961

سوال_پاکپتن میں ایک دربار پر موجود بہشتی دروازے کی تاریخی اور شرعی حیثیت کیا ہے؟ اس دروازے کی طرف رخت سفر باندھنے والوں اور جو لوگ اس دروازے سے گزرتے ہیں شریعت میں ان کے بارے کیا حکم ہے؟

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-280”
سوال_پاکپتن میں ایک دربار پر موجود بہشتی دروازے کی تاریخی اور شرعی حیثیت کیا ہے؟ اس دروازے کی طرف رخت سفر باندھنے والوں اور جو لوگ اس دروازے سے گزرتے ہیں شریعت میں ان کے بارے کیا حکم ہے؟

Published Date: 15-9-2019

جواب:
الحمدللہ:

پاکپتن میں بابا فرید گنج شکر کے مزار پر ’’باب الجنۃ‘‘ کے نام سے ایک دروازہ ہے جسے عوام الناس ’’بہشتی دروازہ‘‘ کہتے ہیں، عرس کے موقعے پر مزار کا ’’مجاور اکبر‘‘ سجادہ نشین، اس دروازے کی قفل کشائی کرتا ہے اور ہزاروں لوگ اس دروازے سے گزرتے ہیں،اس دروازے کے بارے بہت سی من گھڑت باتیں ،قصے مشہور ہیں جس طرح کہ آپ حضرات جانتے ہیں کہ صوفی ازم کا تقریباً سارا دین ہی خوابوں اور قصوں کہانیوں پر مشتمل ہے۔۔۔!

اس دروازے کے بارے بھی مختلف قصے کہانیوں کی وجہ سے لوگوں کے مختلف عقائد ہیں:

1_ کچھ لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ گویا انھوں نے جنت کا دروازہ عبور کر لیا ہے،

2_ کچھ لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ انکے سابقہ گناہ معاف ہو گئے ہیں،

3_اور کچھ لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس دروازے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گزرے تھے اور آپ نے فرمایا تھا کہ جس کا قدم میرے قدموں پر آ گیا وہ جنت میں جائے گا

4_کچھ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ بابا فرید گزرے تھے انہوں نے کہا کہ میرے راستے یعنی میرے طریقہ پر چلو تو بخشش ہو گی،
وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔۔!

یہاں تک کہ اس دروازے کے اوپر دیکھیں تو عربی و اردو عبارت لکھی ہوئی ہے،
یہ بقول ان کے : ’حدیث‘ ہے جس کے تمام راوی ’ثقہ‘ ہیں ۔۔۔🙄

بقول انکے حدیث یہ ہے :

،📚حضرت شاہ مہر علی گولڑوی نے فرمایا کہ انہوں نے اپنے شیخ خواجہ شمس الدین سیالوی سے سنا اور انہوں نے اپنے شیخ خواجہ محمد سلیمان تونسوی سے سنا انہوں نے شیخ فخر الدین دہلوی سے سنا اور انہوں نے خواجہ نظام الدین فرید سے وہ فرماتے ہیں کہ : ’’ آں حضرت ﷺ کی روحانیت نے مجھ سے فرمایا کہ حق تعالی کا یہ حکم ہے کہ
( من دخل ھذہ الباب آمن )
جو شخص اس دروازے سے گزرے گا ، جنتی ہے ۔ ‘‘
ان کا کہنا ہے کہ نہ صرف یہ حدیث ہے بلکہ حدیث قدسی ہے ! اسناد متصل ہے رواۃ ثقہ ہیں حدیث صحیح ہے !
(حوالے کے لیے دیکھیے :
بہشتی دروازہ از صاحبزادہ محب اللہ نوری ، فقیہ اعظم پبلی کیشنز ، دارالعلوم حنفیہ فریدہ بصیر پور اوکاڑہ۔ سن اشاعت دسمبر ۲۰۱۰، صفحات: ۹ تا ۱۵)

_____&______

*اس من گھڑت حدیث اور بہشتی دروازے کی تاریخی حیثیت*

آئیے دیکھتے ہیں کہ اس دروازے اور حدیث کی حقیقت کیا ہے، کس وجہ سے اسکو بہشتی دروزاہ کا نام دیا گیا تھا،

📚 انوار الفرید کے نام سے 1301ھ میں چھپنے والی کتاب کے مصنف پیر محمد حسین چشتی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں،
کہ حضرت بابا فرید صاحب کی لاش کو جنازہ کے بعد امانتاً اس جگہ دفن کر دیا جہاں شیخ شہاب الدین کا اب مزار ہے،چند روز بعد خواجہ نظام الدین اولیاء دہلی سے اجودھن آئے تو آپ نے بابا فرید کا روضہ بنانا چاہا تو آپکو خواب میں غیبی آواز سنائی دی،
آواز کے الفاظ یہ تھے

“بنائے روزہ از خشت پاک طیار ساختہ برآنہا ختم کلام اللہ خواندہ از آں خشتہائے مرمت روزہ شریف بکنید”
یعنی روزہ شریف کی بنیاد ایسی پاک اینٹوں سے رکھنا کہ جن پر قرآن ختم کیے گئے ہوں اور روضہ شریف کی مرمت بھی انہی اینٹوں سے کرنا،

یہ سن کر خواجہ نظام الدین اولیاء نے سینکڑوں حافظ بلوائے ،آپکے خلفاء جمع کیے اور ان اینٹوں سے جن پر قرآن ختم کیا گیا تھا روزہ شریف بنوایا جب کام ختم ہو گی تو مریدین اور خلفاء نے حضرت بابا فرید کی لاش نکالی ،انکو عطر سے معطر کیا اس دوران نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،تمام انبیاء ،صحابہ کرام اور اولیائے کرام وغیرہ کی روحیں ظاہر ہوئیں،
آگے لکھتے ہیں کہ قبر بنانے کے لیے کچی اینٹوں کی ضرورت تھی اور وہ مل نہیں رہی تھیں تو بابا فرید صاحب کی روح نے خواجہ نظام الدین اولیاء کو ارشاد فرمایا کہ شرق کی طرف جو جالیاں چھوڑی ہیں وہ گرا دو اور ان سے کچی اینٹیں نکال لو اور قبر میں لگا دو، لہذا وہ جالی کی اینٹیں نکالنے سے وہاں دروازہ بن گیا،
پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور انبیاء کرام و صحابہ و اولیاء اس دروازے سے باہر آئے اور وہاں کھڑے ہو گئے جہاں اب چھوٹی سی کوٹھڑی ہے جسکا نام قدم رسول رکھا گیا، وہاں خواجہ نظام الدین اولیاء سے ( آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تمام انبیاء وغیرہ نے) ارشاد فرمایا کہ،
کہ ہمیں اللہ کی طرف سے حکم ملا ہے کہ جو کوئی اس دروازے سے گزرے گا اللہ اسکے گناہ بخش دے گا اور آتش دوزخ سے نجات پائے گا،
من دخل ھذ الباب آمن
تم بآواز بلند اس بات کا علان کر دو، تو خواجہ صاحب نے اعلان کر دیا اور شرق غرب تک یہ بات پہنچ گئی مگر کچھ لوگ جو دل کے اندھے تھے انہوں نے انکار کیا،
پھر خواجہ صاحب نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا حضور اپنے دیدار سے لوگوں کو مشرف فرما دیں،
حضور نے آپکی گزارش قبول کی اور فرمایا

“ہرکس کہ اندریں زماں آئد ہمہ را بچشم ظاہر معائنہ شود”
یعنی کہ جو کوئی اس وقت آئے بلا شبہ اپنے چشم ظاہر سے مجھے دیکھ لے،

یہ سن کر خواجہ صاحب پر ایک کیفیت طاری ہو گئی اور انہوں نے دستک دے کر بلند آواز سے کہا
اللہ محمد چار یار حاجی خواجہ قطب فرید فرید فرید ،
اور دروازہ میں داخل ہو کر مشرقی دروازے سے باہر آ گئے
الحال آں دروازہ بہشتی مے گویند
آج تک اس دروازے کو بہشتی دروازہ کہتے ہیں
(جواہر فریدی صفحہ292/انوارا الفرید )

انا للّٰہ وانا الیہ راجعون 😥،

قارئین کرام اندازا لگائیں کہ کس قدر بڑا جھوٹ گھڑا گیا ہے، کہ تمام انبیاء کرام،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس دربار پر آئے اور مزار بنانے کا حکم دیا انہوں نے اور اس مزار پر جنتی دروزاہ رکھوایا،

لا حول ولا قوة الا بالله
یار حد ہوتی ہے جھوٹ کی بھی،

📒دوسری بات کہ اس من گھڑت حدیث کی کوئی سند نہیں، ڈائریکٹ خواب اور روحوں اور غیبی آوازوں کا ذکر ہے، جس کے بارے دین کا ادنی طالب علم بھی جانتا ہے کہ ایسی کوئی روایت شریعت میں تسلیم نہیں کی جاتی، بلکہ سفید جھوٹ سمجھا جاتا ہے،

اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف جھوٹ منسوب کرنا کبیرہ گناہ ہے،

امام ترمذی رحمہ اللہ نے سنن ترمذی میں باب باندھا ہے کہ

8-بَاب مَا جَاءَ فِي تَعْظِيمِ الْكَذِبِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ​
۸-باب: رسول اللہ ﷺ کی طرف جھوٹی بات کی نسبت کرنا گناہ عظیم ہے​

📚2659- حَدَّثَنَا أَبُو هِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، عَنْ زِرٍّ، عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: “مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ” عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:” جس نے جان بوجھ کر میری طرف جھوٹ کی نسبت کی تو وہ جہنم میں اپنا ٹھکانا بنالے”
(سنن ترمذی حدیث نمبر-2659)

مفہوم یہ ہے کہ آپ ﷺ کی طرف جھوٹی بات منسوب کرنا گناہ عظیم ہے، اسی لئے ضعیف اور موضوع روایات کا علم ہوجانے کے بعد انہیں بیان کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے، یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ آپ ﷺ کی طرف جھوٹی بات کی نسبت آپ پر جھوٹ باندھتے ہوئے کی جائے یا آپ کے لیے کی جائے دونوں صورتیں گناہ عظیم کا باعث ہیں،

📚2660- حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُوسَى الْفَزَارِيُّ ابْنُ بِنْتِ السُّدِّيِّ، حَدَّثَنَا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِاللهِ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ الْمُعْتَمِرِ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: “لاَ تَكْذِبُوا عَلَيَّ فَإِنَّهُ مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ يَلِجُ فِي النَّارِ”
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:” مجھ پرجھوٹ نہ باندھو کیوں کہ مجھ پر جھوٹ باندھنے والا جہنم میں داخل ہوگا”
(سنن ترمذی حدیث نمبر-2660)

📒تیسری بات صاحب مصنف خود اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ 1306ھ میں جو کتاب لکھی گئی اس سے پہلے کسی جگہ پر بہشتی دروازے کا ذکر نہیں بلکہ انوار الفرید کے اصل نسخوں میں بھی یہ بات موجود نہیں،

دیکھیں عبارت

📚انوار الفرید میں سید مسلم مصنف خود لکھتے ہیں کہ اس سے پہلے اس بہشتی دروازے کا ذکر کسی جگہ نہیں ملتا ،یہاں تک کہ جواہر فرید کے جو اصلی قلبی نسخے ہیں ان میں بھی اسکا ذکر نہیں ملتا،
(انوار الفرید، صفحہ 315 ،316)

(کتاب_بہشتی دروازہ /صفحہ22٫23٫24)
مصنف_ علامہ محمد فیض اویسی
ناشر_اویسی بک سٹال
جامع مسجد رضائے مجتبی ایکس بلاک پیپلز کالونی گوجرنوالہ

اور پھر اس دروازے کی زیارت کرتے ہوئے یا عرس کے دوران زیادہ تر لوگ یہی نعرہ لگاتے ہیں ،یعنی ’’اللہ محمد چار یار حاجی عثمان خواجہ قطب فرید‘‘ ۔ اب یہ کون سا ذکر ہے ، کس آیت یا حدیث سے ثابت ہے یہ سوال نہ کریں ، ورنہ گستاخی ہو جائے گی ۔ اس کے علاوہ بعض لوگ صرف فرید فرید پکارتے ہیں ، مزار کی انتظامیہ سمیت ان کے علما کا کہنا ہے کہ یہ نعرے درست ہیں ۔
اگر یقین نہ آئے تو مذکورہ کتاب کا صفحہ ۱۴ اور اگلے صفحات دیکھے جا سکتے ہیں،

______&________

*بہشتی دروازے کی شرعی حیثیت*

📒 پہلی بات

کون نہیں جانتا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو قبر کو پختہ بنانے اور اس پر گنبد،دربار بنانے سے ہی منع فرمایا تھا،

📚جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو،
قبر پر بیٹھنے،قبر کو پختہ بنانے، قبر کو چونا گچ کرنے اور اس پر عمارت تعمیر کرنے سے منع فرماتے سنا ہے،
(صحیح مسلم،کتاب الجنائز-970)
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر-3225)
(سنن ترمذی،حدیث نمبر-1052)

اور ایک روایت میں آتا ہے کہ

📚علی رضی الله عنہ نے ابوالھیاج اسدی سے کہا: میں تمہیں ایک ایسے کام کے لیے بھیج رہا ہوں جس کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھیجا تھا: تم جو بھی ابھری قبر دیکھو، اسے برابر کئے بغیر اور جو بھی مجسمہ،(بت،تصویر) دیکھو، اسے مسمار کئے بغیر نہ چھوڑنا،
(صحیح مسلم،کتاب الجنائز،969)
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر-3218)
(سنن نسائی،حدیث نمبر-2042)
(سنن ترمذی،حدیث نمبر1049)

دنیا میں کسی بھی مقدس مقام کو متبرک ماننا شرعی طور پر جائز نہیں یہ واقعہ پڑھیں!

📚عمر رضی اللہ عنہ حجر اسود کے پاس آئے اور اسے بوسہ دیا اور فرمایا ”میں خوب جانتا ہوں کہ تو صرف ایک پتھر ہے، نہ کسی کو نقصان پہنچا سکتا ہے نہ نفع۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے میں نہ دیکھتا تو میں بھی کبھی تجھے بوسہ نہ دیتا۔“
(صحیح بخاری حدیث نمبر-1597)

📚 سیدنا ابو واقد لیثیؓ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ
أَنَّهُمْ خَرَجُوا عَنْ مَكَّةَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى حُنَيْنٍ، قَالَ : وَكَانَ لِلْكُفَّارِ سِدْرَةٌ يَعْكُفُونَ عِنْدَهَا، وَيُعَلِّقُونَ بِهَا أَسْلِحَتَهُمْ، يُقَالُ لَهَا : ذَاتُ أَنْوَاطٍ ، قَالَ : فَمَرَرْنَا بِسِدْرَةٍ خَضْرَاءَ عَظِيمَةٍ، قَالَ : فَقُلْنَا : يَا رَسُولَ اللَّهِ، اجْعَلْ لَنَا ذَاتَ أَنْوَاطٍ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” قُلْتُمْ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ كَمَا قَالَ قَوْمُ مُوسَى : { اجْعَلْ لَنَا إِلَهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةً قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ }، إِنَّهَا السُّنَنُ، لَتَرْكَبُنَّ سُنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ سُنَّةً سُنَّةً ”
ہم لوگ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ کے ساتھ حنین کے لیے مکہ مکرمہ سے نکلے، کافروں کی ایک( متبرک) بیری تھی، وہ اس کے پاس قیام کرتے تھے اور اس کے ساتھ اپنا اسلحہ لٹکاتے تھے (اور مجاور بن کر اس کے اردگرد بیٹھتے تھے)، اس بیری کو ذات ِ انواط کہتے تھے، پس ہم سبز رنگ کی ایک بڑی بیری کے پاس سے گزرے تو ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہمارے لیے بھی ایک ذات ِ انواط بنائیں، جیسا کہ کافروں کی ذات ِ انواط ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم نے تو وہی بات کہی، جو موسیٰؑ کی قوم نے کہی تھی،
جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ اِجْعَلْ لَّنَا اِلـٰهًا کَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ قَالَ اِنَّکُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُوْنَ﴾
اے موسی! ہمارے لیے بھی ایک معبود ایسا مقرر کر دیجئے! جیسے ان کے یہ معبود ہیں، آپ نے کہا کہ واقعی تم لوگوں میں بڑی جہالت ہے۔ (اعراف: ۱۳۸)
یہ مختلف طریقے ہیں، البتہ تم ضرور ضرور اور ایک ایک کر کے پہلے والے لوگوں کے طریقوں کو اپناؤ گے
(مسند أحمد | مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ | حَدِيثُ أَبِي وَاقِدٍ اللَّيْثِيِّ ،حدیث نمبر-21897)
اسنادہ صحیح علی شرط الشیخین
(سنن ترمذی حدیث نمبر-2180)

پھر حدیبیہ کے مقام پر جس درخت کے زیر سایہ’’بیعت رضوان‘‘ کا انعقاد ہوا تھا،
یعنی یہ وہ درخت ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس درخت کے نیچے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بیعت لی تھی تو بعد میں کچھ لوگوں نے اسی درخت یا اسکے مغالطہ میں کسی اور درخت کو متبرک سمجھنا شروع کر دیا اور اسکے نیچے جا کر نمازیں پڑھنا شروع کر دیں،جب اس کے بارے میں خلیفہ راشد عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا کہ لوگ اسے متبرک سمجھ کر اس کی زیارت کے لیے اہتمام کرتے ہیں، وہاں نمازیں پڑھتے ہیں تو اس کو جڑ سے کٹوا پھینکا باوجود کہ اس درخت عظیم کا تذکرہ کتاب الٰہی میں بھی موجود ہے۔ جو اس کی عظمت پر دالّ ہے،

📚 حافظ ابن حجر رحمہ اللہ
كہتے ہيں:
أنَّ عمرَبلغَهُ أنَّ قومًا يأتونَ الشَّجرةَ فيصلُّونَ عندَها فتوعَّدَهُم ثمَّ أمرَ بقطعِها فقُطِعَت
عمر رضى اللہ تعالى عنہ كو علم ہوا كہ كچھ لوگ جا كر درخت كے نيچے نماز ادا كرتے ہيں تو انہوں نے انہيں وعيد(ڈانٹ،ڈنپٹ) پلائى اور پھر اس درخت كو كاٹنے كا حكم جارى كر ديا ”
(ابن حجر العسقلاني (٨٥٢ هـ)،
( فتح الباري لابن حجر ٧/٥١٣ • إسناده صحيح)
(علامہ العيني حنفی (٨٥٥ هـ)،
عمدة القاري ١٧/٢٩٤ • إسناده صحيح)

📚اسی طرح کتب تاریخ و سیر میں یہ قصہ معروف ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں جب تُستر میں ہرمز کے مخزن سے دانیال علیہ السلام کی لاش برآمد ہوئی تو مختلف مقامات پر تیرہ قبریں کھود کر ان کو دفن کرکے رات کی تاریکی میں مٹی کے برابر کر کے قبروں کا نام و نشان مٹا دیا گیا تاکہ عامۃ الناس اور جہلاء کے لیے فتنہ کا سبب نہ بنے۔
( البدایۃ والنہایۃ: ۲ج/ص۳۷،۳۸)

📚مزید آنکہ ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بحالت سفر ساتھیوں کو صبح کی نماز پڑھائی۔ پھر دیکھا کہ لوگ ادھر اُدھر جا رہے ہیں۔ دریافت کیا کہ یہ کہاں جاتے ہیں؟ کہا گیا: اے امیر المومنین! ایک مسجد ہے جس میں رسول اللہﷺ نے نماز پڑھائی تھی یہ اسی میں نماز پڑھتے ہیں۔ فرمایا: پہلی امتیں اسی وجہ سے ہلاک ہو گئیں کہ انھوں نے انبیاء ؑ کے آثار کی پیروی میں ان جگہوں میں عبادت خانے اور گرجے بنا لیے۔
لہذا جس شخص کو ان مسجدوں میں نماز کا وقت آجائے نماز پڑھے ورنہ گزر جائے،
( مصنف ابن ابی شیبۃ، کتاب الصلوات ، باب فی الصلاۃ عند قبر النبی ﷺ و إتیانہ ،رقم الباب:۶۶۱، (۲/۱۵۳)، رقم: ۷۵۴۹)

آپ اندازہ لگائیں کہ جس شریعت میں صاحب شریعت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی میں جیتے جاگتے ہوئے قبروں پر گنبد مزار بنانے سے منع فرمایا ہو اور پھر ان قبوں، مزاروں کو توڑنے،مٹانے کے لیے سپیشل اپنے داماد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور انہوں نے آگے سپیشل ابو الھیاج اسدی کو بھیجا۔۔۔۔۔
بقول خواجہ کے۔۔ پھر وفات پانے کے بعد آپ نے مزار،قبے آپ نے اپنی آنکھوں کے سامنے کیسے بننے دیے؟
اور پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جس جگہ کو صاحب شریعت گرانے کا حکم دیں وہاں پر جنتی دروازہ بنانے کا حکم دیں گے؟

یعنی زندگی میں جس کام سے منع فرمایا تو وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے کہنا کہ آپ نے حکم دیا ہے اس کام کے کرنے کا؟ کیا یہ تہمت نہیں؟

اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی شرک و کفر اور جہالت کا ہر ایک دروازہ بند کیا،کسی بھی موقع پر مسلمانوں کو کسی بدعت و شرک میں نہیں پڑنے دیا،اور انہیں کی کوششوں کی بدولت آج دیکھ لیں جو عرب مشرکین مکہ کے نام سے جانے جاتے تھے آج وہاں شرک و بدعات کا نام و نشان تک باقی نہیں رہا،بلکہ آج بھی وہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے ہر ایسی جگہ کو مسمار کر دیا جاتا ہے جسے باہر سے آنے والے لوگ جہالت کے باعث متبرک سمجھ کر پوجنا شروع کر دیتے ہیں،

جبکہ اس کے برعکس پاکستان میں آپ خاص کر پنجاب اور سندھ کے علاقوں میں نکلیں تو ہر کلو۔میٹر پر آپکو دربار،مزار، قبے، نظر آئیں گے، کہیں کسی درخت پر تعویذ دھاگے، جھنڈے لگے ہونگے تو کہیں کسی دیوار کو متبرک مان کر چوما جاتا ہے ،کہیں کھوتے گھوڑے کی پوجا ہوتی ہے تو کہیں کچھوے بابا اور مگر مچھ بابا سے منتیں مرادیں مانگی جاتی ہیں،

استغفرُللہ و اتوب الیہ!!!

_______&_________

📒دوسری بات

کہ شریعت کی نگاہ میں ’’بہشتی دروازہ‘‘ کا اِطلاق صرف اُخروی جنت کے دروازے پر ہوتا ہے،دنیا میں کسی جگہ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنت کا دروازہ نہیں کہا،
اگر دنیا میں کوئی جنت کا دروازہ ہوتا تو یقیناً بیت اللہ کا دروازہ ہوتا،

مدینہ میں موجود اس مقام پر ہوتا جس کے بارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ یہ ریاض الجنہ ہے،

اگر دنیا میں جنت کا دروازہ ہوتا تو مسجد نبوی کا دروزاہ ہوتا،
مسجد حرام کا دروزاہ ہوتا،

عائشہ صدیقہ( رض) کے حجرے کا دروازہ ہوتا جس سے میرے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح شام گزرتے تھے،

اگر دنیا میں کوئی جگہ متبرک ہوتی تو مکہ و مدینہ کی گلیاں متبرک ہوتی وہاں سے جنت کے ٹکٹ ملتے، جہاں میرے آقا کے قدم مبارک لگتے تھے،

مگر صاحب شریعت نے تو وفات کے بعد اپنی تدفین بھی حجرے میں کرنے کا حکم دیا کہ باہر قبر ہوئی تو لوگ کہیں میری قبر پر مسجد نا بنا لیں اور متبرک سمجھ کر یہاں عبادت نا شروع کر دیں،

📚جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض وفات میں فرمایا کہ یہود اور نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنا لیا۔عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اگر ایسا ڈر نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کھلی رہتی ( اور حجرہ میں نہ ہوتی ) کیونکہ مجھے ڈر اس کا ہے کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر بھی مسجد نہ بنا لی جائے۔
(صحیح بخاری،حدیث نمبر_1330)

📚جندب بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،
وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کی وفات سے پانچ دن پہلے آپ سے سنا، آپ فرما رہے تھے۔۔۔
خبردار! تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء اور نیک لوگوں کی قبروں پر مساجد بنا لیتے تھے،
خبردار! تم قبروں کو مساجد مت بنانا، بیشک میں تمہیں اس سے روک رہا ہوں
(صحیح مسلم،حدیث نمبر_532)

یہی وجہ تھی کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بے پناہ محبت و عقیدت کے باوجود انہوں نے ایسا کوئی کام نہیں کہا جو دین اسلام میں شرک و بدعات کا باعث بنتا،

______&______

📒تیسری بات:

🚫اس مزار پر موجود بہشتی دروازے کو دنیا کے سب سے بڑے چور ڈاکو لٹیرے، داڑھی منڈے بے نماز عیاش اور گدی نشین پیر صاحباں وغیرہ کھولتے ہیں، اور پہلے سب سے بڑے چور ڈاکو کو اس دروازے سے گزارا جاتا ہے ،

جبکہ حقیقی جنتوں کا دروازہ پوری دنیا سے محترم و مکرم پیارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھلوائیں گے اور آپ سے پہلے کسی کے لیے یہ دروازہ نہیں کھولا جائے گا،

چنانچہ ’’صحیح مسلم‘‘ میں حدیث ہے،

📚نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ یَقْرَعُ بَابَ الْجَنَّةِ‘
’’سب سے پہلے میں جنت کا دروازہ کھٹکھٹائوں گا۔‘‘
(صحيح مسلم | كِتَابٌ : الْإِيمَانُ | بَابٌ : فِي قَوْلِ النَّبِيِّ : أَنَا أَوَّلُ النَّاسِ يَشْفَعُ فِي الْجَنَّةِ حدیث نمبر: 196)

📚’’صحیح مسلم‘‘ ہی کی دوسری روایت میں الفاظ یوں ہیں:
انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’ آتِي بَابَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَأَسْتَفْتِحُ، فَيَقُولُ الْخَازِنُ : مَنْ أَنْتَ ؟ فَأَقُولُ : مُحَمَّدٌ، فَيَقُولُ : بِكَ أُمِرْتُ، لَا أَفْتَحُ لِأَحَدٍ قَبْلَكَ ”
’’قیامت کے روز میں جنت کے دروازہ کے پاس آؤں گا اور اسے کھلواؤں گا،
جنت کا داروغہ پوچھے گا کون؟
میں کہوں گا محمد، پس وہ کہے گا مجھے اسی کا حکم دیا گیا تھا کہ آپ سے پہلے کسی اور کے لیے نا کھولوں،

(صحيح مسلم | كِتَابٌ : الْإِيمَانُ | بَابٌ : فِي قَوْلِ النَّبِيِّ : أَنَا أَوَّلُ النَّاسِ يَشْفَعُ فِي الْجَنَّةِ حدیث نمبر_ 197)

______&______

📒چوتھی بات:

🚫اس دنیاوی جنت کا ایک دروازہ ہے اور وہ بھی سال بعد کچھ وقت کے لیے کھلتا ہے، اور خاص کر پورا رمضان بند رہتا ہے،

جب کہ اصلی جنت کے آٹھ دروازے ہیں،

📚اور ’’صحیحین‘‘ میں ہے:
’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جنت کے آٹھ دروازے ہیں۔ ان میں ایک دروازے کا نام ریان ہے۔ جس سے داخل ہونے والے صرف روزے دار ہوں گے۔“
( صحیح البخاری،بَابُ صِفَةِ أَبْوَابِ الجَنَّةِ،رقم:حدیث نمبر-3257)

اور وہ پورے رمضان کھلے رہتے ہیں

📚 چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إِذَا دَخَلَ رَمَضَانُ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ وَسُلْسِلَتِ الشَّيَاطِينُ
”جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں۔ جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں میں کس دیا جاتا ہے۔“
(صحیح بخاری حدیث نمبر-3277)

یہ دنیاوی دروازہ جنتی یا جہنمی فرق آپکے سامنے ہے !!!

________&______

📒پانچویں بات:

اصلی بہشتی دروازے پر تو فرشتے استقبال کریں گے اور جنتی دروازے کا یہ منظر ہوگا کہ ہر جنت میں داخل ہونے والے پر فرشتے سلام بھیجیں گے!

قرآن میں ہے!

📚وَسِیۡقَ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا رَبَّہُمۡ اِلَی الۡجَنَّۃِ زُمَرًا ؕ حَتّٰۤی اِذَا جَآءُوۡہَا وَ فُتِحَتۡ اَبۡوَابُہَا وَ قَالَ لَہُمۡ خَزَنَتُہَا سَلٰمٌ عَلَیۡکُمۡ طِبۡتُمۡ فَادۡخُلُوۡہَا خٰلِدِیۡنَ
اور جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے تھے ان کے گروہ کے گروہ جنت کی طرف روانہ کئے جائیں گے یہاں تک کہ جب اس کے پاس آجائیں گے اور دروازے کھول دیئے جائیں گے اور وہاں کے نگہبان ان سے کہیں گے تم پر سلام ہو، تم خوش حال رہو تم اس میں ہمیشہ کیلیے چلے جاؤ۔
(سورہ الزمر : 73)

🚫لیکن یہاں پر تو ڈنڈوں سے مارا پیٹا جاتا ہے اور دھکے دئیے جاتے ہیں، ہر سال کئی لوگوں کی موت واقع ہو جاتی ہے، دھکم پیل میں،
یہ کیا جنتی دروزاہ ہے یا۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟

یہاں سے گزرنے والا سب سے شریف آدمی بھی اس دروازے کو پار کرتے وقت دوسری طرف ذلیل و رسوا ہوا ہوتا ہے

اور مشرکوں اور بد اعمال لوگوں کا حشر بھی جہنم کے دروازے پر ایسا ہی ہوگا:

ملاحظہ فرمائیں
📚قِیۡلَ ادۡخُلُوۡۤا اَبۡوَابَ جَہَنَّمَ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ۚ فَبِئۡسَ مَثۡوَی الۡمُتَکَبِّرِیۡنَ
کہا جائے گا کہ اب جہنم کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ جہاں ہمیشہ رہیں گے، پس سرکشوں کا ٹھکانا بہت ہی برا ہے۔‏
(سورہ الزمر 72)

_______&_______

📒چھٹی بات:

جنت کے دروازے سے تو تمام مرد و عورت گزریں گے، جو بھی ایمان اور اعمالِ صالحہ لے کر جائیں گے،

اللہ پاک فرماتے ہیں

📚القرآن – سورۃ نمبر 4 النساء
آیت نمبر 124
وَمَنۡ يَّعۡمَلۡ مِنَ الصّٰلِحٰتِ مِنۡ ذَكَرٍ اَوۡ اُنۡثٰى وَهُوَ مُؤۡمِنٌ فَاُولٰٓئِكَ يَدۡخُلُوۡنَ الۡجَـنَّةَ وَلَا يُظۡلَمُوۡنَ نَقِيۡرًا ۞
ترجمہ:
اور جو شخص نیک کاموں میں سے (کوئی کام) کرے، مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہو تو یہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور کھجور کی گٹھلی کے نقطے کے برابر ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔

دوسری جگہ پر فرمایا:

📚القرآن – سورۃ نمبر 3 آل عمران
آیت نمبر 195
فَاسۡتَجَابَ لَهُمۡ رَبُّهُمۡ اَنِّىۡ لَاۤ اُضِيۡعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنۡكُمۡ مِّنۡ ذَكَرٍ اَوۡ اُنۡثٰى‌‌ۚ بَعۡضُكُمۡ مِّنۡۢ بَعۡضٍ‌‌ۚ فَالَّذِيۡنَ هَاجَرُوۡا وَاُخۡرِجُوۡا مِنۡ دِيَارِهِمۡ وَاُوۡذُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِىۡ وَقٰتَلُوۡا وَقُتِلُوۡا لَاُكَفِّرَنَّ عَنۡهُمۡ سَيِّاٰتِهِمۡ وَلَاُدۡخِلَنَّهُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ‌ۚ ثَوَابًا مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰهِ ‌ؕ وَ اللّٰهُ عِنۡدَهٗ حُسۡنُ الثَّوَابِ ۞
ترجمہ:
تو ان کے رب نے ان کی دعا قبول کر لی کہ بیشک میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کا عمل ضائع نہیں کروں گا، مرد ہو یا عورت، تمہارا بعض بعض سے ہے۔ تو وہ لوگ جنھوں نے ہجرت کی اور اپنے گھروں سے نکالے گئے اور انھیں میرے راستے میں ایذا دی گئی اور وہ لڑے اور قتل کیے گئے، یقینا میں ان سے ان کی برائیاں ضرور دور کروں گا اور ہر صورت انھیں ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، اللہ کے ہاں سے بدلے کے لیے اور اللہ ہی ہے جس کے پاس اچھا بدلہ ہے،

🚫مگر یہ دنیاوی جنتی دروزاہ کیسا ہے کہ جس میں سے صرف مرد گزر سکتے ہیں؟

کیا انکی عورتوں کا حق نہیں جنت کا؟

بلکہ گزرنا تو دور کی بات ہے پچھلے سال 2018 میں ایک عورت جو کہ ڈی پی او تھی شائید۔۔اس نے دروازہ کھلوایا تو کئی مہینوں تک ہنگامہ برپا رہا کہ عورت نے دروازہ کیوں کھولا..!!!

_______&_______

📒ساتویں بات:

اللہ کی جنت تو وہ ہے جس میں صرف نیک صالح لوگ جائیں گے اور جو ایک بار چلا گیا وہ ہمیشہ ہمیشہ اس میں رہے گا ،

ارشاد باری تعالیٰ ہے

📚القرآن – سورۃ نمبر 2 البقرة
آیت نمبر 25
وَبَشِّرِ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ‌ؕ ڪُلَّمَا رُزِقُوۡا مِنۡهَا مِنۡ ثَمَرَةٍ رِّزۡقًا ‌ۙ قَالُوۡا هٰذَا الَّذِىۡ رُزِقۡنَا مِنۡ قَبۡلُ وَاُتُوۡا بِهٖ مُتَشَابِهًا ‌ؕ وَلَهُمۡ فِيۡهَآ اَزۡوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ ‌ۙ وَّهُمۡ فِيۡهَا خٰلِدُوۡنَ ۞
ترجمہ:
اور ان لوگوں کو خوش خبری دے دے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے کہ بیشک ان کے لیے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، جب کبھی ان سے کوئی پھل انھیں کھانے کے لیے دیا جائے گا، کہیں گے یہ تو وہی ہے جو اس سے پہلے ہمیں دیا گیا تھا اور وہ انھیں ایک دوسرے سے ملتا جلتا دیا جائے گا، اور ان کے لیے ان میں نہایت پاک صاف بیویاں ہیں اور وہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔

🚫مگر یہ پاکپتن والی کیسی جنت ہے کہ جس میں ہر بے نمازی، بدکار، مشرک کافر تک بھی داخل ہو جاتا ہے اور حقیقی جنت کے مقابل یہاں اگر کوئی چلا جائے تو بندہ ابھی داخل ہوتا نہیں اور دھکا دے کر باہر بھگا دیا جاتا ہے؟🙄

______&________

📒آٹھویں بات:

کہ تین مقامات کے علاوہ کسی اور جگہ وہ مسجد ہو یا مزار یا کوئی بھی حقیقی مقدس جگہ اسکی طرف ثواب کی نیت سے سفر کرنا جائز ہی نہیں،

📚حدیث میں بیا ن ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،
لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ ، الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ، وَمَسْجِدِ الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَمَسْجِدِ الْأَقْصَى،
مسجد حرام، مسجد نبوی اور بیت المقدس کے علاوہ تقرب الی اللہ اور حصول ثواب کی نیت سے کسی دوسری جگہ سفر کرکے جانا جائز نہیں ہے۔
(صحیح بخاری،الصلوٰۃ:حدیث-1189)

جب ان تین مسجدوں کے علاوہ کسی اور مسجد کی طرف سفر کرنا جائز نہیں ،تو مزارات اور صالحین کے آثار کی زیارت کےلئے سفر کیونکہ جائز ہوسکتا ہے؟
مذکورہ حدیث سے یہ نہ سمجھا جائے کہ سفر کےمتعلق امتناعی حکم صرف مساجد سے متعلق ہے ،مزار یا بزرگوں کے آثار اس کے حکم کے تحت نہیں آتے،کیونکہ نزول شریعت کے چشم دید گواہ حضرات صحابہ کرامؓ نے اس امتناعی حکم کو مساجد اور غیر مساجد کےلئے عام رکھا ہے،

جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے۔

📚حضرت ابو بصرہ غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
لَقِيتُ أَبَا هُرَيْرَةَ وَهُوَ يَسِيرُ إِلَى مَسْجِدِ الطُّورِ لِيُصَلِّيَ فِيهِ، قَالَ : فَقُلْتُ لَهُ : لَوْ أَدْرَكْتُكَ قَبْلَ أَنْ تَرْتَحِلَ مَا ارْتَحَلْتَ. قَالَ : فَقَالَ : وَلِمَ ؟ قَالَ : قَالَ : فَقُلْتُ : إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : ” لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ ؛ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَالْمَسْجِدِ الْأَقْصَى، وَمَسْجِدِي “.
حضرت ابو ہریرہ ؓ جب کوہ طور سے واپس آئے تو میں ان سے ملا اور ان سے دریافت کیا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں؟حضرت ابوہریرہ ؓ نے بتایا کہ کوہ طور پر گیا تھا وہاں نماز پڑھ کر واپس آیا ہوں،حضرت ابو بصرہؓ نے کہا اگر مجھے آپ کے وہاں جانے کا پہلے علم ہوجاتا تو آپ وہاں نہ جاتے ،کیونکہ میں نے رسول اللہﷺ سے یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تین مساجد کے علاوہ کسی دوسری مسجد کی طرف رخت سفر نہیں باندھنا چاہیے وہ یہ ہیں مسجد حرام،مسجد نبوی اورمسجد اقصیٰ
(مسند امام احمد حدیث نمبر-27230)

📚شہر بن حوشب کہتے ہیں کہ ہم چند لوگ کوہ طور پر جانے کا ارادہ کئے ہوئے تھے، اس دوران ہماری حضرت ابوسعید ؓ سے ملاقات ہوئی اور ہم نے آ پ نے اپنے ارادہ کا اظہار کیاتو آ پ نے ہمارے سامنے رسول اللہﷺ کی ایک حدیث بایں الفاظ بیان فرمائی:‘‘ تین مساجد کے علاوہ کسی طرف(تقرب الہٰی کی نیت سے)سواری کو استعمال نہیں کرنا چاہیے ، ان میں سے ایک مسجدحرام ،دوسری مسجد مدینہ اور تیسری مسجد اقصیٰ ہے’’
(مسند امام احمد،ص93/،ج3)

📚حضرت قزعہ ؒ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ سے فرمایاکہ میں جبل طور پر جانا چاہتا ہوں،آپ نے رسول اللہﷺ کے فرمان کا ذکر کیا کہ مسجد حرام،مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ کے علاوہ کسی جگہ کا (تقرب الہٰی کی نیت)سے قصداًسفر کرنا منع ہے،لہٰذا تم جبل طور پر جانے کا ارادہ ترک کردو
(مجمع الزوائد ،ص:۴، ج ۴)

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ تین مساجد کے علاوہ کسی اور جگہ عبادت یا زیارت کی نیت سے جانا منع ہے،،کیونکہ مذکورہ صحابہ کرام ؓ سے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کوہ طور پر قصداً عبادت یا زیارت کی نیت سے سفر کرنا منع ہے اور جبل طور پر مسجد نہیں بلکہ ایک مقدس مقام ہے جس پر کھڑے ہوکر حضرت موسیٰ ؑ نے رب کائنات سے گفتگو کی تھی،

🚫لہذا جو لوگ ثواب وغیرہ سمجھ کر اس جنتی دروازے سے گذرنے یا دربار وغیرہ پر سلام کرنے اور دیکھنے کے لیے دور دراز سے سفر کر کے آتے ہیں وہ اوپر ذکر کردہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کی خلاف ورزی کر رہے ہیں جس میں آپ نے فرمایا کہ تین مقامات کے علاؤہ کسی اور جگہ کی طرف ثواب کی نیت سے سفر کرنا جائز نہیں!!.

_______&_____

*ان دلائل سے معلوم ہوا کہ بطور شعار بہشتی دروازہ کا اطلاق صرف اللہ کی بنائی ہوئی جنت پر ہوتا ہے، اس کے علاوہ کسی محترم و مکرم چیز کی طرف منسوب دروازے کو باب الجنۃ نہیں کہا جا سکتا۔ امکانی حد تک اگر اس کا جواز ہوتا تو سلف صالحین اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے زمانے یعنی قرونِ مفضلۃ اس کے زیادہ حق دار تھے۔ اسلامی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جس سے ’’بہشتی دروازے‘‘ کے جواز کا پہلو مترشح ہو۔ لہٰذا اس کا ڈھا دینا ضروری ہے تاکہ افراد امت کو شرک کی نجاست سے بچایا جا سکے، جس طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیعت الرضوان کی طرف منسوب درخت کو کٹوا دیا تھا جب کہ عامۃ الناس اسے متبرک سمجھ کر اس کی زیارت کا قصد کرنے لگے تھے*

نوٹ_
*یاد رہے کہ اس دروازے کے متعلق بہشتی دروازہ ہونے کا اعتقاد رکھنا شرکیات وکفریات میں داخل ہے۔کیوں کہ یہ ایسی بات ہے جس کا علم نصوصِ شریعت کی راہنمائی کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا، جب کہ یہاں سرے سے کوئی نص اور دلیل موجود نہیں۔ لہٰذا عزم بالجزم کے ساتھ اس کو بہشتی دروازہ قرار دینا امورِ دین میں مداخلت ہے جس کی سزا انتہائی خطرناک ہے۔ ایسے اعتقاد سے فی الفور تائب ہونا ضروری ہے، ورنہ ڈر ہے کہ کہیں جہنم کا ایندھن نہ بن جائیں،اللہ بچائے دجال کےاس دروازے سے اگر دجال نے اپنی جنت دکھانی شروع کردی تو پھر تو یہ لوگ فورا ایمان لے آئیں گے۔ اللہ معاف کرے،*

اللہ تعالیٰ ہم سب کی کتاب و سنت کی روشنی میں صحیح عقائد کی طرف ہماری رہنمائی فرمائے، تاکہ حقیقی جنت میں ہمارا داخلہ مقدر بن جائے، آمین یا رب العالمین

((واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب))

📒 قبروں کو پکا بنانا،ان پر قبے/مزار بنانا اور نام وغیرہ کی تختیاں لگانا جائز ہے؟
((دیکھیں سلسلہ نمبر-21))

📒کیا اللہ کے نام پر یا غیر اللہ کے نام پر قبروں/درباروں وغیرہ پر کوئی چیز صدقہ خیرات کرنا جائز ہے؟
((دیکھیں سلسلہ نمبر-20))

📒کسی قبر یا مزار کو تعظیمی سجدہ کرنا اور چومنا کیسا ہے؟ کیا قبرستان میں یا دربار/مزار پر نماز،قرآن پڑھنا جائز ہے؟
((دیکھیں سلسلہ نمبر-19))

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦ سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 📑
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں