881

سوال_نماز میں صف بندی کے مراتب کیا ہیں؟یعنی جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے والے مقتدی اپنی صفیں کس ترتیب سے بنائیں گے؟ کیا بچے پہلی صف میں کھڑے ہو سکتے؟ نیز اگر کوئی شخص اپنے بیوی بچوں کے ساتھ گھر میں جماعت کروائے تو وہ کس ترتیب سے کھڑے ہونگے؟ نیز کسی غیر محرم مرد ساتھ تنہا عورت کی جماعت ہو جائے گی؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-329″
سوال_نماز میں صف بندی کے مراتب کیا ہیں؟یعنی جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے والے مقتدی اپنی صفیں کس ترتیب سے بنائیں گے؟ کیا بچے پہلی صف میں کھڑے ہو سکتے؟ نیز اگر کوئی شخص اپنے بیوی بچوں کے ساتھ گھر میں جماعت کروائے تو وہ کس ترتیب سے کھڑے ہونگے؟ نیز کسی غیر محرم مرد ساتھ تنہا عورت کی جماعت ہو جائے گی؟

Published Date: 03-04-2020

جواب:
الحمد لله:

*نماز میں صف بندی کاصحیح طریق کار یہ ہے کہ امام کے قریب بالغ اور عقلمند لوگ کھڑے ہوں پھر جو ان کے قریب ہوں پھر جو ان کے قریب۔اس طرح افراد کا لحاظ کرتے ہوئے کیونکہ مردوں کو امام کے قریب کھڑا کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ امام کو بھولنے کی صورت میں لقمہ دے سکیں،نماز کی کیفیت یاد رکھ سکیں،امام کی نماز ٹوٹنے کی صورت میں قائم مقام بن سکیں*

*پہلی صف میں امام کے قریب بالغ اور عقلمند لوگ کھڑے ہونے چاہئیں*

📚سیدنا ابو مسعودؓ سے روایت ہے کہ،
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
لِيَلِنِي مِنْكُمْ أُولُو الْأَحْلَامِ وَالنُّهَى ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ”
”میرے قریب (صف میں) وہ لوگ رہیں جو (دینی اعتبار سے زیادہ)عقل مند ہیں پھر جو ان کے قریب ہیں جو ان کے قریب ہیں,
(صحیح مسلم: حدیث نمبر-432)
(سنن ابو داود حدیث نمبر-674)

📒امام خطابی رحمۃ اللہ علیہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں:
“انما امر صلي الله عليه وسلم ان يليه ذووالاحلام والنهي ليعقدوا عنه صلاته ولكي يخلفوه في الامامة حدث به في صلاته ”
“نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بالغ اور عقلمند افراد کو اپنے قریب ہونے کا حکم اس لیے دیاکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سیکھیں تاکہ امامت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین بن سکیں اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں حدث واقع ہوجائے۔”
(معالم السنن 1/437)

_________&_________

*کم عمر لڑکے پچھلی صف میں کھڑے ہوں*

📚ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا:
کیا میں تم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز نہ بتاؤں؟
فَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَصَفَّ الرِّجَالَ وَصَفَّ خَلْفَهُمُ الْغِلْمَانَ ثُمَّ صَلَّى بِهِمْ۔۔۔۔۔۔قال صَلَاةُ أُمَّتِي
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے، پہلے مردوں کی صف لگوائی، ان کے پیچھے بچوں کی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں نماز پڑھائی اور فرمایا یہ میری امت کی نماز ہے،
(سنن ابو داود حدیث نمبر-677)
علامہ البانی نے اس روایت کو ضعیف کہا ہے،
جبکہ دیگر کچھ محدثین نے حسن کہا ہے،
(ابن الملقن تحفة المحتاج ١/٤٥٩ • إسناده حسن)
(البيهقي السنن الكبرى للبيهقي ٣/٩٧ إسناده أقوى)
_________&_________

*لیکن اگر کوئی عقلمند اور سمجھدار بچہ مردوں کی صف میں کھڑا ہو تو اسے صف سے پیچھے نہیں دھکیلنا چاہیے،*

📚عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا:
أَقْبَلْتُ رَاكِباً عَلَى حِمَارٍ أَتَانٍ , وَأَنَا يَوْمَئِذٍ قَدْ نَاهَزْتُ الاحْتِلامَ , وَرَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُصَلِّي بِالنَّاسِ بِمِنًى إلَى غَيْرِ جِدَارٍ ، فمَرَرْتُ بَيْنَ يَدَيْ بَعْضِ الصَّفِّ فَنَزَلْتُ , فَأَرْسَلْتُ الأَتَانَ تَرْتَعُ ، وَدَخَلْتُ فِي الصَّفِّ , فَلَمْ يُنْكِرْ ذَلِكَ عَلَيَّ أَحَدٌ ”
“میں اپنی ایک گدھی پر سوار ہو کر ( منیٰ میں آیا ) اس وقت میں جوانی کے قریب تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں کھڑے نماز پڑھا رہے تھے۔ میں پہلی صف کے ایک حصہ کے آگے سے ہو کر گزرا پھر سواری سے نیچے اتر آیا اور اسے چرنے کے لیے چھوڑ دیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے لوگوں کے ساتھ صف میں شریک ہو گیا، مجھ پر کسی نے اس بات پر انکار نہیں کیا۔( یعنی مجھے ڈانٹا جھڑکا نہیں )
(صحیح بخاری حدیث نمبر_ 493 ،861، 1857 ،4412)

بخاری شریف کی اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ بچہ مردوں کے ساتھ صف میں کھڑا ہوسکتا ہے،

*مذکورہ بالا احادیث صحیحہ سے معلوم ہوا کہ امام کے قریب تو بالغ عقلمند افراد کو کھڑا ہونا چاہیے اور دیگر مقامات سے بچوں کو صفوں سے نکالنا نہیں چاہیے کیونکہ بچوں کو صفوں سے اگر نکال دیا جائے تو ان کی تربیت نہیں ہوسکے گی۔اگر وہ صف میں آ کر کھڑے ہوں گے تو نماز کا طریق کار سیکھیں گے لیکن اگر انہیں ڈانٹ ڈپٹ کر بھگا دیا جائے تو ان کی تربیت نہیں ہوگی بلکہ اُلٹا اثر قبول کر سکتے ہیں*

_________&_________

*عورت اگر باجماعت نماز پڑھے تو سب سے آخری صف میں کھڑی ہوگی، اور عورتوں کی سب سے بہتر صف آخری ہے اور مردوں کی سب سے بہترین صف پہلی ہے*

📚سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ
خَيْرُ صُفُوفِ الرِّجَالِ أَوَّلُهَا، وَشَرُّهَا آخِرُهَا. وَخَيْرُ صُفُوفِ النِّسَاءِ آخِرُهَا، وَشَرُّهَا أَوَّلُهَا “.
“مردوں کی پہلی صف سب سے افضل ہے اور آخری صف بدتر ہے اور عورتوں کی آخری صف سب سے افضل ہے اور پہلی بدتر ہے ”
(صحیح مسلم: حدیث نمبر-440)
(سنن ابو داود حدیث نمبر-678)

یعنی جب مرد عورتیں اکٹھی نماز پڑھیں گی تو مردوں کے پیچھے عورتوں کی صفوں میں سب سے آخری صف زیادہ افضل ہے، اسکا مقصد یہ تھا کہ عورتیں مردوں سے دور رہیں پیچھے صف بنائیں ،تا کہ فتنہ کا ڈر نا رہے،

📚انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:
“عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رضي الله عنه أَنَّ جَدَّتَهُ مُلَيْكَةَ دَعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لِطَعَامٍ صَنَعَتْهُ له , فَأَكَلَ مِنْهُ , ثُمَّ قَالَ : قُومُوا فَلأُصَلِّ لَكُمْ قَالَ أَنَسٌ : فَقُمْتُ إلَى حَصِيرٍ لَنَا قَدْ اسْوَدَّ مِنْ طُولِ مَا لُبِسَ , فَنَضَحْتُهُ بِمَاءٍ , فَقَامَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّه صلى الله عليه وسلم وَصَفَفْتُ أَنَا وَالْيَتِيمُ وَرَاءَهُ , وَالْعَجُوزُ مِنْ وَرَائِنَا . فَصَلَّى لَنَا رَكْعَتَيْنِ , ثُمَّ انْصَرَفَ”.
“ان کی جدہ ملیکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کھانا تیار کرکے دعوت کی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا کھایا پھر فرمایا۔کھڑے ہوجاؤ ،تمھیں نماز پڑھاؤں انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں اپنی ایک چٹائی کی طرف اُٹھا جو کثرت استعمال سے سیاہ ہوچکی تھی۔اس پر میری نانی نے پانی چھڑکا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے ۔میں اور ایک لڑکا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہوگئے اور بڑھیا ہمارے پیچھے تھیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو رکعتیں پڑھائیں پھر سلام پھیردیا۔”
(صحیح بخاری حدیث نمبر-380،727)
( صحیح مسلم حدیث نمبر-658)
(سنن ابو داود حدیث نمبر-612)

یعنی اگر امام کے علاوہ دو زیادہ مرد ہوں تو وہ امام کے پیچھے کھڑے ہونگے اور انکے پیچھے عورت اکیلی کھڑی ہوگی،

_________&_________

*اگر امام کے علاوہ ایک مرد ہو اور ایک عورت تو مرد امام کی دائیں طرف کھڑا ہو اور عورت پیچھے اکیلی کھڑی ہو*

📚انس رضی اللہ کہتے ہیں کہ
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَّهُ وَامْرَأَةً مِنْهُمْ، فَجَعَلَهُ عَنْ يَمِينِهِ وَالْمَرْأَةَ خَلْفَ ذَلِكَ.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اور ان کے گھر کی ایک عورت کی امامت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ( یعنی انس رضی اللہ عنہ کو ) اپنے داہنی طرف کھڑا کیا، اور عورت کو پیچھے،
(سنن ابو داود حدیث نمبر-609)

_________&_________

*جب صرف دو مرد نمازی ہوں ،تو ایک امام اور ایک مقتدی ہو گا، مقتدی کوامام کے دائیں طرف کھڑا ہونا چاہئے اور امام بائیں طرف ہوگا*

📚سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ میں نے اپنی خالہ (سیدہ میمونہؓ) کے ہاں رات بسر کی ۔ رات کے وقت رسول اللہ ﷺ نماز پڑھنے لگے، تو میں بھی آپ کے ساتھ نماز میں شامل ہو کر بائیں جانب کھڑا ہوگیا ،
آپ (ﷺ) نے میرا سر پکڑا اور مجھے اپنی دائیں جانب کھڑا کردیا”
(صحیح بخاری: حدیث نمبر-699)

📚سیدنا جابرؓ بھی رسول اللہ ﷺ کی بائیں طرف کھڑے ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کو ہاتھ سے پکڑ کر گھمایا اور اپنی دائیں جانب کھڑا کر دیا
(صحیح مسلم: حدیث نمبر-3010)

📚امام الائمہ امام ابن خزیمہ نے کہا:
“والمأ موم من الرجال إن کان واحدًا فسنتہ أن یقوم عن یمین إما مہ” اگر مقتدی مرد اکیلا ہو تو سنت یہ ہے کہ وہ امام (کے ساتھ اس ) کی دائیں طرف (نماز پڑھنے کے لئے ) کھڑا ہو
(صحیح ابن خزیمہ ۳۱/۳ ح ۱۵۷۰)

*ان احادیث سے یہ بھی پتہ چلا کہ مقتدی امام کے بالکل ساتھ دائیں طرف کھڑا ہو گا، کچھ لوگ جو کہتے ہیں کہ مقتدی امام سے تھوڑا پیچھے ہٹ کر کھڑا ہو انکی بات بے بنیاد ہے، احادیث میں واضح ہے کہ صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کھڑے ہوئے،*

_________&_________

*ان دونوں احادیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اگر ایک آدمی نماز ادا کر رہا ہو تو بعد میں آنے والا اگر اس کے ساتھ نماز میں مل جائے تو جماعت ہو سکتی ہے*

📚جیسا کہ امام بخاریؒ نے صحیح بخاری میں باب قائم کیا کہ “كِتَاب الْأَذَانِ
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
59. بَابُ إِذَا لَمْ يَنْوِ الإِمَامُ أَنْ يَؤُمَّ ثُمَّ جَاءَ قَوْمٌ فَأَمَّهُمْ:
باب: نماز شروع کرتے وقت امامت کی نیت نہ ہو، پھر کچھ لوگ آ جائیں اور وہ ان کی امامت کرنے لگے (تو کیا حکم ہے)
(صحیح بخاری حدیث نمبر-699)

_________&_________

*جب دو مقتدی مرد ہوں تو امام کے پیچھے کھڑے ہوں*

📚سیدنا جابر بن عبداللہؓ کی ایک لمبی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ اکیلے نماز پڑھ رہے تھے،
ثُمَّ جِئْتُ حَتَّى قُمْتُ عَنْ يَسَارِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذَ بِيَدِي فَأَدَارَنِي حَتَّى أَقَامَنِي عَنْ يَمِينِهِ، ثُمَّ جَاءَ جَبَّارُ بْنُ صَخْرٍ فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ جَاءَ فَقَامَ عَنْ يَسَارِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدَيْنَا جَمِيعًا فَدَفَعَنَا حَتَّى أَقَامَنَا خَلْفَهُ،
پھر میں (جابرؓ) آیا یہاں تک کہ میں رسول اللہ ﷺ کی بائیں جانب کھڑا ہوگیا ، آپ نے میرا ہاتھ پکڑا اور گھما کر اپنی دائیں جانب کھڑا کردیا۔ پھر جبار بن صخرؓ آئے ، انہوں نے وضو کیا، پھر آکر رسول اللہ ﷺ کی بائیں جانب کھڑے ہوگئے تو رسول اللہ ﷺ نے جابر بن عبداللہ اور جبار بن صخر رضی اللہ تعالیٰ عنہما دونوں کو پکڑ کر پیچھے دھکیل دیا حتیٰ کہ ہم آپ کے پیچھے کھڑے ہوگئے ۔”
(صحیح مسلم : حدیث نمبر-3010)

📒اس حدیث پر امام ابن خزیمہ (۱۵۳۵) نے یہ باب باندھا ہے “:
“باب قیام الإثنین خلف الإمام” دو آدمیوں کا امام کے پیچھے کھڑے ہونے کا بیان۔

📒مذکورہ حدیث میں امام کا مقتدی کو پیچھے کرنے کا ذکر ہے، اگر امام اور ایک مقتدی دونوں اکٹھے نماز پڑھ رہے ہیں، کوئی تیسرا بھی جماعت میں شامل ہوگیا تو امام خود اگلی صف میں بھی جا سکتا ہے،
(دیکھئے صحیح ابن خزیمہ: ۱۵۳۶ وسندہ صحیح، سعیدبن ابی ہلال حدّث بہ قبل اختلاطہ)

_________&_________

*صرف میاں اور بیوی کی جماعت میں شوہر آگے کھڑا ہو گا اور بیوی اس کے پیچھے*

📚انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
” رسول كريمﷺ نے انہيں اور ان كى والدہ يا خالہ كو نماز پڑھائى، انس رضى اللہ تعالى كہتے ہيں: مجھے اپنى دائيں طرف كھڑا كيا اور عورت كو ہمارے پيچھے كھڑا كيا ”
( صحيح مسلم المساجد و مواضع الصلاۃ حديث نمبر-660)

یہاں مقتدی دو ہی ہیں ایک عورت اور ایک مرد (یعنی حضرت انس (رض) اور ان کی والدہ یا خالہ)۔ اور تیسرے امام (نبی کریمﷺ) ہیں،

اب تین صورتیں بننی تھیں

1۔ نبی کریمﷺ امام ،حضرت انس (رض) اور والدہ یا خالہ متقدی (حضرت انس اور ان کی والدہ یا خالہ نبی کریمﷺ کی اقتداء میں اکھٹے کھڑے ہوتے)

یا

2۔ نبی کریمﷺ امام حضرت انس (رض) نبی کریمﷺ کے پیچھے اور ان کی والدہ یا خالہ حضرت انس (رض) کے پیچھے کھڑی ہوتی

یا

3۔نبی کریمﷺ اور حضرت انس (رض) اکھٹے اور حضرت انس (رض) کی والدہ یا خالہ ان کے پیچھے

ان تین صورتوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری صورت کو اپنایا ،اور یہ اس بات پر دلیل ہے کہ جب بھی ایک عورت اور ایک مرد ہو یا دو مرد اور ایک عورت ہو تو اسی صورت پر عمل کریں گے،
یعنی اگر ایک مرد اور ایک عورت ہو تو مرد آگے اور عورت پیچھے الگ کھڑی ہو گی، کیونکہ عورت اکیلی صف ہےاور اگر مرد دو ہوں تو ایک مرد امام کے ساتھ اور دائیں سائیڈ پر اور عورت پیچھے الگ صف میں کھڑی ہو گی،

*بیوی کے ساتھ اگر بچے بھی ہوں تو آگے شوہر کھڑا ہو گا یعنی امامت کروائے گا، بیٹا بھلے ایک ہو زیادہ پیچھے بیٹے (Boys) کی صف ہو گی اور انکے پیچھے بیوی/ بیٹیوں کی صف ہو گی،*

واضح رہے اگر بیٹا باپ سے زیادہ قرآن جانتا ہو تو امامت بیٹا ہی کروائے گا بھلے وہ ابھی نابالغ ہی کیوں نا ہو،

📚جیسا کہ ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لوگوں کی امامت وہ کرائے جو ان میں سے کتاب اللہ کو زیادہ پڑھنے والا ہو ، اگر پڑھنے میں برابر ہو ں تو وہ جو ان میں سے سنت کا زیادہ عالم ہو ، اگر وہ سنت ( کے علم ) میں بھی برابر ہوں تو وہ جس نے ان سب کی نسبت پہلے ہجرت کی ہو ، اگر وہ ہجرت میں برابر ہوں تو وہ جو اسلام قبول کرنے میں سبقت رکھتا ہو ۔ کوئی انسان وہاں دوسرے انسان کی امامت نہ کرے جہاں اس ( دوسرے ) کا اختیار ہو اور اس کے گھر میں اس کی قابل احترام نشست پر اس کی اجازت کے بغیر کوئی نہ بیٹھے ۔ ( ابوسعید ) اشج نے اپنی روایت میں اسلام قبول کرنے میں ( سبقت ) کے بجائے عمر میں ( سبقت رکھتا ہو )ہے۔
(صحیح مسلم حدیث نمبر 673)

📚سوال_نماز میں امامت کا حقدار کون ہے؟ اور کیا غلام، معذور اور نابالغ بچہ لوگوں کی امامت کروا سکتا ہے؟
(تفصیل کیلیے دیکھیں سلسلہ نمبر-252)

_________&_________

*یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے،کہ کسی غیر محرم مرد کے ساتھ عورت تنہا نماز نہیں ادا کر سکتی*

موجودہ دور میں جب ہر طرف فتنوں کا زور ہے وہاں ایک بہت بڑا فتنہ دین کے نام پر بے حیائی پھیلانے کا ہے، فلموں ڈراموں سے متاثر ہو کر ہمارے کئی نوجوان جو عشق و محبت میں مگن ہو کر اس طرح کی خرافات کرتے ہیں کہ منگیتر یا محبوبہ کو پیچھے کھڑا کر کے نماز پڑھتے ہیں اور اسے بڑی نیکی سمجھتے ہیں، جبکہ یہ حرام ہے،

شریعت اسلامیہ میں کسی بھی غیر مرد کو غیر عورت کے ساتھ خلوت کی اجازت نہیں

📚ایک مرتبہ خلیفۃ المسلمین عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جابیہ میں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے۔ پھر فرمایا ہمارے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح کھڑے ہوئے جیسے میں تمھارے درمیان کھڑا ہوں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔

“أَكْرِمُوا أَصْحَابِي ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ، ثُمَّ يَظْهَرُ الْكَذِبُ حَتَّى يَشْهَدَ الرَّجُلُ وَلَا يُسْتَشْهَدْ ، وَيَحْلِفَ الرَّجُلُ ، وَلَا يُسْتَحْلَفَ ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ بُحْبُحَةَ الْجَنَّةِ فَلْيَلْزَمِ الْجَمَاعَةَ ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ مَعَ الْوَاحِدِ وَهُوَ مِنَ الِاثْنَيْنِ أَبَعْدُ ، وَلَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ ، فَإِنَّ ثَالِثَهُمَا الشَّيْطَانُ ، وَمَنْ سَرَّتْهُ حَسَنَتُهُ وَسَاءَتْهُ سَيِّئَتُهُ فَهُوَ مُؤْمِنٌ ”
“میرے ساتھیوں کا اکرام کرو، پھر اس کے قریب والوں کا پھر ان کے قریب والوں کا پھر جھوٹ ظاہر ہو جائے گا یہاں تک کہ آدمی قسم کھائے گا اور اس سے قسم طلب نہیں کی جائے گی گواہی دے گا اس سے گواہی مانگی نہیں جائے گی خبردار! جس کو جنت کا وسط پسند ہو وہ جماعت کو لازم پکڑے اس لیے کہ اکیلےکے ساتھ شیطان ہوتا ہے اور وہ دو سے بہت دور ہوتا ہے اور کوئی مرد ہر گز کسی عورت کے ساتھ خلوت نہ کرے اس لیے کہ ان میں تیسرا شیطان ہوتا ہے جس شخص کو اس کی نیکی خوش کرے اور برائی بری لگے وہ مومن ہے۔”
(شرح السنۃ 9/27۔(2253)
(سنن ترمذی(2166) کتاب الفتن باب لزوم جماعۃ المسلمین
مستدرک حاکم 1/113،115،)
(مسند احمد 1/81)

اس حدیث سے صاف طور پر معلوم ہوا کہ غیر عورت کے ساتھ خلوت اختیار کرنا بالکل منع ہے۔

📒امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ شرح السنۃ میں لکھتے ہیں کہ:
“خلوة الرجل بالمرأة الأجنبية، والمسافرة بها حرام، فإن كانت من المحارم، فلا بأس بالمسافرة بها” (شرح السنۃ9/28)
“اجنبی عورت سے مرد کا خلوت کرنا اور اس کے ساتھ سفر کرنا حرام ہے۔اگر عورت محارم سے ہو تو پھر کوئی گناہ نہیں۔”

📚عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
” لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِاِمْرَأَةٍ إِلَّا وَمَعَهَا ذُو مَحْرَمٍ, وَلَا تُسَافِرُ اَلْمَرْأَةُ إِلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ ” فَقَامَ رَجُلٌ, فَقَالَ: يَا رَسُولَ اَللَّهِ, إِنَّ اِمْرَأَتِي خَرَجَتْ حَاجَّةً, وَإِنِّي اِكْتُتِبْتُ فِي غَزْوَةِ كَذَا وَكَذَا, قَالَ: ” اِنْطَلِقْ, فَحُجَّ مَعَ اِمْرَأَتِكَ ”
“کوئی مرد کسی عورت سے خلوت ہرگز نہ کرے مگر اس کے ساتھ اس کا محرم ہو اور عورت اپنے محرم کے علاوہ سفر نہ کرے۔ ایک آدمی کھڑا ہوا اس نے کہا یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم میری بیوی حج کرنے نکلی ہے اور میں فلاں فلاں غزوہ میں لکھا گیا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو واپس چلاجا۔اپنی بیوی کے ساتھ حج کر۔”
(صحیح مسلم حدیث نمبر-2/978(1341) (بخاری فتح الباری 9/242،5233،)
(طبرانی کبیر،11/335 )
(مسند احمد (1934،3231،3232)

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ جب غیر محرم مرد ساتھ عورت کا تنہائی اختیار کرنا ہی جائز نہیں اور ضروری سفر اور حج جیسی فرضی عبادت بھی غیر محرم مرد ساتھ قبول نہیں،جب تک اسکے ساتھ محرم نا ہو، تو نماز باجماعت جو عورت پر فرض ہی نہیں وہ کسی غیر محرم مرد کے ساتھ تنہائی میں کیسے جائز ہو سکتی ہے، ہاں اگر کوئی ساتھ محرم مرد ہو یا کوئی دوسری عورتیں بھی ہوں تو پھر غیر محرم کے پیچھے باپردہ نماز پڑھی جا سکتی،

_________&_________

*عورت اگر عورتوں کی امامت کرائے تو وہ صف کے درمیان میں کھڑی ہوگی*

📚سیدہ عائشہؓ نے فرض نماز پڑھائی اور آپ عورتوں کے درمیان (صف میں) کھڑی ہوئیں۔
(سنن دارقطنی 404ص/ ج1-ح 1429)
(و سندہ حسن،

(( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))

ا📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦ سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 📑
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں