1,313

سوال_کیا مقیم آدمی دو نمازیں جمع کر کے پڑھ سکتا ہے؟ اور جمع کرنے کا طریقہ کیا ہے؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-22”
سوال_کیا مقیم آدمی بغیر کسی شرعی عذر کے دو نمازیں جمع کر کے پڑھ سکتا ہے؟ اور جمع کرنے کا طریقہ کیا ہے؟

Published Date: 6-1-2018

جواب۔۔!
الحمدللہ۔۔۔!!

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں!

اعوذباللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

📚اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰبًا مَّوْقُوْتًا
[ایمان والوں پر نماز وقتِ مقرر پر فرض کی گئی ہے]
(سورہ نساء،آئیت نمبر-103)

لہذا نمازوں کو ان کے وقت پر ہی پڑھنا چاہیے،اور نمازوں کے مسنون اوقات کی تفصیل ہم سابقہ(سلسلہ نمبر-152) میں بیان کر چکے ہیں،

*رہی بات دو نمازوں کو جمع کرنے کی تو بعض حالات میں شریعت آسانی کیلئے دو نمازوں کو جمع کرنے کی اجازت دیتی ہے تا کہ امت مسلمہ پر دشواری نا ہو، جیسے کسی بڑے شرع عذر یعنی بارش،یا سفر وغیرہ میں دو نمازوں کو جمع کر سکتے ہیں، ایسے ہی کبھی کبھار ضرورت کے تحت بغیر کسی بڑے شرعی عذر جیسے کوئی دینی مجلس ہے اور ادھر نماز کا ٹائم ہو گیا تو وہ اپنی بات / مجلس مکمل کر لے کیونکہ اس سے تسلسل ٹوٹ جاتا یا ہو سکتا کئی لوگ نماز کے بعد چلے جائیں، یا کوئی شخص بازار میں گیا ہے اور اوپر سے نماز کا وقت ہو گیا،اب اسکے پاس وقت کم ہے اور کام بھی زیادہ پڑا ہے، اور اس کیلئے سامان رکھنا، گھر یا مسجد جانا اور پھر بازار واپس آنا وغیرہ مشقت والا کام،یا کوئی دکاندار یا کھیتی وغیرہ میں کام کرنے والا کہ جسکا کام زیادہ پڑا ہے، مسجد دور ہے اور وقت کم ہے اور ساتھ کوئی مدد کرنے والا بھی نہیں ہے،ان حالات میں شریعت نے مشقت سے بچنے کیلئے کبھی کبھار مقیم آدمی کیلئے بھی دو نمازوں کو جمع کر کے پڑھنے کی اجازت دی ہے کہ وہ جمع صوری کر لے، یعنی ظہر کو لیٹ کر کے عصر کچھ دیر پہلے پڑھ لے اور پھر ساتھ ہی عصر کے وقت میں عصر پڑھ کر دوبارہ اپنا کام شروع کر سکتا،*

دلائل درج ذیل ہیں!

📚سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى بِالْمَدِينَةِ سَبْعًا وَثَمَانِيًا : الظُّهْرَ، وَالْعَصْرَ، وَالْمَغْرِبَ، وَالْعِشَاءَ
“نبی کریم ﷺ نے مدینہ میں رہ کر سات رکعات(ایک ساتھ) اور آٹھ رکعات (ایک ساتھ) پڑھیں،
(یعنی) ظہر و عصر (کی آٹھ رکعات) اور مغرب،عشاء(کی سات رکعات)۔
(صحیح بخاري، مواقيت الصلواة، باب تأخير الظهر إلی العصر: حدیث نمبر_543 )
(ﺻﺤﻴﺢ ﻣﺴﻠﻢ_ﻛﺘﺎﺏ ﺻﻼﺓ اﻟﻤﺴﺎﻓﺮﻳﻦ ﻭﻗﺼﺮﻫﺎ/ – ﺑﺎﺏ اﻟﺠﻤﻊ ﺑﻴﻦ اﻟﺼﻼﺗﻴﻦ ﻓﻲ اﻟﺤﻀﺮ؛ حدیث705)

📚حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کہ ، انھوں نے کہا :
صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا بِالْمَدِينَةِ فِي غَيْرِ خَوْفٍ وَلَا سَفَرٍ. قَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ : فَسَأَلْتُ سَعِيدًا ؛ لِمَ فَعَلَ ذَلِكَ ؟ فَقَالَ : سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ كَمَا سَأَلْتَنِي، فَقَالَ : أَرَادَ أَنْ لَا يُحْرِجَ أَحَدًا مِنْ أُمَّتِهِ.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر،عصر  اور مغرب،عشاء کو مدینہ میں کسی خوف اور بارش کے بغیر جمع کیا ۔
وکیع کی روایت میں ہے،
ابو زبیر کہتے ہیں میں نے (ابن عباس کے شاگرد)سعید بن جبیر  سے پوچھا کہ آپﷺ نے ایسا کیوں کیا؟
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے یہی سوال ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے پوچھا : کہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیوں کیا؟
انھوں نے کہا : آپﷺ نے ایسا اس لیے کیا تاکہ اپنی امت کے کسی فرد کو تنگی اور دشواری میں نہ ڈالیں،
(صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرين، باب الجمع بین الصلاتين فی الحضر،حدیث نمبر-705)
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر-1211) صحیح
(سنن ترمذی،حدیث نمبر-187)

📚اور (صحيح مسلم | كِتَابٌ : الْمَسَاجِدُ وَمَوَاضِعُ الصَّلَاةِ  | بَابٌ : الْجَمْعُ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ فِي الْحَضَرِ  _705)
ہی کی ایک حدیث میں بارش  کی جگہ سفر کا ذکر ہے کہ
صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ جَمِيعًا فِي غَيْرِ خَوْفٍ وَلَا سَفَرٍ.
آپ ﷺ نے مدینہ میں سفر اور خوف کے بغیر نمازیں جمع کیں۔
(سنن نسائی حدیث نمبر-601)

📚ایک حدیث میں یہ الفاظ ہیں
(من غير مرض ولا علة) یعنی آپﷺ نے کسی بیماری اور علت کے بغیر دو نمازیں جمع کر کے پڑھیں،
(طبراني كبير٬ 12ج/ص137، حدیث12807)
إسناده حسن

📚 عبداللہ بن شفیق سے روایت کہ انھوں نے کہا :
خَطَبَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ يَوْمًا بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ، وَبَدَتِ النُّجُومُ، وَجَعَلَ النَّاسُ يَقُولُونَ : الصَّلَاةَ الصَّلَاةَ. قَالَ : فَجَاءَهُ رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ لَا يَفْتُرُ، وَلَا يَنْثَنِي : الصَّلَاةَ الصَّلَاةَ. فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَتُعَلِّمُنِي بِالسُّنَّةِ لَا أُمَّ لَكَ ؟ ثُمَّ قَالَ : رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمَعَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ. قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَقِيقٍ : فَحَاكَ فِي صَدْرِي مِنْ ذَلِكَ شَيْءٌ، فَأَتَيْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ ، فَسَأَلْتُهُ، فَصَدَّقَ مَقَالَتَهُ.
ایک دن حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما عصر کے بعد ہمیں خطاب کرنے لگے حتیٰ کہ سورج غروب ہوگیا اور ستارے نمودار ہوگئے اور لوگ کہنے لگے : نماز ، نماز!  پھر ان کے پاس بنو تمیم کا ایک آدمی آیا جو بار بار نماز ، نماز کہے جارہاتھا ،
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا
تیری ماں نہ رہے۔!
تو مجھے سنت سکھا رہا ہے؟
پھرابن عباس کہنے لگے :
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ نے ظہر وعصر کو
اور مغرب وعشاء کو جمع کیا،
عبداللہ بن شفیق کہتے ہیں یہ بات سن کر  میرے دل میں کچھ کھٹکنے لگا ،
چنانچہ میں حضر ت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے پوچھا ،
تو ا نھوں نے کہا وہ( ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما ) سچ کہتے ہیں،
(صحيح مسلم | كِتَابٌ : الْمَسَاجِدُ وَمَوَاضِعُ الصَّلَاةِ  | بَابٌ : الْجَمْعُ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ فِي الْحَضَرِ ،حدیث_705)
(مسند احمد حدیث نمبر-3293)

📚سفیان بن عینیہ نے عمرو بن دینار سے انھوں نے  جابر بن زید سے اور انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، انھوں نے کہا : میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آٹھ رکعات ( ظہر اورعصر ) اکھٹی اور سات رکعات ( مغرب اور عشاء ) اکھٹی پڑھیں ۔
عمرو  نے جابر بن زید سے کہا کہ میرا خیال ہے آپ نے ظہر کو موخر کیا اور عصر جلدی پڑھی اور مغرب کو موخر کیا اور عشاء میں جلدی کی،
انھوں نے کہا : میرا بھی یہی خیال ہے ۔
(صحيح مسلم | كِتَابٌ : الْمَسَاجِدُ وَمَوَاضِعُ الصَّلَاةِ  | بَابٌ : الْجَمْعُ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ فِي الْحَضَرِ ،حدیث نمبر_705)
(سنن نسائی،حدیث نمبر-589)

______&_______

*ائمہ و محدثین کرام کا اس مسئلہ میں بہت سارا اختلاف ہے،یہاں ہم علماء کرام کے اقوال اور انکے جواب پڑھتے ہیں*

📒جو لوگ اس حدیث سے جمع کو مطلقاً جائز سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ جائز ہے بشرطیکہ عادت نہ بنا لے۔ فتح الباری میں ہے کہ ابن سیرین رحمہ اللہ، ربیعہ، ابن منذر اور فقال الکبیر کا یہی مذہب تھا۔ خطابی رحمہ اللہ نے بعض اہل حدیث کی طرف منسوب کیا ہے۔ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ بغیر کسی عذر کے جائز نہیں ہے۔ صاحبِ بحر ذخار نے بعض اہل علم کے حوالہ سے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔
جمہور اس حدیث کے بہت سے جوابات دیتے ہیں۔

1-مثلاً یہ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بوجہ مرض ایسا کیا۔ نووی رحمہ اللہ نے اسے قوی قرار دیا ہے،
لیکن حافظ رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ یہ جواب درست نہیں اس لیے کہ ایسی صورت میں صرف آنحضرتﷺ کو نماز ادا کرنی چاہیے تھی۔ حالاں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے تصریح کی ہے کہ یہ نمازیں باجماعت ادا کی تھیں۔

2- یہ جواب بھی دیا گیا ہے کہ بادل چھائے ہوئے تھے ظہر کی نماز ادا کی، بادل ہٹا تو معلوم ہوا کہ عصر کا وقت ہوچکا ہے۔ تو عصر بھی ادا کی۔ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ احتمال ظہر و عصر میں تو ممکن ہے۔ لیکن مغرب و عشاء میں نہیں اس لیے یہ جواب بھی درست نہیں، حافظ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مغرب کا وقت معتمد ہے اس لیے یہ احتمال وہاں بھی موجود ہے۔

3-تیسرا جواب یہ دیا گیا ہے کہ یہ جمع صوری تھی۔ ظہر کو آخر وقت اور عصر کو اوّل وقت میں پڑھا۔ نووی رحمہ اللہ نے اسے بھی ضعیف اور باطل قرار دیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس جواب کو قرطبی نے پسند کیا ہے۔ امام الحرمین رحمہ اللہ نے اسے راجح قرار دیا ابن ماجشون اور طحاوی نے بھی پسند کیا۔

ابن سید الناس فرماتے ہیں کہ یہی جواب صحیح ترین ہے اس لیے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے والا ابو الشعشاء اس حدیث کا راوی ہے، اور راوی زیادہ بہتر سمجھتا ہے حدیث کے مطلب کو،

امام شوکانی رحمہ اللہ نے بھی اسی کو ترجیح دی ہے۔
اور اس کا ثبوت حدیث میں بھی ہے۔

📚نسائی کی روایت میں ابن عباس رضی اللہ عنہ نے صراحۃً فرمایا:
صَلّیْتُ مَعَ رَسُوْلَ اللّٰہ ﷺ بِالْمَدِیْنَۃِ ثَمَانِیًا جَمْعًا وَّسَبْعًا جَمْعًا اَخّرَا لظَّھَر وَعَجَّلَ الْعَصْرَ وَاَخّرَ الْمَغْرِبَ وَعَجّلَ الْعِشَائَ۔
یعنی آپ کے ساتھ میں نے آٹھ رکعت بھی اکٹھی پڑھیں اور سات بھی وہ یوں کہ ظہر کو مؤخر کیا اور عصر کو مقدم اسی طرح مغرب کو ذرا دیر سے اور عشاء کو جلدی پڑھا۔
(سنن نسائی حدیث نمبر-589)

تعجب ہے کہ نووی رحمہ اللہ نے اس تاویل کو ضعیف قرار دیا حالانکہ متن حدیث میں تصریح موجود ہے۔ ایک ہی قصہ میں اگر ایک روایت مطلق ہو اور دوسری مقید تو مطلق کو مقید بہ محمول کرنا چاہیے۔ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس حدیث کے کسی طریق میں بھی یہ مذکور نہیں کہ جمع کس وقت میں کی گئیں۔ اب یا تو اس کو مطلق رکھا جائے تو بغیر کسی عذر کے نماز کو اس کے وقت سے نکالنا لازم آتا ہے۔ یا اسے مقید و مخصوص سمجھا جائے اب یہ لازم نہیں ہے۔ لہٰذا احادیث میں تطبیق کی یہی صورت اولیٰ ہے کہ یہ جمع صوری تھی۔

شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یہ جمع ہے کیوں کہ ہر نماز اصل میں اپنے وقت میں ہوئی، جیسے بخاری، امام مالک، نسائی اور ابوداؤد نے نقل کیا ہے۔
آپ نے مدینہ میں جو نمازیں جمع کرکے پڑھی ہیں تو اس راوی حدیث (ابن عباس رضی اللہ عنہ) کی تصریح بعض طرق میں موجود ہے کہ یہ جمع صوری تھی،

نیل الاوطار میں ہے۔ جمع صوری کے مؤیدات میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ روایت بھی ہے جسے بخاری، امام مالک، نسائی اور ابوداؤد نے نقل کیا ہے۔

📚 مَا رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ صَلّٰی صَلٰوۃً لِغَیْرِ مِیْقَاتِھَا اِلاَّ صَلٰوتَیْنِ جَمَعَ بَیْنَ الْمَغْرب والْعِشَائِ بالمزدلفۃ وَصَلیَّ الْفَجْرَ یَوْمَئِذٍ قَبْلَ مِیْقَاتِھَا
آنحضرت ﷺ نے صرف دو نمازیں وقت کے بغیر پڑھیں ایک مزدلفہ میں کہ مغرب و عشاء کو جمع کیا اور دوسرے اسی دن نمازِ فجر کو وقت سے پہلے پڑھ لیا۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر-1682)
سنن ابو داؤد حدیث نمبر-1934)
تشریح :
یعنی بہت اول اوقت میں پڑھ لی، یہ نہیں کہ صبح صادق ہونے سے پہلے پڑھ لی جیسے بعض نے گمان کیا اور دلیل بخاری کی اس کے آگے کی روایت نمبر-1623 ہے جس میں صاف یہ ہے کہ صبح کی نماز فجر طلوع ہوتے ہی پڑھی،

اور دوسری طرف ابن مسعود رضی اللہ عنہ خود بھی مدینہ میں جمع کرنے کی روایت کے راویوں میں سے ہیں۔ اور یہاں فرما رہے ہیں آپﷺ نے صرف مزدلفہ میں نمازیں جمع کیں، ظاہر ہے ۔ تعارض سے بچنے کی ایک ہی صورت ہے کہ مدینہ والی روایات کو جمع صوری پر محمول کیا جائے۔

ابن جریر کہتے ہیں جمع صوری کی تائید ابن عمر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ 

📚خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ فکان یوخر الظھر ویعجل العصر فیجمع بینھما ویؤخر المغرب ویعجل العشاء فیجمع بینھما 
(مسند عبدالرزاق)
یعنی آپ ظہر کو مؤخر اور عصر کو مقدم کر لیتے اسی طرح مغرب کو مؤخر اور عشاء کو مقدم کرکے اکٹھی پڑھتے۔
ظاہر ہے یہ جمع صوری ہے۔

ان تمام روایات سے جمع صوری کے اقوال کو تقویت ملتی ہے۔ مزید برآں اصول کے مطابق لفظ جمع نمازوں کے اوقات کو شامل نہیں بلکہ اس سے مراد صرف ہیئت احتماعیہ ہے۔ چنانچہ اصول کی سب کتابوں مثلاً المنتہیٰ اور اس کی شرح الغایہ اور اس کی شرح میں ہے۔ اور یہ ہیئت اجتماعیہ ہر قسم کی جمع میں حاصل ہے۔ تقدیم ہو یا تاخیر اور خواہ صوری ہو۔ لیکن خیال رہے ان تین اقسام میں سے کوئی بھی باقی دو کو شامل نہ ہوگی۔ اس لیے ثابت شدہ اصول ہے کہ فعل مثبت میں عموم نہیں ہوتا۔ اب ہم ان تین صورتوں میں سے صرف ایک مراد لے سکتے ہیں۔ لیکن اس کی تعین دلیل کے ساتھ ہونی چاہیے۔ جمع صوری ہونے کے دلائل و مویذات (جیسا کہ ہم ذکر کرچکے ہیں) موجود ہیں۔ لہٰذا یہاں صرف ہی مراد لی جاسکتی ہے۔
اس کے بعد شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ترمذی نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث نقل کی ہے: مَنْ جَمَعَ بَیْنَ الصلوٰتین مِنْ غَیْرِ عُذْرٍ فَقَدْ اَلّی بَابًا مِنْ اَبْوَابِیعنی جس نے بلا عذر نمازوں کو جمع کرکے پڑھا اس نے کبیرہ گناہ کا ارتکاب کیا۔ یہ حدیث صحیح نہیں جیسا کہ خود ترمذی نے کتاب العلل میں لکھا ہے۔ اس روایت سے بھی معلوم ہوا کہ نماز وقت پر چاہیے اور عذر کے بغیر نماز جمع کرنا درست نہیں، پھر فرماتے ہیں ’’ واضح ہے یہ حدیث (جمع فی المدینہ) صحیح ہے جمہور کے اس پر عمل ترک کردینے سے اس کی صحت پر اثر نہیں آتا صرف استدلال ساقط ہے۔ اگرچہ ترمذی کے کلام سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ کسی نے بھی یہ مذہب اختیار نہیں کیا۔ لیکن کئی دوسروں نے بعض اہل علم کی طرف اس مذہب کو منسوب کیا ہے۔ اور مثبت کو ترجیح حاصل ہے۔ الغرض احادیث جمع میں صرف جمع صوری مراد ہے,

📒اوپر والی بحث جو ہم نے ذکر کی یہ علامہ شوکانی کی ہے،
علامہ شوکانی نے نیل الاوطار میں جمع بین الصلاتین پر تفصیل کے ساتھ بہت اچھی بحث کی ہے،آخر میں لکھتے ہیں:

’’القول بأن ذلک الجمع صوري متحتم،وقد جمعنا في ھذہ المسألۃ رسالۃ مستقلۃ،سمیناھا:تشنیف السمع بإبطال أدلۃ الجمع‘‘ انتھیٰ [یہ کہنا کہ یہ جمع صوری تھی،یہی حتمی ہے۔ہم نے اس مسئلے میں ایک مستقل رسالہ تصنیف کیا ہے،جس کا نام ’’تشنیف السمع بابطال أدلۃ الجمع‘‘ ہے]

(نیل الأوطار-۳/ ۲۶۴)

📒علامہ محمد بن اسماعیل الامیر ’’سبل السلام‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’وأما الجمع في الحضر فقال الشارح بعد ذکر أدلۃ القائلین بجوازہ فیہ:إنہ ذھب أکثر الأئمۃ إلی أنہ لا یجوز الجمع في الحضر،لما تقدم من الأحادیث المبینۃ لأوقات الصلوات،ولما تواتر من محافظۃ النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم علیٰ أوقاتھا؛ حتی قال ابن مسعود:ما رأیت النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم صلیٰ صلاۃ لغیر میقاتھا إلا صلاتین،جمع بین المغرب والعشاء بجمع،وصلیٰ الفجر یومئذ قبل میقاتھا،وأما حدیث ابن عباس عند مسلم
أنہ جمع بین الظھر والعصر والمغرب والعشاء بالمدینۃ من غیر خوف ولا مطر،قیل لابن عباس:ما أراد بذلک؟ قال:أراد أن لا یحرج أمتہ،فلا یصح الاحتجاج بہ؛ لأنہ غیر معین بجمع التقدیم والتأخیر،کما ھو ظاھر روایۃ مسلم،وتعیین واحد منھا تحکم،فوجب العدول عنہ إلی ما ھو واجب من البقاء علیٰ العموم في حدیث الأوقات للمعذور وغیرہ،وتخصیص المسافر لثبوت المخصص،وھذا ھو الجواب الحاسم۔ وأما ما یروی من الآثار عن الصحابۃ والتابعین فغیر حجۃ،إذ للاجتھاد في ذلک مسرح،وقد أول بعضھم حدیث ابن عباس بالجمع الصوري،واستحسنہ القرطبي ورجحہ،وجزم بہ الماجشون والطحاوي،وقواہ ابن سید الناس،لما أخرجہ الشیخان عن عمرو بن دینار راوي الحدیث عن أبي الشعثاء قال:قلت:یا أبا الشعثاء! أظنہ أخر الظھر وعجل العصر،وأخر المغرب وعجل العشاء؟ قال:وأنا أظنہ۔ قال ابن سید الناس:راوي الحدیث أدریٰ بالمراد منہ من غیرہ،وإن لم یجزم أبو الشعثاء بذلک۔وأقول:إنما ھو ظن من الراوي،والذي یقال فیہ:أدریٰ بما روی،إنما یجري في تفسیرہ للفظ مثلاً،علیٰ أن في ھذہ الدعویٰ نظرا،فإن قولہ صلی اللّٰه علیہ وسلم:(( فرب حامل فقہ إلی من ھو أفقہ منہ )) یرد عمومھا،نعم یتعین ھذا التأویل؛ فإنہ صرح بہ النسائي في أصل حدیث ابن عباس،ولفظہ:صلیت مع رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم بالمدینۃ ثمانیا جمعاً،وسبعاً جمعاً،أخر الظھر وعجل العصر،وأخر المغرب وعجل العشاء،والعجب من النووي کیف ضعف ھذا التأویل،وغفل عن متن الحدیث المروي،والمطلق في روایۃ یحمل علی المقید إذا کانا في قصۃ واحدۃ،کما في ھذا۔ ’’والقول بأن قولہ:أراد أن لا یحرج،یضعف ھذا الجمع الصوري لوجود الحرج فیہ،مدفوع،بأن ذلک أیسر من التوقیت،إذ یکفي للصلاتین تأھب واحد وقصد واحد إلی المسجد،ووضوء واحد بحسب الأغلب بخلاف الوقتین،فالحرج في ھذا الجمع لا شک أخف،وأما قیاس الحاضر علیٰ المسافر کما قیل فوھم لأن العلۃ في الأصل ھي السفر،وھو غیر موجود في الفرع،وإلا لزم مثلہ في القصر والفطر۔انتھیٰ ’’قلت:وھو کلام رصین،وقد کنا ذکرنا ما یلاقیہ في رسالتنا:’’الیواقیت في المواقیت‘‘ قبل الوقوف علیٰ کلام الشارح رحمہ اللّٰه وجزاہ خیرا۔۔۔ثم قال:واعلمأن جمع التقدیم فیہ خطر عظیم،وھو کمن صلیٰ الصلاۃ قبل دخول وقتھا،فیکون حال الفاعل کما قال اللّٰه:{وَ ھُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا} الآیۃ من ابتدائھا وھذہ الصلاۃ المتقدمۃ لا دلالۃ علیھا بمنطوق ولا مفھوم ولا عموم ولا خصوص‘‘ انتھیٰ۔ما في السبل۔واللّٰه تعالیٰ أعلم بالصواب۔
[اکثر ائمہ حضر میں جمع کے قائل نہیں ہے اور ان کی دلیل وہ حدیثیں ہیں،جن میں اوقات کی پابندی لازمی قرار دی گئی ہے اور دوسرا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اوقاتِ نماز پر پابندی کرنا۔چنانچہ ابن مسعود کی حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری زندگی کوئی نماز بے وقت نہیں پڑھی سوائے مزدلفہ کی دو نمازوں کے کہ وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب اور عشا کو جمع کیا اور صبح کی نماز وقت سے پہلے پڑھی۔صحیح مسلم کی ابن عباس والی حدیث کہ آپ نے بغیر کسی عذر کے مدینے میں نمازیں جمع کر کے پڑھیں،اس سے استدلال درست نہیں ہے،کیوں کہ اس میں جمع تقدیم و تاخیر کی تعیین نہیں ہے اور اگر کوئی تعیین کرے تو یہ زبردستی ہے اس لیے جس حدیث میں معذور اور غیر معذور کے لیے اوقات کا ذکر ہوا ہے اسی عموم کو باقی رکھنا ضروری ہے،مسافر کی تخصیص مخصص کے ثبوت کی وجہ سے ہے،یہی فیصلہ کن جواب ہے۔باقی رہے صحابہ اور تابعین کے آثار تو وہ حجت نہیں ہیں،کیوں کہ اس میں اجتہاد کا دخل ہے،بعض نے ابن عباس کی حدیث کو جمع صوری پر محمول کیا ہے۔مثلاً قرطبی،ماجشون،طحاوی،ابن سید الناس اسے قوی قرار دیا ہے،کیوں کہ راویِ حدیث نے ابو الشعثاء سے پوچھا کہ آپ نے شاید جمع صوری کی ہو تو اس نے کہا:میرا بھی یہی خیال ہے۔ابن سید الناس کہتے ہیں:’’حدیث کا راوی اس کا مطلب اچھا جانتا ہے۔‘‘ تو اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ الفاظِ حدیث کی تشریح اس کی معتبر ہے،لیکن ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کی صراحت کے ساتھ ان کا اپنا عمل بھی اس کی وضاحت کرتا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینے میں سات رکعات،آٹھ رکعات جمع کر کے پڑھی ہیں۔آپ نے ظہر کو موخر کیا اور عصر کو مقدم اور مغرب کو موخر کیا اور عشا کو مقدم۔ تعجب ہے کہ نووی نے اس تاویل کو کیسے ضعیف قرار دیا اور حدیث مروی کے متن سے کیسے غافل رہا اور مطلق کو مقید پر محمول کیا جاتا ہے،جب کہ ان کا واقعہ ایک ہی ہو،جیسا کہ اس حدیث میں ہے اور جمع صوری کی تاویل کو یہ قول ضعیف قرار دیتا ہے کہ ’’آپ کی امت پر آسانی ہو‘‘ لیکن یہ غلط ہے،جمع صوری میں بھی تو آسانی ہوتی ہے،کیوں کہ نماز کی تیاری اور وضو وغیرہ ایک ہی دفعہ کرنا پڑتا ہے اور وقت پر نماز پڑھنے کی نسبت اس میں آسانی ہے اور مسافر پر حاضر کو قیاس کرنا وہم ہے،کیوں کہ اصل میں علت سفر ہے اور وہ فرع میں موجود نہیں ہے،ورنہ اس سے قصر اور فطر بھی لازم آئے گا اور جمع تقدیم ایک خطرناک کام ہے کہ اس سے نماز وقت کے ہونے سے پہلے پڑھی گئی ایسا شخص اس آیت کا مصداق ہے:{وَ ھُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا}
اس پہلے پڑھی گئی نماز کی کوئی دلیل نہیں۔واﷲ اعلم
(سبل السلام -۱ج/ ص۴۹)

____________&___________

*جمع صوری کا طریقہ*

اوپر احادیث میں مقیم کے لیے بغیر کسی بڑے شرعی عذر کے دو نمازیں جمع کرنے کا طریقہ بتایا گیا ہے کہ ظہر کو لیٹ کر کے اور عصر کو جلدی کر کے اکٹھا پڑھ سکتے،اسی طرح مغرب لیٹ اور عشاء جلدی کر کے اکٹھی پڑھ سکتے ہیں، اس طرح دونوں نمازیں اپنے اپنے وقت میں بھی پڑھی جائیں گی اور جمع بھی ہو جائیں گی،یعنی بالفرض ظہر کا وقت 3:40 پر ختم ہوتا تو آپ ظہر کو 3:20 پر شروع کر دیں، جب تک ظہر پڑھیں گے عصر کا وقت شروع ہوجائے گا اور 3:40 پر عصر پڑھ لیں گے،

مقیم کے لیے کسی بڑے شرعی عذر کے بنا دو نمازوں کو جمع کرنے کا صرف یہی ایک طریقہ سنت سے ثابت ہے، اور صحابہ بھی اسی پر عمل کرتے تھے،

اسکے علاوہ کچھ علماء جمع تقدیم و تاخیر یعنی ظہر کے ساتھ ہی عصر اور مغرب کے ساتھ ہی عشا، یا عصر کے ساتھ ظہر اور عشاء کے ساتھ مغرب کی اجازت دیتے ہیں مگر ہمارے علم کے مطابق یہ جمع سفر یا بارش وغیرہ میں کسی بڑے شرعی عذر کی بنا پر تو جائز ہے مگر بغیر کسی بڑے شرعی عذر کے بغیر مقیم کیلے اس طرح جمع تقدیم و تاخیر جائز نہیں،مقیم کیلئے جمع کا طریقہ وہی درست ہے جو اوپر ہم نے ذکر کیا,

_______&_________

  *فجر کو ظہر ساتھ یا عصر کو مغرب ساتھ یا عشاء کو فجر ساتھ جمع نہیں کیا جا سکتا،کیونکہ اسکی کوئی دلیل نہیں*

______&__________

*بعض علماء مقیم کے لئے بغیر شرعی عذر کے دو نمازیں جمع کرنے کو کبیرہ گناہ شمار کرتے ہیں اور دلیل کے طور پر یہ حدیث پیش کرتے ،کہ*

📚نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جس نے بغیر عذر کے دو نمازیں ایک ساتھ پڑھیں وہ کبیرہ گناہوں کے دروازوں سے میں ایک دروازے میں داخل ہوا“
(سنن ترمذی،حدیث نمبر-188)
(الضعیفہ،4581)
ضعیف جدا، اسکی سند میں حسین بن قیس ضعیف بلکہ متروک راوی ہے،
۔ امام ترمذی خود اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں:
۱- حنش ہی ابوعلی رحبی ہیں اور وہی حسین بن قیس بھی ہے۔ یہ محدّثین کے نزدیک ضعیف ہے، احمد وغیرہ نے اس کی تضعیف کی ہے،

_________&________

*لہٰذا ثابت ہوا کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور صحیح احادیث کے بھی خلاف ہے،کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے صحیح احادیث میں مقیم کے لیے بغیر کسی شرعی عذر کے بھی دو نمازیں جمع کرنا ثابت ہے،جیسا کہ اوپر احادیث میں گزرا،اور ثابت ہوا کہ مقیم آدمی بھی ضرورت کے تحت کبھی کبھار دو نمازیں جمع کر سکتا ہے، وہ بھی جمع صوری کی شکل میں ،لیکن انھیں معمول بنانا قطعاً جائز نہیں،کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا معمول نمازوں کو اول وقت میں ادا کرنا ہی تھا*

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)))

_________&__________

📒بارش، یا کسی بڑے شرعی عذر کی بنا پر  دو نمازوں کو جمع کرنے کے بارے شرعی حکم کیا ہے؟
((دیکھیں سلسلہ نمبر-198))

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦ 
📖 سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
                   +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں