“سلسلہ سوال و جواب نمبر-274”
سوال : کیا شراب یا کسی اور حرام چیز کو دوا کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں؟ اور حرام چیزوں سے ادویات بنانے اور انکو بیچنے کا شرعی حکم کیا ہے؟ جیسے الکوحل ملے ہومیوپیتھک وغیرہ کے قطرے..؟ نیز کچھ لوگ فالج/لقوہ وغیرہ کی مرض کے لیے کبوتر کا خون بغرض شفاء لگاتے ہیں کیا ایسا کرنا جائز ہے؟
Published Date: 25-8-2019
جواب :
الحمدللہ:
*اللہ تعالی نے انسانوں کی تخلیق کی ہے اور اس نے ہی ہر بیماری کو پیدا کیا ہے اور اسی نے ہر بیماری کا علاج بھی نازل کیا ہے*
📚نبی ﷺ کا فرمان ہے :
ما أنزَلَ اللَّهُ داءً إلَّا أنزلَ لَه شفاءً
(صحيح البخاري: حدیث نمبر-5678)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی بیماری نہیں اتاری جس کی دوا بھی نازل نہ کی ہو۔
*یہاں علاج سے مراد حلال اور پاک چیزوں سے علاج ہے،دنیا میں علاج کے ہزاروں طریقے موجود ہیں ، ایک مسلمان کے لئے علاج کے سلسلے میں اسلامی اصول کو مدنظر رکھنا ضروری ہے،اور علاج کی بابت اسلام کا ایک اصول یہ ہے کہ جو چیز حرام ہو اس سے علاج نہیں کر سکتے ہیں*
📚 نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إنَّ اللهَ لم يجعلْ شفاءَكم فيما حرَّم عليكُم
( السلسلة الصحيحة: 4/175)
ترجمہ: بے شک اللہ تعالی نے تمہارے لئے اس چیز میں شفا نہیں رکھی جس کو تمہارے اوپر حرام قرار دیا ہے ۔
*یہی وجہ ہے کہ نبی ﷺ نے شراب حرام ہونے کی بنا پر ایک صحابی کو اس سے دوا بنانا منع فرما دیا*
حدیث میں آتا ہے کہ
📚أنَّ طارقَ ابنَ سويدٍ الجُعَفيَّ سأل النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ عن الخمرِ ؟ فنهاه ، أو كره أن يصنعَها . فقال : إنما أصنعها للدواءِ . فقال: إنه ليس بدواءٍ . ولكنه داءٌ
.(صحيح مسلم: 1984)
ترجمہ: حضرت طارق بن سوید جعفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شراب(بنانے) کےمتعلق سوال کیا،آپ نے اس سے منع فرمایا یا اس کے بنانے کو نا پسند فرمایا،انھوں نےکہا:میں اس کو دوا کے لئے بناتا ہوں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ دوا نہیں ہے،بلکہ خود بیماری ہے۔
*اس حدیث کی روشنی میں معلوم یہ ہوا کہ جو چیز حرام ہے اس سے دوا نہیں بنا سکتے ، نہ ہی اس حرام چیز کو بطور علاج استعمال کرسکتے ہیں*
📚ایک دوسری حدیث میں نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إنَّ اللهَ تعالى خلق الدَّاءَ و الدَّواءَ ، فتداووْا ، و لا تتداووْا بحَرامٍ
(صحيح الجامع:1662)
ترجمہ: بے شک اللہ تعالی نے بیماری اور علاج دونوں پیدا کیا ہے پس تم لوگ علاج کرو اور حرام چیزوں سے علاج نہ کرو۔
📚بلکہ آپ ﷺ نے یہاں تک فرمایا کہ جو حرام چیزوں سے علاج کرتا ہے اللہ تعالی اسے شفا نصیب نہیں فرمائے گا۔
من تداوى بحرامٍ لم يجعلِ اللهُ له فيه شفاءً
(السلسلة الصحيحة:2881)
ترجمہ: جس نے حرام نے علاج کیا اللہ اس کو شفا نہیں دے گا۔
*علاج کے سلسلے میں اسلام کا ایک دوسرا اصول یہ ہے کہ پاک چیزوں سے علاج کرنا ہے اور ناپاک وخبیث چیزوں سے بچنا ہے*
📚عن أبي هريرةَ قالَ :
نهى رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّه عليه وسلم، عنِ الدَّواءِ الخبيثِ
(صحيح أبي داود:3870)
ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبیث دواؤں کے استعمال سے منع فرمایا ہے،
*حرام چیزوں کو بطور ادویات استعمال کرنے سے ممانعت کی حکمت*
📚اس بارے میں ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“حرام چیزوں کے ذریعے علاج عقلی اور شرعی ہر دو اعتبار سے قبیح ہے:
شرعی اعتبار سے اس لیے کہ ہم پہلے اس بارے میں احادیث وغیرہ ذکر کر چکے ہیں، جبکہ عقل کے اعتبار سے اس لیے کہ اللہ تعالی نے اس چیز کو حرام اسی لیے کیا ہے کہ وہ چیز خبیث ہے، اللہ تعالی نے اس امت کو سزا دینے کیلیے کوئی بھی اچھی چیز حرام نہیں کی ، جیسے کہ بنی اسرائیل کو سزا دینے کیلیے کچھ چیزیں ان پر حرام کی گئیں تھیں،
📚جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
فَبِظُلْمٍ مِنَ الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبَاتٍ أُحِلَّتْ لَهُمْ
ترجمہ: یہودیوں کے ظلم کی وجہ سے ہم نے ان پر پاکیزہ چیزیں [بطورِ سزا ] حرام کر دیں جو ان کیلیے حلال قرار دی گئیں تھیں۔[النساء: 160]
لہذا اس امت کیلیے کوئی بھی چیز حرام کی گئی ہے تو اس کی وجہ اس چیز کا خبیث ہونا ہے۔
نیز اللہ تعالی نے ان چیزوں کو حرام قرار دے کر اس امت کو مزید تحفظ اور بچاؤ فراہم کیا ہے؛ اس لیے یہ بالکل بھی مناسب نہیں ہے کہ بیماریوں اور امراض سے شفا حرام چیزوں میں تلاش کی جائیں؛ کیونکہ اگرچہ حرام چیز بیماری کے خاتمے کیلیے مؤثر ہو سکتی ہے لیکن اس کے مضر اثرات دل میں موجودہ بیماری سے بڑی بیماری پیدا کر دیں گے؛ اس لیے کہ اس میں خباثت انتہائی طاقتور ہوتی ہے، گویا کہ حرام چیز سے علاج کرنے والا قلبی بیماری کے عوض میں جسم کو تندرستی دینے کا سودا کرتا ہے۔
اسی طرح کسی چیز کو حرام قرار دینے کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اس چیز سے دور رہیں، اس سے بچنے کیلیے تمام وسائل بروئے کار لائیں، لیکن اگر حرام چیزوں سے دوا بنائی جائے گی تو اس سے ان حرام چیزوں کے بارے میں ترغیب ملے گی اور استعمال میں بھی آئیں گے جو کہ شرعی مقاصد سے عین متصادم بات ہے۔
اسی طرح : حرام چیز اس لیے حرام ہے کہ وہ بذات خود بیماری ہے جیسے کہ صاحب شریعت نے واضح لفظوں میں یہ بات بیان فرمائی ہے، اس لیے ان چیزوں کو بطور دوا بھی اپنانا جائز نہیں ۔
یہ بات بھی اس میں شامل کریں کہ: حرام چیز کا استعمال انسانی روح اور طبیعت میں خباثت پیدا کر دیتا ہے؛ کیونکہ انسانی مزاج دوا کے مزاج کو بہت جلدی اور واضح انداز میں قبول کرتا ہے، اس لیے اگر حرام چیز کا مزاج خباثت سے بھر پور ہوا تو استعمال کنندہ کا مزاج بھی ویسا ہی ہو جائے گا!
اسی لیے اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر ایسی غذائیں، مشروب اور لباس حرام قرار دئیے ہیں جو خبیث ہیں؛ کیونکہ اس سے انسانی نفس خباثت حاصل کرتا ہے۔” انتہی
(“زاد المعاد”_4ج/ص141)
_________&__________
*لہٰذا اوپر ذکر کردہ تمام احادیث سے یہ بات سمجھ آئی کہ شراب یا کسی بھی دوسری حرام چیز کو بطور دوا استعمال کرنا جائز نہیں،لیکن شراب سے بنے ایسے کیمیکل وغیرہ جنہیں ادویات کو محفوظ رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اس سے نشہ وغیرہ بھی نہیں ہوتا ، یا با امر مجبوری کسی دوسری حرام اشیاء کی اتنی معمولی مقدار استعمال کی جائے کہ انکی ماہیت تبدیل ہو جائے تو وہ ادویات استعمال کرنا جائز ہیں*
📚سعودی فتاویٰ کمیٹی سے سوال کیا گیا کہ
“الکحل یا شراب کو کھانے پینے کے علاوہ دیگر استعمال میں لانے کا کیا حکم ہے؟
مثلاً: انہیں گھر کے سامان، علاج، بطور ایندھن، صفائی، خوشبو، اور سرکہ وغیرہ بنانے کیلیے استعمال کیا جائے”
جواب:
جس چیز کی زیادہ مقدار نشہ آور ہو تو وہ شراب ہے، اور شراب چاہے تھوڑی ہو یا زیادہ ، اسے الکحل کا نام دیا جائے یا کوئی اور ہر حالت میں اسے انڈیل کر ضائع کر دینا واجب ہے، نیز اسے کسی بھی استعمال کیلیے رکھنا چاہے صفائی کیلیے ہو یا چیزوں کو پاک کرنے کیلیے یا بطور ایندھن استعمال کیلیے یا خوشبو میں ڈالنے کیلیے یا اسے سرکہ بنانے کیلیے یا کسی بھی اور استعمال کیلیے رکھنا حرام ہے۔
البتہ جس کی زیادہ مقدار بھی نشہ آور نہ ہو تو وہ شراب کے زمرے میں نہیں آتی، اسے صفائی ستھرائی، خوشبو، علاج، اور زخموں کو صاف کرنے اور دیگر کاموں میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
عبد الله بن قعود ۔۔۔ عبد الله بن غديان ۔۔۔عبد الرزاق عفیفی۔۔۔ عبد العزيز بن عبد الله بن باز ” انتہی
(“فتاوى اللجنة الدائمة”/22ج/ص106)
________&_________
سعودی فتاویٰ کمیٹی کی ویبسائٹ پر ایک اور سوال کے جواب میں شیخ صالح المنجد رحمہ اللہ اس طرح سے جواب دیتے ہیں،
سوال: ایسی ادویات کا کیا حکم ہے جس میں الکحل کی کچھ مقدار پائی جاتی ہے؟
جواب:
اول:
ادویات کو الکحل یعنی شراب کیساتھ ملانا جائز نہیں ہے، کیونکہ شراب کو بہا کر ضائع کر دینا ضروری ہے،
📚 چنانچہ ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: “ہمارے پاس ایک یتیم بچے کی شراب تھی، اور جس وقت سورہ مائدہ کی آیت [شراب کی حرمت کے بارے میں]نازل ہوئی، تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسار کیا، اور یہ بھی بتلایا کہ وہ کسی یتیم کی ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اسے بھی انڈیل دو)”
ترمذی: (1263) البانی نے اسے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے۔
دوم:
اگر دوا کو الکحل میں ملا دیا گیا ہو، اور اس الکحل کی مقدار اتنی زیادہ ہو کہ دوا نشہ آور بن جائے تو یہ شراب ہے، جسے پینا حرام ہے، اور اگر الکحل کی مقدار بہت ہی تھوڑی ہے کہ اس سے نشہ نہ چڑھے تو پھر اس دوا کا استعمال جائز ہے۔
چنانچہ
📚 “فتاوى اللجنة الدائمة” (22/110)
میں ہے کہ:
“نشہ آور الکحل کو ادویات میں شامل کرنا جائز نہیں ہے، اور اگر ادویات میں الکحل کو شامل کر دیا گیا ہے ، اور زیادہ مقدار میں یہ ادویات استعمال کرنے سے نشہ آتا ہو تو ایسی ادویات کا نسخہ لکھ کر دینا اور انہیں استعمال کرنا دونوں ناجائز ہیں، چاہے اس کی مقدار تھوڑی ہو یا زیادہ، اور اگر بہت زیادہ مقدار میں ان ادویات کے استعمال پر بھی نشہ نہیں آتا تو ایسی ادویات کا نسخہ لکھ کر دینا اور استعمال کرنا جائز ہے۔” انتہی
📚شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“کچھ ادویات میں الکحل پایا جاتا ہے، تو اگر اس دوا کے استعمال سے انسان کو نشہ چڑھے تو اس دوا کا استعمال حرام ہوگا، اور اگر اس کا اثر واضح نہ ہو ، بلکہ الکحل کو دوا محفوظ بنانے کیلئے استعمال کیا جائے تو ایسی صورت میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ الکحل کا اس میں کوئی اثر نہیں ہے” انتہی
(“لقاءات الباب المفتوح”_3/231)
______&______
*فارمیسی میں کام کرنے اور ایسی ادویات بنانے یا بیچنے کا حکم جن میں الکحل یا جیلاٹین (Gelatine) شامل ہوتی ہے*
📚حضرت عبداللہ بن عمر رضی تعالیٰ عنھما
بیان کرتے ہیں کہ
لَعَنَ اللَّهُ الْخَمْرَ، وَشَارِبَهَا، وَسَاقِيَهَا، وَبَائِعَهَا، وَمُبْتَاعَهَا، وَعَاصِرَهَا، وَمُعْتَصِرَهَا، وَحَامِلَهَا، وَالْمَحْمُولَةَ إِلَيْهِ .
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شراب کے پینے اور پلانے والے، اس کے بیچنے اور خریدنے والے، اس کے نچوڑنے اور نچوڑوانے والے، اسے لے جانے والے اور جس کے لیے لے جائی جائے سب پر اللہ کی لعنت ہو
(سنن ابو حدیث نمبر-3674)
*لہذا جس طرح شراب بنانا ،پینا حرام ہے اسی طرح شراب کو بیچنا بھی حرام ہے چاہے وہ شراب بطور جام استعمال کی جائے یا خالص شراب بطور دوا استعمال کی جائے*
سعودی فتاویٰ کمیٹی الاسلام سوال و جواب پر اسی طرح کا ایک سوال کیا گیا،
سوال
میں دواخانے پر کام کرنے والا فارماسسٹ ہوں، میں اس وقت جرمنی میں مقیم ہوں اور جرمنی میں کام کے ساتھ تعلیم مکمل کرنے کیلیے اپنی ڈگری کا مساوی سرٹیفکیٹ لینے کے مرحلے میں ہوں۔ میں اس ملک میں فارمیسی پر کام کرنے کے متعلق سوال کرنا چاہتا ہوں، کیونکہ میں مجھے ایسی دوا بنانا یا فروخت کرنا پڑتی ہے جس میں سور سے ماخوذ جیلاٹین (Gelatine) یا الکحل شامل ہوتی ہے، واضح رہے کہ اگر جیلاٹین (Gelatine) کا متبادل موجود ہو تو میں یہ ادویات مسلمانوں کو فروخت نہ کرنے کی پوری کوشش کروں گا،
متعلقہ جوابات
اول:
الکحل یا خنزیر سے حاصل شدہ جیلاٹین (Gelatine) پر مشتمل ادویات بنانے کی ملازمت کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ الکحل شراب ہے اور شراب تناول کرنا جائز نہیں ہے نہ ہی اس سے علاج کرنا جائز ہے، نیز شراب کو کھانے یا کسی مشروب کے ساتھ ملانا بھی جائز نہیں ہے، بلکہ واجب یہ ہے کہ شراب کو تلف کر دیا جائے۔
اسی طرح جو چیز خنزیر سے حاصل کی جائے تو وہ نجس ہے اس سے اجتناب لازمی ہے بلکہ جس چیز کو لگ جائے اسے پاک کرنا بھی ضروری ہے، اس لیے کسی دوائی، کھانے یا مشروب میں اسے شامل کرنا جائز نہیں ہے۔
دوم:
اگر کوئی ادارہ دوا میں الکحل یا حرام جیلاٹین شامل کر دیتا ہے تو وہی گناہ گار ہوں گے،
پھر اس کے بعد ملاوٹ شدہ دوا کو دیکھیں گے:
اگر اس میں شامل کی جانے والی حرام چیز معمولی مقدار میں ہے کہ اس کی بہت زیادہ مقدار بھی استعمال کی جائے تو نشہ آور نہیں ہوتی ، یا اتنی معمولی مقدار ہے کہ وہ دوا میں تحلیل ہو گئی ہے اور اس کا اپنا کوئی وجود باقی نہیں رہا کہ اس کا ذائقہ، رنگ اور بو کچھ بھی باقی نہ ہو تو پھر اسے استعمال کرنا اور اس سے علاج کرنا جائز ہے۔
📚جیسے کہ فتاوى اللجنة الدائمة (22/ 297) میں ہے کہ:
“بازار میں کچھ ادویات یا ٹافیاں پائی جاتی ہیں جن میں انتہائی معمولی مقدار میں الکحل شامل ہے، تو کیا انہیں کھانا جائز ہے؟ واضح رہے کہ اگر کوئی شخص انہیں پیٹ بھر کر بھی کھا لے تو کبھی بھی نشے کی حد تک نہیں پہنچے گا۔
جواب: اگر ٹافی یا ادویات میں الکحل کی مقدار انتہائی معمولی ہو کہ ان کی بہت زیادہ مقدار کھانے پر بھی نشہ نہیں آتا تو پھر انہیں کھانا یا فروخت کرنا جائز ہے؛ کیونکہ اس میں الکحل کا ذائقے ، رنگت، یا بو میں سے کسی پر کوئی بھی اثر رونما نہیں ہوگا، اس لیے الکحل اس میں اپنا وجود کھو چکی ہے اور طاہر و مباح شے میں تبدیل ہو چکی ہے، لیکن ایک مسلمان کو چاہیے کہ ایسی کوئی چیز خود مت بنائے اور نہ ہی مسلمانوں کے کھانے میں اسے شامل کرے اور نہ ہی ایسا کھانا بنانے کیلیے تعاون کرے” انتہی
سوم:
ایسی ادویات فروخت کرنا جائز ہے جن میں الکحل یا حرام جیلاٹین انتہائی معمولی مقدار میں موجود ہو یا اپنی اصلی ماہیت کھو چکی ہو۔
چنانچہ جن ادویات میں الکحل انتہائی معمولی مقدار میں ہے ان کے جائز ہونے کے متعلق متعدد فقہی اکادمیوں ، فتوی کمیٹیوں اور عالم اسلام کے متعدد دار الافتاء کی جانب سے فتاوی صادر ہو چکے ہیں، اور سب کے سب اس بات کو افضل اور مستحب قرار دیتے ہیں کہ الکحل کو ادویات سے دور رکھا جائے تا کہ کسی قسم کا شبہ ہی پیدا نہ ہو۔
📚چنانچہ اسلامی کانفرنس تنظیم کے ماتحت اسلامی فقہ اکیڈمی کے اعلامیہ نمبر: 23 (11/3) جو کہ عالمی انسٹیٹیوٹ برائے اسلامی فکر (IIIT) واشنگٹن کے سوالات کے متعلق ہے، اس میں ہے کہ:
“بارہواں سوال:
بہت سی ایسی ادویات ہیں جن میں الکحل کی مختلف مقدار پائی جاتی ہے جو کہ ایک فیصد سے لیکر 25 فیصد کے درمیان ہوتی ہے، ان ادویات میں سے اکثر ایسی دوائیاں ہیں جو کہ زکام، گلہ بند ہونے، اور کھانسی جیسی عام و معروف بیماریوں کیلیے استعمال ہوتی ہیں، نیز ان بیماریوں کیلیے موجود ادویات میں 95 فیصد ادویات میں الکحل پائی جاتی ہے، جس کی وجہ سے الکحل سے خالی ادویات کی تلاش بہت مشکل ہو جاتی ہے، تو ایسی ادویات کھانے کا کیا حکم ہے؟
جواب:
اگر الکحل سے پاک ادویات مسلمان کیلیے میسر نہ ہوں تو پھر الکحل ملی ہوئی ادویات مسلمان استعمال کر سکتا ہے، بشرطیکہ کہ کوئی اس پیشے کا ماہر طبیب اس کیلیے یہ دوا تجویز کرے” انتہی
(“مجلۃ المجمع” شمارہ نمبر: 3، جلد نمبر: 3، صفحہ: 1087)
📚اسی طرح رابطہ عالم اسلامی کے تحت فقہی اکیڈمی کے اعلامیہ میں ہے کہ:
“ایسی ادویات کو استعمال کرنا جائز ہے جن میں الکحل اتنی معمولی مقدار میں ہو جو اپنا وجود باقی نہ رکھ سکے، نیز الکحل ایسی صورت میں دوا میں شامل کی جائے جب دوا کی تیاری کے مراحل کیلیے کوئی دوسرا متبادل میسر نہ ہو، لیکن یہ شرط ہے کہ کوئی عادل طبیب اس دوا کو بطور نسخہ تجویز کرے” انتہی
(“قرارات المجمع الفقهي الإسلامي بمكة المكرمة” صفحہ: 341)
چہارم:
اگر کوئی ایسی دوا یا لوشن پائی جائے جس کی زیادہ مقدار استعمال کرنے پر نشہ ہونے لگے، یا اس دوائی میں خنزیر کی چربی اس انداز سے شامل ہو کہ وہ اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہو، تو ایسی صورت میں وہ دوا استعمال کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ہی اسے فروخت کرنا جائز ہے۔
خلاصہ کلام:
یہ ہے کہ دوا خانے اور فارمیسی میں کام کرنا اصلاً جائز ہے، نیز عام طور پر ادویات مباح چیزوں سے بنائی جاتی ہیں ۔
اگر کسی ایسی دوا کا علم ہو کہ اس کا استعمال حرام ہے تو پھر اسے فروخت کرنا بھی جائز نہیں ہے، تاہم آپ فارمیسی میں اپنی ملازمت جاری رکھ سکتے ہیں لیکن حرام چیز فروخت کرنے سے اجتناب کریں گے،
(ماخذ: الاسلام سوال و جواب)
https://islamqa.info/ar/answers/271192/
_______&_________
سوال:
میں ہومیوپیتھی کے طریقہ علاج کو اپنانے کا حکم جاننا چاہتا ہوں، یہ معلوم ہو کہ اس طریقہ علاج میں جن قطروں کو استعمال کیا جاتا ہے، انکی حفاظت کیلئے الکحل شامل کیا جاتا ہے، تو کیا ان دواؤں کا استعمال کرنا جائز ہے؟
جواب کا متن
ہومیو پیتھی کیلئے استعمال ہونی والی ادویہ کے مرکبات کے بارے میں انکی اصل ماہیت کی طرف دیکھا جائے گا، اور پھر ہر ایک کے بارے میں کتاب و سنت کی روشنی میں فیصلہ ہوگا۔ مثلا
1- زہریلے مادوں کے شامل ہونے کے بارے میں یہ ہے کہ:
“کچھ علمائے کرام نے زہریلا مادہ تناول کرنے سے منع کیا ہے، چاہے اس کی مقدار کم ہو یا زیادہ، نقصان دہ ہو یا فائدے کی توقع ہو ہر صورت میں منع قرار دیا ہے۔
جبکہ کچھ علمائے کرام نے زہریلا مادہ تناول کرنا جائز قرار دیا ہے، تاہم انہوں نے اس کیلئے کچھ شرائط و ضوابط بیان کیے ہیں، جائز قرار دینے والے علمائے کرام کے ہاں اس زہریلے مادے کے اثرات کو دیکھا جائے گا کہ مریض کے بدن کیلئے کس حد تک سود مند ہے، افادے کی مقدار جاننے کیلئے متعدد تجربات کئے جائیں، تا کہ زہریلے مادے کے نتائج کے متعلق دل بالکل مطمئن ہو، اور یہ بھی کہ اس زہریلے مادے کا اثر لاحق بیماری کے اثرات سے زیادہ نہ ہو۔
📚چنانچہ ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“جن ادویات میں زہریلا مادہ پایا جاتا ہے، ان کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ: اگر اسے کھانے کی وجہ سے موت یا دماغی توازن خراب ہونے کا خدشہ ہو تو زہریلا مادہ کھانا جائز نہیں ہوگا، اور اگر ظنِ غالب یہ ہو کہ اس سے نقصان نہیں ہوگا، بلکہ فائدہ کی امید ہو، تو اس بنا پر زہریلا مادہ تناول کرنا بہتر ہے، کیونکہ اس سے بڑی بیماری ٹل جائے گی، یہی صورت حال دیگر ادویات کی ہے۔
تا ہم یہاں اس بات کا احتمال بھی ہے کہ زہریلا مادہ نگلنا ناجائزقرار دیا جائے ؛ کیونکہ یہ اپنے آپ کو موت کے دہانے پر ڈالنے کے مترادف ہے، لیکن صحیح بات پہلا موقف ہی ہے، کیونکہ بہت سی ادویات ایسی ہیں جن کے مضر اثرات کا خدشہ رہتا ہے، اس کے باوجود ان کو بڑی بیماری سے بچنے کیلئے تناول کیا جاتا ہے، اور یہ مباح ہے” انتہی مختصراً
“المغنی” (1/447)
2- ایسی ادویات کا استعمال جن میں الکحل استعمال کیا جاتا ہے، ان کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ الکحل کے بارے میں یہاں دو مسئلے ہیں:
[1] کیا الکحل نجس ہے یا پاک؟
[2] کیا الکحل کو دوائی وغیرہ یا کسی اور چیز میں ملانے سے اس کے اثرات متنقل ہوتے ہیں، یا نہیں؟
پہلی چیز: جمہور اہل علم شراب [الکحل] کو حسی طور پر نجس کہتے ہیں، جبکہ بعض دیگر علمائے کرام شراب کی نجاست کو معنوی نجاست کہتے ہیں۔
دوسری چیز: الکحل کو جب دیگر ادویہ کیساتھ ملایا جائے تو اسکی تاثیر یا تو بالکل واضح، قوی اور مؤثر ہوگی، یا نہیں ہوگی، چنانچہ اگر تو تاثیر بالکل واضح ہے تو الکحل سے بنا ہوا مرکب حرام ہوگا، اور ان ادویات کو استعمال کرنا بھی حرام ہوگا۔
اور اگر الکحل کی ذاتی تاثیر ان ادویہ میں نہ ہو تو انہیں استعمال کرنا درست ہوگا، کیونکہ الکحل کو براہِ راست پینے اور دیگر کسی چیز میں ملا کر استعمال کرنے میں فرق ہے، اس لئے کہ خالص الکحل تھوڑی مقدار میں ہو یا زیادہ ہر حالت میں ناجائز ہے، اور اگر الکحل کو کسی دوسری چیز میں ملا دیا جائے تو مندرجہ بالا تفصیل کے مطابق حکم ہوگا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
https://islamqa.info/ur/answers/111004/
____&_____________
آخر پر سوال میں پوچھا گیا ہے کہ فالج کی بیماری میں کبوتر کا خون بطور علاج لگانا کیسا ہے ؟
📚قرآن میں خون سے متعلق ایک آیت ہے جس میں کہا گیا ہے کہ خون حرام ہے ۔ فرمان الہی ہے :
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ(المائدة: 3)
ترجمہ:
اور تمہارے اوپر مردار، خون اور سور کا گوشت حرام قرار دیا گیا ہے،
یہاں خون سے بہنے والا خون مراد ہے جیساکہ دوسری آیت سے اس کی وضاحت ہوتی ہے،
📚قُلْ لا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَماً مَسْفُوحاً أَوْ لَحْمَ خِنْزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ(الانعام :ا45)
ترجمہ: کہہ دو کہ میں اس وحی میں جو مجھے پہنچی ہے کسی چیز کو کھانے والے پر حرام نہیں پاتا جو اسے کھائے مگر یہ کہ وہ مردار ہو یا بہتا ہوا خون یا سور کا گوشت کہ وہ ناپاک ہے،
ان دونوں آیات کا مطلب یہ ہوا کہ انسان کے لئے کسی قسم کا بہنے والا خون حلال نہیں ہے اس لئے کبوتر کے خون سے فالج کی بیماری کا علاج کرنا جائز نہیں ہے،
کیونکہ اوپر ہم نے پڑھا ہے کی اللہ تعالیٰ نے حرام اشیاء میں شفا نہیں رکھی، اور نا ہی حرام اشیاء کو بطور دوا استعمال کرنا جائز ہے،
حالانکہ کبوتر کا گوشت اپنی جگہ کھانا حلال ہے مگر اس کا بہتا ہوا خون حلال نہ ہونے کی وجہ سے اس سے علاج کرنا جائز نہیں ہے خواہ علاج کا طریقہ کھانے یا پینے یا ملنے (لگانے) جیسا ہو۔
ہاں مچھلی کا خون ، کلیجی اور دل کا خون اور حلال جانور کو اسلامی طریقہ پر ذبح کرنے کے بعد اس کے اندرون جسم میں لگا ہوا خون حلال ہے۔۔۔۔۔۔!
((واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)))
ا📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 📑
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765
آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/
آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/