، تو یہ دو رکعتیں ظہر کے بعد والی رکعتیں ہیں جو چھوٹ گئی تھیں، اور ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد ادا کیا، پھر مسلسل ادا کرتے رہے،

تو ہمارا جواب یہ ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا خود عصر کے بعد کون سی نماز پڑھتی تھیں ؟ یہ وہی نماز ہے جس کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت فرمائی تھی، صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت عصر کے بعد دو رکعتوں کے قائل و فاعل تھے۔

جو لوگ نماز عصر کے بعد دو رکعتوں کی ادائیگی سے روکتے ہیں، وہ خود کئی نمازیں نماز عصر کے بعد ادا کرنے کے قائل ہیں، مثلاً :
➊ ظہر کی چھوٹی ہوئی سنتیں۔
➋ جس نے نماز عصر اکیلے ادا کی، بعد میں جماعت پانے کی صورت میں اس کے جماعت کے ساتھ شامل ہونے کے جواز کے قائل ہیں، تو ظاہر ہے جماعت کے ساتھ پڑھی گئی نماز عصر کے بعد چار رکعتیں نفلی نماز شمار ہوئی۔
➌ بارش کی نماز۔
➍ سورج گرہن کی نماز۔
➎ نماز جنازہ وغیرہ۔

🚫تیسرا اعتراض
اگر کوئی یہ کہے کہ نماز عصر کے بعد نماز پڑھنے پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مارتے تھے،

تو اس کا جواب یہ ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں :

📙لا تحروا بصلاتكم طلوع الشمس ولا غروبها.
”تم اپنی نمازوں کے ساتھ طلوع و غروب آفتاب کا وقت تلاش نہ کرو۔“
 [موطا امام مالك : 173/1، وسنده صحيح]

تو اس سے ثابت ہوا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا مارنا مطلق طور پر عصر کے بعد نماز پر نہ تھا، بلکہ ممنوع وقت یعنی غروب آفتاب کے وقت نماز پڑھنے پر تھا۔

🚫چوتھا اعتراض
اگر کوئی یہ کہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا یہ فرماتی ہیں :
📙وهم عمر، انما نهيٰ رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يتحري طلوع الشمس و غروبها.
”عمر رضی اللہ عنہ کو وہم ہوا ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو طلوع و غروب آفتاب کے خاص وقت میں نماز سے منع فرمایا تھا۔“ 
[صحيح مسلم : 833]

تو جواب یہ ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو صرف عمر رضی اللہ عنہ کا مطلق مارنا معلوم ہوا تھا، اس کا اصل سبب معلوم نہ ہوا تھا، اسی لیے آپ نے اس کام کو عمر رضی اللہ عنہ کا وہم قرار دیا، جب اصل حقیقت معلوم ہوئی تو خود سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ہمارا بیان کردہ مطلب لے کر عمر رضی اللہ عنہ کے اس اقدام کو مستحسن قرار دیا۔

📙چنانچہ شریح بن ہانی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
”میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے نماز پڑھتے تھے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، آپ ظہر کی نماز پڑھتے، پھر اس کے بعد دو رکعتیں پڑھتے، پھر عصر کی نماز پڑھتے، اس کے بعد بھی دو رکعتیں پڑھتے۔ میں نے سوال کیا، عمر رضی اللہ عنہ تو ان دو رکعتوں پر مارتے تھے اور ان سے منع کرتے تھے، اس پر آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا، خود عمر رضی اللہ عنہ ان دو رکعتوں کو پڑھتے تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ دو رکعتیں پڑھتے تھے، لیکن تیری دیندار قوم کے لوگ ناسمجھ تھے، وہ ظہر کے بعد عصر تک نماز پڑھتے رہتے، پھر عصر کے بعد مغرب تک نوافل پڑھتے رہتے، اس وجہ سے عمر رضی اللہ عنہ ان کو مارا کرتے اور یہ آپ نے اچھا کیا۔“ [مسند السراج : 1530، وسنده صحيح]

📙امام بن المنذر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فدلت الأخبار الثابتة عن النبى صلى الله عليه وسلم على أن النهي إنما وقع فى ذلك على وقت طلوع الشمس ووقت غروبها، فمما دل على ذلك حديث على بن أبى طالب، وابن عمر، وعائشه رضي الله عنها وهى أحاديث ثابتة بأسانيد جياد، لا مطعن لأحد من أهل العلم فيها.
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت احادیث سے واضح ہوگیا ہے کہ نماز عصر کے بعد نماز کی ممانعت کا تعلق صرف خاص طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت سے ہے، ان احادیث میں سے سیدنا علی، سیدنا ابن عمر اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہم کی احادیث ہیں، ان کی سندیں عمدہ ہیں، کسی اہل علم کو ان میں کوئی اعتراض نہیں۔“
 [الاوسط لا بن المنذر : 388/2]

 _______&________

*لہٰذا ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ اصل میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام  عصر کی نماز بہت جلدی پڑھتے تھے، حتی کہ حدیث میں آتا ہے*

📚صحیح بخاری
کتاب: نماز کے اوقات کا بیان
باب: باب: نماز عصر کے وقت کا بیان۔
حدیث نمبر: 550
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ حَيَّةٌ، ‏‏‏‏‏‏فَيَذْهَبُ الذَّاهِبُ إِلَى الْعَوَالِي، ‏‏‏‏‏‏فَيَأْتِيهِمْ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَبَعْضُ الْعَوَالِي مِنْ الْمَدِينَةِ عَلَى أَرْبَعَةِ أَمْيَالٍ أَوْ نَحْوِهِ.
ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا کہ کہا ہمیں شعیب بن ابی حمزہ نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھ سے انس بن مالک ؓ نے بیان کیا، انہوں نے فرمایا کہ  رسول اللہ  ﷺ  جب عصر کی نماز پڑھتے تو سورج بلند اور تیز روشن ہوتا تھا۔ پھر ایک شخص مدینہ کے بالائی علاقہ کی طرف جاتا وہاں پہنچنے کے بعد بھی سورج بلند رہتا تھا  (زہری نے کہا کہ)  مدینہ کے بالائی علاقہ کے بعض مقامات تقریباً چار میل پر یا کچھ ایسے ہی واقع ہیں۔

(یعنی عصر پڑھنے کے بعد کوئی صحابی 8، 10 کلو میٹر سفر کر کے جاتا تو وہاں اس وقت بھی سورج بلند ہوتا،)

📚صحیح بخاری
کتاب: نماز کے اوقات کا بیان
باب: باب: نماز کے اوقات اور ان کے فضائل۔
حدیث نمبر: 522
قَالَ عُرْوَةُ:‏‏‏‏ وَلَقَدْ حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ، ‏‏‏‏‏‏”أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ فِي حُجْرَتِهَا قَبْلَ أَنْ تَظْهَرَ”.
ترجمہ:
عروہ رحمہ اللہ علیہ نے کہا کہ مجھ سے عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ عصر کی نماز اس وقت پڑھ لیتے تھے جب ابھی دھوپ ان کے حجرہ میں موجود ہوتی تھی اس سے بھی پہلے کہ وہ دیوار پر چڑھے،

*یعنی جب عصر جلدی پڑھیں تو عصر کے بعد بھی سورج بلند اور روشن ہوتا، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نماز کے بعد گھر جا کر نفل نماز بھی پڑھتے تھے، اور صحابہ کرام بھی اس سنت پر عمل کرتے، لیکن آج کل ہمارے اکثر بھائی عصر کی نماز بہت دیر سے پڑھتے ہیں،یہاں تک کہ نماز پڑھنے کے بعد سورج زرد ہو کر غروب کے قریب ہوتا تو اس وقت نفل نماز پڑھنا درست نہیں،لیکن اگر سنت کے مطابق عصر جلدی پڑھیں تو پھر یقیناً نماز کے بعد بھی سورج بلند ،تیز اور روشن ہوتا تو اس وقت  نوافل پڑھنے میں حرج نہیں*

((واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب))

  📚فرضی نماز کی جماعت کے دوران سنتیں پڑھنا کیسا ہے؟ اور اگر جماعت سے پہلے فجر کی سنتیں نا پڑھ سکیں تو پھر کب پڑھیں۔۔؟
(دیکھیں_سلسلہ نمبر_41 )

📚پنجگانہ نمازوں کے صحیح اور مسنون اوقات کیا ہیں؟
تفصیلی جواب کیلئے دیکھیں
( سلسلہ نمبر-152)

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦  سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 📑
     کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
                   +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں